عورتوں کی حالت ِ زار اور جاگیردارانہ نظام

اس وقت میرے سامنے بہت سی ایسی خبریں ہیں ، جن سے عورت کی بےبسی اور مرد کی بے حسی ٹپکتی ہے ۔ اگر ان خبروں کا تعلق دنیا کے کسی اور ملک سے ہوتا تو شاید مجھے اتنی تکلیف نہ ہوتی ، جتنی ابھی ہو رہی ہے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ان سب خبروں کا تعلق وطن ِ عزیز سے ہے ۔ ہم پہلے صنف ِ نازک کے معاملے میں پڑوسی ملک بھارت کو دوش دیتے تھے کہ وہ عورت کے معاملے مں بہت پسماندہ ہے ۔ لیکن اب پاکستان بھی اس معاملے میں کچھ زیادہ اچھا نہیں ہے ۔ عرصے سے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ غر ملکی میڈیا پاکستان کے پیچھے یوں ہی لگا ہوا ہے ۔ اور پاکستان کو خواہ مخواہ عورت کے معاملے میں پسماندہ ترین ملک ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے ، لیکن پے درپے پیش آنے والے واقعات ، جن سے عورت کی بے بسی اور مرد کی بے حسی جھلکتی ہے ، نے مر ی سوچ کو بھی بدل دیا ہے اور میں اس بات اور سوچ کا قائل ہو گیا ہوں کہ وطن ِ عزیز مں واقعی عورت کی حالت ِ زار پر قابو پانے کے لے چند سخت اصلاحات کی ضرورت ہے ۔نو ٹن نے کہا تھا: ہر عمل کا برابر اور مخالف رد ِ عمل ہوتا ہے ۔ انھوں نے تو یہ اصول صرف سائنسی نقطہ ِ نظر کے لحاظ سے وضع کیا تھا ، لیکن میں اس اصول کو ہر جگہ پاتا ہوں ۔ یہ جو خواتنن کے حقوق کے لیے سر گرم بہت سی تنظیمں ہیں ، یہ دراصل رد ِ عمل ہی ہیں ۔ اس ظلم کا جو پاکستان میں عورت پر روا رکھا جا تا ہے ۔ اور جس کی وجہ سے وطن ِ عزیز پوری دنیا میںس عورت کے معاملے میں پسماندہ ترین ملکوں میں سے شمار ہونے لگا ہے ۔


پاکستان میں صنف ِ نازک کئی مسائل کا شکار ہے ۔ کبھی ونی کے نام پر اس پر ظلم کیا جاتا ہے ۔ کبھی اس کے چہرے پر تیزاب پھینک کر مرد اپنے حسد کا کھلم کھلا اظہار کرتا ہے ۔ کبھی اس پر جنسی تشدد کر کے مرد اپنی بے حسی کا اعلان کرتا ہے ۔ کبھی اسے دفتروں میں ہراساں کیا جاتا ہے ۔ کبھی اس گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ کبھی پسند کی شادی پر اسے قتل کر دیا جاتا ہے ۔کبھی محض شک کی بنا پر اسے مار دیا جاتا ہے ۔ کبھی اسے نام نہاد جرگے کے حکم پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ کبھی عورت وڈیروں کا جیلوں سے ملتی ہے تو کبھی اس کی لاش درخت سے لٹکی ہوئی ملتی ہے ۔

