سنجیدگی سے اب سنجیدہ ہونے کا
وقت آگیا ہے۔ رمضان المبارک رحمتوں کا مہینہ قرار دیا گیا ہے۔ مگر یہ کیا
کہ ایک طرف سورج آگ برسا رہا ہے ۔ عوام گرمی سے نڈھال ہیں اور دوسری طرف
محکمہ برقیات نے اپنی غیر سنجیدہ حرکات کو طول دیتے ہوئے تاریخ کی بد ترین
لوڈ شیڈنگ شرو ع کر رکھی ہے۔ رمضان المبارک ثواب کمانے کا مہینہ ہے اﷲ
تعالیٰ کی رحمت چھم چھم برستی ہے اور نیکیوں کے ثواب کا کوئی حساب کتاب
نہیں ہے۔ نہ جانے کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکمرانوں کی نسبت ابلیس کے
خاندان سے ملتی ہے جبھی تو مقدس مہینے میں بھی اپنی شیطانی حرکتوں سے باز
نہیں آتے ۔ انسانی نسل کو ریلیف پہنچانے کی بجائے انھیں جہنم بنتی ہوئی
دلدل میں مسلسل دھکیل رہے ہیں ۔۔۔
عوام اپنے خون پسینے کی قربانی دیکر جن لیڈرو ں کو چنتی ہے وہی لیڈر مختلف
حیلوں سے عوام دشمنی سالوں سال نبھاتے رہتے ہیں ۔ پاکستان کے علاوہ اب آزاد
کشمیر بھر میں حکومتی بے حسی کا بول بالا ہے۔ وہ حکمران جو الیکشن سے پہلے
لمبی لمبی تقرریں کرتے ، وعدوں کے پل باندھتے اور آزاد کشمیر کی عوام کو
مورخ سمجھتے ہوئے انھیں سبز باغ دکھانے میں مصروف رہتے ۔۔۔جب برسرا قتدار
آجائیں تو سانپو ں کی طرح بلوں میں چھپ جاتے ہیں ۔ سالوں سال نظر نہیں آتے
۔۔ مگر کبھی برا بجٹ پیش کرکے، میرٹ کی پامالی کرکے، ٹیکس میں اضافہ کرکے ،
لوڈ شیڈنگ کرکے عوام کو ڈستے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں حکمرانوں کے لیے عوام
میں شدید نفرت اور سخت رد عمل پیدا ہو گیا ہے ۔ حالیہ مثال ہے کہ شہریوں کو
18سے20گھنٹے تک کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ معلوم نہیں حکمران
کس گناہ کی سزا دے رہے ہیں ۔ یا پھر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ
آزاد کشمیر کی عوام سچ میں مورخ ہے جو ایسے لیڈروں کا چناؤ کرتی ہے۔۔۔
ضلع بھمبر میں بجلی بحران کا جن بے قابو ہو چکا ہے۔ بے حسی کی انتہا ہے کہ
سحری و افطاری کے اوقات میں بھی عوام بجلی سے محروم رہتے ہیں ۔ اگر دیہی
علاقوں کی بات کی جائے تو وہاں 22گھنٹوں تک لوڈشیڈنگ جاری رہتی ہے۔ واپڈا
کی اس سنگین عوام دشمنی کے خلاف عوام مشتعل ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ لوڈ
شیڈنگ کیساتھ ساتھ پانی کی سپلائی میں بھی کمی ہوتی جا رہی ہے ۔ آزاد کشمیر
بھر میں رمضان المبارک میں اس قدر جبری لوڈ شیڈنگ موجودو حکومت کی نا اہلی
کا ثبوت دے رہی ہے ۔ کیونکہ ماہ مقدس میں بجلی کے طویل بریک ڈاؤن سے نظام
زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔
ضلع بھمبر میں تو ایسا گمان ہوتا ہے کہ بجلی نا پید ہو کر رہ گئی ہے۔ محکمہ
برقیات نے کسی قسم کا شیڈول جاری نہیں کیا اور افسوس صد افسوس کہ آدھا
گھنٹہ آنے کے بعد تین تین گھنٹے بجلی غائب رہتی ہے جس سے روزہ داروں کو
شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ بھمبر کی عوام گرمی اور محرومی سے بلبلا اٹھے ہیں
لیکن معلوم نہیں کہ اعلی آفیسران کون سی گولیاں کھا کر سو رہے ہیں کہ بھمبر
کی عوام کو لوڈ شیڈنگ سے بچانے کیلئے سست روی سے کام لے رہے ہیں ۔اعلیٰ
آفیسران کی چپ اور نظر اندازی سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آفیسران خود بجلی
