ایک تقریر
نحمدُہ و نصلی علیٰ رسولہِ الکریم عما بعد:
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون
صدر مجلس اور اس بزم کو رعنائی و رخشندگی بخشنے والے ہمسفرو! سائنس آئی
بہاریں لائی۔ کچھ شک نہیں۔ سو فیصد درست بات ہے۔ کیونکہ جس طرف دیکھو
سائنسی کرشموں کے تحیر خیز نظارے انسان کی آنکھوں کو خیرہ کرتے ہوئے نظر
آتے ہیں۔ صدیوں کے فاصلے سمٹ کر لمحوں کی دسترس میں آگئے ہیں۔ اب دنیا ایک
عالمی گاؤں کا منظر پیش کر رہی ہے۔ اگر ایک واقعہ دنیا کے ایک کونے میں
وقوع پزیر ہوتا ہے تو دوسرے لمحے اس کی خبر دنیا کے دوسرے کونے میں پہنچ
جاتی ہے۔ موبائل ہی کو لیجئے! جس نے دنیا کے رہن سہن اور برتاؤ کے رویے ہی
بدل ڈالے ہیں۔ گدھا گاڑی والا اپنے کانوں سے موبائل چپکائے اپنی دھن میں
مست گدھا گاڑی ہانک رہا ہے۔ گلی کی نکر پر بیٹھے نوجوانوں کا ٹولہ موسیقی
سے بذریعہ موبائل لطف اندوز ہو رہا ہے۔ ایک دوسرا گروہ موبائل کے ذریعے
تلاوتِ کلامِ پاک سے اپنے سینوں سے منور کر رہا ہے۔ الغرض جدھر دیکھو لوگوں
نے اس ایجاد کو حرزِ جاں بنایا ہوا ہے۔ دوسری طرف انٹرنیٹ نے دنیا جہان کی
معلومات کو انسان کے قدموں میں ڈھیر کر رکھا ہے۔ لوگ اپنی ضرورت اور مزاج
کے مطابق اس ذریعے سے اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ شعرو ادب، سائنس و ٹیکنالوجی،
فن و موسیقی تمام علوم و فنون کا ایک بحرِ بے کراں ہے جس نے معلومات کے ایک
سیلِ رواں کی صورت اختیار کر لی ہے۔
شمسی توانائی جیسی مفت ملنے والی دولت کو انسان نے مسخر کر کے اپنے دماغ
میں چھپی ہوئی قوتوں کو باہر نکالا ہے اور انسانیت کی خدمت میں کوئی کسر
نہیں چھوڑی۔ اب شمسی توانائی سے چلنے والے پینل بجلی گھروں کی جگہ لے رہے
ہیں۔ ایٹم کے سینے کو چیر کر انسان نے توانائی کا ایک ایسا بحرِ بے کراں
دریافت کیا جس نے ایجادات کے میدانوں میں ایک ایسی ایجاد کا باب وا کیا جس
نے تہذیبوں کو اندھیر نگری میں بھی تبدیل کر دیا اور اندھیرے میں ڈوبی
قوموں کو روشنی کے ایسے مینار عطا کیے جو ان کی عظمت کی علامت بنے ہوئے ہیں۔
لیزر اور بصری ریشوں یعنی آپٹیکل فائبر کی ایجاد نے پیغامات کی ترسیل کا
کام اتنا سریع اور تیز رفتار بنا دیا کہ اب انسان یہ کہنے پر مجبور ہو گیا
کہ " محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی"صدرِ مجلس! سائنس کی ان
بہاروں کا تذکرہ تو ایک لامحدود وقت کا متقاضی ہے۔ گھر سے دفتر تک اور دفتر
سے بازار تک ہر مقام سائنسی بہاروں کا جلوہ پیش کرتا ہوا ہی نظر آتا ہے۔
لیکن میں آپ کی توجہ ایک ایسے نکتے کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں جو ان
