اعتکاف

ماہ رمضان ا لمبارک کے عشرہ اخیرہ میں اعتکاف جیسی عبادت اﷲربالعزت کی جانب سے امت محمدیہ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے عظیم تحفہ ہے اوریہ کوئی نئی عبادت نہیں بلکہ سابقہ امتوں میں بھی اعتکاف جیسی متبرک عبا دت موجود تھی․(البقرہ : 125) اس اعتکاف کا مقصد بھی عظیم ہے کیوں کہ بندہ کو اس میں جہاں ہزار ہامہینوں سے بہترشب قدر جیسی با برکت رات نصیب ہوتی ہے وہیں اپنے رب کی بارگاہ میں سجود نیاز خم کرکے اسے راضی کرنے کا سنہرا موقع بھی میسر ہوتا ہے ۔

اعتکاف کرنے والا اﷲرب العزت کی بارگا ہ میں عبادت وریاضت کے لیے لوگوں سے کنارہ کش ہوکر گوشہ تنہائی میں بیٹھ جاتا ہے اور اپنے آ پ کو مسجد میں مقید اور بند کر لیتا ہے اسی لیے لغت میں اعتکاف کا معنیٰ گوشہ میں بیٹھنا،عبادت کے لیے تنہایٔ میں بیٹھنا(القاموس الجدید عربی ص 622)’’ بند رہنا‘‘ (مصباح اللغات ص570)ہوتا ہے لیکن اصلاح شرع میں ’’عاقل مسلمان مرد (بالغ ہونا شرط نہیں باتمیز بچہ بھی اعتکاف کرسکتا ہے: درمختار معہ رد ا لمحتار ج : 3ص :492)کا با طہارت مسجد میں اور حیض و نفاس سے پاک صاف عورت کا اپنے گھرکے مخصوص حصہ میں اﷲتعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لیے بہ نیت اعتکاف ٹہرنا اعتکاف کہلاتا ہے (فتاویٰ عالم گیری ج: 1ص:211)۔

ماہ رمضان المبارک کے عشرہ اخیرہ(آخری دس دن )میں اعتکاف کرنا اﷲ کے رسول ﷺ کی سنت ہے اور آپﷺ کے ظاہری وفات کے بعد آپ ﷺکی ازواج مطہرات رضی اﷲتعالیٰ عنہ(حسب معمول اپنے گھروں میں )اعتکاف کرتی تھیں(صحیح بخاری ،ج 1ص :271)مکتبہ مجلس برکات مبارکپور) صحابی رسول حضرت عبداﷲابن عباس رضی اﷲعنھمافرماتے ہیں کہ سرورکائنات ﷺ ماہ رمضان المبارک کے عشرہ اخیرہ میں اعتکاف کرتے تھے(ماخذ سابق)حضرت نافع رضی ا ﷲ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت عبداﷲابن عباس رضی اﷲعنھما نے مسجد نبوی میں رسول ا ﷲ ﷺ کے اعتکاف کی جگہ دیکھائی (صحیح مسلم ،ج:1ص: 371مکتبہ مجلس برکات)اور پورے مہینہ کا اعتکاف کرنا بھی سنت ہے جیسا کہ ایک موقع سے اﷲ کے رسول ﷺ نے یکم رمضان سے بیس رمضان تک اعتکاف کرنے کے بعد ارشاد فرمایا کہ میں نے شب قدر کی تلاش کے لئے رمضان کے پہلے عشرہ کا اعتکاف کیا پھر درمیانی عشرہ کا اعتکاف کیا پھر مجھے بتایا گیا کہ شب قدر عشرۂ اخیر میں ہے لہذا تم میں سے جو میرے ساتھ اعتکاف کرنا چاہے وہ واعتکاف کرلے (ماخذ سابق ،ص:369)۔

اعتکاف کی فضیلت اور اس کی ترغیب دلاتے ہوئے آقا کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص نے حالت ایمان میں ثواب حاصل کرنے کی نیت سے اعتکاف کیا اس کے تمام پچھلے گناہ (صغیرہ )بخش دئے جائیں گے․(جامع صغیر ،ص:316)جو اﷲ تعالی کی رضا اور اس کی خوشنودی کے لئے ایک دن کا اعتکاف کرے گا اﷲ تعالی اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں حائل فرمادے گا جن کی مسافت مشرق اور مغرب کے فاصلے سے بھی زیادہ ہوگی․ (ا لدر ا لمنثور،ج:1ص:487)۔ امیر ا لمومنین حضرت علی رضی ا ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے رمضان ا لمبارک میں (دس دن کا ) اعتکاف کیا وہ ایسا ہے جیسے اس نے دو حج اور دو عمرے کئے․ (شعب ا لایمان ج:3ص:425)حضرت عبد ا ﷲ ابن عباس رضی ا ﷲ عنھما سے روایت ہے کہ سرکار ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’اعتکاف کرنے والا گناہوں سے بچا رہتا ہے اور نیکیوں سے اسے اس قدر ثواب ملتا ہے جیسے اس نے تمام نیکیاں کیں․(ابن ماجہ :ج 2ص:365)حضرت حسن بصری رضی ا ﷲ عنہ سے منقول ہے کہ ’’معتکف کو ہر روز ایک حج کا ثواب ملتا ہے ․(شعب ا لایمان :ج 3 ،ص: 425)یہاں اس بات کو بیان کردینا بھی ضروری ہے کہ اعتکاف کی تین قسمیں ہیں (1)اعتکاف واجب (2)اعتکاف سنت موکدہ (3)اعتکاف نفل یا غیر سنت موکدہ ۔

