حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ ـ"پوری
دنیا کے مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں اگر آنکھ میں درد ہو تو سارا بدن یہ
تکلیف محسوس کرے اور آرام سے نہ سوئے ۔"
آئیں ذرا دنیا بھر میں مظلوم مسلمانوں کی حالت زار پر ایک اجمالی نظر ڈالیں
کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔برما میں عدم تشدد کے نام نہاد پیروکاروں نے پولیس
اور فوج کے تعاون سے مسلمانوں کا وہ قتل عام کیا کہ الااماں و الحفیظ ۔کچھ
عرصہ قبل بر ما کے صوبہ ارکان کے تنگوگ شہر کی مسجد میں ہونے والے اجتماع
میں شرکت کیلئے آنے والوں کی بس کو بودھ دہشت گرد تنظیم "ماگ" کے نوجونواں
نے روکا ، جس میں ۴۰ کے لگ بھگ لوگ سوار تھے ، بس میں سوار علما کو پہلے
اتار لیا گیا ، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر انتہائی ظالمانہ طریقے
سے انہیں شہید کردیا گیا۔ مسلمانوں کے ایک بڑے مدرسہ (جمایۃ الاسلام) کے ۲۸
طلبا اور ۴ اساتذہ کو شہید کرنے کے علاوہ مدرسے کو بھی آگ لگا دی۔قتل عام
کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا گیا کہ ۴۵ ہزار سے زائد لوگ مارے گئے ، ۴ ہزار
زندہ جلادئیے گئے ، ۵ ہزار سے زائد خواتین جنسی درندگی کا نشانہ بنیں ، ۱۰ہزار
مسلمان زندہ غائب کردئیے گئیے ، ۳۵ ہزار سے زائد گھر جلا دئیے گئے ، ۲ لاکھ
مسلمان بے گھر کردئیے ، اور ایک ایسا نہ رکنے والا سلسلہ ہے کہ درست تعداد
کا بھی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
دس صدیوں سے آباد برمی مسلمان اپنی سر زمیں میں اجنبی بنا دئیے گئے ، بودھ
جو بہت بعد میں یہاں پر آئے ، انھوں نے مسلمانوں کو تجارت سے بیدخل کرنا
شروع کردیا، جہاں جہاں بودھ مرکز (عبادت خانے) بنتے ہیں ان کے اخراجات
مسلمانوں سے لئے جاتے ہیں۔تعلیم شادی کیلئے اجازت ، دو بچوں سے زیادہ پیدا
کرنے پر پابندی ، غرض کون سا ظلم ہے جو بر می مسلمانوں پر ڈھایا نہیں جاتا
لیکن مسلمان نام کی حکومت سمیت اقوام متحدہ گونگی اور خاموش ہے۔ برما کی
آبادی 6کروڑ کے قریب ہے جس میں 24لاکھ مسلمان بستے ہیں ، لیکن ان کا اﷲ کا
ذکر کرنا اذیت ناک بنا دیا گیا ہے۔حالاں کہ ان کا پڑوسی ملک بنگلہ دیش ہے
لیکن ان کا رویہ انتہائی بے حسی پر مبنی ہے۔
جمہوریہ وسطی افریقہ کے سادہ لوح مسلمانوں کے گھروں اور قیمتی املاک کو آگ
لگائی جا رہی ہے ، عالمی تنظیمیں مانتی ہیں کہ جس طرح مسلمانوں کا قتل عام
اور ان پر ظلم ہو رہا ہے ، اس وجہ سے مسلمان ہجرت پر مجبور ہیں اور بہت جلد
جمہوریہ وسطی افریقہ مسلمانوں سے خالی ہوجائے گا۔
ملک شام کے حکمرانوں نے اس جنت نما ملک میں ظلم و بربریت کی انتہا کردی ،
حافظ الاسد اور اس کے بیٹے بشار الاسد نے ملک کو قتل گاہ بنا دیا ۔ائیر
مارشل حافظ الاسد نے1946کو مسیحی رہنما مائیکل الفلاک کی قائم کردہ بعث
پارٹی میں شمولیت اختیار کی ، حمص ملڑی اکیڈمی میں حصہ لیا ۔ 8مارچ 1963ء
کو بعث پارٹی نے شام کے اقتدار پر قبضہ کرلیا ،1973ء میں عرب اسرائیل جنگ
