کیا ہی اچھا ہوتا مجھ میں احساس نہیں ہوتا میں سب کچھ
اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوتا۔لیکن محسوس نہیں کر پاتا۔ نہ ہی میں دنیا کے
درد کو سمجھتا اور نہ ہی الجھہنوں کا شکار ہوتا۔ دن بدن الجھنوں سے بھر پور
زندگی۔ اﷲ تعالیٰ سے بھی کبھی یہی دعا کرتا ہوں کہ اے اﷲ میرے اندر بھی یہ
احساسات نہ پیدا کرتے کہ میں کسی کو کس حال میں دیکھوں تو میرا کیا جائے وہ
جانے اسکا کام جانے۔ چاہے درد سے گھٹ گھٹ کر کیوں نہ مرے آخر وہ میرا لگتا
کیا۔ نہ جانے میں ہوں کہ کن خیالات کی دنیا میں بسا ہوں۔ کوشش کرتا ہوں پر
کر نہیں پاتا۔ دوسری طرف بے حسی کے مناظر بھی مجھے بے حد تکلیف پہنچاتے ہیں
کہ کسی کے پاس کسی کا درد دور کرنے کے لئے ذریعہ موجود ہے لیکن بے حسی کی
تصویر بنے ہوئے ہیں۔ بلکہ یہی نہیں زیادہ تر ہم یہی سمجھتے ہیں کہ دوسرے کو
چاہے جتنا نقصان ہو لیکن میں فائدے میں رہوں۔
عجیب دور آگیا آج ہمارے احساسات جواب دے گئے ہیں آج ہم انفرادی زندگی
گزارنے پر مجبور ہو گئے نہ ہم میں انسانیت رہی نہ ہی ہم دکھ درد بانٹنے
والے بن گئے۔ بس نام کے انسان ہو گئے۔ پچھلے زمانے میں اگر کوئی ناحق کسی
جانور کو بھی مارتا تو سب لوگ اسکی شدید مذمت کرتے اور افسوس کرتے اور
مارنے والے کو سزا دے دیتے تھے لیکن اب کے زمانے میں نہ جانے کتنے لوگ
نامعلوم افراد کی گولی کا نشانہ بن جاتے ہیں نہ جانے کتنے کتنے بم دھماکوں
کی نظر ہو جاتے ہیں ہمیں نہ اب افسوس ہونے لگتا ہے نہ ہی اس پر ماتم مناتے
ہیں۔ اگر کوئی شخص مارا جاتا ہے یا بڑے سانحے میں بہت سے لوگ مر جاتے ہیں
تو سب سے پہلے پریشانی اس بات پر ہوتی ہے کہ کہیں میرا کوئی رشتہ دار اسکی
زد میں تو نہیں آیا ہے لیکن جب تسلی کرتے ہیں تو سکھ کا سانس لیتے ہیں اور
پھر افسوس کا اظہار بھی نہیں کرتے اسلئے کہ اس سے ہمارا کوئی خونی رشتہ تو
نہیں تھا۔
جوں جوں وقت گزرتا چلا جا رہا ہے۔ ہمارے دل انتہائی سخت ہو رہے ہیں۔ ہمارے
بڑے عرض کرتے ہیں کہ پچھلے زمانے میں اگر ہم اپنے دور کے رشتہ داروں کی خبر
گیری کرنے انکے گھر نہیں جاتے انہیں سکھ اور چین نصیب نہیں ہوتا تھا۔ چاہے
کیوں ان تک پہنچنے کے لئے انہیں کئی میل پیدل مسافت کرنا نہ پڑتا۔ اور وہ
فرماتے ہیں کہ وہ جب انکے گھر جاتے تو ان گھر والوں کو اتنی خوشی ہوتی کہ
وہ پھولے نہ سماتے اور مہمان کے ساتھ طویل دورنئے تک وقت گزارتے اور قہقہوں
اور ہنسیوں کی گونج سے انکی محبت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا تھا۔ لیکن
اس دور کا انسان جتنا ترقی کرچکا ہے اتنی ہی محبت کم ہو چکی ہے بلکہ ختم ہو
چکی ہے۔ اگر رشتے ناتے برقرار ہیں تو statusکے مطابق ورنہ غریب چاہے وہ
خونی رشتہ کیوں نہ ہو سے رشتہ رکھنا گوارانہیں ہوتا۔ بس وقت گزرجانے کے
ساتھ ساتھ محبت اور قربتوں میں دوری سی آگئی ہے۔ حالانکہ پچھلے دور میں لوگ
میلوں پیدل سفر کرکے اپنے رشتہ داروں کی حال پرسی کے لئے جاتے تھے لیکن
موجودہ دور نئی کمیونیکیشن اور سہولیات ان قربتوں کو نزدیک لانے کے بجائے
دور کر دیا ہے۔اب ہمیں اتنی فرصت بھی نہیں ملتی کہ اپنے پیاروں کا حال پوچھ
لیا کریں حالانکہ آج کل موبائل کمپنیوں نے ان دوریوں کو نزدیک لانے میں مفت
