ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیئے
(Prof Akbar Hashmi, Rawalpindi)
غیر مسلموں کے اسلام سے اختلافات تو ہیں ہی
لیکن یہودی(بنی اسرائیل ) حقائق کو جاننے کے باوجود محض ضد اورحسد کی بنا
پر مسلمانوں سے عنادرکھتے ہیں۔اس دشمنی کی ابتداء سرور کون و مکاں خاتم
النبیین ﷺ کے اعلان نبوت سے ہوئی۔ اس سے قبل یہودی حضور سیدالعالمین ﷺ کی
تشریف کی دعائیں مانگتے تھے اور آپ ﷺ کی بعثت کا انہیں شدت سے انتظار تھا ۔
جب آپ ﷺ کی پیدائش مبارک ہوئی تو بمطابق روائت ام المؤمنین سیدہ عائشہ
صدیقہ رضی اﷲ عنہا کہ ایک یہودی مکہ معظمہ میں آیا اور اس نے کہا کہ اے
گروہ قریش تم میں آج شب کوئی بچہ پیدا ہوا ہے دیکھو کیونکہ آج کی شب اس امت
کا نبی پیدا ہوا اسکے دونوں شانوں کے درمیان میں ایک نشانی یعنی مہر نبوت
ہے۔ قریش نے جب معلوم کیا تو خبر ملی کہ حضرت عبداﷲ بن حضرت عبدالمطلب رضی
اﷲ عنہما کا بیٹا پیدا ہوا ہے ۔ یہودی کو وہاں لایا گیا اور اس نے آپ ﷺ کی
زیارت کی اور مہر نبوت دیکھی تو بیہوش ہوکر گر پڑا اور کہنے لگا کہ بنی
اسرائیل سے نبوت رخصت ہوئی۔اے گروہ قریش سن رکھو واﷲ یہ تم پر ایسا غلبہ
حاصل کرینگے کہ مشرق و مغرب سے اسکی خبر شائع ہوگی(فتح الباری۔المواھب)
یہودی یہ خیال کرتے تھے کہ نبوت پر ہمارے اجارہ داری ہے اور نبی آخرالزمان
ﷺ بھی بنی اسرائیل میں آئیں گے۔ یہ انکی کج فہمی ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے
حضرت ابراہیم علیہ السلام سے وعدہ فرمایا کہ نبوت و امامت آپکی اولاد میں
رکھوں گا توحضرت کے دوفرزند ہوئے اور دونوں نبی ہوئے یعنی حضرت اسمٰعیل
علیہ السلام اور حضرت اسحٰق علیہ السلام۔حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد
میں اولیاء اور صلحاء تو ہوئے مگر سلسلہ نبوت حضرت اسحٰق علیہ کے فرزند
حضرت یعقوب علیہ السلام کہ جن کا نام اسرائیل ہے،کی اولاد میں رہا۔ اس طرح
تقریبا چالیس ہزار نبی و رسول انکی اولاد میں تشریف لائے۔ بنی اسرائیل
انتہا درجہ گستاخ، بے ادب اور کفرکی طرف رغبت رکھنے والے ہوئے کہ ایک وقت
میں کئی نبی انکی اصلاح کے لیئے تشریف لائے۔ جن میں سے کچھ کو بنی اسرائیل
نے جھٹلایا، کچھ کو شہید کیا اور انکی زبان درازیوں سے تو کوئی بھی نہ بچا
حتٰی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تو اﷲ تعالیٰ سے انکے حق میں بد دعا کی
جو قبول ہوئی۔ نافرمانیوں کی وجہ سے ان پر کئی مرتبہ عذاب الہی نازل ہوئے،
بخت نصر بادشاہ نے انکا قتل عام کیا اور انکے گھروں کی بنیادیں تک اکھیڑ
دیں۔احکامات الٰہی کی بجا آوری میں دھوکا بازی کرتے اور ہفتہ کا دن جو انکے
لیئے مقدس تھا اس کا تقدس پامال کیا تو انہیں بند بنایا گیا۔ بندر بننے
والے ہزاروں کی تعداد میں تھے جو تین دن بعد مرگئے۔ گائے کی پوجا سب سے
پہلے یہودیوں نے کی جو بعد میں ہند اور دوسرے علاقوں میں پھیلی۔ حضرت موسیٰ
علیہ السلام پر برص زدہ ہونے، حضرت سلیمان علیہ السلام پر جادوگر ہونے کے
