زَم زَم کی وجہ تسمیہ:-
جب گلشنِ ابراہیم علیہ السلام کے نونہال اسماعیل علیہ السلام نے پیاس کی
شدت سے زمین پر ایڑیاں رگڑیں تو قدرتِ اِلٰہیہ سے پتھریلی زمین سے پانی کا
چشمہ جاری ہوگیا۔ تیز پانی کا چشمہ دیکھ کر سیدہ ہاجرہ علیھاالسلام نے ننھے
اسماعیل کو نقصان پہنچ جانے کے ڈر سے فرمایا : زَمْ زَمْ (رُک جا)۔ آپ کے
حکم پر تیزی سے بہنے والا پانی معتدل رفتار سے بہنے لگا اور یوں اس کا نام
ہی زَمْ زَمْ پڑ گیا۔ ہزاروں سال گزر جانے کے بعد یہ چشمہ آج بھی جاری ہے۔
زائرینِ مکہ کے لیے ایک عظیم تحفہ ہے۔ اسے نہایت ادب سے باوضو حالت میں
قبلہ رُخ کھڑے ہو کر پیا جاتا ہے۔ (1) اس پانی کا یہ خاص حکم اس لیے ہے کہ
اسے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی نسبت حاصل ہے۔ اسی بناء پر یہ دنیا کے
تمام پانیوں پر فضیلت رکھتا ہے اور بہت سی اَمراض میں باعثِ شفاء ہے۔
1. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب ما جاء في زمزم، 2 : 590، رقم : 1556
2. بخاري، الصحيح، کتاب الأشربة، باب الشرب قائما، 5 : 2130، رقم : 5294
3. مسلم، الصحيح، کتاب الأشربة، باب في الشرب من زمزم قائما، 3 : 1601،
1602، رقم : 2027
4. عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 9 : 277
مندرجہ بالا نکات سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں کسی واقعہ کی یاد منانے کو
نہ صرف جائز بتایا گیا ہے بلکہ مختلف اعمال کو شریعت کا مستقل حصہ بنا کر
ان کے بجا لانے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ ہمیں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم اللہ کی رحمت، اس کا فضل اور اس کا سب سے بڑا احسان اور
انعام ہیں جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے نسل انسانی پر فرمایا ہے۔ اِس فضل و
اِحسان پر اِظہارِ تشکر کے طور پر میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
تقریبات منعقد کی جاتی ہیں، جن سے دِلوں میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کے عشق کی چنگاری سلگائی جاتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت
کی ترغیب دی جاتی ہے۔
9۔ عرفات، مزدلفہ اور منیٰ حضرت آدم و حوا علیھما السلام کی یادگار ہیں:-
حجاج کرام نویں ذی الحج کو میدانِ عرفات میں قیام کرتے ہیں۔ اس میں کوئی
خاص عبادت لازمی طور پر ادا نہیں کی جاتی۔ وقوفِ عرفات فریضہ حج ادا کرنے
کے لیے کافی ہے۔ عرفات کی یہ حاضری حضرت آدم اور حضرت حوا علیہما السلام کے
درمیان اس ملاقات کی یاد دلاتی ہے جو نویں ذوالحجہ کو اس میدان میں ہوئی۔
اس کی تائید درج ذیل روایات سے ہوتی ہے :
1۔ مزدلفہ اور عرفات کی وجہ تسمیہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما درج
ذیل الفاظ میں بیان فرماتے ہیں :
أهبط آدم عليه السلام بالهند وحواء بجدة، فجاء في طلبها حتي اجتمعا،
فازدلفت إليه حواء فلذلک سميت المزدلفة، وتعارفا بعرفات فلذلک سميت عرفات،
واجتمعا بجمع فلذلک سميت جمعًا.
