تیوہار کسی بھی مذہب کے ہوں خوشی ومسرت کا استعارہ سمجھے
جاتے ہیں۔ ان سے لوگوں کے مذہبی جذبات اور روایتی جنون وابستہ ہوتا ہے۔
اپنے اپنے مذاہب کو ماننے والے لوگ الگ الگ زاویے سے اور مختلف نقطہائے نظر
سے اپنے مذہبی تیوہاروں کا جشن مناتے ہیں۔ ان تیوہاروں کے سرسری جائزے سے
ہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ محض وقتی اور عارضی مسرتیں ہوتی ہیں اور پھریہ
ساری خوشیاں وقت کی دھول میں دب کر رہ جاتی ہیں ۔ان کے یہاں ان تیوہاروں کے
پیچھے کوئی حکمت اور کوئی مقصد نظر نہیں آتا بس آبا واجداد کی ایک روایت چل
آرہی ہے اسی پر چلنا فخر سمجھتے ہیں ۔لیکن اسلام اس تناظر میں کئی معنوں
میں مختلف ہے اس کے تیوہاروں میں بے شمار حکمتیں ومصالح پوشیدہ ہوتے ہیں
جوپورے سماج پرمثبت طورپراثراندازہوتے ہیں۔ عید الفطر میں ذرا آپ غور کریں
تو حکمتوں کا ختم نہ ہونے والا ایک طویل سلسلہ نظر آتا ہے اور یہ پورا
سلسلہ معاشرے کے امن وامان، سماج کی خوش حالی، فرد اور معاشرے کی ترقی،
اظہارِ یک جہتی، ہمدرد ی وغم گساری، سکون واطمینان کی بحالی اور ملت وملک
کی ترقیوں پر جاکر منتج ہوتا ہے۔ عید الفطر صر ف وقتی طورپرخوشی منالینے
،سوئیں کھالینے اورآپس میں ایک دوسرے کومبارک باددینے کا نام نہیں ہے بلکہ
اس کامقصداس سے کہیں زیادہ بلندہے ۔یہ ایک مکمل نظام ہے، ایک فلسفہ ہے اور
ایک عظیم نشانِ صلاح وفلاح ہے۔ یہ کوئی دوسرے مذاہب کے تیوہاروں کی طرح
نہیں کہ بس خوشیاں منالیں ،رسمی طور پر گلے مل لیے، مٹھائیاں کھالیں ،رقص
وسرودکی محفلیں آراستہ کرلیں یا تحفتاً ایک دوسرے کو دے دیں کہ یہ رواج
عرصے سے خاندان میں چلا آرہا ہے۔
عید الفطر حقیقی مسرتوں کا دن ہے اور مسرت اسی وقت حقیقی معنی میں مسرت
ہوتی ہے جب گھر کے سارے افراد، سارے اہل خاندان، اہل محلہ اور اہل بستی
مسرت وشادمانی کے آبشار میں نہا رہے ہوں۔ ایسا نہ ہوکہ خاندان میں ایک آدمی
یا ایک فیملی تو خوشیوں سے سرشار ہے اس کے بچے تومسرتوں کی خوشبو میں بسے
ہوں مگر دوسری فیملی کسی وجہ سے ان خوشیوں سے محروم رہے۔اس کی مادی آسائشیں
ا سے اس بات کی اجازت نہ دیں کہ وہ عیدکے دن جی بھرکرخوش ہولے
اوراپنادردوملال کچھ کم کرسکے۔ عیدالفطر کا اورمسرتوں کایہ تقاضانہیں ہے کہ
آپ کا بچہ توعید کے دن نئے نئے کپڑے پہنے اپنے دوستوں کے جھرمٹ میں خوشیوں
کے نعرے لگاتا پھرے مگر آپ کے پڑوسی کا بچہ یہ سب دیکھ کر آب دیدہ ہوجائے،
اس کو کوئی عیدی دینے والا نہ ہو، اس کے سر پرکوئی دستِ شفقت رکھنے والا نہ
