رب کائنات کی جانب سے رمضان
المبارک کے اختتام پر عید اپنے بندوں کیلئے ایک قدرتی تخفہ ہے جس میں
مسلمانوں کو اک فطری خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ در اصل ان نیک اعمال کا
دنیا ہی میں ایک صلہ ہوتا ہے کہ جو مسلمانوں نے ماہ صیام میں سر انجام دئے
ہوتے ہیں۔تاہم حالیہ عید کو عالم اسلام مدتوں یاد رکھے گی۔ مستقبل کا مورخ
جب موجودہ حالات کو قلم بند کریگا تو اسکا حرف حرف عالم اسلام اور عالم
اقوام کے اجتماعی بے حسی پر ماتم کناں ہوگا۔کراچی سمیت ملک کے دیگر کئی
شہروں میں عید کے دنوں میں رونما ہونے والے واقعات میں درجنوں انسان اپنی
زندگیوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ، عید کی حوشیاں انہیں راس نہ آسکیں ، کہیں وہ
اپنی اور کہیں پر اوروں کی غلطیوں کے سبب اس جہاں سے چلے گئے ، ان واقعات
میں سب سے بڑا حادثہ شہر قائد میں رونما ہوا جس کے ثمرات ابھی تک سامنے
آرہے ہیں۔ سانحہ سی ویوپر عید کے پہلے روز سے لیکر تیسرے روز تک ۳۰ کے قریب
افراد اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، کئی ابھی تک لاپتہ ہیں جن کی
تلاش تاحال جاری ہے۔مذکورہ واقعے کے بعدسے شہر میں فضاسوگوار ہے،یوں قدرت
کی جانب سے یہ عید انسانوں کی اپنی غلطیوں کے سبب سوگ میں بدل گئی ہے۔عید
سے ایک روز قبل سمندر کی صورتحال کے پیش نظر شہری انتظامیہ نے سمندر میں
نہانے پر پابندی عائد کر دی تھی تاہم عید کے روز روایات کے مطابق شہریوں کی
ایک بڑی تعداد ساحلی علاقوں میں خوشیاں منانے گئی، انتظامیہ کی جانب سے
سمندر میں نہانے سے روکنے کیلئے کوئی انتظامات نہ ہونے کے سبب شہری آزادانہ
سمندر میں نہاتے رہے اور خونی لہروں کے بھینٹ چڑھتے رہے،سی ویو کو اس وقت
سیل کیا گیا جب انسانی جانوں کا حاصا نقصان ہوچکا تھا اس سمعے انتظامیہ کو
ہوش آیا ، ہیلی کا پٹر بھی منگوایاگیا اور امدامی ٹیمیں بھی حرکت میں
آگئیں، اب تک اس سانحے کی تحقیقات کیلئے اعلی سطحی کمیٹی بھی بن چکی ہیں
اور بھی نجانے کیا کیا اقدامات ہونگے، وہ سارے اقدامات جو ایسے کسی سانحے
کے بعد روایت بن چکے ہیں وہی سب دہرائے جائینگے ، اور چند دنوں کے بعد
معاملہ عین روایات کے مطابق سردخانے میں ڈال دیا جائیگا، جانے والے چلے گئے
انکے لواحقین انکے غم میں سوگ منائیں گے اور ہر سال عید پر اپنے ان پیاروں
کو یاد کر کے قدرت کی جانب سے انعام کو اپنے لئے حرام کر لینگے، انتظامیہ
چند دن چوکس رہے گی پھر وہی ہوگا جو ہوتا آیا ہے،،،،،
حالیہ عید سے قبل شہر قائد کے تاجروں کو فائدہ ہوا، شہر میں جاری آپریشن کے
سبب جرائم پیشہ افراد کو تاجروں سے بھتہ ، زبردستی فطرہ لینے کا موقع نہیں
مل سکا ، اس کے ساتھ ہی شہریوں نے بھی دل کھول کو عید کی خریداری کی ، ایک
محتاط اندازے کے مطابق اس سال کاروباری طبقے کو اربوں کا فائدہ ہوا ہے،اس
کے علاوہ ماہ رمضان میں شہر قائد کا موسم بھی حوب رہا، بجلی کی بندش ، اس
کے تو اب عوام عادی ہو ہی چکے ہیں ، کے الیکٹرک کے دعووں کے باوجود عید کے
تینوں دنوں میں شہر کے متعدد علاقوں میں لوڈشیڈنگ ہوتی رہی، عید ہی کے دنوں
میں اور اب بھی کئی علاقوں میں پانی کا بحران بھی جاری ہے، ان حالات میں
اور اس کے ساتھ ساتھ عالمی سطھ پر جاری مسلمانوں کے خلاف سازشوں کے سبب عید
اپنے نقوش چھوڑگئی ، عالمی غنڈے اسرائیل اور اسکے درپردہ اسلامی اور یہودی
ساہوکارممالک کے منافقانہ کردار کو مورخ کس پیرائے میں لکھے گا، ہم اس وقت
اسکا اندازہ نہیں کر سکتے۔
اسرائیل کی درندگی کا یہ عالم ہے کہ اس نے اب تک ۲۵۰۰ سے زائد مسلمانوں کو
موت کے گھاٹ اتاردیا ہے۔ اس سے دگنی تعداد زخمی ہوچکی ہے ، عمارتوں ،
مسجدوں ، ہسپتالوں ، تعلیمی اداروں کی تباہی کا اندازہ اس وقت ناممکن ہے
