فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت اور عالم اسلام کی خاموشی
(Irfan Mustafa Sehrai, Lahore)
کسی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر
اسرائیل فلسطین کے نہتے عوام کے خلاف 8جولائی سے اپنی وحشیانہ کارروائی
مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ فلسطین کی جانب سے چالیس
راکٹ قبلہ اوّل کے گردو نواح داغے گئے ،جس کا بظاہر نہ کوئی نقصان ہوا، نہ
جانیں گئیں،کسی ہلاکت کی خبر نہیں ،لیکن اس کی سزا کے طور پر مظلوم
فلسطینوں کی آبادیوں پر بے رحمانہ بمباری کی گئی ، فضائی حملوں کے علاوہ
زمینی فوجی کارروائی بھی کی۔ نہتے، بے گناہ اور معصوم فلسطینوں کو خاک و
خون میں نہلا دیا گیا۔ اس وحشیانہ بمباری میں زیادہ تر بچے اور خواتین شہید
ہوئے ہیں۔ جان بوجھ کر عام شہریوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہ کوئی پہلا
واقعہ نہیں ،اسرائیل کی جنگی اور ظالمانہ سوچ نے فلسطین اور دنیا کے دوسرے
ممالک میں انتشار برپا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، ایسا ہی ایک
آپریشن کچھ سال قبل فلسطینیوں کے خلاف کیا گیا تھا ، جس میں ڈیڑھ ہزار
فلسطینی شہید کئے گئے تھے۔
بڑی طاقتوں،خاص کر امریکہ کی زیر سرپرستی تشکیل پانے والی زبردستی کی ریاست
نے وحشیانہ روش اختیار کرلی ہے۔یہ طاقتیں بظاہر تو فلسطین کے خلاف اسرائیل
بدترین جارحیت کی مذمت کرتی ہیں، لیکن اندرونی طور پر اسلحے کے ساتھ ہر قسم
کی مدد فراہم کرتی ہیں۔ جنون اپنے عروج پر ہے۔ یہ قوتیں توسیع پسند ی کی
شکار ہوچکی ہیں،یعنی ہوس ملک گیری، طمع، لالچ،سلطنتوں اور مملکتوں کا وسیع
جغرافیائی طور پر تبدیلی کی خواہشات بڑھ گئی ہیں۔ان عزائم اور ارادوں کی
تکمیل کی خاطر احترام انسانیت ، اچھائی اور برائی کی تمیز ختم ہوجاتی ہے۔
انسانی اقدار کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔توسیع پسندی کے شوق میں طاقتور
قومیں کمزور قوموں کو اپنا شکار بنا لتیی ہیں۔ہر طرف جنگل کا قانون نافذ ہے۔
اس کے باوجود اعلیٰ تہذیب وثقافت کا لیبل بھی اپنے اوپر لگا لیا جاتا ہے۔
انسانیت کے ایسے نام نہاد علمبرداروں سے تحفظ بے حد ضروری ہے۔ فاتح اور
مفتوح کی پہچان ختم ہوتی جارہی ہے۔ غاصبانہ قبضہ جمانے والے اپنے آپ کو
فاتح بنا کر پیش کرتے ہیں۔
جب معاشروں سے اچھائی اور برائی کی تمیز مفقود ہوجائے تو قومیں فتح ونصرت
کی آڑ میں فتح کے مفہوم سے نابلد رہتی ہیں۔ اختیار، اقتدار ،ثروت اور دولت
ہی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بن جاتا ہے۔ ایسی اقوام ہمدردی اور خیر خواہی کے
لبادے میں انسانیت کا اقتصادی قتل کرتی ہیں۔ فلسطینیوں کا قصور صرف اتنا ہے
کہ وہ گزشتہ 6عشروں سے اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ اسرائیل ان کی سرزمین پر
غاصبانہ قبضہ کرنے کے بعد ان کے معصوم بچوں اور خواتین کی جانیں بھی لے رہا
ہے۔ ان کے گھراورمساجد مسمار کردیئے گئے ہیں۔ ان پربے دریغ فضائی حملے کئے
گئے،فوج کشی کر دی گئی،آزادی فلسطینی عوام کا حق ہے۔ جس ظلم نے حماس کو جنم
دیا ہے، اسی ظلم نے جہادی سوچ کو بیدار کیا ۔
غزہ کی داستان پوری امت مسلمہ کی داستان ہے۔ تاریخ اسلام شاہد ہے کہ غیر
مسلم قومیں امت مسلمہ کے خلاف ہر دور میں برسر پیکار رہی ہیں۔ مسلمان اقوام
کے خلاف مختلف محاذوں پر تعصب روا رکھا گیا ، ان پر مظالم ڈھائے گے، یہی
منفی قوتیں آج بھی مسلمانوں کے خلاف ظلم ڈھانے میں مصروف ہیں،مگر اس صورت
حال میں ہم برابر کے قصوروار ہیں ۔خود ہمارے حرص زادوں اور طمع کے اسیروں
نے ملت اسلامیہ کو شکست وریخت سے دوچار کیا ہے۔اپنوں ہی کی خود غرضیانہ
