راقم نے 6 ماہ پہلے بذریعہ قلم لب کشائی کا سلسلہ شروع
کرتے ہوئے نوجوانوں کو مخاطب کرکے اپنی اور اپنے نوجوان دوستوں کی اصلاح
کرنے کی حقیر سی کوشش کا آغاز کیا تھا۔راقم اس سلسلے کے 3عدد مضمون اپنے
نوجوان دوستوں کے گوش گزار چکاہے ۔آ ج اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے میری
چوتھی کوشش آ پ کی خدمت میں حاضر ہے ۔پیغام تو میں نوجوان دوستوں کو ہی
دینا چاہتا ہوں لیکن بڑتی ہوئی دہشتگردی نے آپ کی طرح مجھے بھی پریشان
کررکھا ہے ۔ایک مسلمان ہونے کی حیثیت میں اس وقت اور زیادہ پریشان ہوتا ہوں
جب دہشتگردی کے ہر واقع کو مسلمانوں کی کارروائی قرار دے دیاجاتاہے ۔سب سے
پہلے تو میں یہ بتاتا چلوں کہ میری نظرمیں دہشتگرد کا کوئی مزہب نہیں
ہوتاوہ صرف دہشتگرد ہوتا ہے۔دنیا کی نظرمیں شائد مسلمان ہونے کی علامت
طالبان بن گئے ہیں لیکن حقیقت یہ نہیں ہے سارے طالبان مسلمان نہیں ہیں ۔جولوگ
دہشتگردی کرتے ہیں ،ے گناہ انسانوں کا خون بہاتے ہیں اور اپنے آپ مسلمان
بھی کہتے ہیں اور طالبان وہ طالبان تو ہوسکتے ہیں لیکن مسلمان نہیں کیونکہ
مسلمان کبھی بے گناہ ،نہتوں ،بچوں ،عورتوں اور بوڑھوں پر وار نہیں کرتے ۔میں
ایسے تمام لوگوں اور ان کی کارروائیوں کی مذمت کرتا ہوں جواپنی مرضی کا
اسلام نافذ کرنے کی بات کرتے ہیں اور ان لوگوں کو سلام پیش کرتا ہوں جو اﷲ
تعالیٰ کے عطا کردہ اسلام کو نافذ کرنا چاہتے ہیں چاہے وہ طالبان ہوں یا
کوئی اور۔انتہاپسندی کوئی مذہب نہیں بلکہ ایک گندی سوچ کا نام ہے۔جس کی وجہ
سے آج دنیاکے حالات خاصے گھمگیر ہیں مگر مایوسی کی کوئی بات نہیں منظم
معاشروں کو نامساعد حالات سے گزارنا پڑتا ہے اور وہ راہ عمل میں
Confessionکا شکار بھی ہوجاتے ہیں ہیں ۔ زرا یاد کریں کہ دوسری جنگ عظیم کے
دوران فرانس میں رائے عامہ کس طرح منقسم تھی اس کی وجہ سے جرمن افواج غالب
آگئیں اس کی وجہ یہ تھی کہ جرمن حملے سے پہلے ہی فرانس سوچ افراتفری کا
شکار تھی کہ ہٹلر سے نمٹنے کا کیا طریقہ اختیار کیا جائے اُن کے ہاں بھی "عمران
خان تھے اور وہ ہٹلر کے ساتھ بات چیت کرکے کوئی حل نکالنا چاہتے تھے مگر
جلد ہی جر من فورسز نے ان کی غلط فہمی دور کردی (ہماری پتہ نہیں کب ہوگی )
مسٹرچرچل کا شروع سے یہ کہنا تھا کہ ہٹلر کے ساتھ بات چیت نہیں ہوسکتی
کیونکہ وہ اس کے مقاصد کا مذکراتی حل ممکن ہی نہیں ہے تاریخ نے ثابت کیا کہ
چرچل ٹھیک کہتے تھے ہٹلر نے اقتدار سبھالنے سے پہلے ہی اپنے نظریات کا
اظہار Mein Kampfمیں کردیا تھا ہمارے ہاں طالبان کے بارے میں غلط فہمی دور
ہونے کے لیے مزید کتنا خون بہنا باقی ہے ؟یہ بات ہمیں کب سمجھ آئے گی کہ
اُن کے نظریات پاکستانی معاشرے کے لیے قابل قبول نہیں ؟ اس میں کوئی شک
نہیں کہ ایک ہندوستان میں ایک الگ ریاست کے قیام کے لیے ایک نظریے کی ضرورت
تھی مگر آج کے معروضی حالات میں اس کی کیا ضرورت ہے ؟ کیا یہ بلوچستان کے
مسئلے کا حل پیش کرسکتا ہے ؟کیا اس سے طالبا ن نرم خوہوسکتے ہیں ؟ آج تاریخ
ہمارے سامنے اس کا متبادل لیے کھڑی ہے اور ہمیں دیر نہیں کرنی چاہئے آج
پاکستان کو نسبتاً ایک اور رواداری پر مبنی نظریے کی ضرورت ہے اس کو جو بھی
نام دیں لیں میں لفظ سیکولر استعمال کرنا چاہتا تھا مگر اس کا نام سن کر
بہت سے افراد کا چہرہ غصے سے سرخ ہوجاتا ہے ۔پاکستان میں مختلف نقطہ ہائے
نظر میں سیاسی معاشرتی اور علمی اختلاف کی ایک جمہوری روایت موجود ہے
پاکستان کے رہنے والوں نے پیپلز پارٹی کو بھی ووٹ دیا اورمسلم لیگ کی حمایت
بھی کی جماعت اسلامی کا حامی حلقہ بھی یہاں موجود رہا اور عوامی نیشنل
پارٹی بھی اپنا کردار ادا کرتی رہی پارلیمنٹ میں (ایم کیو ایم)کی نمائندگی
بھی موجود رہی اور جمعیت علمائے اسلام کے ارکان بھی قانون سازی میں اپنا
حصہ ڈالتے رہے تاہم سمجھنا چاہئے کہ طالبان محض ایک سیاسی مکتبہ فکر نہیں
