30 جون 1974ء کو قومی اسمبلی میں
مولانا شاہ احمد نورانی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دئیے جانے کی
قرارداد پیش کی جس پر مولانا مفتی محمود، مولانا عبدالمصطفی الازھری،
پروفیسر غفور احمد، مولانا عبدالحق، چوہدری ظہور الٰہی، شیر باز خان مزاری،
مولانا محمد ظفر احمد انصاری، احمد رضا قصوری، مولانا نعمت اﷲ، سردار شوکت
حیات، علی احمد تالپور اور رئیس عطاء محمد خاں مری سمیت چالیس کے قریب
ممبرانِ اسمبلی نے دستخط کیے۔ اس قرارداد میں کہا گیا کہ قادیان کے آنجہانی
مرزا غلام احمد قادیانی نے حضور نبی کریم حضرت محمد ﷺ کے بعد اپنے نبی اور
رسول ہونے کا دعویٰ کیا۔ قرآنی آیات کا تمسخر اڑایا۔ جہاد کو ختم کرنے کی
مذموم کوششیں کیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قادیانیت سامراج کی پیداوار ہے
جس کا مقصد مسلمانوں کے اتحاد کو تباہ کرنا اور اسلام کو جھٹلانا ہے۔
قادیانی مسلمانوں کے ساتھ گھل مل کر اور اسلام کا ایک فرقہ ہونے کا بہانہ
کرکے اندرونی اور بیرونی طور پر تخریبی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ لہٰذا
اسمبلی مرزا قادیانی کے پیروکار قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر
آئینِ پاکستان میں ضروری ترمیم کرے۔
5 اگست 1974ء کو صبح دس بجے سپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی خاں کی
صدارت میں اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا۔ جس میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو،
وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ، وفاقی وزیر برائے مذہبی امور مولانا کوثر
نیازی سمیت پوری کابینہ نے شرکت کی۔ تلاوتِ قرآن مجید کے بعد قادیانی جماعت
کے وفد کو جس کی سربراہی قادیانی خلیفہ مرزا ناصر کر رہا تھا، بلایا گیا۔
اسمبلی میں طے پایا گیا کہ کوئی رکن قومی اسمبلی براہِ راست مرزا ناصر سے
سوال نہ کرے بلکہ وہ اپنا سوال لکھ کر اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار کو دے
دے جو خود مرزا ناصر سے اس بارے میں دریافت کریں گے۔ دنیا کی تاریخ میں
جمہوری نظامِ حکومت کا یہ واحد واقعہ ہے کہ اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ کرنے
کے بجائے قادیانی مذہب کے دونوں فرقوں (ربوی و لاہوری) کے سربراہوں کو اپنا
اپنا مؤقف پیش کرنے کے لیے بلایا گیا۔ تعارفی کلمات کے بعد اٹارنی جنرل
یحییٰ بختیار نے مرزا ناصر سے قادیانی عقائد پر بحث شروع کی تو مرزا ناصر
نے کہا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 20 کے تحت ہر شہری کو مذہبی طورپر آزادیٔ
اظہار حاصل ہے۔ آپ کسی پر پابندی نہیں لگا سکتے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک
شخص خود کو مسلمان بھی کہتا ہے اور اسلام کے بنیادی ارکان اور قرآنِ مجید
کی متعدد آیات کا بھی منکر ہے تو کیا اس پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔ اس پر
مرزا ناصر مختصر خاموشی کے بعد بولا کہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ہمیں
