حضور ؐ بطور حکمران و سیاست دان (چند درخشاں پہلو)

آپ ؐ عرب کے اس معاشرے میں پیدا ہوئے جہاں پر جہالت عروج پر تھی حکمران اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگے تھے اور عوام کو کسی قسم کا شعور نہیں تھا ایسے میں حضور ﷺ ایک بہترین حکمران و سیاست دان ثابت ہوئے اور آپؐ نے بعد میں آنے والوں کے لئے حکمرانی کے اصول متعین کیے آپ ؐ کی حکمرانی میں مدینہ جیسی کامیاب ریاست وجود میں آئی آپؐ نے حکمرانوں کی ذمہ داریوں کو بیان کرتے ہوئے فرمایا
’’کوئی حکمران جومسلمانوں میں سے کسی رعیت کے معاملات کا سربراہ ہو اگر اس حالت میں مرے کہ وہ انکے ساتھ دھوکہ اور خیانت کرنے والا تھا تو اﷲ اس پر جنت حرام کردے گا‘‘(صحیح مسلم)۔آپ ؐ نے اس بات کی پر زور مخالفت کی کہ کوئی اس بات کا حریص ہو کہ اسے منصب عطاء کیا جائے اور حکمرانی دی جائے بلکہ یہ دنیاوی مناصب تو ایسی چیز ہیں کہ جس سے صحابہ کو بچنے کی تلقین کرتے رہے اور فرمایا ’’جو شخص ہماری حکومت میں سے کسی منصب پر ہو اور بیوی نہ رکھتا ہو تو شادی کرے اگر خادم نہ رکھتا ہو تو ایک خادم حاصل کرے اور اگر گھر نہ رکھتا ہو ایک گھر لے لے اور اگر سواری نہ رکھتا ہو اتو ایک سواری لے لے اس سے آگے جو شخص قدم بڑھاتا ہے وہ خائن ہے یا چور‘‘(سنن ابو داؤد) حضرت ابو بکر صدیقؓ حکمرانی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جو شخص حکمران ہو اس کو سب سے زیادہ کڑاحساب دینا ہوگا اور جو حکمران نہ ہو اس کو ہلکا حساب دینا ہوگا کیونکہ حکام سے سب سے بڑھ کر اس بات کے مواقع ہیں ان کے ہاتھوں مسلمانوں پر ظلم ہوگا اور جو مسلمانوں پر ظلم کرے وہ خدا سے غداری کرتا ہے‘‘(کنزالاعمال)۔حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے خلافت سنبھالنے کے بعد ارشاد فرمایا ’’مجھے آپ کا خلیفہ بنایا گیا میں خود کو آپ سے بہتر نہیں سمجھتا میری اطاعت اسوقت تک کرنا جب تک اﷲ اور اسکے رسولؐ کی میں اطاعت کرتا رہوں جب میں اﷲ اور اسکے رسول ؐکی نافرمانی کرنے لگ جاؤں تو تم پر میری اطاعت ضروری نہیں‘‘(تاریخ طبری)۔حضرت عمرؓ نے اپنے خطبہ خلافت میں ارشاد فرمایا’’میں تمہارے شامل حال کر دیا گیا اور تم میرے شامل حال کر دئے گئے جو شخص ہمارے سامنے ہوگا ہم خود اس کا کام کریں گے(یعنی مقدمہ کی سماعت کریں گے)اور جب دور ہوگا تو اہل امانت دار کو والی بنائیں گے۔ جو اچھائی کرے گا اس کے ساتھ اچھائی کریں گے او ر جو برائی کرے گا اس کے ساتھ برائی کریں گے‘‘(تاریخ طبری)۔

اسی طرح جب حضرت علی ؓ پر خلافت کا بوجھ آیا تو آپؓ نے فرمایا’’سنو تمہارے مال کی چابیاں میرے پاس ہیں اسمیں سے ایک درہم لینا بھی جائز نہیں سمجھتا‘‘(تاریخ طبری)۔خلفائے راشدین میں سے کسی نے بھی خود خلافت کا منصب طلب نہیں کیا۔یہ منصب انکو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے انکی قابلیت کی وجہ سے عطاء ہوئے تھے۔قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ وہ آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کو دیں گے جو زمین میں نہ اپنی بڑائی کے طالب ہوتے ہیں اور نہ فساد پرپا کرتے ہیں‘‘(سورۃالقصص - 83 )۔ حضور ؐ نے منصب کو طلب کرنے سے منع فرمایا تھا آپ ؐ فرماتے ہیں۔’’ہم اپنی اس حکومت کا منصب کسی ایسے شخص کو نہیں دیتے جو اسکا طالب یا حریص ہو‘‘(بخاری شریف)

دوسری جگہ ارشاد فرمایا ’’ہم اپنی حکومت میں ایسے شخص کو عامل نہیں بنائیں گے جو اس کی خواہش کرے‘‘(مسلم شریف)

عبداﷲ بن سحرہ سے آپؐ نے فرمایا ’’اے عبدالرحمٰن امارت کی درخواست نہ کرو کیونکہ اگر وہ تمہیں مانگنے پر دی جائے گی تو خداکی طرف سے تم کو اسکے حوالہ کر دیا جا ئے گا اور اگر وہ تمہیں بن مانگے ملی تو خدا کی طرف سے تم کو اس کا حق ادا کرنے میں مدد دی جائے گی‘‘(بخاری شریف)۔حضورؐ نے صحابہ کرامؓ کی ایسی تربیت کی تھی کہ آپؐ کے بعد صحابہ کرامؓ نے حکمرانی کی روشن مثالیں قائم کی ہیں۔ آج مسلمان پوری دنیا میں ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں اور پستی کی زندگی گزار رہے ہیں۔اسکی ایک وجہ حکمرانوں کا راہ راست پر نہ ہوناہے، حکمران عوام کی فلاح و بہبود کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے اور اپنی حکومت کو طول دینے کی طرف دھیان رکھتے ہیں جس کی وجہ سیآج امت مسلمہ زوال کا شکار ہے حکمرانوں میں وہ اخلاقی قدریں آج کل نہیں پائی جاتیں جسکی تعلیمات آپﷺنے دے تھیں اگر آج بھی حکمران سیرت طیبہ کو اپنا لیں تو مسلمانوں کی مشکلات کم ہو سکتی ہیں اور مسلمان پھر عروج حاصل کر سکتے ہیں۔
Atif Ali
About the Author: Atif AliCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.