الزامات لگائے، حضرت یحیٰ علیہ السلام کو شہید کیا، حضرت عیسٰی علیہ السلام
کی والدہ طیبہ طاہرہ پر تہمت لگا کر اﷲ کے نبی روح اﷲ علیہ السلام کے منکر
ہوئے۔ انہیں شہید کرنے کی انتہادرجہ کوشش کی مگر ناکام رہے ۔اپنی خفت مٹانے
کے لیئے ایک شخص کو صلیب پر چڑھا کر مشہور کیا کہ مسیح علیہ السلام کو
مصلوب کردیاگیا۔خاتم الانبیاء رحمۃ للعٰلمین حضرت محمد ﷺ حضرت اسمٰعیل علیہ
السلام کی اولاد میں تشریف لائے۔قرآن اﷲ کی آخری کتاب کا نزول ہوا۔ قرآن
کریم نے انکے تمام کرتوتوں کے پردے چاک کردیئے۔حضور نبی کریم ﷺ نے مدینہ
پاک تشریف کے ساتھ ہی وہاں آباد یہودی قبائل بنو نضیر، بنو قینقاع اور بنع
قریظہ کے ساتھ امن معاہدہ فرمایا مگر اپنے خبث باطن کی بنا پر حجور نبی
کریم ﷺ اور مسلمانوں کو زک پہنچانے میں کوئی دقیقہ فرگزاشت نہ کیا۔ بلکہ
آْپ ﷺ کی مخاصمت میں اس قدر اندھے ہوگئے کہ مکہ معظمہ جاکر مشرکین مکہ کو
نبی اکرم ﷺ پر حملہ کرنے پر اکسایااور ہرطرح مشرکین کو امداد دینے کی پیش
کش کی۔ مشرکین نے نے یہودیوں کے خلوص کا امتحان لیتے ہوئے انہیں کہا کہ تم
ہمارے بتوں کو سجدہ کرو تو ہم مانیں گے کہ تم سچے ہو۔یہودیوں نے بتوں کو
سجدہ کیا۔ غزوہ احد اور غزوہ خندق میں تو یہودیوں نے مسلم دشمنی کی انتہا
کردی۔ جس پر بنو قریظہ کو سزا دینے کے لیئے وحی الٰہی نازل ہوئی اور حضرت
جبریل علیہ السلام خود ہتھیار بند آئے۔
بنو قریظہ کے جنگجوؤں کو قتل کیا گیا، مال اسباب ،عورتیں بچے مال غنیمت میں
آئے۔ یہودیوں نے آج کی اسرائیلی اسٹیٹ کی طرز پر خیبر کے مقام پر مضبوط
قلعے بنائے اور آج ہی طرح مسلمانوں کے خلاف زبردست جنگی تیاریا ں شروع کیں۔
سرور عالمین ﷺ نے محرم 7ہجری کو خیبر کی طرف لشکر کشی فرمائی ۔ خیبر مدینہ
طیبہ سے 96 میل ہے۔ خیبر فتح ہوا۔ حی بن اخطب کا خزانہ جو اس نے کہیں جنگل
میں دفن کررکھا تھا ، نبی کریم ﷺ نے وحی کی اطلاع پر حاصل کرلیا۔ یہودیوں
نے جزیہ دینا قبول کیا اور نبی کریم رؤف الرحیم ﷺ نے انہیں اپنی جائدادوں
پر قابض رہنے دیا۔ لیکن اسکے باوجود یہودیوں نے آپ ﷺ کو زہر دیا مگر کھانے
نے آپ ﷺ کو کھانے سے منع کردیا۔ اسکے باوجود قلعے کی دیوار سے آپ ﷺ پر برے
ارادے سے بڑا پتھرگرانے کی سازش کی مگر آپ ﷺ کے محافظ حقیقی نے آپ ﷺ کو بچا
لیا۔ ۔ قرآن کریم نے انہیں مغضوبین فرمایا۔ یہودی اپنی اصلاح نہ کرسکے اور
دنیا میں میں انہیں کہیں بھی جائے پناہ نہ ملی۔ قرآن کریم میں ہے کہ ان پر
ذلت اور مسکینی طاری کردی گئی۔ دوسروں کے سہارے زندگی بسر کرتے ہیں۔ غیر
مسلموں میں سب سے زیادہ شر پسند اور فتنہ انگیز یہودی قوم ہے۔ پوری دنیا کو
انہوں نے بدامنی کا شکار کررکھا ہے۔ ہٹلر نے یہودیوں کا قتل عام کیوں
کرایا؟ ان کی فتنہ انگیزیوں کی وجہ سے۔ پہلی جنگ عظیم میں اتحادیوں کو
یہودیوں نے سرمایہ فراہم کیا۔ امریکہ، برطانیہ اور دیگر اتحادیوں نے فلسطین
پر قبضہ کرلیا تھا اس میں سے ایک وسیع علاقے پر یہودیوں کاو آباد کیا۔ انکی
علیحدہ ریاست کا قیام عمل میں لایاگیا۔ جبکہ برطانیہ نے مسلمانوں کے ساتھ
