اِس غم کو مار ڈالو!
(M.Ibrahim Khan, Karachi)
آپ نے دیکھا ہو تو دیکھا ہو، ہم
نے کہیں بھی نہیں دیکھا کہ کوئی ناسُور کو گلے بھی لگائے اور اُس پر فخر
بھی کرے۔ یہ ہم ہی ہیں کہ اپنے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں، اُن کا رونا روتے
ہیں اور آخر میں اُن پر فخر کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ایک کیا، بیسیوں مثالیں
مل جائیں گی۔ ذرا اپنے ’’مثالی‘‘ ماحول پر نظر تو ڈالیے۔ مسائل میں ایسی
تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے کہ غالبؔ بے ساختہ یاد آتے ہیں
روز اِس شہر میں اِک حکم نیا ہوتا ہے
کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کیا ہوتا ہے!
دو عشرے ہونے کو آئے ہیں، بجلی نے قوم پر ’’وختا‘‘ ڈالا ہوا ہے۔ اﷲ ہر قوم
کو اُس کے اعمال کی مناسبت سے عذاب دیتا ہے۔ ہم پر بجلی اور پانی کا عذاب
اُترا ہے۔ اور ہمارے اعمال ہی ایسے ہیں کہ اِس عذاب کا تسلسل ہے کہ ختم
ہونے کا نام نہیں لے رہا۔
بجلی اﷲ کی بنائی ہوئی ہو یا انسانوں کی بنائی ہوئی، ہر دو اقسام نے قسم
کھا رکھی ہے کہ انسانوں کو صرف تباہی سے دوچار کرنا ہے۔ آسمان سے نازل ہونے
والی بجلی تو پل بھر میں بھسم کر ڈالتی ہے۔ انسانوں کی بنائی ہوئی بجلی میں
وہی تاثیر پائی جاتی ہے جو انسانوں کے مزاج کا حصہ ہے یعنی تڑپا تڑپاکر
مارو! بجلی تاروں سے گزرتی ہوئی یوں آتی ہے کہ ہم جاں سے گزر جاتے ہیں۔
جنرل (ر) خالد محمود عارف نے اپنے محبوب کے ’’اوصاف‘‘ بیان کرتے ہوئے کہا
ہے
یہ بھی اُس کی مہربانی ہے کہ وہ
مار تو دیتا ہے، تڑپاتا نہیں!
مگر یہ بات شاید بجلی نے یا بجلی کی وزارت والوں نے نہیں سُنی۔ نتیجہ یہ ہے
کہ تڑپائے جاتے ہیں اور مرنے نہیں دیتے۔
ایک عشرے سے زائد مدت گزری، بجلی نے حکمرانوں اور عوام دونوں کی ناک میں دم
کر رکھا ہے۔ حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ بجلی کے ہاتھوں بار بار خِفّت اور
ذِلّت کا شکار ہوتے ہیں۔ وطنِ عزیز میں لے دے کر ایک بجلی ہے جس میں اِتنا
دم خم ہے کہ حکمرانوں کو پریشان اور نادم کرسکے! عوام بھی کم پریشانی اور
خواری نہیں جھیلتے مگر یہ سوچ کر خوش بھی رہتے ہیں کہ حکومت کو شرمندہ کرنے
والا کوئی تو مسئلہ وطن کی سرزمین پر پایا جاتا ہے!
پانی و بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ آصف بھی بجلی کی ستم ظریفی سے محفوظ نہیں۔
طلب و رسد کے بڑھتے ہوئے فرق نے وزارت کا سارا مزا ہی خراب کردیا ہے۔ وزیر
اعظم محمد نواز شریف نے خواجہ آصف کو وزیر دفاع شاید یہی سوچ کر بنایا ہوگا
کہ پانی و بجلی کے وزیر کی حیثیت سے اُن کا بیشتر وقت اپنا اور وزارت کا
دفاع کرنے ہی میں گزرتا ہے! عقل کا تقاضا تو یہی ہے کہ وزیر دفاع اُسی کو
بنایا جائے جسے معلوم ہو کہ دفاع کیا ہوتا ہے اور کیسے کیا جاتا ہے!