ہواوراس کوپیارسے کوئی چمکارنے والانہ ہو۔ اگر ایسا ہے تو یقین جانیے کہ آپ
نے عید الفطر کے حقیقی پیغام کو سمجھا ہے اور نہ آپ کے اندر ہمدردی وغم
گساری کا جذبہ ہے۔آپ اپنے اردگردماحول کاجائزہ لیجیے تواس افسوس ناک صورت
حال کی چبھن آپ ضرورمحسوس کریں کہ اکثرمسلمانوں نے شعوری یاغیرشعوری طورپر
عید الفطر کوصرف مالداروں کا تیوہار بنادیاہے حالانکہ اگرآپ اسلام کے پورے
سسٹم پرنظرکریں اورعیدالفطرکے پس منظراوراس کے بین السطورمیں چھپے ہوئے
پیغامات کوبنظرغائرجائزہ لیں تویہ نتیجہ اخذکرنے میں قطعاً دیرنہیں لگے گی
کہ یہ امیروں،مالداروں اورشاہزادوں سے کہیں زیادہ غریبوں اورمفلسوں
کاتیوہارہے ۔اس پر صرف امیروں اور رئیس زادوں کو حق جتانے کا حق نہیں ہے
بلکہ غریب زادے بھی اس میں برابر کے شریک ہیں ۔کسی کویہ حق نہیں پہنچتاکہ
وہ ان غریبوں اورمفلسوں کے حق میں سیندھ لگائے مگرافسوس ہم اپنے طرزِ عمل
سے اس بات کااشارہ دیتے ہیں کہ اس پرغریبوں کااتناحق نہیں ہے جتناامیروں
اورامیرزادوں کاہے ۔
ہم دیکھتے ہیں اس دن خوشیوں اور اسبابِ مسرت میں دونوں قسم کے لوگوں کے
درمیان تو ازن نظر نہیں آتا اگرایک طرف پیسے والے کے گھرمیں مسرتیں نغمے
گارہی ہوتی ہیں اورخوشیوں کی بلبلیں چہک رہی ہوتی ہیں تودوسری طرف دوہی قدم
کے فاصلے پرکسی مفلس کی دہلیز پرغربت منھ چھپائے کھڑی ہوتی ہے اوراپنی بے
کسی پرآنسوبہارہی ہوتی ہے۔ یہ تو اﷲ عزوجل کا بے پایاں احسان ہے کہ اس نے
ایک تو عید الفطر جیسا تیوہار ہمیں عطا فرمایا اور دوسرے یہ کہ خوشیوں کے
درمیان توازن برقرار رکھنے کے لیے امیروں کو صدقۂ فطر نکالنے کا حکم دیا۔
اگر صدقۂ فطر ادا کرنے کا حکم نہ ہوتا تو ممکن تھا کہ غریبوں اورافلاس کے
ماروں کے یہاں خوشیوں کے دیپ نہ جلتے اوران کووہ سرشاری میسر نہ آتی
جوتیوہاروں اورخوشیوں کے موقع پرانسانی طبائع کاخاصہ ہواکرتی ہے گویا اﷲ نے
اگرامیروں کوایک خوشی سے نوازاہے توغریبوں کودوہری خوشی سے سرفرازفرمایاہے
۔امیروں کوتوصرف عیدالفطرکی مسرت مگرغریبوں کوایک تو عید الفطر کی خوشی اور
دوسری صدقۂ فطر کی خوشی۔ اﷲ تعالیٰ نے یہ حکم اتنی شدت کے ساتھ دیا ہے کہ
فرمایا گیا جس نے صدقۂ فطر ادا نہیں کیاتو اس کے روزے زمین وآسمان کے
درمیان معلق رہتے ہیں۔ اب صاحب نصاب مسلمان نہ چاہتے ہوئے بھی صدقۂ فطر
ضرور ادا کرتا ہے کہ وہ اپنے روزوں کو ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ اس سے جہاں
دیگر فوائد حاصل ہوتے ہیں وہاں غریبوں کی خوشیوں کا بھی سامان ہوجاتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ شریعت کاحکم یہ بھی ہے کہ صدقۂ فطر عید کی نماز سے پہلے
