یہ ایک حسابی، معاشی، سماجی، تاریخی، سائنسی اور عمومی
حقیقت ہے کہ ایک جمع ایک برابر دو ہوتا ہے۔
کسی حقیقت کو جھٹلانا بالکل آسان نہیں ہوتا اور اسے غلط ثابت کرنا تو ویسے
بھی بڑی حد تک محال ہوتا ہے۔پہلے تو اس بات کا تعین ہی بہت مشکل ہے کہ
حقیقت ہے کیا۔ہر شخص اپنی بات کو حقیقت اور دوسروں کی بات کو خیال تصور
کرتا ہے۔ایسی صورت میں حقیقت کا تعین ایک معمہ بن جاتا ہے۔ ہر مذہب کا
ماننے والا اپنے مذہب کو صداقت اور دوسروں کے مذہب کوخجالت سمجھتا ہے۔ یہاں
تک کہ ایک ہی مذہب کے اندر تشکیل پانے والے فرقے ایک دوسرے کو کافر اور
مشرک قرار دینے میں کوئی اخلاقی یا مذہبی عار نہیں سمجھتے۔ہر مذہب کے لئے
دوسرا مذہب کذب ہے۔ اسی طرح سے سیاست کے میدان میں آجائیں تو بات پھر ویسی
ہی رہتی ہے۔ ایک سیاسی نظریہ رکھنے والے دوسرے کو جان سے مار دینے میں اپنی
بقا سمجھتے ہیں اس صورت میں حقیقت کس کو کہیں گے، کوئی فیصلہ کن بیان یا
سوچ اپنانا جانب داری کے بغیر غالباً نا ممکن ہے۔معاشی نظریات بھی اس تفاوت
سے کنارہ کشی اختیار نہیں کر سکے۔لے دے کے اخلاقیات بچتا ہے ۔ اب اس میں
بھی عالم گیر حقیقت والی بات نہیں رہی۔ مغربی اخلاقیات مشرق میں بکواس اور
مشرقی اخلاقیات مغرب میں انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔گھوم پھر
کے اگر میڈیکل کی طرف آتے ہیں کہ وہ کوئی حقیقت کا سراغ بتا سکے تو بات اور
بھی زیادہ مضحکہ خیز ہو جاتی ہے جب دو لیبارٹریوں کی ٹیسٹ رپوٹیں ایک دوسرے
سے مطابقت نہیں رکھتیں یا دو پڑھے لکھے ڈاکٹروں کی رائے ایک دوسرے کی رائے
سے اتفاق نہیں کرتی۔ انسان حقیقت کو ڈھونڈنے کہاں جائے۔
جذبات کی حقیقت بھی عجیب و غریب ہے آج کے دوست کل کے دشمن ثابت ہو جاتے
ہیں۔ اور آج کے دشمن ضروری نہیں کہ ہمیشہ دشمن ہی رہیں گے۔ دوستی ایک مضبوط
جذبے کا نام ہے لیکن پھر بھی حقیقت کی اٹل سچائی پر پورا اترنے سے قاصر ہے
دنیا کی تاریخ بتا سکتی ہے کہ کتنے ہی دوست دوستوں کے ہا تھوں قتل ہو چکے
ہیں:
دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
محبت کتنا بڑا جذبہ ہے کہ اس کے لوگ جان ہتھیلی پے لئے پھرتے ہیں کیونکہ:
خالی دل نئیں جان وی ایہہ منگدا
عشق دی گلی وچوں کوئی کوئی لنگدا
جان تو کیا ایمان بھی دینے والے سرِ عام مل جاتے ہیں:
وہ ہنس کے اگر مانگیں تو ہم جان بھی دے دیں
یہ جان تو کیا چیز ہے ایمان بھی دے دیں
لیکن اس بات کا انکار بھی ممکن نہیں کہ کتنے لومیرج کرنے والے جوڑے ایک
دوسرے سے اس قدر بے زار ہو جاتے ہیں کہ کبھی کبھی ایک داسرے کی جان بھی لے
لیتے ہیں۔ یہاں آ کے محبت ایک بار پھر اپنی حقیقت کھو بیٹھتی ہے۔ ان کے
ساتھ ساتھ حسد، بغض، عناد، نفرت، دشمنی جیسے جذبات بھی اسی ضمن میں آتے
ہیں۔ جذبات کی نوعیت ہوا جیسی ہوتی ہے، جیسے ہی پنکچر ہوا، ساری شدت زائل