(1) اعتکاف واجب زبان سے نذر یا منت مانی (کیوں کہ منت میں شرط ہے کہ الفاظ زبان سے ادا کئے جائیں صرف دل میں منت کی نیت کافی نہیں : رد ا لمحتار ـ:ج : 3ص:430) کہ فلاں دن یا اتنے دن کا اعتکاف اﷲ تعالی کی رضا کے لئے کروں گا تو اتنے دن کا اعتکاف کرنا اس پر واجب ہوگیا (بہار شریعت مکتبۃ ا لمدینہ حصہ 5ص:1021)(2) اعتکاف سنت موکدہ رمضان ا لمبارک کے پورے عشرۂ اخیرہ (آخری دس دن)میں اعتکاف کرنے کو کہتے ہیں یعنی بیسویں رمضان کو سورج ڈوبتے وقت بہ نیت اعتکاف داخل ہوں اور تیسویں کے غروب کے بعد یا انتیس کو چاند ہونے کے بعد نکلے اور اگر بیسویں تاریخ کو بعد نماز مغرب اعتکاف کی نیت کی (یا پہلے داخل ہوا مگر نیت کرنا بھول گیا) تو اعتکاف سنت موکدہ ادا نہ ہوا( حوالہ : ماخذ سابق) اور یہ اعتکاف سنت موکدہ علی ا لکفایہ ہے (در مختار معہ رد ا لمحتار ج 3ص430) اگر سب ترک کریں تو سب سے مطالبہ ہوگا اور شہر میں ایک نے کرلیا تو سب بری ا لذمہ ہوگئے (بہار شریعت حصہ : 5 ص1021)

اس لئے شہر کے کم از کم ایک فرد کو مسجد میں اعتکاف سنت کی نیت’’میں اﷲ پاک کی رضا اور اس کی خوشنودی کے لئے رمضان ا لمبارک کے عشرۂ اخیرہ کے سنت اعتکاف کی نیت کرتا ہوں ‘‘کے ساتھ داخل ہوجانا چاہئے اور عورت ’’ مسجدبیت ‘‘یعنی اپنے گھر کے مخصوص حصے میں اعتکاف کرے گی کیوں کہ مسجدمیں اعتکاف کرنا اس کے لئے مکروہ ہے۔(در مختار معہ رد ا لمحتار ، ج 3ص494)واضح ہو کہ اعتکاف سنت موکدہ اور اعتکاف واجب میں روزہ رکھنا شرط ہے (خواہ روزہ کی نیت کی ہو یا نہیں )لہذا اگر کسی نے بوجہ مجبوری روزہ رکھے بغیر اعتکاف کرلیا تو اس کا اعتکاف نفلی ہوجائے گا ․(ماخذ سابق: ص 496)

(3)اعتکاف نفل یا مستحب یا سنت غیر موکدہ وہ اعتکاف ہے جو مذکورہ بالا دونوں اعتکاف کے علاوہ ہو اعتکاف نفل کے لئے روزہ کی شرط نہیں نہ اس کے لئے کوئی خاص وقت مقرر ہے بلکہ جب مسجدمیں اعتکاف کی نیت’’نویت سنت ا لاعتکاف ‘‘(میں نے سنت اعتکاف کی نیت )کی وہ معتکف ہوگیا ( جب تک مسجد میں ہے بغیر عبادت کے اسے ثواب ملتا رہے گا: فتاویٰ رضویہ تخریج شدہ ،ج: 8ص:98 )اور مسجد سے چلا آیا اعتکاف ختم ہوگیا(فتویٰ عالم گیری کتاب ا لصوم : ج 1 ص:211)

