ہم لوگوں میں ایک طرف
ایمانداری ،شرافت اور خدمت خلق کا جذبہ ختم ہو چکا ہے تو دوسری طرف برداشت
،درگذر اور صبر کا مادہ بھی ختم ہوچکا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر طیش میں آکر
ہم اپنوں کے ہی گلے کاٹنا شروع کردیتے ہیں گجرات میں انسان نما وحشی درندے
نے پانچویں جماعت کے طالبعلم 10سالہ تبسم کے دونو بازوں کاٹ دیے اور جب اس
واقعہ کی اطلاع خادم اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کو ٹیلی ویژن چینلوں کے
زریعے ہوئی تو وہ اپنے روائتی انداز میں گجرات پہنچ گئے اور پھر وہی ہوا جو
وہ اب تک کرتے رہے ہیں یعنی مظلوم خاندان کی مالی مدد، کچھ وعدے اور پھر
آخر میں وہاں افسران کو معطل کرنا مگر خوش قسمتی سے گجرات کے ڈی پی او رائے
اعجاز احمد کو معطل کرنے کے فوری بعد بحال بھی کردیا شائدخادم اعلی کو کوئی
بات یاد آگئی ہو یا اس بات کا احساس ہوگیا ہو کہ ملزم تو گرفتار ہو چکا ہے
اب کس جرم میں ڈی پی او کو معطل کیا جائے جبکہ کچھ یار دوست یہ بھی کہہ رہے
ہیں کہ رائے اعجاز کو انکے والدرائے ضمیر الحق جو اس وقت ڈی پی او مظفر گڑھ
تعینات ہیں کی خدمات کے باعث معافی ملی بہرحال نوجوان رائے اعجاز ایک اچھے
باپ اور اچھے پولیس آفیسر کی اولاد ہے اور وہ باتوں سے قائل کرنے کے علاوہ
عملی طور پر کام کرنے پر بھی یقین رکھتے کیونکہ انکے والد نے مظفر گڑھ میں
مظلوم افراد کی داد رسی کے لیے پولیس کا نظام بہت حد تک درست کررکھا ہے اور
اب تو مظفر گڑھ میں مدعی کی درخواست پر درج ہونے والی ایف آئی آر خود پولیس
والا موٹر سائیکل پر جاکر اسکے گھر پہنچاتا ہے جو پاکستان میں ایک ناقابل
یقین معلوم ہوتا ہے وہ اس لیے کہ آپ کراچی ،پشاور، لاہور اسلام آباد سمیت
کسی بھی بڑے شہر کے تھانے میں چلے جائیں وہاں پر بغیر کچھ لیے دیے آپ کو
ایک دن میں ایف آئی آر نہیں مل سکتی مگر مظفر گڑھ میں یہ سہولت وہاں کے
شہریوں کو میسر ہے اسی لیے رائے اعجاز بھی اپنے والد کی طرح محنتی ہے اور
خادم اعلی کی انگلی کے اشارے سے معطل ہوتاہوتا رہ گیا۔یہ تو وہ ظلم تھا
جوسب کو نظر آگیا اور پھر کیمرے کی آنکھ نے اسے سرعام کردیاجسکے بعد
شہازشریف صاحب موقعہ پر مہنچ گئے مگر اس کے علاوہ وہ مظالم جو ہماری نظروں
سے پوشیدہ ہے اسکا حساب کون لے گا اور اسکا گناہ کس کے سر جارہا ہے اگر ایک
چوہدری نے معمولی بات پربچے کے دونوں بازو کاٹ دیے تو جو خاتون بیچاری کسی
کے کھیت سے گھاس کاٹ لے تو پھر اسکا کیا حشر کیا جاتا ہوگا اور جو غربت اس