کبھی کبھی پیش آنےوالے ظلم سے چور واقعات پڑھتا ہوں تو ذہن ماؤف ہو جاتا ہے ۔ سوچتا ہوں ، کیا ہم انھی روایات کے امین تھے ۔ ارے ہم تو عورت کو دیکھ کر نظریں جھکا لیا کرتے تھے ۔ دوکان دار عورت کو "ماں" ، "بہن" اور " بیٹی" کہہ کر پکارتے تھے ۔ ہم ہر جگہ، ہر گھڑی عورت کی عزت اور ناموس کی حفاظت کو اپنا اخلاقی فریضہ سمجھتے تھے ۔ ہمیں ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہتی تھی کہ اگر ہم نے کسی عورت سے بد تمیزی کی یا کوئی دوسری اخلاق سے گری حرکت کی ، تو ہماری ماں ، بہن ، بیٹی اور بیوی سے بھی کوئی ایسی حرکت کر سکتا ہے ۔ لیکن اب ۔۔۔ 3 سالہ معصوم سی بچی کو بھی نہیں چھوڑا جاتا ۔ نام نہاد وڈیروں کے جرگوں نے الگ سے عذاب بپا کر رکھا ہے ۔ مجھے وڈیروں کے جرگوں پر کوئی اعتراض نہیں اگر وہ غیر انسانی فیصلے نہ کریں ۔ لیکن اگر وہ اپنے فیصلوں میں نا بالغ بچیوں کو ونی کے بھینٹ چڑھا دیں تو پھر میں ان کے وجود کو کبھی برداشت نہیں کروں گا ۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ جب وطن ِ عزیز میں عدالتیں اور پولیس وغیرہ موجود ہے تو ان جرگوں سے کیوں فیصلہ کرایا جاتا ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اب بھی وڈیروں اور جاگیر داروں والا نظام موجود ہے ۔ا س نظام کو ہم اتنے سال گزرنے کے با وجود ختم نہیں کر سکے ہیں ۔ ابھی دو دن پہلے ایک روح فرسا خبر نے پریشان کر دیا ۔ خبر ملاحظہ ہو:
"تھانہ صدر گجرات کے نواحی گاؤں چک بھوالا کے محنت کش نصر اقبال کی گاؤں کے زمیندار غلام مصطفیٰ کے ساتھ بجلی کا میٹر ڈیرے پر لگوانے کے دوران 5 ہزار روپے کے تنازع پر تلخ کلامی ہوئی جس کی رنجش پر غلام مصطفیٰ نے ڈیرے پر نہانے آئے نصر اقبال کے10 سالہ بیٹے تبسم کو بوتلوں کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنایا اور اُس پر گرم پانی انڈیل دیا جس پر تبسم کھیتوں میں چھپ گیا، تاہم سفاک درندے نے اُسے پکڑ کر رسیوں اور کپڑے سے اُس کے ہاتھ اور پاؤں باندھ دیئے اور پیٹر انجن کی مدد سے اُس کے دونوں بازو تن سے جدا کر دئیے ۔"(ایکسپریس ڈاٹ پی کے)
بعد میں بچے کے باپ نے اس سانحے کی ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی تو ایس ایچ او تین روز تک معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کرتا رہا ۔ یہ تو بھلا ہو وزیر ِ اعلیٰ پنجاب کا ۔۔ کہ انھوں نے فوری طور پر قانونی کا رروائی کا پولیس کو حکم دیا ۔ اب غریب کہاں جائے ؟ وڈیرے نا انصافی پر مبنی فیصلے کرتے ہیں تو پولیس کارروائی ہی نہیں کرتی ۔ اس طرح کے واقعات آئے روز پیش آتے رہتے ہیں ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں اب تک جاگیر دارانہ نظام جاری و ساری ہے ۔ جاگیردا ر اور وڈیرے جو چاہیں ، کرتے پھریں ۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ۔

بات کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی ۔ ایسا نہیں کہ ہم سب فرسودہ رسموں میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ الحمد للہ ! آج بھی ہمارے ہاں اکثریت اچھے لوگوں کی پائی جاتی ہے ۔ ہم بہ حیثیت ِ قوم اچھے لوگ ہی ہیں ۔ لیکن یہ معاشرے میں کچھ کالی بھیڑیں ہیں ، ان کا خاتمہ ضروری ہے ۔ جاگیرداروں کی نجی جیلیں ،جن میں عورتوں پر ہی نہیں بلکہ بچوں پر بھی ظلم روا رکھا جاتا ہے ، ان کا خاتمہ از حد ضروری ہے ۔ جن کے خاتمے کے لیے سخت سے سخت کارروائی کرنی پڑے تو کی جائے ۔ پولیس کو بھی کسی کے زیر ِ نگیں نہیں آنا چاہیے ۔ سرعام حق و انصاف کا بول بالا کرنا پولیس کا اولین فرض ہے ۔ انصاف کے معاملے میں کسی کو ترجیح دینا سب سے بڑا ظلم ہے ۔

ارادہ تھا کہ آج کا پورا کالم عورت کی حالت ِ زار پر لکھوں ۔ درمیان میں تبسم کا واقعہ آگیا ۔ جس نے کالم کا تسلسل معطل کردیا ۔ لیکن کیا کروں اس اندوہ ناک سانحے کو نظر انداز بھی نہیں کر سکتا تھا ۔ اب کالم بھی طویل ہو گیا ہے ۔ قارئین کے وقت کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے ۔ عورت کے معاملے میں ایک مکمل اور جامع کالم پھر کبھی ۔۔۔ ان شاء اللہ !!
Naeem Ur Rehmaan Shaaiq
About the Author: Naeem Ur Rehmaan Shaaiq Read More Articles by Naeem Ur Rehmaan Shaaiq: 122 Articles with 146075 views میرا نام نعیم الرحمان ہے اور قلمی نام نعیم الرحمان شائق ہے ۔ پڑھ کر لکھنا مجھے از حد پسند ہے ۔ روشنیوں کے شہر کراچی کا رہائشی ہوں ۔.. View More