پہلے ادا کردو۔اس کے پیچھے غالباًحکمت یہ رکھی گئی ہے کہ مستحقین تک یہ رقم
جلد سے جلد پہنچ سکے اووہ عیدکی نمازسے پہلے ہی اپنی اوراپنے بچوں کی
خوشیوں کے سارے سامان جمع کرسکیں۔یہاں پرذراسوچیے اگرصدقۂ فطرنمازکے بعدمیں
اداکرنے کاحکم ہوتاتوظاہرہے کہ ہرشخص بعدہی میں اداکرتانتیجتاًمستحقین
کوبعدہی میں ملتاتوان کے چہروں پرملال کے آثارضرورابھرآتے لہٰذااﷲ عزوجل نے
اتنابھی گوارانہیں فرمایاکہ ان کی خوشیوں میں کسی طرح کی کوئی تاخیرہوجس کی
وجہ سے ان کے دل میں اضطرابی کیفیات پیداہوں بلکہ ان کوطلوع صبح سے ہی
خوشیوں میں شریک فرمادیا۔ آپ اس سلسلے سے سلسلہ ملاتے جائیے اورخداکی قدرت
اوراس کے فضل وکرم پرسجدۂ شکرکرتے جائیے۔ ان سارے پیغامات سے یہ واضح ہوتا
ہے کہ عید الفطر کے دن جتنے بھی احکام اور مذہبی روایات انجام دی جاتی ہیں
وہ کسی نہ کسی بڑے مقصد کے حصول کے لیے ہی ہوتی ہیں حکم بظاہر تو چھوٹا
معلوم ہوتاہے لیکن اس کے نتائج انتہائی بڑے اوردوررس ہوتے ہیں۔
ہمارے رویوں اور عید الفطر کے دن کی ہماری سرگرمیوں سے یہ اندازہ لگانا
مشکل نہیں ہے کہ ہم نے عید الفطر کے حقیقی پیغام کو سمجھا ہی نہیں ہے بلکہ
محض دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی طرح اس کو بھی لہو ولعب کا نمونہ بنا
لیا ہے یا محض ایک کھلونے کی طرح سمجھ لیاہے کہ جس سے دن بھرکھیلاجاتا ہے
اوراس کھیل میں خوشی ومسرت کے قہقہے چاروں طرف گونجتے سنائی دیتے ہیں۔اگر
ایسا ہے تو ہم میں اور دیگر مذاہب کے معتقدین میں فرق کیا ہے؟ہم مسلمان ہیں
توہم میں اوران میں کچھ فرق توہوناہی چاہیے؟یادرکھیے ہمارے اسلامی تیوہار
صرف کھیل کود اور ہلڑ بازی کا نام نہیں ہیں بلکہ یہ پورے کے پورے سماج کی
صلاح وفلاح کے لیے ہوتے ہیں اوراس سے فرداورمعاشرے کی اصلاح مقصودہوتی ہے ۔
کیا ہم ان مقاصد اورحقائق سے آشنا ہوں گے؟
قصہ مختصر ہمیں عیدالفطر کی روحانی مسرتیں اسی وقت حاصل ہوں گی جب ہمارے
اندر یہ احساس جاگزیں ہوجائے گاکہ اس مبارک ومسعوددن کے موقع پرکون سے کام
اﷲ عزوجل کو پسندہیں اور کون سے ناپسند ہیں۔ یہ مسلمانوں کو بتانے کی ضرورت
نہیں ہے کہ اﷲ کے مطالبات کیاہیں مگر مسلمان جان کر بھی انجان بننے کی کو
شش کرتے ہیں اور سماج میں پھیلے ہوئے اخلاق بحران میں مزید اضافہ کردیتے
ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں عید کی روحانی مسرتوں سے سرفراز فرمائے اور اس کی
برکتوں، سعادتوں، رحمتوں، فضیلتوں سے خوب خوب فیضیاب فرمائے۔ |