بلکہ ایک ایسا گروہ ہیں جو سیاسی اور سماجی سطح پر ہر مخالفت کو قوت کے بل
پر کچل دینا چاہتا ہے اگر طالبان ایک سیاسی مدابر بے نظیر بھٹو کو نشانہ
بنا سکتے ہیں مردان میں ایک اعتدال پسند مذہبی مفکر ڈاکٹر سکند ر علی جعفری
کو شہید کرسکتے ہے مولانا سرفراز نعیمی پر خودکش حملہ کرسکتے ہیں اگر ان سے
ایک غیر ملکی کرکٹ ٹیم محفوظ نہیں اور وہ ایک پندرہ سالہ بچی کو گولی مار
سکتے ہیں تو ہمیں سمجھنا چاہیے کہ حتمی تجریے میں وہ پاکستان کے دشمن ہیں
انہوں نے پاکستان کی حساس عسکری تنصیبات پر حملے کیے ہیں مسجدوں اور سکولوں
کو بموں سے تباہ کیا ہیں اور خانقاہوں کو خون میں نہلایا ہے اگرہم دہشت
گردی کے عفریت کی نوعیت کو سجمھنے اور اس کی مزاحمت کرنے سے انکار کرتے ہیں
تو پاکستان میں کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکے گا یہ بھی جان لینا چاہئے کہ
طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دینے سے مصیبت ختم نہیں ہوگی طالبان کی فکر
تقاضہ کرتی ہے کہ ان کی موجودگی میں کو جانبدار نہیں رہ سکتا وہ صرف انہیں
جینے کا حق دے گے جو ان کے مقاصد کی فعال حمایت کریں گے طالبان کا حتمی
مقصد عالمی غلبہ حاصل کرنا ہے چنانچہ اس کا کھیل کا انجام تباہی کے سوا کچھ
نہیں ہوسکتا حکومت دہشت گردی عناصر کے خلاف کاروائی کے لیے پارلیمان میں
اتفاق رائے پیدا کرنے کا عندیہ دے رہی ہے جمہوری رواداری کے تناظر میں یہ
رویہ قابل تعریف ہے لیکن دہشت گردی کے معاملے پر سیاسی قوتوں کے درمیان
اتفاق رائے کا حصول مشکل نظر آتا ہے قبل ازیں اس مسلے پر پارلیمان کی متعدد
قرار داریں طالبان کے درپردہ حامیوں کے ہاتھوں یرغمال ہوچکی ہیں بے شک
سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مذہبی دہشت گرد سرے سے
پارلیمانی جمہوریت عوام کی حکمرانی اور دستور کی بالادستی کے مخالف ہے تاہم
عوام کی جان و مال کی حفاظت اور ریاست کی عملداری کا دفاع بنیادی طور پر
حکومت کی ذمہ داری ہے اور یہ ایسی آئینی ذمہ داری ہے جسے پورا کرنے کے لیے
حکومت کو کسی اتفاق رائے کی ضرورت نہیں کہنا چاہئے کہ اگر منتخب حکومت قومی
اتفاق رائے کی ضرورت نہیں کہنا چاہئے کہ اگر منتخب حکومت قومی اتفاق رائے
کی عدم موجودگی کو جواز بنا کر ریاستی دفاع کے ضمن میں اپنی ذمہ داریوں سے
غفلت برتبی ہے تو یہ قومی مفاد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے مترادف
ہوگا ۔پاکستان کے وجود کے ایک حصے کو الگ کردیا گیا ہے تو انداز ہوا کہ جسم
کے کسی حصے کو کیسے کاٹا جاتا ہے تو کتنی تکلیف ہوتی ہے مگر ہم خاموش ہو کر
تماشہ دیکھنے کے سوا کچھ نہ کرسکے کیونکہ زخم تو اپنوں کے ہاتھوں لگا تھا ۔
خیال تھا کہ کہ اب تو سب کو نصیحت ہوچکی ہے اور اب پاکستان کے زخمی جسم پر
مرہم رکھنے کی کوشش کی جائے گی ۔لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ نظریہ ضرورت کے
نام پر پاکستان کے جمہوری نظام کو نقصان پہنچایا گیا اور اسے غیروں کی جنگ
میں بری طرح الجھا کر رکھ دیا گیا ہم نے پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانا تھا
لیکن سیاستدانوں نے اسے سرکس کا ٹائیگر بنا دیا جب دیکھو کسی نہ کسی کے
اشارے پر عوام کی اٹھک بیٹھک کرائی جاتی ہے عوام کی حالت دیکھ کر رونا آتا
ہے ۔ شدت پسندی ، دشت گردی ، کرپشن نے ہمیں ساری دینا میں رسوا کردیا ہے
پتہ نہیں ان ناسوروں کا کب آپریشن کیا جائے گا لیکن کسی کو اس کی نہ فکر
ہیں اور نہ فرصت سب تو انتخابات کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں سب کو اقتدار
چاہئے مگر عوام کی خدمت کرنے والا تو کوئی نہیں یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے
۔
اے وطن کیسے یہ دھنے درودیوار پہ ہیں
کس منقسی کے یہ طمانچے تیری رخسار پہ ہیں |