آج کل سیاسی بازیگر میدانِ
سیاست سے اچھل کر میدانِ شریعت میں اُلٹی سیدھی قلابازیاں کھاتے ہوئے طرح
طرح کے راگ الاپ رہے ہیں۔ مثلاً توہینِ رسالت کے قانون کو ختم کیا جائے۔
مجھے نہیں معلوم کہ ان سیاسی مفتیوں کے خطرناک عزائم اور بھیانک منصوبے کیا
ہیں اور وہ اس خدائی قانون تحفظ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
ختم کرنے کی باتیں کر کے کس مذموم مقاصد کو حاصل کرنا اور کس طاغوتی قوت کو
تحفظ دینا چاہتے ہیں؟
تحفظ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کی اصل روح قرآن مجید
میں موجود رب تبارک و تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ “وتعزروہ وتوقروہ“ یعنی نبی
کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کا اہتمام کرنے میں خوب تعظیم و توقیر
بجا لاؤ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم میں سے کوئی اس وقت تک
کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے مال، جائیداد، اولاد، ماں باپ حتیٰ کہ
اس کی اپنی زندگی سے عزیز تر نہ ہوجاؤں۔ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی محبت دینِ حق کی شرطِ اول ہے، اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل
ہے۔آئیے اور حال کی بلندیوں سے ماضی کے اس روشن دور کا مطالعہ کریں کہ جب
غزوہ بدر کا نقارہ بجتا ہے اور ادھر ہمارے آقا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم اپنے جانثاروں سے فرماتے ہیں کہ آج وادی مکہ نے سارے جگر گوشے اٹھا کر
تمھاری طرف پھینک دئیے ہیں اگر تم پیچھے ہٹنا چاہو تو میری طرف سے کوئی
مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ سب دم بخود ہیں، سانسیں تھمی ہوئی ہیں، اچانک حضرت سعد
بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی آواز گونجتی ہے کہ۔۔۔۔ یہ شیوہ ہی نہیں ہے
باوفاؤں کا، پیا ہے ہم نے دودھ اپنی غیرت والی ماؤں کا، نبی کاحکم ہو تو
کود جائیں سمندر میں، کفار کو غرق کردیں نعرہ اللہ اکبر سے۔
عرض کرتے ہیں کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ حکم فرمائیں ہم
تو سمندروں میں بھی کودنے کے لئے تیار ہیں۔۔ معلوم ہوا کہ یہ جنگ عقل کی
نہیں عشق کی جنگ تھی، یہ خرد کا نہیں جذبے کی تپش کا معرکہ تھا کہ جس میں
جذبہ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشن مثالیں اسقدر کثرت کے
ساتھ نظر آتی ہیں کہ عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں۔ اسی غزوہ میں سیدنا صدیقِ اکبر
عضی اللہ عنہ تحفظ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر اور (اسلام
لانے سے قبل) آپ کے بیٹے ابوجہل کی قیادت میں لڑ رہے تھے۔ جب اس بیٹے نے
اسلام قبول کرلیا تو ایک دن عرض کیا کہ ابا جان! آپ غزوہ بدر میں متعدد بار
میری تلوار کی زد میں آئے مگر میں نے باپ کی محبت سے مغلوب ہو کر تلوار کو
نیام میں ڈال لیا۔ سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بیٹے! مجھے
ربِ کعبہ اور شانِ مصطفٰی کی قسم، تو ایک بار بھی میری تلوار کی زَد میں
آجاتا تو مقامِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ کے نام پر تیری گردن اڑا
دیتا۔
اسی طرح جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فاران کی چوٹیوں سے خدا کی
توحید اور اپنی رسالت کا پیغام سنایا تو بدبخت ابولہب نے ذلت کی انتہا کو
چھوتے ہوئے نہایت گستاخانہ و جارحانہ انداز اختیار کیا، محبوبِ خدا صلی
اللہ علیہ وسلم کی شان میں انتہائی غلیظ و ناپاک زبان استعمال کی۔ اُس کی
اس ذلیل طرزِ گفتگو نے زمین و آسمان کو لرزا دیا۔۔۔ عرش و کرسی کپکپا اُٹھے۔۔۔
بحرِ عرب کے تلاطم کو سکتہ آگیا۔۔اور پھر اللہ تعالیٰ نے اُس گستاخ کی اس
دریدہ دہنی کا جواب خود ارشاد فرمایا اور اس قدر سخت خطاب فرمایا کہ پورے
کلام میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے شقی القلب
ابولہب اور اس کی بدبخت بیوی پر دائمی لعنتوں کے سلگتے ہوئے عذاب کے پتھر
برس رہے ہوں۔