میں شکست کھائی ۔فضائیہ کا سربراہ ہونے کے بل پر ملک کی صدارت پر قبضہ
کرلیا ،1980-82ء ملک میں نصیری (علوی) فرقے کی اقتدار پر بڑھتے گرفت سے تنگ
عوام نے جنکی تعداد 90فیصد سنی پر مشتمل تھی حکومت کے خلاف بغاوت کردی۔
بعثی حکومت نے الیپوہ اور حمادہ نامی شہر پر ٹینک کشی کرکے اس کی اینٹ سے
اینٹ بجا دی ، کم ازکم تیس ہزار شہریوں کو قتل کیا کیا ۔2000ء میں حافظ
الاسدکی وفات کے بعد ڈاکٹر بشار الاسد نے حکومت کرنے کو پاناخاندانی حق
سمجھا ۔ اقتدار کا نشہ بھی بڑا عجیب ہوتا ہے ، کوئی بھی اسے آسانی سے نہیں
چھوڑتا ، بشا لاسد کی جابرانہ حکومت میں عوامی تحریک کو کچلنے کیلئے لاکھوں
ادفراد کو بڑی بے رحمی سے قتل کردیا گیا ۔انسانوں کو لاشوں اور ان کے گھروں
کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ۔بشا رالاسد نے فلسطین کے پناہ گزینوں پر بمباری
تک کی اور انھیں ملک شام چھوڑنے پر مجبور کرتے ہوئے ان کی خواراک اور
ادویات پر پابندی لگادی۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کسی بھی اسلامی ملک کو طاقت ور نہیں
دیکھنا چاہتے ، یہی وجہ ہے وہ اپنی پڑوسی ممالک میں فرقہ وارانہ خانہ
جنگیوں میں اہم کردار ادا کرتا رہتا ہے ، لیکن ہم مسلمانوں کو کیا ہوگیا ہے
اس کا جواب شاید سب کے پاس ایک ہی ہے کہ ہم میں نا اتفاقی ہے ۔
حالیہ عزہ میں قیامت کی ہولناک خیزیا ں جاری ہیں ، مظلوم مسلمان آسمان کی
جانب نظریں اور ہاتھ اٹھا اٹھا کر مسلم ممالک کی بزدلی کی کی شکایت رب
العزت سے کر رہے ہیں کہ کسی بھی مسلم ملک اور نام نہاد انسان دوست ملک کو
معصوم بچوں کے چیتھڑے ارٹے نظر نہیں آتے ، کسی کو شرم نہیں آتی کہ مسلمانوں
کی بربادیکے نظارے ، پہاڑی پر کھڑے یہودی کسی پکنک پوائنٹ کی طرح دیکھ خوشی
سے تالیاں بجا رہے ہیں۔عراق میں کی مدد کرنے والے ایران ، داعش کے خود
ساختہ خلیفہ ، مسلمانوں کا ٹھیکدار سعودی عرب ، جو مصر میں فوجی حکومت
کیلئے اربوں ڈالر کی امداد دے سکتا ہے لیکن صہیونہت کے خلاف مسلم امہ کو
یکجا کرنے کیلے او آئی سی کو متحرک نہیں کر رہا کہ تمام مسلم ممالک ، اپنی
افواج میں سے فوجی دیں ان کے اخراجات وہ برداشت کرے گا۔ امارات کے حکمران
،عیاشیوں میں ڈوبے ہوئے ، یو این او امریکہ اور اسرائیل کی لونڈی بنی ہوئی
ہے اور مسلم ممالک کو اپنی معدنی وسائل کی طاقت کا اندازہ ہونے کے باوجود
کمزور بننا باعث شرم ہے۔عزہ کے مظلوم بے یار ومددگار مسلمان اپنی جان و عزت
کی حفاظت کیلئے دنیا بھر سے بھیک مانگ رہے ہیں ، کہاں ہیں وہ جہادی تنظیمیں
، جو مسلم ممالک میں مساجد ، مزارات ، بے قصور مسلمانوں کے قتل عام پر جہاد
کے فتوی جاری کرتی ہے لیکن انھیں فلسطین ، برما ، کشمیر ، عراق ، شام کے
لاوارث مسلمان نظر نہیں آرہے۔
خلافت عثمانیہ کے اختتام کے وقت عالم اسلام کی عجیب حالت تھی ، ترکوں نے جب
عرب سے تابوت وصولنے شروع کئے توخلافت کے خاتمے کے بعد 1960ء کی دہائی تک
عربی میں اذان اور عربی زبان پر ہی پابندی لگادی گئی ۔
جس جس مسلم مملکت کی جانب نظر دوڑائیں تو اس نے اپنی خود ساختہ آئین بنا کر
