خالق کائنات نے انسان کو کھنکتی
مٹی سے پیدا فرمایا، جب اس نے دنیا میں آ کر ہوش سنبھالا تو اسے اپنی جستجو
ہوئی میں کون ہوں کہاں سے آیا ہوں میری اصلیت کیا ہے۔
جیسے اکثر دیکھا گیا ہے کہ کبھی کمرے کا دروازہ بھیڑتے وقت کسی چھپکلی کی
دُم اُس میں پھنس کر کٹ جائے تو وہ آدھی دُم تڑپنے لگتی ہے، بالکل ویسے ہی
انسان بھی پیدا ہوتے ہی رونا اور تڑپنا شروع کر دیتا ہے۔پھر ماں کے سینے سے
لگتے ہی سومن ہو جاتا ہے سمجھتا ہے شاید یہی میری اصل ہے، ذرا ہوش سنبھالتا
ہے تو ماں اُسے باپ کی پہچان کرواتی ہے جو اس کی دیکھ بھال اور دیگر
ضروریات پوری کرتا ہے تو اس کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ شاید یہی
میرا اصل ہے،
پھرجب وہ ذرا اور بڑا ہوتا ہے تو ماں باپ اور اُستاد اسے بتاتے ہیں کہ اُسے
پیدا کرنے والا خالق کائنات ہے جس نے اس خوبصورت دنیا کو بنایا ہے، اب اس
کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اس کی اصل کہاں ہے، و ہ تو اب تک ما ں باپ
ہی کو اپنا سب کچھ سمجھ رہا تھا مگر اصل کہیں اور ہے، اب اس ذات کی تلاش
اور جستجوکا جذبہ دل میں ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے ،ا ور وہ حق کی تلاش میں
پیروں فقیروں اور مولوی ملاؤں کے پاس جا کر اس کا پتہ پوچھنے لگتا ہے،۔
کچھ لوگ تو دنیا میں ہی کھو جاتے ہیں اوردھن دولت کی چمک دمک ان کی آنکھوں
میں ایسی سما جاتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کا مقصد اسی کو حاصل کرنا سمجھ کر
اپنے آپ کو بھی بھول جاتے ہیں، مگر کچھ سوچنے سمجھنے والے اس بات کو جان
لیتے ہیں کہ دنیا میں آنے کا مقصد کچھ اور ہی ہے اجس کی تلاش میں وہ ہر وہ
دروازہ کھتکتاتے ہیں جہاں سے انہیں گوہر مقصود ملنے کی ذر ا سی بھی امید
ہوتی ہے۔
ہر کوئی انہیں اپنے عقیدے کے مطابق راستہ بتلاتا ہے، مگر انسانی فطرت ہے،
ہر کام میں جلدی اور شاٹ کٹ والا عنصر اسے ایسے ہی راستے کی تلاش میں کئی
ایسے لوگوں کے پاس لے جاتا ہے جن کا د اعوہ ہوتا ہے کہ یہ وظیفہ یا عمل کرو
گے تو تمہیں ذات حق کی معرفت حاصل ہو جائے گی ،جیسا کہ ساری رات بہتے پانی
میں ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کریا التی پالتی مار کر یہ ورد کرتے رہو گے تو
چالیس دن تک بغیر سوئے ایسا کرنا ہو گا تو ویسا کرنا ہو گا جیسے ہندو یوگی
کیا کرتے ہیں ،تو تمہارے سامنے موکل آئیں گے تو ڈرنا نہیں وہ تمہیں بہت
ڈرائیں گے مختلف ڈراؤنی صورتیں بنا بنا کر اور اگر تم ڈر گئے تو سمجھ لو
تمہارا کا م بگڑ جائے گا ، اور اس دوران اگر تمہیں ذرا سی ا ونگھ بھی آئگئی
تو سمجھ لینا کہ سارا معاملہ الٹ جائے گا وغیرہ وغیرہ۔
انسان سوچتا ہے بھئی یہ تو بڑا مشکل کام ہے ،کوئی اور مختصر اور آسان راستہ
ہو ،جس پر چل کر گوہر مقصود پلک جھپکتے حاصل ہو جائے،تو کہیں سے آواز آتی
ہے کہ اگر کسی ولی ء کامل کی نظر عنا ئیت ہو جائے تو یہ مقام جلد از جلد
حاصل ہو سکتا ہے، ۔
اب کسی اﷲ کے ولی کی تلاش شروع ہو جاتی ہے۔کئی ٓنیک بندوں کے پاس جا
کراٹھتے بیٹھتے ہیں ۔ مگر یہ کیا یہ تو ہماری طرح کے لوگ ہیں، کھانا پینا
سونا جاگنا ،شادی بیاہ بال بچے دار یہ کیسے اﷲ کے ولی ہو سکتے ہیں،ان کی تو
اپنی اولاد ان کے کہنے میں نہیں یہ کسی کو کیا راہِ حق بتلائیں گے،جیسے
انبیاء کے زمانے میں بھی لوگ یہی کہہ کر ان کو جھٹلایا کرتے تھے ، کہ یہ تو
ہمارے جیسے انسان ہیں اﷲ کسی فرشتے کو ہماری راہنمائی کے لیے کیوں نہیں
بھیج دیتا،یا خود ہی سامنے کیوں نہیں آجاتا، اس طرح کے خیالات ان کو سیدھے
سادھے اﷲ کے بندوں سے دور رکھتے ہیں۔
ایسے لوگ پھر ان لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو خود تو کنگلے ہوتے ہیں مگر
دوسروں کو رات بھر میں بادشاہ بنانے کے ماہر ہوتے ہیں،اصل اﷲ کے ولی کبھی
ایسا داعوہ نہیں کرتے وہ تو تلاشِ حق میں سرگرداں انسانوں کو سیدھا راستہ