،اس کے ساتھ شام و مصر کے مسلمانوں کی حالت بھی انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔
افغانستان ، برما ، عراق، کشمیر و ہندوستان اور افریقہ کے مسلمانوں کے
تذکرے کے بغیر مورخ کی تحریر نامکمل ہوگی۔ مورخ یہ بھی لکھے گا کہ ۵۵ سے
زائد مسلمان ممالک تھے لیکن ان ممالک کے حمکران بے حس تھے، انہی ممالک میں
ایک ملک پاکستان بھی تھا جو کہ اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا ، جس کے
لئے لاکھوں مسلمانوں نے قربانیاں دیں تھیں، جس کا دستور بھی اسلامی تھا
تاہم اس پر عمل نہیں تھا ، اسی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پاس ایک ایٹم بم
بھی تھا لیکن وہ ایٹم بم نہ تو اسرائیل کے خلاف غزہ کے مسلمانوں کے کام
آسکا نہ ہی شام و مصر، نہ ہی کشمیر اور نہ ہی دنیا کے کسی اور خطے کے مظلوم
اور مجبور مسلمانوں کے ، اسی ایٹمی پاکستان کی اپنی ایک بیٹی جسکا نام
ڈاکٹر عافیہ صدیقی تھا جو کہ اپنے ناکردہ گناہوں کی سزاامریکہ میں گذار رہی
تھی وہ پاکستان اس کی رہائی کیلئے بھی کچھ نہیں کرسکا، وہ نجانے انجانے کیا
کیا لکھے گا، وہ یہ بھی لکھے گا کہ عالم اسلام لہو لہو تھا اور اس کے
حکمران اور انکی نمائندہ تنظیم او آئی سی میٹھی نیند میں تھے۔وہ یہ بھی
لکھے گا کہ اپنے ہی وطن میں مہاجرین کی طرح لاکھوں پٹھانوں نے کس طرح عید
منائی، جنکے اپنے علاقوں میں ضرب عضب جاری تھا اور وہ اسکی کامیابی کیلئے
اپنے در سے بدر تھے، انکا حکمران ایسے عالم میں اپنی عوام کو تنہا چھوڑکر
ارض مقدس کے حکمرانوں کا مہمان بنا بیٹھا تھا، اسے کوئی غرض نہیں تھی کہ
غزہ میں کیا ہورہا ہے نہ ہی اس کے اپنے ملک میں کیا ہورہا ہے۔آئی ڈی پیز پر
کیا گذر رہی ہے،کراچی میں کیا ہورہا ہے ، یا دیگر شہرمیں شہریوں کے ساتھ
کیا ہورہاہے۔ فکر ہوبھی کیونکر آخر اسے طویل مدت کے بعد حکومت ملی تھی اور
ابھی تو ایک سال ہی ہواہے لہذا مسئلے بھی حل کر لینگے، ابھی تو چار سال
باقی ہیں۔بہر حال مسلمانوں اور انکے حکمرانوں کی حالت دیکھ دیکھ کر دل خون
کے آنسو روتا ہے، اک شدید بے بسی کا سا احساس ہوتا ہے ، یہ جذبات ہر اس ذی
شعور کے ہوتے ہیں جو کہ احساس کے جذبے سے سرشار ہوتاہے، اسرائیل کا دوبدو
مقابلہ نہ سہی لیکن جہاں تک مقابلہ کر سکتے ہیں وہ تو کیا جاسکتا ہے ن؟؟؟
کیونکر ان تمام مصنوعات کا بائیکاٹ نہیں کیا جاتا جو اسرئیل کی ہیں، موجودہ
دور میں جنگ ہر ہر محاذ پر ہوگی، وہ میڈیا کے اندر بھی ہوگی اور تعلیم کے
اندر بھی ، وہ ثقافت کے اندر بھی ہوگی اور مذہب کے اندر بھی، ہر شعبہ زندگی
کے اندر حق و باطل کی جنگ جاری رہیگی، کامیابی ایسے عالم میں انہیں ملے گی
جو جنگی منصبوں کو سمجھ کر اقدامات کرینگے۔ اس کام کیلئے امت مسلمہ کئے
اکابرین کو اپنا کردار اداکرنا ہوگا مگر افسوس کا مقام یہاں بھی ہے کہ اس
وقت امت مسلمہ میں کوئی قیادت نہیں ہے ، سعودی عرب جسے عالم اسلام میں
مرکزی حیثیت حاصل ہے مکہ، مدینہ جیسے شہروں کی وجہ سے مسلمان عالم سعودی
عرب کا بصد احترام کرتے ہیں اس کے باوجود سعودی عرب کے حکمرانوں کا کردار
سب کے سامنے ہے،انکے کردار کی اک چھوٹی سی جھلک مکہ ، مدینہ میں طویل
القامت عمارتوں کو دیکھ کر کی جاسکتی ہے،پاکستان سمیت دینا بھر کے مسلمانوں
کو اپنی حالت بدلنے کیلئے اپنا جائزہ لینا ہوگا، اپنے کردار کو
بدلناہوگا،اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرنا ہوگا، اتحاد اور اتفاق پیدا کرتے
ہوئے اسرائیل اور انکے دیگر ساتھی ممالک کا مقابلہ کرنا ہوگا، یہ سب کچھ
اگر نہ کیا گیا تو آنے والے حالات مسلمانوں کیلئے شاید اس سے بد تر ثابت
ہوں گے،اور پھر کہیں ایسا نہ ہو کہ نام
تک نہ ہوگا داستانوں میں۔۔۔۔۔۔ |