ہو جاتی ہے:
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
سائنس کو حقیقت کے قریب ترین ہونے کا بہت زعم ہے۔ لیکن سائنس مادے اور
فزیکل تک محدود ہے۔ ما بعدالطبیعات سے اس کی کوئی راہ و رسم نہیں ہے۔
روح،جن، فرشتہ، خواب، وجدان ، علمِ غیب جیسی بہت سی باتیں سائنس کے قلم رو
سے باہر ہیں ۔اس بنیاد پر سائنس کو حقیقت نہیں مانا جا سکتا۔
مذید یہ کہ سائنس کی اندازے، قیافے وغیرہ تغیر پذیر رہتے ہیں۔ بہت ساری
صورتوں میں سائنسدانوں کی پیشین گوئیاں غلط ثابت ہوتی ہیں۔ بہت سے تجربے
ناکام ہوتے ہیں۔سائنس کی تھیوریاں کچھ عرصے بعد سائنس خود ہی رد کر دیتی
ہے۔سائنسدانوں کی آراء میں سیاستدانوں جیسا اختلاف پایا جاتا ہے۔بہت ساری
ایجادیں اور دریافتیں اچانک ہو جاتی ہیں۔ ان ساری چیزوں کی موجودگی میں
سائنس حقیقت کا علم ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔
حساب یا ریاضی کو حقیقت اور استدلال کا علمبردار ہونے کاگھمنڈہے جبکہ حقیقت
وہاں تک جاتی ہے جہاں ریاضی کی گنتی ختم ہو جاتی ہے اور پھر یہ 10 کی کچھ
طاقت لگا کر گزارہ کرتا ہے جو کہ بالکل درست پیمائش نہیں ہوتی۔ بس اندازے
کا گزارہ ہوتا ہے۔لا محدود کا تصور از خود تعریف یا حدود سے باہر ہے۔ جو
چیز حدود سے باہر ہو اسے جاننے کا کوئی کیا اقرار یا اظہار یا اعلان کر
سکتا ہے۔بہت سارے جذر، کسریں ، اور کوسٹنٹ لا محدود کی حد کو سدھارتے ہیں
جن کی موجودگی میں علم کا ہونا اور نا ہونا کسی حد تک یکساں ہو جاتا ہے۔ایک
مثال مشہور ہے کہ ایک فلسفی اور ایک ریاضی دان کا ٹاکرا ہو گیا۔ دونوں نے
اپنے، اپنے علوم کی برتری کے جھنڈے گاڑنے کی کوشش کی۔ریاضی دان نے کہا کہ
فلسفہ بالکل بے کار علم ہے کسی کے کام نہیں آتا، ریاضی ایک مفید علم ہے
دنیا میں ہر شخص کو اس سے واسطہ پڑتا ہے اور اس کا استعمال تمام علوم میں
بھی ہوتا ہے۔ اسے تمام سائنسوں کی ملکہ کا خطاب بھی حاصل ہے ۔ کسی شخص کا
گزارہ ریاضی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ جبکہ فلسفہ انسان کو سست اور کاہل بنا
دیتا ہے۔ریاضی کا معاملہ سب سے واضح ہوتا ہے، اس میں دو جمع دو ہمیشہ چار
ہی ہوتے ہیں۔
فلسفی نے صبر سے ان ساری باتوں کو صبر سے برداشت کیا اور پھر ریاضی دان کا
بھانڈا پھوڑدیا:
فلسفی: ایک مکان دس مزدور چالیس دن میں بناتے ہوں تو بیس مزدور کتنے دنوں
میں بنائیں گے؟
ریاضی دان: بیس دنوں میں
فلسفی: اور اسی مکان کو چالیس مزدور کتنے دنوں میں بنائیں گے؟
ریاضی دان:دس دنوں میں
فلسفی: اور اسی مزدور ؟
ریاضی دان: پانچ دنوں میں
فلسفی: اور ایک سو ساٹھ مزدور
ریاضی دان: ڈھائی دنوں میں
فلسفی : اور تین سو بیس مزدور
ریاضی دان: سوا دن میں
فلسفی: اور چھ سو چالیس مزدور
ریاضی دان: پندرہ گھنٹوں میں
فلسفی:اور بارہ سو اسی مزدور