جو لمبا تو ہوتا ہے مگر مشکل نہیں ہوتابتلا دیتے ہیں آگے طالب کی اپنی لگن
اور جذبہ ہوتا ہے اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کلاس میں بہت بچے ایسے بھی
ہوتے ہیں جو سبق کو دل کی گہرایوں میں اتار لیتے ہیں جو کبھی نہیں بھولتا،
اور وہی امتحان میں کامیاب ہوتا ہے جس کو سبق یاد ہوتا ہے۔
جیسے بچے کو پہلے ماں ادب سکھاتی ہے کہ باپ کو کیسے مخاطب کرنا ہے دادا کو
دادی کوغرض کہ ہر طرح کے ادب آداب سکھائے جاتے ہیں اسی طرح ولی اﷲ سب سے
پہلے انسان کے سرکش نفس کو اس کے تکبر کو ختم کرتا ہے، اس کے اندر بیٹھی
’’میں‘‘ کو مارتاہے اس سے ایسے ایسے کام کرواتا ہے جس سے اس کی انا کو تھیس
لگے ، جیسے جھاڑو دینا پانی بھرنا وغیرہ وغیرہ اس امتحان میں جو لوگ خود
پرست ہوتے ہیں وہ، بھاگ جاتے ہیں اور کچھ یہ فیصلہ کر لیتے ہیں، کہ مٹا دے
اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے، کہ دانہ خاک میں مل کر گلُ گلزار ہوتا
ہے۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پیر کے سامنے دوذانو ہو کر یا اس کی قدم بوسی کیوں
کی جاتی ہے وہ اس راز کو نہیں پا سکتے ، کہ ماں کے پاؤں کو بوسہ دینے میں
کتنی راحت ہے جو ابتدائی تعلیم دیتی ہے اور جو راہ ھق پر چلنا سکھاتا ہے اس
کی تعظیم کرنے سے خدا کتنا خوش ہوتا ہے، اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ اگر
کوئی شخص کسی کو کسی کے گھر کا پتہ بتاتا ہے اور ظاہر ہے پتہ وہی بتاتا ہے
جس کی اس گھر والے سے اچھی جان پہچان ہو، پھر جب وہ گھر کا مالک دیکھتا ہے
کہ کس نے اسے میرے گھر کا پتہ بتایا ہے تو وہ پتہ بتانے والے پر بھی اتنا
ہی خوش ہوتا ہے جتنا کہ آنے والے مہمان پر ۔
انسان کی سب سے بڑی دشمن اسکی ـ’’میں‘‘ ہے جب تک یہ دل مین رہتی ہے۔ اس میں
کوئی دوسرا آ ہی نہیں سکتا، شیطان کو اسی ’’میں‘‘ نے راندا درگاہ بنا دیا
تھا ورنہ عبادات میں تو وہ فرشتوں کے مقام پر پہنچ چکا تھا، انسان بھی نماز
پڑھ کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ بس میں نے اﷲ کے حکم کے مطابق وہ کر لیا ہے جس
کے لیے مجھے دنیا میں بھیجا گیا ہے، وہ یہ نہیں سوچتا کہ عبادت ہمیں کیا
سکھاتی ہے ؟ اﷲ تو سامنے نہیں ہے سامنے تو امام ہے یا نمازیوں کے پاؤں ہیں
جن کے پیچھے میں اپنی پیشانی کو زمین پر رگڑ رہا ہوں۔صفیں بنانے اور امام
کے پیچھے نماز پڑھنے کو کیوں فضیلت دی گئی ہے ،امام سے آگے کھڑے ہونے سے
نماز کیوں مقروہع ہو جاتی ہے ۔صفوں میں جگہ خالی نہ رکھننے اور کندھے سے
کندھا ملا کر پڑھنے میں کیا فضیلت ہے ۔ ’’ ایک ہی صف کھڑے ہو گئے محمودُ
ایاز ، نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز ۔یہ سب آداب کیوں سکھائے جاتے
ہیں کیوں کہ بے ادب بے مراد،با ادب بامراد،جس نے اپنی انا کو مار لیا اس کے
لیے منزل آسان ہو گئی۔
بعض عالموں کو کئی دفع کہتے سنا گیا کہ فلاں امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز
نہیں فلاں کی مسجد میں نماز نہیں ہوگی، بندہ پوچھے کہ نماز تو اس امام کی
نہیں یہ تو ٓ اﷲ کے لیے ہے، جو کسی بھی پاک صاف جگہ پر پڑھی جا سکتی ہے۔ا
گر غور کیا جائے تو جو یہ بات کہ رہا ہے اس کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میرے
پیچھے پڑھو گے تو جائز ہے۔ کتنی خود پرستی ہے اُس کے اندرجو دوسروں کو بُرا
کہتا ہے۔جب کسی کو برا کہو گے تو اس سے برا سنو گے پھر سب برا ہی برا ہو گا
جس میں ا چھائی کی کوئی کرن نہیں پھوٹ سکتی۔
اس کے بعد مرحلہ آتا ہے تعلیم کا ،جو ذکرِباری تعالی ہے،اس کو ذاکر کی محنت
اور لگن کی ضرورت ہوتی ہے ، جو اس میں کامیاب ہو جاتا اس کا قلب روشن ہو
جاتا ہے اور جس کا قلب زندہ ہو جاتا ہے وہ اپنی منزل کو پا لیتا ہے ۔ ،جب
یہ منزل مل جائے تو دنیا کی کسی چیز کی خواہش باقی نہیں رہتی ۔ |