حجاج بن یوسف سے منقول ہے کہ اس نے کوتوال(اپنے پہرہ دار)
کو حکم کیا کہ رات میں شہر کا گشت کیا کرے اور عشاء کے بعد جس کو(پھر تا
ہوا) پائے قتل کر دے۔ پہرہ دار نے رات میں گشت کیا اور تین لڑکوں کو پایا
جو جھومتے ڈولتے ہوئے جا رہے تھے اور ان پر مے نوشی کے آثار نمایاں تھے۔
پہرہ دار نے ان کو گھیر لیا اور کہا: تم کون ہو؟جو تم نے امیر المومنین کے
حکم کی خلاف ورزی کی۔ پس ان میں سے ایک لڑکے نے کہا کہ میں اس شخص کا بیٹا
ہوں جس کے سامنے خادم و مخدوم سب ہی کی گردنیں جھک جاتی ہیں۔ لوگوں کی
گردنیں اس کے پاس ذلت کے ساتھ آتی ہیں اور وہ ان سے مال بھی لیتا ہے اور
خون بھی لیتا ہے۔ پہرہ دار اس کے قتل سے رک گیا اور (دل میں) کہا کہ شاید
یہ امیر المومنین کے خاص لوگوں میں سے ہے دوسرے کہا: تو کون ہے؟ اس نے کہا
کہ میں اس شخص کا بیٹا ہوں جس کی ہانڈی کبھی آتش داں(چولہے) سے نہیں اترتی
اور اگر کسی روز اتر بھی جاتی ہے تو پھر فورا اسی کی طرف واپس جاتی ہے۔ تو
لوگوں کو اس کی آگ کے پاس بھیڑ لگائے دیکھے گا کہ کوئی کھڑا ہے اور کوئی
بیٹھا ہے۔ پہرہ دار نے اس سے بھی ہاتھ روک لیا اور دل میں یہ خیال کیا کہ
شاید یہ عرب کے شریف خاندان کا بچہ ہے۔ تیسرے سے کہا: تو کون ہے؟ اس نے کہا
میں اس شخص کا بیٹا ہوں جو ہمت و جواں مردی سے صفوں میں گھس جاتاہے اور
ننگی تلوار سے صفوں کو سیدھا کر ڈالتا ہے اس کے پائوں رکاب سے اس وقت بھی
جدا نہیں ہوتے جبکہ گھوڑے میدان کا ر زار میں پیٹھ دے بھاگتے ہیں۔ پہرہ دار
اس سے بھی رک گیا اور یہ سمجھا کہ شاید یہ عرب کے کسی بہادر شخص کا لڑکا ہے۔
صبح ہونے پر پہرہ دار نے ان کا قصہ حجاج کے گوش گزار کیا حجاج نے ان کو بلا
کر ان کے متعلق تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ پہلا لڑکا حجام کا ہے دوسر باورچی
کا اور تیسرا لڑکا جولاہے کا۔ حجاج کو ان کی فصاحت کلامی پر حیرت ہوئی (کہ
انہوں نے اپنے ذلیل پیشوں کوکتنے بہتر انداز میں بیان کیا ہے اور اپنے صحیح
احوال کو کس خوبی اور دانشمندانہ طرز سے ظاہر کیا ہے بیشک ان کا یہ طرزِ
بیان قابل داد ہے ) حجاج نے ہم نشینوں سے کہا کہ اپنی اولاد کو ادب کی
تعلیم دواس واسطے کہ اگر(ان کے کلام میں فصاحت نہ ہوتی تو بخدا میں ان کی
گردن مار دیتا۔‘‘ (الحاج محمد حسین گوہر کا مرتبہ ’’حکایات کاانسائیکلو
پیڈیا‘‘ سے مقتبس) |