آج کل کے سائنسی دور میں ایک طرف
تو مادی ترقی اپنے عروج پر ہے ، دوسری طرف عریانی اور فحاشی کا سیلاب ہے ،
فرنگی تہذیب کے اثرات نے فیشن پر ستی اور بے حیائی کو عام کر دیا ہے ،
یونیورسٹی کالج کی تعلیم یافتہ خواتین نے حجاب کو غیر اہم سمجھنا شروع کر
دیا ہے ، اس لئے ضروری ہے کہ حجاب اور پردہ کی اہمیت فرضیت کو قرآن وسنت کی
روشنی میں رقم کیا جائے۔چنانچہ قرآن کریم کی سورۃ النور میں فرمان خداوندی
ہے ، ’’اے نبی! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت
وعفت کی حفاظت کریں ، یہ ان کے لئے زیادہ پاکیزگی کا طریقہ ہے۔ یقیناًاﷲ
جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔ اور مومن عورتوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی
رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سائے اس
زینت کے جو خود ظاہر ہوجائے۔ اور وہ اپنے سینوں پر اپنی اوڑھیوں کے آنچل
ڈالے رہیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر ان لوگوں کے سامنے ، شوہر،
باپ ، خسر، بیٹے، سوتیلے بیٹے، بھائی، بھتیجے، بھانجے، اپنی عورتیں ، اپنے
غلام ، وہ مرد خدمت گار جو عورتوں سے کچھ مطلب نہیں رکھتے ، یا وہ لڑکے جو
ابھی عورتوں کی پردہ کی باتوں سے آگاہ نہیں ہوئے ہیں۔ نیز وہ چلتے وقت اپنے
پاؤں زمین پر اس طرح نہ مارتی چلیں کہ جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہے اس کا
اظہار ہو۔ (النور :۰۳،۱۳)سورہ احزاب میں ہے ’’ اے نبی کی بیویوں تم کچھ عام
عورتوں کی طرح تو ہو نہیں۔ اگر تمہیں پر ہیز گاری منظور ہے تو دبی زبان سے
بات نہ کرو کہ جس شخص کے دل میں کوئی خرابی ہے وہ تم سے کچھ توقعات وابستہ
کر بیٹھے۔ بات سیدھی سادھی طرح کرو اور اپنے گھروں میں جمی بیٹھی رہو اور
اگلے زمانہ جاہلیت کے سے بناؤ سنگار نہ دکھاتی پھرو‘‘ (الاحزاب ۲۳،۳۳)سورۃ
احزاب میں ہی دوسری جگہ حکم رب ہے ’’ اے نبی! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور
مسلمانوں کی عورتوں سے کہدو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے گھونگھٹ ڈال لیا
کریں۔ اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پہچانی جائیں گی اور ان کو ستایا نہ
جائے گا۔‘‘اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ان مجمل ہدایات کو نبی ﷺ اور آپ کے
صحابہؓ نے اسلامی معاشرت میں کس طرح نافذ کیا ہے اور ان کے اقوال اور اعمال
سے ان ہدایات کی معنوی اور عملی تفصیلات پر کیا روشنی پڑتی ہے۔حضرت ابن
عباسؓ سے روایت ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے مؤمن عورتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ کسی
ضرورت کے تحت گھر سے نکلیں تو اپنے چہروں کو سروں کی طرف سے چادر سے ڈھانپ
لیں اور صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں (تفسیر ابن کثیر ۹۱۵۳)حضرت علی ؓسے روایت
ہے کہ ایک دفعہ میں نبی ﷺی خدمت میں حاضر تھا۔ آپﷺ نے صحابہ کرام ؓسے سوال
کیا ’’ عورتوں کے لئے کیا چیز بہتر ہے ؟‘‘ صحابہ کرامؓ خاموش رہے اور کوئی
جواب نہ دیا۔ اسی دوران مجھے گھر جانا پڑھا تو میں نے فاطمہؓ سے یہی سوال
پوچھا۔ انہوں نے جواب دیا کہ ’’ عورتوں کے لئے بہتر ہے کہ نہ تو وہ مردوں
کو دیکھیں اور نہ ہی مرد ان کو دیکھیں ‘‘ میں نے یہ جواب نبیﷺ کی خدمت میں
پیش کیا تو آپﷺنے خوش ہو کر فرمایا ’’ وہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے ‘‘ معارف
القرآن‘‘حضرت عائشہ فرماتی ہیں ’’ میں اس کمرے میں داخل ہوتی جس میں نبی ﷺ
مدفون ہیں تو اپنی چادر رکھ دیتی تھی اور کہتی تھی کہ یہاں تو صرف میرے
شوہر اور میرے والد مدفون ہیں۔ لیکن جب حضرت عمر ؓ کو دفن کیا گیا تو اﷲ کی
قسم میں ان سے حیا کی وجہ سے خوب اچھی طرح پردہ کر لیا کرتی تھی ‘‘ اس سے
پردہ کی اہمیت کا اندازہ لگانا چاہئے کہ سیدہ عائشہؓ تو قبر میں مدفون شخص
سے بھی پردہ کر رہی ہیں جب کہ آج کی بے پردہ عورتیں زندہ جیتے جاگتے مردوں
سے پردہ نہیں کرتیں۔ دیندار عورتوں کے لئے سید عائشہؓ کا عمل روشنی کا
مینار ہے۔ترمذی شریف میں ہے ’’ ایک مرتبہ ام المؤمنین حضرت حفصہؓ اور عائشہؓ
کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں کہ حضرت عبد اﷲ بن مکتومؓ گھر میں داخل ہوئے ، یہ
نا بینا صحابی تھے۔ آپ ﷺنے دونوں سے فرمایا: کہ پردہ کرو انہوں نے کہا یا
رسول اﷲﷺ کیا یہ نا بینا نہیں ہیں ؟ نہ ہمیں دیکھ سکتے ہیں نہ ہی پہچان
سکتے ہیں۔ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا : کیا تم دونوں بھی نا بینا ہو ؟ کیا تم اسے
نہیں دیکھ رہی ہو؟ (ترمذی شریف )پردہ داری ایک عقلی قانون بھی ہے۔ اسلامی
پردہ کوئی جاہلی رسم نہیں بلکہ ایک عقلی قانون ہے۔ جاہلی رسم ایک جامد چیز
ہوتی ہے۔ جو طریقہ جس صورت سے رائج ہو گیا کسی حال میں اس کے اندر تغیر
نہیں کیا جا سکتا۔ جو چیز چھپادی گئی وہ بس ہمیشہ کے لئے چھپادی گئی۔ اب
مرتے مرجائیں مگر اس کا کھلنا غیر ممکن۔ بہ خلاف اس کے عقلی قانون میں لچک
ہوتی ہے۔ اس میں احوال کے لحاظ سے شدت اور تخفیف کی گنجائش ہوتی ہے۔ موقع
ومحل کے اعتبار سے اس کے عام قواعد میں استثنا ئی صورتیں رکھی جاتی
ہیں۔فرنگی ماحول میں محرم غیر محرم اور پردہ بے پردگی کا کوئی تصور نہیں ہے
عریانی اور فحاشی اپنے عروج پر ہے ۔ |