غیرمسلم اقلیت قرار دے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ کو کس نے حق دیا ہے کہ آپ
دنیا بھر کے مسلمانوں کو کافر، دائرہ اسلام سے خارج اور جہنمی قرار دیں؟
مرزا ناصر نے کہا کہ ہم کسی کافر قرار نہیں دیتے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے
مرزا ناصر کو اس کے دادا (آنجہانی مرزا قادیانی) اس کے والد (قادیانی خلیفہ
مرزا بشیر الدین محمود) اور اس کے چچا (مرزا بشیر احمد ایم اے) کی متعدد
تحریریں پڑھ کر سنائیں۔ جس میں انہوں نے مسلمانوں کو کافر، دائرہ اسلام سے
خارج، جہنمی، ولد الحرام اور کنجریوں کی اولاد قرار دیا۔ ان حوالہ جات پر
مرزا ناصر نہایت شرمندہ ہوا۔ پھر اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے مرزا ناصر سے
پوچھا کہ جب آپ کا نبی الگ، قرآن الگ، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ الگ ہے تو
پھر آپ خود کو مسلمان کہلوانے اور شعائر اسلامی استعمال کرنے پر بضد کیوں
ہیں؟ اس پر مرزا ناصر نے کہا کہ ہماری کوئی چیز الگ نہیں ہے، ہم مسلمانوں
کا ہی ایک حصہ ہیں۔ اس سلسلہ میں اٹارنی جنرل نے کئی ایک حوالے پڑھ کر
سنائے تو مرزا ناصر بے حد پریشان ہوا۔
ایک موقع پر اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے قادیانی خلیفہ مرزا ناصر سے پوچھا
کہ کیا آپ کے پاس مرزا قادیانی کی تمام کتب موجود ہیں؟ مرزا ناصر نے کہا کہ
ہاں! ہمارے پاس مرزا صاحب کی تمام کتب موجود ہیں۔ اٹارنی جنرل نے پوچھا کہ
ان کی تعداد کیا ہے؟ مرزا ناصر نے کہا کہ 80 کے قریب ہیں۔ یحییٰ بختیار نے
کہا کہ آپ نے ان 80 کتب کو روحانی خزائن کے نام سے شائع کیا۔ اس کے علاوہ
ملفوظات دس جلدوں میں، مجموعہ اشتہارات تین جلدوں میں اور مکتوبات وغیرہ
تین جلدوں میں شائع کیے۔ یہ ساری کتب ایک الماری کے دو شیلفوں میں آسکتی
ہیں۔ مگر آپ کے مرزا صاحب نے اپنی کتاب تریاق القلوب میں لکھا ہے:
’’میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں گزرا ہے
اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی
ہیں اور اشتہار شائع کیے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو
پچاس الماریاں ان سے بھرسکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک عرب
اور مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچا دیا ہے۔ میری ہمیشہ کوشش رہی ہے
کہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیرخواہ ہوجائیں اور مہدی خونی اور مسیح خونی کی
بے اصل روایتیں اور جہادکے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب
کرتے ہیں، ان کے دلوں سے معدوم ہوجائیں۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ27،28 مندرجہ روحانی خزائن جلد15 صفحہ155،156 از مرزا
قادیانی)
اٹارنی جنرل نے مرزا ناصر سے پوچھا کہ باقی کتب کہاں اور ان کے نام کیا
ہیں؟ اس پر مرزا ناصر نے کہا کہ اتنی تعداد میں شائع ہوئیں کہ 50 الماریاں
بھر جائیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر آپ صرف ایک کتاب کو ایک لاکھ کی