’’حضرت آدم علیہ السلام کو ہند اور حضرت حواء کو جدہ کے مقام پر اتارا گیا،
پس حضرت آدم علیہ السلام ان کی تلاش میں نکلے تو ان کا آپس میں ملاپ ہوگیا۔
حضرت حوا علیہا السلام (اس مقام پر) ان کے قریب ہوئیں تو اس کا نام
’’مزدلفہ‘‘ پڑ گیا، اور ان دونوں نے عرفات کے مقام پر ایک دوسرے کو پہچان
لیا تو اس کا نام ’’عرفات‘‘ ہو گیا اور (نویں ذی الحج کو) جمع ہونے کے مقام
پر ان کا اکٹھ ہوا تو اس کا نام ’’یوم جمع‘‘ ہوگیا۔‘‘
1. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 79
2. ابن أثير، الکامل في التاريخ، 1 : 34
3. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 39
4. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 69 : 109
2۔ امام قرطبي رحمۃ اللہ عليہ (284۔ 380ھ) اپني تفسير ’’الجامع لاحکام
القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں :
أن آدم لما هبط وقع بالهند، وحواء بجدة، فاجتمعا بعد طول الطلب بعرفات يوم
عرفة وتعارفا، فسمي اليوم عرفة والموضع عرفات، قاله الضحاک.
’’جنت سے زمین پر حضرت آدم علیہ السلام کو ہند میں اور حضرت حواء علیہا
السلام کو جدہ میں اتارا گیا، کافی تگ و دو کے بعد آپس میں ان کی ملاقات
عرفہ کے دن مقامِ عرفات پر ہوئی اور انہوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا۔ پس
اس دن کو ’’یوم عرفہ‘‘ اور اس جگہ کو ’’عرفات‘‘ کا نام دے دیا گیا۔ یہ قول
امام ضحاک کا ہے۔‘‘
قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 2 : 415
3۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما منیٰ کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہیں :
إنما سميت مِني مِني لأن جبريل حين أراد أن يفارق آدم عليه السلام، قال له
: تمن، قال : أتمني الجنة. فسميت مني لأمنية آدم عليه السلام.
’’منیٰ کو منیٰ اس لیے کہا جاتا ہے کہ جب جبرئیل علیہ السلام نے حضرت آدم
علیہ السلام سے مفارقت کا ارادہ کیا تو ان سے پوچھا : آپ کی کوئی خواہش ہے؟
انہوں نے فرمایا : مجھے جنت کی آرزو ہے۔ پس حضرت آدم علیہ السلام کی
خواہشات کی وجہ سے اسے منیٰ کا نام دیا گیا۔‘‘
1. أزرقي، أخبار مکة وماجاء فيها من الآثار، 2 : 180
2. نووي، تهذيب الأسماء واللغات، 3 : 333
3. قرطبي، الجامع لأحکام القران، 3 : 7
جس طرح رمی الجمرات سیدنا ابراہیم اور سیدنا اسماعیل علیہما السلام کے
واقعہ کی یاد اور سعی بین الصفاء والمروہ، سیدہ ہاجرہ علیہا السلام کی یاد
دہرانے اور تلبیہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعوت اور پکار کے جواب کا
نام ہے۔ اسی طرح وقوفِ عرفات اور مزدلفہ اس ملاقات کی یادگار ہے جو حضرت
آدم اور حضرت حواء علیہما السلام کے درمیان جنت سے زمین پر تشریف لانے اور
طویل عرصہ کی جدائی کے بعد اس میدان میں ہوئی جس میں انہوں نے ایک دوسرے کو
پہچان کر قربت اختیار کی۔ یہ بات یاد رہے کہ ’’عرفات‘‘ اور ’’مزدلفہ‘‘ کا
لغوی معنی ہی ’’پہچاننا‘‘ (1) اور ’’قریب ہونا‘‘(2) ہے۔
1. فراهيدي، کتاب العين، 2 : 121
2. ابن منظور، لسان العرب، 9 : 236، 242
(2) 1. خطابي، غريب الحديث، 2 : 24
2. ابن منظور، لسان العرب، 9 : 138
باری تعالیٰ نے اپنے ان مقبول بندوں کی اس ملاقات کی یاد زندہ و جاوید
رکھنے کے لیے ہر سال حج کے لیے آنے والوں پر 9 ذی الحج کو ان میدانوں میں
وقوف اور حاضری لازمی قرار دی ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔ |