عیدالفِطر مسلمانوں کی حقیقی مسرت و شادمانی کا عظیم دن
(Muhammad Azam Azim Azam, Karachi)
اُمتِ محمدیﷺ کے لئے اﷲ کی بیشمار
انعامات اور نوازِشوں کا دن عیدالفِطر
نماز عیدالفطراور ....... عید کادن مسلمانوں کی ملی یکجہتی کا بے مثال
نمونہ
ماہِ رمضان المبارک اپنی تمام تر رحمتیں ، برکتیں اور اپنی تمام تررعنائیاں
اہلِ اسلام پر نچھاوڑ کرنے کے بعد ہم سے بخیر و عافیت رخصت ہوچکاہے اور آج
پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر مسلم ممالک میں ماہِ شوال کی پہلی تاریخ ہے اور
پاکستان کی طرح وہاں بھی عیدالفطر اپنے پورے جوش و جذبے کے ساتھ منائی
جارہی ہے تو کہیں آج شوال کی دوسری تاریخ بھی ہوگی جہاں آج عید کا دوسرا دن
بھی ہوگاوہاں کے مسلمان ہم سے ایک روز قبل نماز عیدالفطر کے اجتماعات منعقد
کر کے پہلے ہی ملی یکجہتی کے ایسے بے مثال نمونے دنیا کے سامنے پیش کرچکے
ہیں کہ جن کو کرنے کے لئے آج ہم سب بھی جارہے ہیں اورآج ہر مومن مسلمان کے
قدم اپنے اﷲ کا شکر اداکرنے کے لئے نئے اور اُجلے ہوئے کپڑوں اور نئی چپلوں
جوتوں اور خوشبوؤں کے ساتھ ’’ اﷲ اَکبر اﷲ اَکبر لا اِلہ اَلا اﷲ اَکبر اَﷲ
اَکبر وﷲِ الحمد کی تکبیر بلند آواز سے پڑھتے ہوئے نمازعیدالفطر کے
اجتماعات کی جانب بڑھ رہے ہیں اور تو پھراِسی طرح کہیں مزید ایک روز بعد
یکم شوال آنے والی ہوگی اور اِس طرح یہ سارا سسٹم جاری رہے گا کیوں کہ یہ
توقدرت کا اپنا ایک ایسا اٹل نظام ہے کہ جو ازل سے ہی یوں چلتا آ رہا ہے
اورجب تک یہ دنیا قائم رہی گی یہ چلتارہے گا اوردنیا میں جہاں کہیں بھی
اُمت محمدی ﷺ کے ماننے والے موجود ہوں گے وہ مسلمان ماہِ شوال کا چاند دیکھ
کر اپنے اسلامی اصولوں اور اپنے طور طریقوں اور اپنے رہن سہن کے مطابق عید
کی خوشیاں مناتے رہیں گے۔
آج دنیا میں جتنے بھی ادیان اور اقوام ہیں ہر کسی کا کوئی نہ کوئی خوشی اور
مسرت کا دن ضرور ہوتاہے اور یہ اُس دن کو اپنے مذہبی اور اخلاقی قیود سے
آزاد ہوکر مناتی ہیں مگر الحمداﷲ! یہ اعجازصرف دین اسلام کو ہی ہے کہ اِس
کا دیگر ادیان اور اقوام کے نظریوں کے بلکل برعکس خوشی اور مسرت کے تہواروں
اور ایام کے لئے اپنا ایک علیحدہ اور سب سے منفرد اور اعلی ضابطہ ٔ اخلاق
موجود ہے اور یہی وجہ ہے کہ بفضل تعالی دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے جب بھی
کوئی خوشی اور مسرت کا تہوار اور دن آتاہے تو اِن میں خود بخود وہ تمام کی
تمام اخلاقی اور اسلامی قدریں اجاگر ہوجاتی ہیں کہ جو حکمِ ربی اور سنتِ
رسول ﷺ ہیں اور انہیں دیکھ کر دیگر ادیان کے ماننے والے اور دوسری اقوام کے
لوگ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے اِس کی کیا وجہ ہے ؟ تو یہ بھی سن لیجئے
کہ ایسے ہی مواقع کے لئے میرے پیارے محمدﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’ اسلام
بے راہ روی اور لہوولعب کی اجازت نہیں دیتااور اسلام قلب میں روحانیت اور
طبیعت میں شرافت و نیکی پیداکرنا چاہتاہے‘‘ توپھر اِس فرمان محمد عربیﷺ پر
عمل کرتے ہوئے بالخصوص آج کے دن اہل اسلام اپنے آپ کواورآج کے اِس مبارک دن
کی خوشیوں کو بے راہ روی اور لہوولعب سے بچاتے ہیں اوراِسی طرح ایک آج کے (عیدالفطر)دن
اور دوسرا عید ِقربان کے دنوں کو اپنے رب اﷲ تعالی کی کثر ت سے حمد و ثنا
کرنے میں گزار دیتے ہیں۔
اور اِس سے بھی انکار نہیں کہ بیشک یہ ماہِ مبارکہ (شوال المکرم اور
بالخصوص اِس کی پہلی تاریخ اور اِس کے بعد کے ایام) ایک طرح سے رمضان
المبارک کے مہینے کے نتیجے کی حیثیت رکھتاہے او راُ مت محمدیﷺ کواِس ماہِ
مبارکہ کاانتظار سال بھر رہتا ہے اور اِس کے چاند کی خوشی پورے اسلامی سال
کے تمام مہینوں کے چاندوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے اوراِس عظیم المرتبت ماہِ
مبارک کی ابتدا ٔبھی دیگراسلامی مہینوں کی طرح اِس کے چاند نظر آنے کے
بعدسے ہی ہوجاتی ہے یہاں ہماری مسلم نوجوان نسل کو عید کے چاند کے معنی اور
مفہوم کو بھی جان لیناضروری ہے کہ جن کے لئے خاص طور پر ہم بیان کر رہے ہیں
کہ اِس ماہ ِ مبارکہ شوال المکرم کے چاند کو عید کا چاندکیوں کہتے ہیں؟ یہ
وہ سوال ہے جو اکثر ہماری نوجوان نسل پوچھتی ہے اور وہ یہ جاننا چاہتی ہے۔
تو اِن کے لئے عرض ہے کہ ماہِ شوال کے چاند کو عید کا چاند اِس لئے کہتے
ہیں کہ عید لفظ عُودسے مشتق ہے جس کامطلب یہ ہے کہ خوشی اور مسرت کا دن اور
عُود کرنے والا دن یعنی کہ بار بار آنے والا دن اور ایک ایسے مسرتوں اور
شادمانی والے دن کا ایک ایسا چاند کہ جس کے باربار دیکھنے کی خواہش ہو تی
ہے کے معنوں کے ہیں اور اِس ماہ مبارکہ شوالِ المکرم کے چاندکوعموماََ ماہِ
رمضان المبارک کے آخری عشرے کی29تاریخ میں بھی بعدنمازمغرب آسمانِ کی مغرب
کی جانب ہم مسلمان (جبکہ ہمارے ملک میں رویت ہلال کمیٹی یہ فریضہ جدید
سائنسی آلات کے ذریعے اَحسن طریقے سے انجام دے رہی ہے) بڑی بے چینی اور بے
تابی سے ڈھونڈرہے ہوتے ہیں کیوں کہ اِس تاریخ میں بھی اِس کے نظر آنے کے
امکانات ہوتے ہیں اور اگر ماہِ شوال کا چاند 29 رمضان المبارک کو دِکھائی
نہ دے سکے تو پھر ماہ ِ رمضان کے پورے 30روزے رکھنے ہوتے ہیں اور یوں رمضان
المبارک کی 30تاریخ میں اِس کا نظر آنا یقینی ہوجاتاہے اور اگر پھر بھی اِس
تاریخ میں عید کا چاند بادلوں یا کسی اور وجہ سے بھی نظر نہ آسکے توپھر
30رمضان المبارک کی تاریخ یعنی غروب آفتاب کے بعد ہی سے اسلامی اصولوں اور
ضابطوں کے مطابق ماہِ شوال المکرم کی پہلی تاریخ شروع ہوجاتی ہے اور اِس
رات کواہل اسلام (چاند رات کے طورپرجانتے ہیں) کیوں کہ اِس رات میں اگلی
صبح نماز عید الفطر کی ادائیگی کے لئے اِس کی تیاریوں میں مصروف رہتے ہیں
اور اکثر و بیشتر یہ بھی دیکھنے میں آیاہے کہ اِس کے علاوہ بھی اکثر لوگ
اپنی اِدھر اُدھر کی دیگر فضول کی مصروفیات کے باعث اِس رات کو بغیر عبادت
کے گزار دیتے ہیں حالانکہ اِس رات کی عبادت بھی بڑی فضیلت کی حامل ہے اور
پھر اِس رات کے گزرنے کے بعد ہی اگلی صبح کو اہل اسلام عید الفطر کے عظیم
الشان اور روح پرو ر اجتماعات منعقدکرکے اپنے رب اﷲ رب العزت کا شکراداکرتے
ہیں کہ اُس نے آج کے دن اپنے بیشمار انعامات اور اپنی نوازِشیں اُمت محمدی
ﷺ کودیں اوریوں مسلسل ایک ماہ امتحان میں بیٹھنے یعنی رمضان المبارک کے
پورے ایک ماہ کے روزے رکھنے اور نماز پنچکانہ کے ساتھ ساتھ نمازِ تراویح کی
ادائیگیوں اور کثرت سے تلاوت قرآن مجید فرقانِ حمید کی سعاتوں کے بعد ہر
اُمیدوار کو ایک ایسی ابدی کامیابی اور کامرانی سے بھی ہمکنار کیا کہ اِ س
کا احاطہ کرنا ممکن ہی نہیں ہے اور جس کو کبھی فنا بھی نہیں ہے اﷲ رب العزت