تعداد میں شائع کردیں تو اس سے سیکڑوں الماریاں بھر جائیں گی۔ مرزا صاحب تو
کہتے ہیں کہ انگریز کی حمایت اور جہاد کی ممانعت کے سلسلہ میں اتنی کتابیں
لکھی ہیں کہ 50 الماریاں بھر جائیں۔ اس پر مرزا ناصر کو کوئی جواب نہ آیا۔
ایک اور موقع پر اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے مرزا ناصر سے پوچھا کہ آپ
مرزا قادیانی کو کیا مانتے ہیں؟ مرزا ناصر نے کہا کہ ہم مرزا غلام احمد
صاحب کو مہدی اور مسیح موعود مانتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے پوچھا کہ اس کے
علاوہ آپ مرزا صاحب کو کیا مانتے ہیں؟ مرزا ناصر نے کہا کہ کچھ نہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ مرزا قادیانی نے اپنی کتابوں میں صراحتاً دعویٰ کیا
ہے کہ وہ خود ’’محمد رسول اﷲ‘‘ ہے۔ اور آپ جب کلمہ طیبہ لا الہ الا اللّٰہ
محمد رسول اللّٰہ پڑھتے ہیں تو محمد رسول اللّٰہ سے مراد مرزا قادیانی لیتے
ہیں۔ اس پر مرزا ناصر نے کہا کہ ہم مرزا صاحب کو محمد رسول اﷲ نہیں مانتے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیا آپ مرزا قادیانی کے دعویٰ محمد رسول اﷲ کو جھوٹا
مانتے ہیں؟ اس پر مرزا ناصر خاموش ہوگیا۔ پھر اٹارنی جنرل نے مرزا قادیانی
کی کتابوں سے کئی ایک اقتباسات پیش کیے۔ جب اٹارنی جنرل نے مرزا قادیانی کی
کتب سے متنازعہ حوالہ جات پیش کیے تو ممبران اسمبلی غم و غصہ میں ڈوب گئے۔
بہرحال 13 روز کی طویل بحث اور جرح کے بعد مرزا ناصر نے نہ صرف اپنے تمام
کفریہ عقائد و نظریات کا برملا اعتراف کیا بلکہ لایعنی تاویلات کے ذریعے ان
کا دفاع بھی کیا۔ 5 اور 6 ستمبر کو اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار نے 13
روز کی بحث کو سمیٹتے ہوئے اراکین اسمبلی کو مفصل بریفنگ دی۔ ان کا بیان اس
قدر مدلل، جامع اور ایمان افروز تھا کہ کئی آزاد خیال اور سیکولر ممبران
اسمبلی بھی قادیانیوں کے عقائد و عزائم سن کو پریشان ہوگئے۔ چنانچہ 7 ستمبر
1974ء کو شام 4 بج کر 35 منٹ پر پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر قادیانیوں کے
دونوں فرقوں (ربوی و لاہوری) کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا اور آئین پاکستان
کی شق (2) 160 اور (3) 260 میں ا س کا مستقل اندراج کردیا۔
ایک موقع پر قومی اسمبلی میں یہ حیران کن منظر بھی دیکھنے میں آیا کہ جب
قادیانی خلیفہ مرزا ناصر اپنے کفریہ عقائد کے دفاع میں دلائل دے رہا تھا کہ
اچانک ایک پرندہ اڑتا ہوا آیا اور مرزا ناصر پر بیٹ کردی جس سے وہ نہایت
سٹپٹایا اور بڑبڑاتا ہوا تھوڑی دیر کے لیے اسمبلی سے باہر چلا گیا۔ جس نے
بھی یہ منظر دیکھا، وہ ششدر رہ گیا کہ جدید عمارت کے بند کمرے میں اچانک
پرندہ کہاں سے آگیا؟ اور پھر پرندے کا صرف مرزا ناصر کو ٹارگٹ کرنا بھی
باعث تعجب تھا۔
6 ستمبر 1974ء کو رات ساڑھے نو بجے حکومتی حلقوں میں بے حد اثر و رسوخ
رکھنے والے معروف صحافی اور روزنامہ وفاق کے مدیر اعلیٰ جناب مصطفی صادق کی
ملاقات وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ہوئی۔ اس اہم ملاقات کی روداد بیان
کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ جب بھٹو صاحب سے ملاقات ہوئی تو ان کے ساتھ بیگم
نصرت بھٹو، وفاقی وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ، وزیر مذہبی امور کوثر
نیازی، وفاقی سیکرٹری برائے قانون جسٹس محمد افضل چیمہ اور ڈپٹی اٹارنی
جنرل یحییٰ بختیار بھی موجود تھے۔ اس موقع پر بیگم نصرت بھٹو شدید غصے میں
تھیں۔ وہ زور زور سے کہہ رہی تھیں کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار
نہیں دینا چاہیے۔ ہم ایسی حکومت نہیں کر سکتے، ہم نے حکومت چھوڑنے کا فیصلہ
کر لیا ہے۔ اس موقع پر جناب یحییٰ بختیار نے نہایت ٹھنڈے دل سے دلیل اور
اپیل کا لہجہ اختیار کیا جس سے بیگم نصرت بھٹو کافی نارمل ہوئیں اور پوری
توجہ سے یحییٰ بختیار کی گفتگو سننے لگیں۔ بقول مصطفی صادق صاحب: ’’سچی بات
یہ ہے کہ یحییٰ بختیار کا یہ کارنامہ اتنا عظیم اور اتنا غیر معمولی اہمیت
کا حامل ہے کہ اس کی جتنی بھی تحسین کی جائے، کم ہے۔ میں تصور بھی نہیں کر
سکتا تھا کہ مسٹر بھٹو کی پارٹی میں کوئی ایسا مرد جری بھی شامل ہے، جو بلا
خوف و خطر اپنا موقف نہ صرف یہ کہ شد و مد کے ساتھ بیان کر دے، بلکہ
استدلال کی قوت سے مسٹر بھٹو جیسے حکمران کو عین اس مرحلے پر جب کہ وہ بے
یقینی اور مایوسی کی دلدل میں گھٹنے گھنٹے پھنسا ہوا ہو اور غیظ و غضب کے
عالم میں سارے پینترے بھول چکا ہو، زور استدلال سے صورت حال کا رخ تبدیل کر
دے۔ چنانچہ جونہی یکے بعد دیگرے مسٹر بھٹو اور مسز بھٹو نے اپنی رٹی پٹی
باتیں دہرائیں اور کہا ’’یہ ملا کی جیت ہے۔ ہم کون ہیں، کسی کو کافر قرار
دینے والے۔ ایسا اعلان کرنے سے بہتر ہے حکومت چھوڑ دی جائے۔ ہم نے حکومت
چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ہم مستعفی ہو رہے ہیں۔‘‘ یحییٰ بختیار کی ایمان
افروز گفتگو ان الفاظ سے شروع ہوتی ہے۔ انتہائی موثر اور پرمغز گفتگو۔ ’’آپ
حکومت چھوڑ رہے ہیں یا آپ سیاست سے بھی دست بردار ہو رہے ہیں۔ آپ کو معلوم
ہے کہ آپ کس ایشو (Issue) پر مستعفی ہو رہے ہیں۔ کیا آپ پبلک کے سامنے اپنے
استعفیٰ کا جواز ثابت کر سکیں گے؟‘‘ کاش میں اسمبلی کی اس کارروائی کا
خلاصہ اپنے ہمراہ لے آتا اور آپ کو بتاتا کہ مرزا ناصر نے کیا کچھ کہا ہے۔
کیا موقف اختیار کیا ہے؟ یہ کون کہتا ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت
قرار دینے کے فیصلے سے ملا جیت جائے گا؟ آپ کو معلوم ہے کہ قادیانیت کے
بارے میں علامہ اقبال کا کیا موقف ہے؟ ہم اسی موقف کے قائل ہیں۔ اگر کسی کے
خیال میں قادیانیوں کو کافر قرار دینا صحیح نہیں ہے تو پھر انہیں قادیانیوں
کا یہ نقطہ نظر درست تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم اور آپ غیر مسلم ہیں۔ یحییٰ
بختیار نے بھٹو صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ سر! اگر آپ چاہیں بھی
تو شاید اب ممکن نہیں۔ کیونکہ قادیانی اور لاہوری جماعت کی قیادت نے
پارلیمنٹ میں نئی نبوت کے حوالے سے سب کے سامنے ان تمام کفریہ عقائد کا