ایک طرف پورا ملک شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے اور پھر ماہِ صیام کی صبر آزما
ساعتیں بھی چل رہی ہیں۔ ایسے میں بجلی نے خواجہ آصف پر ستم ڈھانے میں کوئی
کسر نہیں چھوڑی۔ شارٹ فال میں اضافے سے خواجہ صاحب کا پارہ شُوٹ اپ کرگیا۔
اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے موصوف نے فرمایا کہ بجلی کا
نظام اﷲ کی مدد سے چل رہا ہے۔ اب اﷲ کی مدد آئے گی تو بجلی کا نظام بھی
درست ہوسکے گا۔
صحافی حیران تھے کہ بجلی کے نظام کا اﷲ کی مدد یا کرم سے کیا تعلق؟ تو کیا
ہم بجلی کے بل بھی اﷲ میاں کو ادا کیا کریں؟ اِس حوالے سے صحافیوں نے کچھ
پوچھنے اور خواجہ صاحب نے کچھ کہنے سے گریز کیا۔ ہمیں یقین تھا کہ اگر کسی
صحافی نے یہ سوال کیا ہوتا تو اُن کے مزاج میں جو تھوڑا بہت شارٹ فال رہ
گیا تھا وہ ختم ہوجاتا اور پارہ ایسا چڑھتا کہ پھر اُترنے کا نام نہ لیتا!
بات بجلی کا نظام چلانے میں اﷲ کی مدد کے ذکر پر ختم نہیں ہوئی، پانی و
بجلی کے وفاقی وزیر نے بجلی کے بحران پر قوم سے معافی بھی مانگ لی۔ صحافی
چند لمحات کے لیے مطمئن ہوگئے کہ
راہ پر اُن کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں
اور کُھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں!
مگر ایسا کچھ نہیں تھا۔ خواجہ صاحب نے قوم سے معافی مانگنے کے ساتھ ہی موسم
کی ٹانگ کھینچ لی۔ انہوں نے بجلی کے بحران کی ذمہ داری موسم پر ڈال دی۔
فرمایا کہ شدید گرمی نے بجلی کی پیداوار اور تقسیم و ترسیل پر شدید منفی
اثرات مرتب کئے ہیں۔ یعنی اب جب اﷲ کی رحمت برسے گی تو کچھ بہتری آئے گی۔
خواجہ صاحب نے غور نہیں کیا کہ اﷲ کی رحمت تو برس رہی ہے۔ بھئی، بجلی کے
بحران سے متعلق سوالات پر وہ چراغ پا نہیں ہوئے۔ یہ بھی تو اﷲ کی رحمت ہی
کی ایک صورت ہے!
بجلی کے بحران کے لیے موسم کو ذمہ دار ٹھہرانا! یہ بھی نکتہ سنجی کی انوکھی
مثال ہے۔ اِسی کو کہتے ہیں طویلے کی بَلا بندر کے سَر! اب اگر یہی اُصول
ٹھہرا تو ہر معاملہ کہیں نہ کہیں جاکر موسم ہی کے سَر جائے گا!