ریاضی دان: ساڑھے سات گھنٹوں میں
فلسفی:اور پچیس سو ساٹھ مزدور
ریاضی دان: سوا تین گھنٹوں میں
فلسفی :اکیاون سو بیس مزدور
ریاضی دان: 97.5 منٹ میں
فلسفی:دس ہزار چالیس مزدور
ریاضی دان:45.75 منٹ میں
فلسفی : بیس ہزار اسی مزدور
ریاضی دان: 22.875 منٹ میں
فلسفی:چالیس ہزار ایک سو ساٹھ مزدور
ریاضی دان:11.4375منٹ میں
فلسفی: اسی ہزار تین سو بیس مزدور
ریاضی دان: 5.1 منٹ میں
فلسفی نے ریاضی دان سے کہا کہ آپ اپنے علم کی مضحکہ خیزی پے خود ہی ذرا غور
فرمائیں کیا اتنی قلیل گھڑی میں عمارت کھڑی ہو سکتی ہے۔ریاضی دان ،فلسفی کا
منہ تکتا رہ گیا۔
ہم نے ریاضی دان پر فلسفی کو اس لئے برتری دلائی ہے کہ ایک جمع ایک برابر
ایک کا معاملہ بھی ریاضی کی بجائے فلسفے پر زیادہ منحصر ہے۔
ہم اپنی بات فردِ واحد سے شروع کرتے ہیں کہ وہ کائنات کی سب سے چھوٹی اور
بنیادی اکائی ہے۔ وہ ایک ہے، پھر وہ کسی خاندان میں ہوتا ہے ۔ اپنے آپ کو
اس خاندان میں جمع کر کے وہ دو ہونے کی بجائے پھر ایک ہی رہ جاتا ہے۔ اب وہ
خاندان کسی مذہب اور کسی فرقے میں ہوتا ہے۔ اب خاندان اپنے آپ کو اس فرقے
یا مذہب میں شامل کر کے اپنے آپ کو اس کا حصہ سمجھتا ہے اور پھر دو ہونے کی
بجائے ایک ہو جاتے ہیں۔دوسرے الفاظ میں ایک اگر ایک سے جمع ہو تو دو کی
بجائے ایک ہی بنتا ہے جو کہ پہلے ایک سے بڑا ہوتا ہے۔ اور اگر وہ دو رہتے
ہیں تو جمع ہونے کا تصور بے معنی ہو جاتا ہے۔ مثلاًایک کلو پانی میں ایک
اور کلو پانی ڈال دیں تو وہ ایک جسم اور ایک جان بن جاتے ہیں یعنی جمع ہو
جاتے ہیں۔اب وہ مذہب یا قوم کسی ملک۔ علاقے، یا خطے کا حصہ ہے جس کا حصہ ہے
جس میں داخل ہونے سے اس کی وسعت میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کی یکتائی بڑی ہو
جاتی ہے۔اب وہ خطہ یا علاقہ یا ملک اس زمین کا حصہ ہے اس کے ساتھ شامل ہونے
سے وہ زمیں کے باسی اور رہائشی بن جاتے ہیں۔ ایک ہونے کا احساس مذید پختہ
ہو جاتا ہے اور وسعت اختیا ر کرتا چلا جاتا ہے۔یہ زمیں بھی اس کائنات کا
حصہ ہے ۔ جب ہم کائناتی سطح پر چلے جاتے ہیں تو پھر تمام وسعتیں اور دوریاں
سمٹ کر فردِ واحد میں در کر آتی ہیں۔اس طرح انسان ایک جمع ایک ہوتے ہوتے
ایک بار پھر ایک ہی ہو جاتا ہے۔
یہ ایک ہونے کا احساس ہے جو مذہب کی اصل سپرٹ ہے۔یہ کائنات ایک ہی خدا نے
بنائی ہے جس کا فرمان ہے کہ تمام مخلوق اس کا کنبہ ہے۔اس تصور کو اگر اپنا
لیا جائے تو دنیا کے بے شمار جھگڑے خودبخود ہی ختم ہو جائیں۔ جھگڑا دوئی پے
ہوتا ہے اکائی پے نہیں ہوتا۔ انسان اپنی ذات کی دوئی سے باہر نکلے تو کسی
کا بھلا سوچے۔ سب سے پہلے انسان کے حسنِ اخلاق کا مستحق انسان ہی ہے۔ انسان
حیوانوں اور دوسری مخلوقات سے تو اچھائی اور بھلائی اختیار کرتا ہے لیکن
اپنی سیپی شیز کا وہ ازلی جانی دشمن ہے۔انسان اگر انسان کا احساس کر لے تو