برملا اعتراف کر لیا ہے جس کی بنا پر امت مسلمہ انہیں گذشتہ 100 سال سے غیر
مسلم سمجھتی ہے۔ 13 روز کے بحث و جرح کے بعد پوری پارلیمنٹ ایک متفقہ نتیجہ
پر پہنچ چکی ہے۔ اس کی ذمہ دار قادیانی قیادت ہے جس نے سب ممبران کے سامنے
مرزا غلام احمد قادیانی کی متنازعہ تحریروں کی تصدیق اور تائید کی۔
یحییٰ بختیار کی اس ولولہ انگیز گفتگو کے بعد دوسرے شرکاء مجلس کو بھی زبان
کھولنے کا حوصلہ ہوا۔ حفیظ پیرزادہ بولے ’’جو کچھ قومی اسمبلی میں ہوا ہے‘‘
اس کے بعد تو اسی فیصلے کا اعلان کرنا پڑے گا۔ ایک گزارش میں نے یہ بھی کی
کہ وزیر اعظم خواہ مخواہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ وہ قادیانیوں
کو کافر قرار دینے کی ذمہ داری قبول کر رہے ہیں۔ حالانکہ اسلامی عقیدے کی
رو سے قادیانی مسلمہ طور پر، طے شدہ حقیقت کے طور پر پہلے سے ہی غیر مسلم
ہیں۔ اس طے شدہ اور تسلیم شدہ حقیقت کو صرف اور صرف آئینی شکل دینے کی ذمہ
داری جو ایک اہم سعادت کی حیثیت بھی رکھتی ہے، قومی اسمبلی قبول کر رہی ہے
جس کا اعلان قائد ایوان کی حیثیت سے وزیر اعظم کرنے والے ہیں۔ آئینی دفعہ
کے اضافے کا یہ فیصلہ قومی اسمبلی کا متفقہ فیصلہ ہے۔ پوری قوم کا متفقہ
فیصلہ ہے۔ عالم اسلام کا متفقہ فیصلہ ہے۔ اس لیے یہ غلط فہمی بلاوجہ پیدا
ہو رہی ہے کہ مسٹر بھٹو قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والے ہیں۔ ہاں
البتہ اس کی زبان سے اگر یہ اعلان ہونے والا ہے اور اسے آئین کا حصہ بنایا
جانے والا ہے تو اس سے حکومت کی اور پوری قوم کی ذمہ داری میں ایک اہم
اضافہ ہو جاتا ہے کہ وہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت کے طور پر تحفظ کا
یقین دلائیں۔ یہ ذمہ داری ایک مقدس مذہبی فریضے کی حیثیت اختیار کر جاتی ہے
اور یہ فیصلہ خود قادیانیوں کے لیے بھی مضر ہونے کے بجائے مفید ثابت ہوگا۔
آخر میں، میں نے یہ بھی عرض کر دیا کہ خدانخواستہ کل آپ اس فیصلے کا اعلان
نہیں کرتے تو نظم و نسق بحال رکھنے کے تمام تر انتظامات کے باوجود صورت حال
آپ کے قابو میں نہیں رہے گی اور خدا ہی جانتا ہے کہ اس ملک کا حشر کیا
ہوگا؟‘‘
10 ستمبر 1974ء کو ڈاکٹر عبدالسلام نے وزیراعظم کے سائنسی مشیر کی حیثیت سے
وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے اپنا استعفیٰ پیش کیا۔ اس کی وجہ
انھوں نے اس طرح بیان کی: ’’آپ جانتے ہیں کہ میں احمدیہ (قادیانی) فرقے کا
ایک رکن ہوں۔ حال ہی میں قومی اسمبلی نے احمدیوں کے متعلق جو آئینی ترمیم
منظور کی ہے، مجھے اس سے زبردست اختلاف ہے۔ کسی کے خلاف کفر کا فتویٰ دینا
اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ کوئی شخص خالق اور مخلوق کے تعلق میں مداخلت
نہیں کر سکتا۔ میں قومی اسمبلی کے فیصلہ کو ہرگز تسلیم نہیں کرتا لیکن اب
جبکہ یہ فیصلہ ہو چکا ہے اور اس پر عملدرآمد بھی ہو چکا ہے تو میرے لیے
بہتر یہی ہے کہ میں اس حکومت سے قطع تعلق کر لوں جس نے ایسا قانون منظور
کیا ہے۔ اب میرا ایسے ملک کے ساتھ تعلق واجبی سا ہوگا جہاں میرے فرقہ کو