کیئے ہوئے وعدے سے یکسر انحراف کرتے ہوئے خلافت کے مقبوضہ علاقے پر یہودی
ریاست کو تسلیم کیا۔ یہودیوں کی یہاں آبادکاری کا کوئی جواز ہی نہ تھا
کیونکہ یہ مسلمانوں کے علاقے تھے۔ انہیں مسلمانوں کو ہی واپس کیا جانا تھا۔
اﷲ اور اسکے رسول نے سچ فرمایا کہ یہودونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ ایک ہیں۔
دنیا بھر سے یہودی اسرائیل نامی ریاست میں پہنچے ۔ امریکہ ، برطانیہ اور
دیگر یورپی ممالک نے انہیں جدید السحہ سے لیس کیا۔ اامریکہ اور اتحادیوں کا
یہ ناجائز مولودعالم اسلام کے لیئے مستقل خطرہ بن گیا۔ امریکہ کی شہ پر
اسرائیل نے بیت المقدس پر قبضہ کرلیا۔جواردن کا حصہ تھا ۔ اقوام متحدہ نے
اپنے منشور سے انحراف کرتے ہوئے اسرائیل کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔
دراصل اقوام متحدہ کا ادارہ امریکہ اور برطانیہ کا پلاٹ فارم ہے جسے وہ
مسلمانوں کے خلاف تو استعمال کرتے ہیں لیکن مسلمانوں کے حق میں آج تک اسے
استعمال نہیں کیا گیا۔ اسرائیل کی شرانگیزیوں اور امریکہ و برطانیہ کی پشت
پناہی سے آجتک کئی جنگیں ہوچکیں، لاکھوں مسلمان شہید ہوئے اور انکی
جائدادیں تباہ ہوئیں۔ آج پھر مسلم خون کی ندیا ں بہ رہی ہیں۔ معصوم عورتیں
اور بچے صیہونی بربریت کا شکار ہیں، ہسپتال اور تعلیمی ادارے بھی یہودیوں
کے خونخوار پنجوں سے محفوظ نہیں۔ کیا دنیا میں فلسطینی مسلمانوں کے ہم مذہب
ختم ہوچکے ہیں؟ کیا ماؤں نے علی بن ابی طالب،عبداﷲ بن عباس ،خالد بن ولید،
عکرمہ بن عمرو، ابوعبیدہ،عبداﷲ بن ابی سرح رضی اﷲ عنھم جیسے نامور سپوت
جننا ختم کردیئے ہیں؟ کیا آج نعرہ تکبیر کے لیئے زبانیں گنگ ہوگئی ہیں؟
مجبور ، بے بیکس، مظلوم عورتیں، بچے ، جوان بوڑھے مدد کے لیئے پکار رہے ہیں
، لیکن انکی مدد کے لیئے کہیں سے لبیک یا مظلومین کی آواز سنائی نہیں دیتی۔
کتنے اسلامی ملک ایٹمی طاقتیں ہیں، اسلحہ اور فوجیں لاکھوں میں، دولت کا
کوئی اندازہ نہیں۔ لیکن دلوں میں نور اسلام نہیں، روح اسلام کیا نکل چکی،
سب سے زیادہ توقع خادم حرمین شریفین سے کی جاتی ہے، مگر وہ تو امریکہ سے
اپنی دوستی نبھانا جانتے ہیں خانہ کعبہ کے مالک سے کیا ہوا عہد وپیمان بھلا
بیٹھے۔ اکثر ممالک اسلامیہ کا یہی حال ہے۔ لیکن میں بڑے واضح الفاظ میں
ببانگ دہل ان سے کہتا ہوں کہ یہودی ریاست صرف اسرائیل تک محدود نہیں بلکہ
انکے نقشوں میں ریاست مدینہ اور خیبر بھی شام ہے(خاکم بدہن)کلمہ پڑھنے
والو!کب تک صلیبیوں کی غلامی کروگے؟ اب تو انکی غلامی کا جوا گلے سے اتار
دو اور اپنی بقا کی جنگ لڑو۔ میں ایمان و ایقان کی پختگی کے ساتھ یہ دعویٰ
کرتا ہوں کہ تمام اسلامی ممالک نہ سہی صرف چندیعنی سعودی عرب، پاکستان،
ایران، شام ترکی اور مصر اسرائیل کیخلاف جنگ کا الٹیمیٹم دیدیں تو اسرائیل
اور اسکے حمائیتی امریکہ و برطانیہ کو جان بچانا مشکل ہوجائے گا۔ کاش کہ
نبی کے غلام یہ کردیں۔اے خاصہ خاصان رسل اب وقت دعا ہے ۔ امت پہ تری آکے
عجب وقت پڑا ہے۔ |
|