چوری جیسے سنگین جرم میں خود کو لپیٹے ہوئے سکون سے ماہ صیام کے فرائض ادا
کر رہے ہیں ۔ محکمہ برقیات اب کرپشن میں باقی تمام محکمہ جات کو پیچھے
چھوڑنے کا منصوبہ بنا چکا ہے اتنی ڈھٹائی اور دیدہ دلیری سے کرپشن کی جاتی
ہے جیسے رمضان میں کوئی نیک کام ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہو۔خود محکمہ برقیات
کے عملے کے آفیسران کے گھروں میں وافر مقدار میں ائیر کنڈیشنر بھی چلائے
جاتے ہیں جبکہ کرم کی انتہا ان پر کہ ان سب صارفین کے بجلی کے میٹرز بند
ہوتے ہیں اور یہی آفیسران اور عملہ ملی بھگت سے بجلی چوری کرانے میں مدد
بھی کرتا ہے۔ پرائیوٹ صارفین کے میٹرز کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے ان سے ماہانہ
ہزاروں روپے بھتے کی صورت میں بھی لیے جاتے ہیں جس سے حکومتی خزانے کو
لاکھوں کی پھکی بھی دی جاتی ہے۔
قارئین مجھے یہ کالم لکھتے لکھتے دو دن لگ گئے جس کی وجہ بجلی کا نہ ہونا
ہی تو ہے لوڈ شیڈنگ نے میرے لکھنے کے موڈ کا بھی ستیاناس کر دیا ہے ۔۔۔ جب
لکھنے کے ارادے سے قلم اٹھاؤ تب ہی بجلی والوں کو خیال آتا ہے کہ ’’چلو بند
کرو‘‘۔۔۔ ایک اور مزے کی بات یہ کہ میرے ڈیڑھ سالہ بھتیجے نے ایک پورا جملہ
بولنا شروع کر دیا ہے اور وہ بھی محکمہ برقیات کی نا اہلی کی وجہ سے ۔۔۔ اب
اسے کرم نوازی کہیے یا پھر بے حسی کی انتہاکہ بچے نے سیکھا بھی تو کیا
سیکھا ۔۔۔’بجلی چلی گئی ‘‘۔۔۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بچے پر اثر ہو
گیا بجلی آنے کا اور جانے کا لیکن حکومت اپوزیشن کے علاوہ تمام سیاسی
جماعتوں ، تنظیموں ، سول سوسائٹی اور تاجراں سمیت تمام مکاتب فکر پر بجلی
کے پھیلتے ہوئے خطرناک بحران کا اثر ہی نہیں ۔۔۔ پانی کو چھوڑ کے بجلی پیدا
کرنے کے ملک میں متبادل ذرائع موجود ہیں ۔ ہمارے اپنا خطہ کشمیر بھرپور
بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن حکمران بجلی پیدا کرنے کا سوچنا
بھی نہیں چاہتے ۔ ایک حکومت آتی ہے تو دوسری پر الزام تراشی شروع کر دیتی
ہے دوسری آتی ہے تو پہلی پر سارا ملبہ ڈال دیتی ہے غرض یہ کہ یہ لوگ ہم
عوام سے ایک کھیل کھیلتے ہیں باری باری کا ۔۔ کہ پہلے تم باری کرو میں
دیکھوں گا اور تالیاں بجاؤں گا دوسری دفعہ میں باری کروں گا اور تم تالیاں
بجانا۔۔۔ اور اس سارے کھیل میں پس کون رہا ہوتا ہے ’’عوام ‘‘‘ جو ایک ہی
جگہ سے بار بار ڈسنے ہوتے ہیں اور پھر وہاں ہی آجاتے ہیں دوبار ڈسوانے کے
لیے۔۔۔
قارئین اب فیصلہ تو کرنا ہوگا کیونکہ شروعات تو کسی نے کرنی ہے ۔۔۔ ہم
لوگوں کے پاس بہترین دماغ موجود ہیں جو بس کسی سپورٹ کے انتظار میں ضائع ہو
رہے ہیں اگر انھیں ہی آگے لائے جائے تو بجلی کیا بہت سے بحرانوں سے نکلا جا
سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام بھی برادری ، علاقہ اور خاندان سے
باہر آکر سوچیں اور انھیں منتخب کریں جن کے گریبان تک پہنچنے کی ہمت بھی ہو
۔۔ یہ نہیں کہ ادھر وہ حکومت میں آئے ادھر عوام کے لیے دوائی کے لیبل والا
حساب ہو گیا کہ ’’تمام دوائیں بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں‘‘۔۔ ایسے تمام
حکمران عوام کی پہنچ سے دور ہو جاتے ہیں ۔۔۔ |