کال پیکجز سروس متعارف کروائے ہیں مگر ہمارے دلوں میں دوری کو ختم نہیں کر
سکے ہیں۔ اسکی بنیادی وجہ مال و دولت پانے کی تمنا اتنی ہم میں بڑھ چکی ہے
کہ رشتوں کی قدر ختم ہو چکی ہے چاہے ہم سسالہا سال ایک دوسرے کو نہ دیکھیں
تو ہمیں ذرہ بھر فرق نہیں پڑتا۔ اگرکسی رشتہ دار کا کوئی فون کال آجائے تو
ہم سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسے کوئی کام پڑ جائے اور
میرا قیمتی وقت ضائع نہ ہو جائے یہی سوچتے سوچتے کال مس کال بن جاتی ہے۔
یہی زندگی کے نئے اصولوں نے ہمیں زندگی کے اصل حقائق سے دور کر دیا ہے۔ ایک
دفعہ ہم فیلڈ کے کام سے فارغ ہو کر واپس گھر کی طرف آرہے تھے تو دیکھا کہ
ایک بوڑھا بابا پیدل اسی راستے کو لئے جا رہے تھے تو میں نے ڈرائیور سے کہا
کہ بابا کو پک کریں تاکہ اسکا سفر کچھ کم ہو جائے۔ بابا جی کہاں گئے تھے
اور کہاں جا رہے ہو۔ تو بابا نے تفصیل کچھ یوں بتائی کہ انکا علاقہ
100کلومیٹر دور ہے وہ اپنے علاقے سے اپنے رشتہ داروں کی خیریت دریافت کرنے
رشتہ داروں کے ہاں گئے ہیں۔ اور واپس پیدل سفر کر رہے ہیں تو مجھے بڑی
حیرانگی ہوئی کہ اتناپیدل دور سفر رکرکے اپنے رشتہ داروں کی خیریت دریافت
کرنے۔ تو بابا جی لوگ کیسے تھے۔ بابا جی مسکراتے ہوئے بولے اچھے تھے۔ میں
نے مزید پوچھا کہ بابا جی آج کل رشتوں کی قدر کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں تو
بابا جی نے ایک لمبی سانس لیتے ہوئے کہا کہ آج کل رشتے اور رشتہ داریاں بس
نام کے رہ گئے ہیں نہ ان میں وہ محبت رہی اور نہ وہ چاہت۔ مجھے بابا جی کی
باتوں میں بہت حقیقت نظر آیا۔ویسے بھی اگر موجودہ دور میں دیکھا جائے تو
خون کے رشتوں سے اچھے اور سچے وہ رشتے احساسات کے ہوتے ہیں جن سے انسان کو
اپنائیت تو ملتی ہے۔
بس ان دورویوں کی وجہ ہماری انفرادی ترجیحات بن چکے ہیں اور مال و دولت
کمانے کے چکر میں ہم بہت سی چیزیں کھو رہے ہیں۔ انسانیت اور انسیت ہم سے
دور جا چکی ہے ۔ اگر ایک ڈاکٹر کو دیکھیں تو وہ مریض کو اپنا گاہک سمجھ کر
اسے لوٹتا ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتا کہ مریض کس کنڈیشن میں ہے اس سے کس قدر
ہمدردی کی ضرورت ہے بلکہ یہ کہ مریض چاہے مرجائے لیکن اسے اسکی فیس بہت
پیارا ہو تا ہے۔کیونکہ ہمارے احساسات بالکل مرجھا جا چکے ہیں۔ اگر ایک ٹیچر
ہے تو اسکی خواہش ہوتی ہے کہ ڈیوٹی دیئے بغیر اپنی ماہانہ تنخواہ حاصل کرے۔
چاہے بچوں کی زندگی داؤ پر کیوں نہ لگے۔ ایک وکیل کی چاہت یہی ہوتی ہے کہ
اپنے مؤکل کو جیت دلائے چاہے مؤکل ایک قاتل کیوں نہ ہو۔ کیوں کہ اسے غرض ہے
اپنے پیسوں کی نہ کہ کسی انسان کو انصاف کے کٹھہرے تک پہنچانے کی۔ میں اپنے
معاشرے کو دیکھ دیکھ کر کس کس چیز کو رولوں۔ ایک دکاندار کی منافع خوری،
ججوں کی ناانصافی ، پولیس کی بھتہ خوری، اداروں کی پامالی پر، کرپشن کی
روانی پر، ظالم کی مظالم پر۔۔۔ نہ جانے کس کس چیز پر افسوس کروں ۔۔ بس یہی
سوچتا ہو ں کہ کیا ہی اچھا ہوتا میں بھی ایک بے حس انسان ہوتا جو سب کچھ
اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوتا اور کچھ محسوس نہیں کر پاتا۔ |