ظاہری بہاروں کے گلشنِ رنگین سے بہت آگے ہے۔ ایک ایسی بہار جس میں کھلے
ہوئے پھول مرجھاتے نہیں ہیں۔ جس کی رعنائی اور حسن کبھی ماند نہیں پڑتا۔ وہ
بہارِ پر بہار جس میں گلوں پر آیا ہوا نکھار گلشنِ اقوام کو خلدِ بریں کے
ہم پلہ کر دیتا ہے۔
اے اہالیانِ وطن میں آپ کے دماغ کے خلیوں کو ذرا حرکت میں لانا چاہتا ہوں۔
ان پر ایک صدی سے جما ہوا زنگ اتار کر انہیں فعال بنانا چاہتا ہوں۔ سائنس
کی یہ بہاریں جن پر ہم خوشیوں کے شادیانے اور بغلیں بجا رہے ہیں ان سب کی
پیدائش میں ہمارا کتنا کردار ہے؟ دورِ حاضر کی کتنی سائنسی ایجادات کا سہرا
ہمارے مسلمانوں کے سر ہے؟ چپ کیوں لگ گئی؟ خوشیوں کے شادیانے ایک گہری اور
شرمناک خاموشی کا روپ کیوں دھار گئے؟ ابھی ابھی جو منظرِ بہار تھا خزاں کے
پر اسرار سناٹے میں کیوں تبدیل ہوگیا؟ مجھ پر اور آپ سب پر" سائنس آئی
بہاریں لائی" کی خوشیاں منانا حرام ٹھہرتا ہے جب تک اس سوال کا جواب نہیں
دیا جاتا۔ جواب سننا چاہتے ہو تو سُن لو! ظاہری کانوں سے مت سننا، دل کے
کانوں سے سنو! جب تک ہمارے نظامِ تعلیم پر سامراجی طاقتوں کا قبضہ رہے گا،
تحقیق و تخلیق کے سوتے خشک رہیں گے۔ ہمارا نصاب سائنس دان پیدا کرنے کی
بجائے رٹو طوطے پیدا کرتا رہے گا۔ ایجادات و اختراعات کے دروازے ہم پر بند
ہی رہیں گے۔ علوم و فنون کے فہم سے ہماری قوم عاری ہی رہے گی۔ آج بھی یہی
کچھ ہو رہا ہے۔ ہمارا نظامِ تعلیم سامراج کے پر کشش پیکجوں کے عوض فروخت
کیا جا رہا ہے۔ مجھے اپنے وطن کو میر جعفروں اور میر صادقوں سے پاک کرنا ہے
جن کی وجہ سے جدید علوم و فنون کے دروازے ہم پر بند ہوئے ہیں۔ اپنے نصاب
اور نظامِ تعلیم کو اپنی تہذیب، ثقافت اور قومی زبان کی مرکزیت میں تیار
کرنا ہے اور عملی طور پر اپنے تعلیمی اداروں میں نافذ العمل کرنا ہے۔ جو کہ
سامراجی امداد کی وجہ سے الٹ سمت اختیار کیے ہوئے ہے۔ اپنی لائبریریاں اپنی
قومی زبان میں لکھی ہوئی کتابوں سے بھرنا ہے۔ ہر چیز کو خود بنانے کا آغاز
کرنا ہے۔ ماہرین کو ہنگامی اور جہادی بنیادوں پر جدید علوم و فنون کے دوسری
زبانوں سے ترجموں کے کام پر لگانا ہے۔ نئے نئے سافٹ وئیر بنانے کی پالیسی
پر عملدرآمد کرانا ہے۔ علوم و فنون کی یتامت کا داغ دھو کر خود کفالت کی
منزل تک پہنچنا ہے۔ پھر ہم " سائنس آئی بہاریں لائی" کے خواب کو شرمندہ
تعبیر کرنے کے قابل ہوں گے۔ پھر کیا ہوگا؟ بقول مظفر وارثی
جب اپنا قافلہ عزم و یقیں سے نکلے گا
جہاں سے چاہیں گے رستہ وہیں سے نکلے گا
وطن کی ریت ذرا ایڑھیاں رگڑنے دے
مجھے یقیں ہے کہ پانی یہیں سے نکلے گا |