کا ارشاد ہے کہ !’’ جس نے بھی تزکیہ کی کوشش کی کامیاب ہوا‘‘ اور مجھے یہ
کہنے دیجئے کہ یہ تزکیہ کی کوشش کرنے والے کی ہی وہ عظیم کامیابی ہے جو
خالقِ کائنات اﷲ رب العزت کی طرف سے اُسے آج کے دن حقیقی خوشی کی صورت میں
ملی ہے اور آج اﷲ ہی نے یہ حقیقی خوشی فطرۃََ اُسے دی ہے اوراِسی طرح اِس
نے ہی ملت اسلامیہ کواِس خوشی اور مسرت کے دن کوایک عظیم تہوار یعنی عید کے
طورپر مکمل بھائی چارگی اور باہمی اخوت و مساوات اور ملی یکجہتی کے طور پر
منانے کا پیغام دیاہے ۔
اور اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عیدالفطر اُمت محمدیﷺ کے لئے تمام فطری
تقاضوں پر مکمل طور پر کامیابیوں کے ساتھ اِ ن پر قابوپانے کی خوشی اور
مسرت کے اظہار کا ایک عظیم وسیلہ ہی نہیں بلکہ اِس حقیقی خوشی اور شادمانی
کے موقع پردوسروں کو بھی اِس میں اُسی طرح سے شامل کرنے کا بھی درس دیتا ہے
جس کا اسلام میں حکم ہے جس کا جاننا بھی انتہائی ضروری ہے یعنی کہ عیدالفطر
کی نماز کی ادائیگی سے قبل ضروری ہے کہ صدقہ ٔ فطر اداکردیاجائے جس کے
اداکرنے کا مقصد یہ ہے کہ عید کی اِن خوشیوں میں اُن لوگوں کو بھی شامل
کیاجائے کہ جواپنی غربت اور حکمرانوں کی عدم توجہ اورملک میں دولت کی غلط
تقسیم کی وجہ سے غربت اور تنگدستی کے باعث پریشان حال ہیں اور وہ اِس دن
بھی جس کو اﷲ نے خوشی کے دن کے طور پر منانے کا حکم دیا ہے یہ بیچارے آج
بھی پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوث ہیں اور روٹی سے بھی محروم ہیں وہ بھی
ہماری اِس رقم سے اوروں کی طرح عید کی خوشیوں میں شامل ہوجائیں اور یوں
معاشرے میں امیر اور غریب کا فرق ختم ہوجائے۔
کیوں کہ دین اسلام میں عیدکا دن امیر اور غریب سب کے لئے یکساں ہے اور اِس
دن ضرور ت اِس امر کی ہے کہ اﷲ کی دی ہوئی نعمتوں کا سجدہ شکر اداکرنے کے
ساتھ ساتھ اُن مفلوک الحال لوگوں کی بھی داد رسی کی جائے کہ جو آج کے دن
خوشیوں سے محروم ہیں۔ٹھیک ہے کہ ماہ ِ رمضان المبارک ہمیں اپنے ایک ماہ کی
عبادت کے عوض نارِ جہنم سے نجات کی نوید دے کر تو رخصت ہوچکاہے مگر اِس کے
ساتھ ہی اُس ماہِ مبارکہ رمضان المبارک نے جو ہمیں عفور درگزر اور بھائی
چارے اور اتحاد ویگانگت کا درس دیاہے اُسے اب ہمیں یادکرتے رہنا ہوگا اور
آج عیدکے اِس مبارک اور خوشیوں اور مسرت والے دن کے موقع پر ماہِ رمضان
المبارک سے اپنی تمام عبادات کے بدلے میں عہد وفاکرنا ہوگا کہ آئندہ سال
اگر ہماری زندگی رہی تو ہم اِس پر قائم رہیں گے اور آئندہ سال اِس کے آنے
تک اِس سے کہیں زیادہ اپنے ارادوں میں مستحکم رہتے ہوئے پریشان حال انسانیت
کی خدمت کرنے کو اپنا نصب العین بنائے رہیں گے اور یہی انسانیت کی خدمت اور
دوسروں کی تکالیف کا مداواکرنے کا درس ماہِ رمضان المبارک کے روزے بھی اہلِ
مسلمان کو دے گئے ہیں تو وہیں آج کا یہ عید سعید کادن بھی یہ درسِ عظیم دے
رہاہے کہ ہم اپنی عید کی اِن بیشمار خوشیوں میں اپنے معاشرے میں موجود ایسے
پریشان او مفلوک الحال لوگوں کو بھی شامل کرلیں جو عید کی اِن خوشیوں سے
محروم ہیں اورہمارا آج کا یہ ذرا سا نیک عمل ہمیں عید کی اصل خوشیاں سمیٹ
کر ہمارے دامن میں بھر دے گا اور اِس طرح جس کی روحانیت سے ہم سال بھر
بہرامند ہوتے رہیں گے ۔ |
|