وقت ہمارے دیہات کا مقدر بنی ہوئی ہے اس غربت کے ہاتھوں نہ جانے ایک چوہدری
سے لیکر چوہدری کے کمی تک کیا کیا کھیل کھیل رہے ہونگے اور نہ جانے کب تک
ہماری غربت ہم سے قربانی کا تقاضہ کرتی رہے گی اور ہمارے حکمران ہمیں نام
نہاد ترقی کی تسلیوں سے نوازتے رہیں گے جب تک قوم میں تعلیم کے ساتھ ساتھ
شعور نہ پیدا کیا جائے اس وقت تک یہ سب کچھ مصنوعی سا لگتا ہے کیونکہ آپ
کسی بھی جگہ کوئی اچھا کام کرلیں وہاں پر اسے خراب کرنے والے موجود ہونگے
آپ کسی پبلک مقام پر ایک لیٹرین بنا کر دیکھ لیں اسے استعمال کرنے والے تو
سینکڑوں ہونگے مگر اپنی ہی ڈالی ہوئی گندگی کو صاف کرنے والا کوئی نہیں
ہوگا آپ کسی جگہ عوام کو ٹھنڈے پانی کی سہولت کے لیے کولر لگا دیں وہاں سے
گلاس غائب ہوجائیگا اور بعض اوقات تو اس کولر کی کوئی نہ کوئی چیز غائب ہو
جائیگی آپ مینار پاکستان چلے جائیں وہاں جگہ جگہ لوگ اپنی جہالت کی نشانیاں
اپنے نام کے ساتھ چھوڑ جاتے ہیں جس کے ہاتھ میں جو آیا اس نے اسی کے زریعے
اپنا اور اپنے محبوب کا نام لکھے بغیر جانا نہیں اور تو اور اوپر جاکر
ہمارے آج کے نوجون دوسروں پر تھوکنے سے بھی باز نہیں آتے ہمارے ریلوے
اسٹیشن ،ہماری سیر گاہیں ،ہماری ٹرینیں اور بسیں ان لوگوں سے محفوظ نہیں
ہیں جو اپنا ہنر ان چیزوں پر نہ آزمائیں بازاروں میں اور عام سڑکوں پر بے
ہنگم ٹریفک اور واہیات قسم کی موٹرسائیکل اور گاڑی چلانے والوں نے ہماری
کھوکھلی نمودونمائش کی دھجیاں آڑا کررکھی ہوئی ہیں ہماری پڑھی لکھی
پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہر طرف ایک جیسا ماحول ہے بس فرق صرف اتنا ہے کہ
کسی جگہ انسانیت ننگا ڈانس کررہی ہے تو کسی جگہ خوبصورت لبادہ اوڑھے محو
رقص ہے ۔
کیا ہم یونہی تماشائی بنے یہ کھیل دیکھتے رہیں گے یا کسی دن ہم بھی اس کھیل
کا حصہ بن کر اپنے ضمیر کا سودا کرکے اسے نیلام کردیں گے کیونکہ معاشی
حالات سے تنگ آئے ہوئے انسان جب اپنی عزت نیلام کردیتے ہیں تو پھر دوسروں
کی عزتیں بے معنی اور بے توقیر ہو جاتی ہیں یہی وجہ ہے پاکستان میں جو
عزتوں کے رکھوالے ہوتے ہیں وہی عزتوں کو نیلام کرنے والے بن کر معاشرے کی
دھجیاں آڑا دیتے ہیں اب بھی وقت ہے کہ ہم سنبھل جائیں تعلیم کو اپنا مقدر
بناتے ہوئے شعور کی دولت سے اپنے آپ کو مالا ما ل کرلیں ایک دوسرے کو
برداشت کرنا سیکھیں راستہ روکنے کی بجائے دوسروں کو آگے نکلنے کا راستہ دیں
اسی میں ہماری کامیابی اور بقا ء ہے ورنہ ضمیر تو ہمارے مردہ ہو ہی چکے ہیں
اور اب صرف مٹی کا مٹی پر وزن ہی ہے اور تو کچھ نہیں۔ |