یوں تو تمام مسلمانوں کے لئے مسجد کا احترام ضروری ہے لیکن معتکفین کے لئے خصوصیت کے ساتھ مسجد کا ادب و احترام ضروری ہے اس لئے ذیل میں مسجد کے آداب اور اعتکاف کے لئے بنیادی چیزوں سے متعلق تھوڑی گفتگو ضروری ہے (1) بہتر یہ ہے کہ اعتکاف مسجد نبوی یا مسجد حرام یا پھر شہر کی جامع مسجد میں ہو ورنہ تو اپنے محلہ کی مسجد میں کیا جائے ( فتح ا لقدیر ج 2 : ص308 )۔ (2) بغیر اعتکاف کے مسجد میں کھانا پینااور سونا افطار کرنا منع ہے اس لئے اعتکاف کی نیت کرکے ہی مسجد میں داخل ہو ں اور تھوڑا ذکر الٰہی بھی کرے پھر بعد میں کھا پی سکتے ہیں۔ (رد ا لمحتا ج 2: ص435:)۔(3) معتکف فنائے مسجد (مراد وہ جگہ ہیں جو احاطہ مسجدمیں واقع ہو اور مسجد کی ضروریات کے لئے ہو مثلاً منارہ ،وضوخانہ ،استنجا خانہ، غسل خانہ، مسجد سے متصل مدرسہ ،مسجد سے ملحق امام و موذن وغیرہ کے حجرے ،جوتے اتارنے کی جگہ وغیرہ) میں جاسکتا ہے کیوں کہ فنائے مسجد اس معاملے میں حکم مسجد ہے ( فتاویٰ امجدیہ ج : 1 ص :399 ) (4) معتکف کو اعتکاف کے درمیان دو وجہوں(حا جت شرعی ،حاجت طبعی)کی بناء پر احاطہ مسجد سے باہر نکلنے کی اجازت ہے ( حاجت شرعی ان احکام و امور کو کہتے ہیں جن کی ادائیگی شرعاً ضروری ہو اور معتکف اعتکاف گاہ میں ان کو ادا نہ کرسکے مثلاًنماز جمعہ اور اذان وغیرہ ۔حاجت طبعی ان امور کو کہتے ہیں جن کے بغیر چارۂ کار نہ ہو مثلاً پاخانہ پیشاب اور غسل وغیرہ )(ماخوذ از در مختار ، رد ا لمحتار ج: 3 ص:437(5 ) معتکف کے لئے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ نہ کسی مریض کی عیادت کو جائے ،نہ کسی جنازے میں شامل ہو نہ کسی عورت کو چھوئے اور نہ کسی اہم ضرورت کے سوا مسجد سے باہر نکلے ( سنن ابی داود ج : 2 ص :492) کیوں کہ بلا ضرورت حدود مسجد سے باہر نکلنے کی صورت میں اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے (مراقی ا لفلاح : ص :179)(6) جب روزہ ٹوٹ جاتا ہے تو اعتکاف بھی ٹوٹ جاتا ہے ( در مختار ، رد ا لمحتار ج : 3 ص:442 ) (7) اعتکاف ٹوٹ جانے کی صورت میں صرف اسی دن کے اعتکاف کی قضا کی جائے گی ( رد ا لمحتار ج :3ص :500)(8)دنیاوی باتیں کرنے سے بچیں کیوں کہ مسجد میں مباح( دنیاوی) باتیں کرنا مکروہ (تحریمی ) ہے اور نیکیوں کو کھا جاتا ہے ( مرقات ا لمفاتیح ج 2 ص 449)اوردنیاوی باتیں کرنے والوں سے اﷲ کو کچھ کام نہیں (شعب ا لایمان ج 3:ص:87)(9)مسجد میں ہنسنے سے گریز کرنا چاہئے کیوں کہ مسجد میں ہنسنا قبر میں تاریکی لاتا ہے (الجامع ا لصغیر ص: 322).(10)مسجد میں کوڑا کرکٹ ڈالنے سے بچنا چاہئے کیوں کہ مسجد میں معمولی سا ذرہ پڑنے سے مسجد کو ایسی ہی تکلیف پہونچتی ہے جس قدر تکلیف انسان کو اپنی آنکھ میں معمولی سا ذرہ پڑنے سے ہوتی ہے ۔( جذب ا لقلوب :ص:207 ،از: شیخ عبد ا لحق محدث دہلوی) (11)مسجد کی دیوار ، اس کے فرش ، چٹائی یا دری کے اوپر یا اس کے نیچے تھوکنا ،ناک سنکنا، ناک یا کان میں سے میل نکال کر لگا نا ،مسجد کی دری یا چٹائی وغیرہ سے دھاگہ وغیرہ نوچنا سب ممنوع ہے (عام کتب فقہ) (10)مسجد میں بدبودار چیز مثلاً کچا لہسن پیاز و مولی غیرہ کھانے سے گریز کرنا اور نہ ان چیزوں کو کھا کر آنا ( صحیح مسلم ص :282)ا(12) اسی طرح مسجد میں منھ اور کپڑے وغیرہ کو بدبو سے پاک وصاف رکھنا کیوں کہ ’’ جس چیز سے انسانوں کو تکلیف ہوتی ہے اس سے فرشتوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے ( صحیح مسلم ص :282) 13))مسجد میں مٹی تیل ،دیا سلائی جلاناحرام ہے حتی کہ حدیث میں ارشاد ہو کہ کچا گوشت لیجانا منع ہے (فتاویٰ رضویہ ج : 16 ص:232) اس کے علاوہ تفصیل ، بہار شریعت ،فتاویٰ رضویہ،در مختار و غیرہ میں ملاحظہ فرمائیں اﷲ تعالی ہمیں اپنے حبیب ﷺکے صدقے اعتکاف جیسی دولت سے مالا مال ہونے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
Muhammad Arif Hussain
About the Author: Muhammad Arif Hussain Read More Articles by Muhammad Arif Hussain: 32 Articles with 63912 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.