غیر مسلم قرار دیا گیا ہو۔‘‘
فروری 1987ء میں ڈاکٹر عبدالسلام نے امریکی سینٹ کے ارکان کو ایک چٹھی لکھی
کہ ’’آپ پاکستان پر دباؤ ڈالیں اور اقتصادی امداد مشروط طور پر دیں تاکہ
ہمارے خلاف کیے گئے اقدامات حکومت پاکستان واپس لے لے۔‘‘
30 اپریل 1984ء کو قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا طاہر احمد قادیانی آرڈیننس
مجریہ 1984ء کی خلاف ورزی پر مقدمات کے خوف سے بھاگ کر لندن چلے گئے۔ رات
کو لندن میں انھوں نے مرکزی قادیانی عبادت گاہ ’’بیت الفضل‘‘ سے ملحقہ
محمود ہال میں غصہ سے بھرپور جوشیلی تقریر کی۔ اس موقع پر ڈاکٹر عبدالسلام
مرزا طاہر کے سامنے صف اوّل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مرزا طاہر احمد نے اپنے
خطاب میں صدارتی آرڈیننس نمبر 20 مجریہ 1984ء (جس کی رو سے قادیانیوں کو
شعائر اسلامی کے استعمال سے روک دیا گیا تھا) پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے
اسے حقوق انسانی کے منافی قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ احمدیوں کی بددعا سے
عنقریب پاکستان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ مزید برآں انھوں نے امریکہ اور دوسرے
یورپی ممالک سے اپیل کی کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر پاکستان کی تمام
اقتصادی امداد بند کر دیں۔ اپنے خطاب کے آخر میں مرزا طاہر نے ڈاکٹر
عبدالسلام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’صرف آپ میرے دفتر میں ملاقات کے لیے
تشریف لائیں۔ آپ سے چند ضروری باتیں کرنا ہیں۔‘‘ ’’فرزند احمدیت‘‘ ڈاکٹر
عبدالسلام نے اسے اپنی سعادت سمجھا اور ملاقات کے لیے حاضر ہو گئے۔ اس
ملاقات میں مرزا طاہر احمد نے ڈاکٹر عبدالسلام کو ہدایت کی کہ وہ صدر ضیاء
الحق سے ملاقات کریں اور انھیں آرڈیننس واپس لینے کے لیے کہیں۔ لہٰذا ڈاکٹر
عبدالسلام نے جنرل محمد ضیاء الحق سے پریذیڈنٹ ہاؤس میں ملاقات کی اور
انھیں جماعت احمدیہ کے جذبات سے آگاہ کیا۔ صدر ضیاء الحق نے بڑے تحمل اور
توجہ سے انھیں سنا۔ جواب میں صدر ضیاء الحق اٹھے اور الماری سے قادیانی
قرآن ’’تذکرہ‘‘ مجموعہ وحی مقدس و الہامات اٹھا لائے اور کہا کہ یہ آپ کا
قرآن ہے اور دیکھیں اس میں کس طرح قرآن مجید کی آیات میں تحریف کی ہے اور
ایک نشان زدہ صفحہ کھول کر ان کے سامنے رکھ دیا۔ اس صفحہ پر مندرجہ ذیل آیت
درج تھی: انا انزلنا قریبا من القادیان ترجمہ: ’’(اے مرزا قادیانی) یقینا
ہم نے قرآن کو قادیان (گورداسپور بھارت) کے قریب نازل کیا۔‘‘ (نعوذ باﷲ)
(تذکرہ مجموعہ وحی مقدس و الہامات طبع چہارم ص 59 از مرزا قادیانی) اور
مزید لکھا ہے کہ یہ تمام قرآن مرزا قادیانی پر دوبارہ نازل ہوا ہے۔ ضیاء
الحق نے کہا کہ یہ بات مجھ سمیت ہر مسلمان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ اس پر
ڈاکٹر عبدالسلام کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اور وہ بے حد شرمندہ ہوئے اور
کھسیانے ہو کر بات کو ٹالتے ہوئے پھر حاضر ہونے کا کہہ کر اجازت لے کر رخصت
ہو گئے۔ |