فطرانہ اور عید کے مسائل اور شوال کے چھ روزے
(manhaj-as-salaf, Peshawar)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
فطرانہ یا زکواۃ الفطر ہر مسلمان شخص پر فرض ہے، یہ غراباہ اور مساکین اور
محتاجوں کا حق ہے جو مالداروں پر ہے اور اسکی ادائیگی ہر وہ شخص کریگا جس
کے پاس اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے عید کے دن اور رات کا خرچ ہو یعنی
ایسے شخص کے لیے ایک صاع فطرانہ ادا کرنا فرض ہے، بہتر یہ ہے کہ فطرانہ کو
عید کی نماز سے ایک دن پہلے یا عید کی نماز سے قبل ضرور ادا کر دیا جاۓ.
زکواۃ الفطر: سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ بیان کرتے
ہیں کہ: ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایک صاع غلہ یا
ایک صاع کجھور یا ایک صاع جو یا ایک صاع منقہ یا ایک صاع پنیر فطرانہ ادا
کیا کرتے تھے..
حوالہ : متفق علیہ.
اس سے ثابت ہوا کہ علاقے کی خوراک مثلا چاول وغیرہ کا ایک صاع ادا کرنے سے
فطرانہ ادا ہواجاۓ گا. ایک صاع سے مراد متوسط طور پار دونوں ہاتھ سے چار
چار چلو ہیں جو تقریبا ڈھائ سے تین کلو ہوۓ، واللہ اعلم.
احادیث کے مطابق صدقہ الفطر خوراک اور اجناس کی صورت میں دینا چاہیے یہ راۓ
امام مالک رحمہ اللہ، شافعی اور احمد رحمہا اللہ کی ہے
ابن حزم رحمہ اللہ کے مطابق قیمت کفایت نہیں کرے گی
(المحلی جلد 4 صفحہ 209)
ابن تیمیہ رحمہ اللہ روزمرہ کی خوراک کے قائل تھے
(مجموع فتاوی جلد 25 صفحہ 35، 36)
امام ابو حنیفہ، بخاری، عمر بن عبدالعزیز رحمہم اللہ درہم کے قائل تھے
(مصنف ابن ابی شیبہ، سند صحیح)
ابو اسحاق السبعی رحمہ اللہ نے بھی درہم دیے
(مصنف، سندہ حسن)
واللہ اعلم
عید کے آداب، مفہوم:
1. عید کے لیے جانے سے قبل غسل کرنا، موطا امام مالک حدیث 428، رواہ صحیح.
2. عیدالفطر کی نماز سے قبل تاک اعداد میں کجھوریں کھانا، بخاری 953
3. عید کے روز امام کی عید پڑھانے تک تکبیریں کہنا، ارواء الغلیل جلد 3
صفحہ 122
4. عید کی مبارک باد دینا، فتح الباری جلد 2، صفحہ 446
5. عید کے لیے اچھا لباس پہنا، صحیح ابن خزیمہ 1765
6. نماز عید کے لیے آنے اور جانے کا راستہ بدلنا، صحیح بخاری 986،
7. عید کی نماز عام حالات میں کھلے میدان یا عید گاہ میں پڑھیں مسجد میں
نہیں: دلیل صحیح بخاری 956، صحیح مسلم 889،
8. عید کی تکبیریں، اللہ اکبر اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ، واللہ اکبر اللہ
اکبر وللہ الحمد، مصنف ابن ابی شیبہ صحیح سند.
9. عید کی نماز میں 12 تکبیریں ہیں: موطا امام مالک، صحیح سند کے ساتھ.
10. تکبیرات پر رفع الیدین کرنا ثابت ہے: مسند احمد جلد 2 صفحہ 134 حسن سند
کے ساتھ، واللہ اعلم.
شوال کے 6 روزے:
سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا، مفہوم:
جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے 6 روزے رکھے تو یہ ایسا
ہے جیسے پورے سال کے روزے ہوں.
حوالہ: صحیح مسلم
دوسری روایت ہے کہ مفہوم: رمضان کا مہینہ 10 مہینوں کے برابر ہے اورشوال کے
6 دن کے روزے سال پورا کرتے ہیں.
صحیح الترغیب والترھیب جلد 1 صفحہ 421، اللہ اعلم.
شوال میں 6 روزوں کے متعلق ایک سوال کے جواب میں فتاوی کمیٹی الجنۃ نے جواب
دیا، مفہوم:
عیدالفطر کے فورا بعد روزے رکھنا لازم نہیں، بلکہ جائز ہے کہ عید کے ایک یا
دو دن بعد روزے رکھنا جائز ہے، لیکن اگر وہ مسلسل یا علیحدہ علیحدہ شوال
میں ہی روزے رکھے تو یہ بھی جائز ہے، اس معاملہ میں وسعت ہے اور پھر یہ
روزے رکھنا سنت ہے نہ کے فرض"
(حوالہ: فتاوی الجنة الدائمة جلد 10 صفحہ 391 |
|