جب سے پاکستان بنا ہے، حکومتوں کی توانائی کا بڑا حصہ ٹرینوں کو بہتر انداز
سے چلانے میں خرچ ہوتا آیا ہے۔ لوگ کو ملک کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں
جانے سے فرصت نہیں اور سارا بوجھ حکومت پر ڈالا ہوا ہے کہ اُن کے لیے
ٹرینیں چلاتی رہے۔ یہ تو ستم بالائے ستم والا معاملہ ہوا۔ حکومتوں کے لیے
سب سے بڑا کام اپنے آپ کو چلتا رکھنے کا ہے! اب ایسے میں ریلوے کی وزارت کو
چالو حالت میں رکھنا اور قوم کے لیے پانی و بجلی کی فراہمی کا اہتمام مُفت
کا دردِ سَر ہے۔ اگر منتخب حکومت ایسے چھوٹے موٹے کاموں میں اُلجھی رہے گی
تو بڑے کام کیسے کر پائے گی؟ افغانستان سے سیکھا جاسکتا ہے کہ اُس نے
ٹرینوں کا چَکّر پالا ہی نہیں۔ ریلوے کی وزارت ہوگی اور ٹریک پایا جائے گا
تو لوگ ٹرینیں چلانے کا مطالبہ بھی کریں گے۔ آپ بھی دیکھ لیجیے کہ ریلوے کے
بغیر بھی افغانستان چل ہی رہا ہے، بلکہ سُپر پاورز کو ناکوں چنے چَبوا رہا
ہے!
اگر ہمیں ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھنا ہے تو پہلے مرحلے میں تو ریلوے سے نجات
حاصل کرنی ہوگی تاکہ حکومت کوئی ڈھنگ کا کام کرنے کے قابل ہوسکے! دوسرے
مرحلے میں بجلی و پانی کی وزارت کا خاتمہ لازم ہے۔ کسی بھی منتخب حکومت کو
مُفت کی اور دائمی ذِلّت سے بچانے کا ایک موثر طریقہ یہی ہوسکتا ہے۔ جب تک
بجلی اور پانی کی وزارت باقی ہے، جمہور کے ہاتھ میں ڈگڈگی رہے گی جسے بجا
بجاکر وہ حکومت کو ناچنے پر مجبور کرتے رہیں گے اور جمہوریت کو تماشا بناتے
رہیں گے۔
کسی نے خوب کہا ہے
ہم کو بھی غم نے مارا، تم کو غم نے مارا
ہم سب کو غم نے مارا، اِس غم کو مار ڈالو!
بجلی و پانی کی فراہمی کا اہتمام کرنا بھی وہ غم ہے جس کا گلا گھونٹنا ہی
پڑے گا۔ اچھا ہے کہ یہ ٹنٹا ختم ہوجائے۔ پانی اور بجلی جیسے معمولی اور غیر
اہم معاملات سے گلو خلاصی ہوگی تو ہماری حکومتیں کوئی ڈھنگ کا کام کر پائیں
گی، عالمی سطح پر کچھ نام کما پائیں گی۔
ریلوے اور پانی و بجلی کے انتظام و انصرام سے نجات پانا کون سا مشکل کام
ہے؟ صحتِ عامہ کے معاملے میں بھی تو حکومت نے اپنا دردِ سَر ختم کرہی دیا
ہے۔ اب یہ معاملہ پرائیویٹ میڈیکل پریکٹس کے ہاتھ میں ہے۔ لوگ زندہ ہیں تو
بیمار بھی پڑتے رہیں گے۔ حکومت کب تک اُن کا علاج کراتی پھرے؟ صحتِ عامہ کی
سہولتیں ختم کرنے پر بھی لوگ اپنا علاج کرا ہی رہے ہیں نا۔ ٹرینیں نہیں ہوں
گی تو لوگ سفر کے متبادل ذرائع کو بنیادی ذرائع میں تبدیل کرلیں گے۔ یہی
حال پانی و بجلی کا ہے۔ گھر گھر جنریٹرز ہوں گے تو بجلی پیدا کی جاتی رہے
گی اور حکومت سُکون کا سانس لیتی رہے گی۔
ہر حکومت کی چند ایک ترجیحات ہوتی ہیں۔ ہم اُس پر اپنی ترجیحات تھوپنا
چاہتے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ یہ کوئی اچھی بات تو نہیں کہ حکومت کا بیشتر وقت
اپنے آپ کو بچانے میں اور ہر معاملے کی صفائی پیش کرنے میں گزرے۔ چند ایک
بنیادی ذمہ داریاں ختم کردی جائیں گی تو منتخب حکومتیں سُکون سے، اپنی
ترجیحات کے مطابق کام کرسکیں گی! |
|