بہر کیف قرآن مجید نے عظمت و شانِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم پر جس قدر زور
دیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم
و توقیر کی جتنی تاکید فرمائی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ رب تبارک و
تعالیٰ کو ناموسِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تحفظ کس قدر عزیز ہے۔
آج ہمیں اس بات پر فخر ہے اور ہمارے سر بلند ہیں کہ ہم نے غازی علم الدین
کی صدی پائی اور شہید عامر چیمہ کا زمانہ پایا جنہوں نے موت کو گلے لگا کر
ہمیں یہ پیغام دیا کہ مسلمانوں! جب تک زندہ رہو کسی گستاخِ رسول کو زندہ
رہنے نہ دینا۔ ان شہداﺀ نے ماں باپ کے بڑھاپے کے سہاروں کی پرواہ نہ کی،
بیویوں کے سہاگ کے اجڑنے کو خاطر میں نہ رکھا، بچوں کی یتیمی ان کے راستے
کی رکاوٹ نہ بن سکی، وہ تختہ دار پر جھولتے ہوئے بھی زبانِ حال سے پکار
پکار کر یہ صوتِ سرمدی سنا رہے ہوتے تھے کہ۔۔۔ اے اہلِ دنیا۔۔۔۔ دیکھ لو،
ہمیں اپنے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے والدین سے بھی زیادہ
پیارے ہیں، ہمیں اپنے ملجاو ماویٰ اپنے بچوں سے بھی زیادہ محبوب ہیں، ہمیں
اپنے کریم و شفیق پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیاوی مال و اسباب سے
بھی زیادہ عزیز ہیں، ہمیں محبوبِ کل جہاں اپنی جان سے بھی زیادہ قیمتی ہیں،
ہم نبی کی حرمت پر کٹ مرنا اپنا مقصدِ حیات سمجھتے ہیں، ہم نامِ محمد صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم پر شہید ہوجانا باعثِ نجات سمجھتے ہیں، ہم خود تو کٹ
مریں گے مگر نبی کے گستاخوں کو اس دھرتی پر زندہ رہنے نہیں دیں گے، ہم
گستاخانِ رسول پر صدیقِ اکبر کا قہر بن کر ٹوٹیں گے، فاروقِ اعظم کا جلال
بن کر گریں گے، ہم خالد کی شمشیر اور وحشی کا نیزہ لیکر آئیں گے، ہم معاذ و
معوذ کا جذبہ بن کر تمہاری صفوں کو تہہ و بالا کریں گے، ہم شہدائے یمامہ کی
داستانِ عشق و وفا کو دھرائیں گے۔
یہ جذبات تھے ناموس رسالت کے سپاپیوں کے جو ملت اسلامیہ کی آبرو ہیں۔ مگر
آج یہ احساس ہمیں مضمحل کردیتا ہے کہ وہ لوگ تو تحفظ ناموسِ رسالت کے باب
میں اپنی داستانیں روشن کر گئے مگر آج ان شہداء کی پاکیزہ روحیں ہم سے یہ
سوال کررہی ہیں کہ، اے ملتِ اسلامیہ کے غیور فرزندوں! تحفظ ناموسِ رسالت
مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے تم نے اب تک کیا کیا؟
کیا اب بھی دل آزار تحریریں نہیں لکھی جارہیں؟ کیا وقت کے راجپالوں نے اپنے
لئے نئے روپ اور چہرے نہیں تلاش کرلئے؟ کتنے ہی سوالات ہیں جو تحفظ ناموسِ
رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے ہمیں بار بار جھنجھوڑتے ہیں مگر
ہمارے احساسات پر ہماری فکروں پر مصلحت اندیشی کے غبار جمتے چلے جارہے ہیں،
ایمان کی نبض ڈوب چکی ہے، قلب کی اسلامی دھڑکنیں خاموش ہوگئی ہیں، دل بجھ
گئے اور جذبات سو چکے ہیں، لحمِ خنزیر کے کباب کھانے والے اور اُم الخبائث
پینے والے وقت کے “سلمان بے تاثیر“ رشدی بھی یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اب ان کے
ماتھے کی حدت ٹھنڈک میں بدل گئی ہے۔
آئیے اور ہم رشدیوں کی ان معنوی اولادوں کو یہ باور کرادیں اور انہیں یہ
بتا دیں کہ بے شک ہم عمل کی لاکھوں کوتاہیوں کا شکار ضرور ہیں، ہم اپنی
تہذیب سے بھی اگرچہ ناآشنا ہوچکے ہیں اور اسلامی تشخص کا حلیہ بھی ہم بگاڑ
چکے ہیں، اپنی اقتصادیات بھی گروی رکھ چکے ہیں مگر اس کے باوجود آج بھی دل
کا سودا بازارِ عشقِ مصطفٰی میں کرتے ہیں، اگرچہ ہم بار بار لُوٹے گئے،
یورپ نے ہمیں لُوٹا، امریکہ ہمیں لُوٹ رہا ہے لیکن جب خود لُٹانے پر آتے
ہیں تو اپنا سب کچھ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لُٹا کر نہ
صرف خوش ہوتے ہیں بلکہ اس تمنا کا اظہار کررہے ہوتے ہیں۔۔
کروں تیرے نام پہ جاں فدا، نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا
دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا، کروں کیا، کروڑوں جہاں نہیں |