دنیا مسائل کا گھر کیوں رہے گی۔
مذاہب انسان کو رواداری کا درس دیتے آئے ہیں لیکن مذاہب کو ماننے والے کسی
دوسرے کو کیا مانتے وہ تو اپنے ہم مذہب لوگوں کو بھی کافر اور مشرک قرار
دینے میں ذرا بھی ادھار کا رویہ نہیں اپناتے بلکہ وہ تو دوسروں کو کافر
ورار دینے کے ریڈی میڈ فتاویٰ کا ایک بڑا ذخیرہ رکھتے ہیں۔بات تصورات یا
عقائد کی اور ہوتی ہے اور ماننے والے اور بنا دیتے ہیں۔
آخر ایک بات رہ جاتی ہے جس کا کوئی شخص انکار نہیں کر پاتا اور وہ ڈراؤنی
چیز ہے زندگی کا اختتام یعنی موت۔موت کی حقیقت ماننے کے باوجود موت کے بعد
کی زندگی پر پھر اختلافات کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔حقیقت
پھر اپنے آپ کو ڈھونڈتی رہ جاتی ہے۔اگر موت کو بھی ایک چھوٹے جہان سے بڑے
جہان میں چلے جانا کہیں تو غلط نہ ہو گا۔ یعنی موت بھی ایک جمع ایک برابر
ایک کا دوسرا نام یا اظہار ہے۔
وقت ایک ہے اور تمام انسان وقت کے اس صفحے یا کتاب پر لکھے ہوئے الفاظ یا
بنی ہوئی تصویریں ہیں اور شاید غالبؔ نے اسی لئے فرمایا تھا:
یا رب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لئے
لوحِ جہاں پے حرفِ مکرر نہیں ہوں میں
ہم سب کتابِ حیات کے الفاظ ہیں ہم سے مل کر ہی اس کتاب کی کہانی مکمل ہونی
ہے۔ ہم اس صفحہء ہستی کی تصویریں ہیں ہم سب کے ملنے سے ہی دنیا کا یہ البم
سجنا ہے اگر ہم اپنے اپنے مخالفین کے صفحے پھاڑتے رہیں گے تو یہ ساری کتاب
پھٹ جائے گی اور پھر اس کتاب کو کوئی اکٹھا بھی نہیں کرے گا۔
ہم سب ایک جمع ایک برابر ایک کا تصور اپنائیں تو زندگی آسان اور حسین ہو
جائے۔
کچھ صوفیا واحدۃالوجوداور کچھ واحدۃالشہود فرماتے ہیں لیکن بات دونوں میں
واحدانیت کی ضرور ہے۔ اسی واحد کے ساتھ فنا ہو جانا انسان کی روحانیت کی
معراج ہے اور اپنی ذات کے چکر میں پڑے رہنے میں انا اور اس کی کوکھ سے جنم
لینے والی دوسری اخلاکی اور روحانی بیماریاں ہیں۔نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ سب
اسی واحدانیت کی تشکیل کرنے کے مراحل اور انداز ہیں۔ حج کو اتنا رتبہ کیوں
ملا کیونکہ وہ ایک بہت بڑا ایک بناتا ہے۔ انسان چھوٹے سے ایک سے نکل کر ایک
بہت بڑے ایک میں چلا جاتا ہے اور اس کا اعزاز اتنا بڑا ہو جاتا ہے۔ با نماز
جماعت بھی چھوٹے سے ایک کو ایک بڑا ایک بناتی ہے اور انسان کا اعزاز بڑھ
جاتا ہے۔ روزہ فطرانہ ادا کئے بغیر بارگاہِ ایزدی میں پیش ہی نہیں ہو سکتا۔
فطرانہ بھی ایک چھوٹے ایک کو ایک بڑے اک میں تبدیل کرتا ہے۔
اگر انسانیت جسمِ واحد کی طرح ہو جائے اور تم
ام ممالک اس جسم کے اعضا بن جائیں تو انسان کو انسان کہلوانا اچھا لگتا ہے
ورنہ تو حیوانات بھی اکٹھے رہ لیتے ہیں۔اگر انسان اپنے آپ کو ایک بہت بڑے
ایک میں تصور کرے تو انسان زندہ باد!
|