سوچوں اور ذاتی مفاد پرستی نے دنیا کی ایک چوتھائی مسلم آبادی کو یکساں اور
یکجا نہیں ہونے دیا ۔ حکمرانوں کی عاقبت نااندیشی نے دشمنوں کو غالب آنے
میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے بزدلانہ کردار نے مسلم ممالک کو کسی نہ کسی
طرح سے دوسروں کا دست نگر بنادیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر کے مسلمانوں
کے خلاف ظالمانہ جارحیت جاری ہے اورانسانی حقوق کے نام نہاد چمپئن دنیا کے
ہر خطے میں مسلمانوں کے خلاف متحرک نظر آتے ہیں۔ فلسطین کے نہتے عوام پر
وحشیانہ حملے حقوق انسانی کے علمبرداروں کے منہ پر طمانچہ ہے ۔مسلم امہ نے
بھی اس ننگی جارحیت کے خلاف کوئی لائحہ عمل اختیار کرنے کا عندیہ نہیں دیا
۔ صرف مذمتی بیانات اور سڑکوں پراحتجاج سے ایسے وحشی قابو میں نہیں لائے
جاسکتے، اس کے لئے فیصلہ کن اقدام کی ضرورت ہے، لیکن مسلم ممالک خاص طور پر
عرب ممالک میں سارا زور اس بات پر مرکوز ہے کہ اپنے معیار زندگی کو کس طرح
بلند کیا جائے، جبکہ اپنی عسکری طاقت کو مضبوط کرکے دشمن سے آنکھیں چار
کرنے کی کوشش کبھی نہیں کی ،اس کے علاوہ سیاسی طور پر مسلم ممالک کی باہمی
کشمکش اور ایک دوسرے سے برسر پیکار رہنے کے باعث وہ اتنے کھوکھلے ہوچکے ہیں
کہ ان میں ظالم کا پنجہ مروڑنے کی سکت ہی نہیں رہی۔
اسرائیل چونکہ ہر میدان میں ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ایک طاقتور ملک کی
حیثیت سے دنیا میں اپنا وجود منوا چکا ہے، اسی لئے امریکہ یا دیگر ممالک
سبھی اس کی من مانی کی جانب سے منہ پھیر لیتے ہیں۔اس جارحیت کے ردِ عمل
پرپاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھی بھر پور مذمتی بیان جاری کیا
،جبکہ مسلم ممالک کے حکمرانوں کی اکثریت خاموش رہی،حالانکہ یہودو نصاریٰ کی
طاقتیں ایک کے بعد ایک کے گریبان تک پہنچنے کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں،جس
کے شواہد وقتاً فوقتاً منظر عام آتے رہتے ہیں۔آج اسلامی کانفرنس اور عرب
لیگ کو نمائشی اقدام نہیں، بلکہ بھر پور اور فعال کردار ادا کر کے مسلم
دنیا کے خلاف ناپاک سازشیں کرنے والوں کو بتا دینا چاہئے کہ مذہب اسلام
عالمی انسانی اصولوں کا علمبردار اور عکاس ہے، لیکن ساتھ ہی مدافعتی مقاصد
کی خاطر طاقت کے بھرپور استعمال کا حق بھی دیتا ہے،تاکہ منکرین ، کافر یا
لادین امّت مسّلمہ کی شرافت کو کمزوری نہ سمجھ بیٹھیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم ممالک خوداپنا محاسبہ بھی کریں اور اپنے اندر
ایسی طاقت پیدا کریں کہ ان کا مخالف ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ سکیں۔
آج فلسطینوں کا خون ناحق گرایا جا رہا ہے ،کل کسی دوسرے کی باری آئے گی ،اس
لئے دشمن کے شکنجوں سے نکلنے کے لئے متحد ہو کر بھر پور کردار ادا کرنا ہو
گا۔ ناجائز ریاست اسرائیل کے مسلم دنیا کے اوپر اٹھنے والے ہاتھ مروڑنے ہوں
گے ، ہمیں اس وقت متحد ہو کر عملی قدم اٹھانا ہو گا۔اگر اسلام مخالف طاقتیں
امت مسلمہ کے خلاف ناپاک سازشوں کی تکمیل کی خاطر یکجا ہو سکتی ہیں، تو ہم
مسلمان کیوں متحد نہیں ہو سکتے؟ جبکہ ہمارا اﷲ ایک ،رسول ﷺ ایک ،قرآن ایک
ہے۔ پھر ہم اپنے مفادات کی اسیری سے باہر کیوں نہیں آتے ؟وسائل اور طاقت و
اختیار سے مالا مال مسلم دنیا کو صرف متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ قومیں وہی
زندہ رہتی ہیں جو ترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن رہ کر اپنا دفاع کرنا جانتی
ہیں۔ کمزور قومیں بہت دنوں تک وقار کے ساتھ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ
سکتیں |
|