مسلمانوں کو تقسیم در تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے ۔ مذہبی جماعتیں
ہوں تو انھیں مسلمان کو کافر بنانے سے فرصت نہیں ، سیاسی جماعتیں ہوں تو
انھیں اقتدار میں آنے کیلئے صرف اپنی ستائش کی بیماری لاحق ہے ، ایسے صرف
خود میں اچھائی اور دوسرے میں برائی نظر آتی ہے۔
بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم مسلمانوں کی مثال اس بکری کے ریوڑ کی
طر ح ہوگئی ہے جو ہزاروں کی تعداد میں ہونے کے باوجود نہ کاٹنے والے کتے کے
بھونکنے پرہی خوف زدہ ہوجاتے ہیں اور وہ کتا سہمی ہوئے اس ریوڑ کو جہاں
چاہے ہانکتا پھرتا ہے۔
ہم وہ مسلمان قوم ہیں جنھوں نے فرقوں کا درخت اگالیا ہے اور اب ہر فرقے
والا اس درخت کو اسلام سمجھ کر اس کی اُس کمزورٹہنی پر بیٹھا ہے ، جیسے وہ
خود کاٹ بھی رہا ہے ، اس کے تئیں ، وہ اسلام کی خدمت کر رہا ہے اور اس شاخ
کو کاٹ رہا ہے جو اس کے نزدیک اسلام سے غلط جڑی ہوئی ہے ، لیکن اس نا عاقبت
اندیش ، نادان کو نہیں معلوم ، کہ وہ دوسرے کی شاخ نہیں ، بلکہ جس شاخ پر
وہ خود بیٹھا ہے ایسے ہی کاٹ رہا ہے۔
کیا ، ہم لیبیا ، مصر ، ترکی ، عراق ، شام، ایران ، افغانستان ، پاکستان
،برما سمیت تمام عالم دنیا میں نثریں دوڑائیں تو کیا ہمیں یہ سمجھنے میں
وقت لگے گا کہ اس کی وجوہات کیا ہیں ، اس کی کامل وجہ ، قرآن پاک سے دوری ،
مسالک اور فرقوں میں پڑھ کر اﷲ کی مضبوط رسی کو چھوڑ دینا ، ڈیڑھ اینٹ کی
مسجد ضرار بنا کر ، سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم اﷲ تعالی کا نظام قائم کرنا چاہتے
ہیں ، جب کہ اﷲ کے نام پر فساد کو فروغ دیا جارہا ہے۔غیر مسلم ممالک امریکہ
، برطانیہ ، اسرائیل کی سازشوں کو سمجھنے کے باوجود ہم دانستہ اور غیر
دانستہ ان کے اہلکار بنتے جا رہے ہیں ،
ہماری کوئی مساجد مشترکہ نہیں ، ہمارے مفادات مشترکہ نہیں ، ہمارا مذہب
مشترکہ نہیں ، ہم نے اپنی اپنی پسند کے سامری کے طرح سونے کا گوسالہ بنا
لیا ہے اور اس میں سے نکلنے والی آواز پر ہی سوچے سمجھے بغیر سر تسلیم خم
کردیتے ہیں۔
ہمارا کام تو دکھی انسانیت کی خدمت کرنا تھا ، دکھی انسانیت کے زخموں پر
مرہم رکھنا تھا لیکن ہم ہمارا کردار اب ایسا ہوگیا ہے کہ ہم اگر حب رسول ﷺ
میں نکلتے ہیں تو بے قصور لوگوں کی املاک کو جلا دیتے ہیں ان کی املاک کو
لوٹ لیتے ہیں اور پھر رونا امت محمد ﷺکا روتے ہیں۔نہ جانے ہم اﷲ تعالی کے
اور کس عذاب کا انتظار کر رہے ہیں ۔ کی اس سے بڑھ کر بھی کوئی قیامت صغری
ہوگی کہ مسلمان جہاں جہاں ہیں ، وہاں انھیں دشمنان اسلام انھیں ذلیل رسوا
کر رہے ہیں ۔
با اثر ،دولت مند اور خزانوں سے بھرے سانپوں کو پالنے والے مسلم حکمران کیا
، اﷲ تعالی کے کسی اور عذاب کے بھی منتظر ہیں ، ہم اب قیامت کی ان دو
نشانیوں کے قریب تر پہنچ چکے ہیں کہ ، خنزیر اور بندر بنا دئیے جائیں گے ،
تو ذرا سوچیں کہ خنزیر کی سب سے بڑی خصلت کیا ہے ، وہ یہی ہے کہ وہ بے شرم
، بے حیا ہوتا ہے ، بندر کی خصلت کیا ہے کہ وہ نقالی کرتا ہے ، کیا اب اپنی
شکلیں تبدیل ہونے کا انتظار ہے- |