مرتاض بلیاں

منافقت شاید ہمارے معاشرے کا ایک لازمی جزو بن چکی ہے۔ ہر شخص جھوٹ، فریب اور ریاکاری سے کچھ نہ کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ جائز ، ناجائز، حرام حلال کا تصور معدوم ہو چکا ہے ۔ جن کے پاس دولت ہے بے حساب ہے۔ کہاں سے آئی اور کیسے آئی کوئی پوچھنے والا نہیں۔جو مفلس ہیں بے حساب ہیں۔ کوئی درد بانٹنے والا نہیں۔ حکومت نے امسال حج سکیم کا اجرا کیا۔غریب لوگ ابھی حساب لگا رہے تھے۔ پیسے پورے کرنے کے چکر میں تھے کہ لوگوں نے اتنی سرعت سے پیسے جمع کرائے کہ اعلان کردہ کوٹہ ایک ہی دن میں ختم ہو گیا۔جن لوگوں کی درخواستیں منظور ہو ئیں ان میں بہت سے اچھے اور نیک لوگ بھی ہیں مگر ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جو پیسے کے حصول کے لئے ہر جائز اور ناجائز حربہ استعمال کرتے ہیں ا نہیں سمجھ نہیں آتی پیسہ کہاں خرچ کریں اور جن کے حج کا واحد مقصد لوگوں میں خود کو نیک ثابت کرنا ہے۔

ایک نامور گلوکار نماز بھی پڑھتا ہے۔ کار خیر میں بھی حصہ لیتا ہے۔ مگر ان نیک کاموں کی آڑ میں اس کا کام معصوم اور سیدھی سادی نوجوان بچیوں کو ورغلانا ہے۔ یہ مکروہ فعل وہ اک عرصے سے کر رہا ہے مگر اسے کوئی پوچھ نہیں سکتا۔ اس کی جھوٹی نیک نامی اس کے گھٹیا افعال کو چھپا لیتی ہے۔ میرے پاس اس کی بد کرداری کے تمام ثبوت موجود ہیں مگر کیا ہو سکتا ہے۔ کون اسے پوچھ سکتا ہے۔ یہ ملک کرپٹ، راشی اور بد کردار لوگوں کے لئے تو ایک جنت ہے ۔ ہر طرف ایسے ہی لوگوں کا راج ہے۔ کوئی اپنے ہم پیالہ، ہم نوالہ اور ہم مسلک شخص کے خلاف کاروائی کیوں کرے گا۔

ہر علاقے اور ہر قوم کا اک کلچر ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ضرورت اور حالات کے مطابق اس کلچر میں کچھ تبدیلی آتی جاتی ہے مگر کلچر کا کچھ نہ کچھ حصہ ہمیشہ قائم رہتا ہے۔ قوموں کے افراد اپنے کلچر پر فخر کرتے ہیں اور اپنے کلچر کے حوالے سے وقار پاتے ہیں۔ اپنے قدیم کلچر کی خامیوں کو دور کرتے اور نئی روایات کو فروغ دیتے ہیں۔ بہت زیادہ قدیم کلچر زمانے کی دست برد کے ہاتھوں مٹی میں دفن ہو جاتا ہے۔ آج کی نسل اس کلچر کے بارے جاننا چاہتی ہے۔ جس کے لئے بہت سے آثار قدیمہ کے ماہر انسانی تجسس کی تسکین کے لئے اس بارے بہت کام کر رہے ہیں۔ بہت سی جگہ کھدائی ہوئی اور قدیم تہذیب کے بہت سے اسرار سامنے آئے اور آ رہے ہیں۔ پاکستان میں ہڑپہ، موہن جو داڑو، ہندوستان میں دکن، اڑیسہ ،سری لنکا کے کچھ مقامات اور بہت سے دیگر علاقوں میں کھدائی کے بعد وہاں سے ملنے والی بہت سی چیزوں جن میں سکے، ظروف،مکانات، خطاطی، تحریریں، تصویریں اور بہت سی چیزیں ان لوگوں کے حالات اور واقعات کی بہت حد تک خبر دیتی ہیں۔ آثار قدیمہ کے ماہر ان چیزوں کی مدد سے ان قدیم لوگوں کے رہن سہن اور طرز زندگی کے بارے میں بہت کچھ جان چکے ہیں۔

سنگ تراشی برصغیر کا بہت قدیم اور عظیم فن ہے۔ پتھروں کو کاٹ کر بنائی گئی شاہکار چیزیں ہر کھدائی میں ماہرین کے سامنے آئی ہیں۔ قبل مسیح اور اس کے بعد کچھ صدیوں تک کے قدیم آثار پتہ دیتے ہیں کہ اس وقت سنگ تراشی کے کئی مکاتب فکر موجود تھے۔ جنہوں نے اپنے اپنے انداز میں اس فن کے فروغ کے لئے کام کیا۔ بعض جگہوں پر ملنے والے سنگ تراشی کے نمونوں میں یونانی طرز سنگ تراشی بھی نظر آتا جس سے لگتا ہے کہ اس دور کے ایشیائی باشندوں کا یورپی باشندوں سے پوری طرح رابطہ تھا۔

ماہرین کو گندھارا، دکن، اڑیسہ اور سری لنکا سمیت بہت سے علاقوں میں سنگ تراشی کے بہت عمدہ، شاندار اور خوبصورت نمونے ملے ہیں۔ پتھروں کو کاٹ کر بنائی گئی تصویریں اس دور کے لوگوں کے رہن سہن، لباس اور عادات کی عکاس ہیں۔ دکن کے بعض علاقوں غاروں کے اندر مندر بنے ہوئے ہیں۔ جن کی دیواریں پتھروں کو کاٹ کر بنائی گئی تصویروں سے مزین ہیں۔ یہ تصویریں اس دور کے ریاضت گزار لوگوں کی عادات اور اطوار سے متعلق ہیں۔ اسی طرح کے ایک غار میں ایک ایسی شبیہ کندہ ہے جس میں بہت سے عبادت گزار لوگوں کے ساتھ ایک مکار بلی بھی عبادت میں مصروف ہے اور اس کے ریاض کا مقصد یہی ہے کہ چوہے اس کی ریاضت سے متاثر ہو کر خود ہی اس کے دام میں آ جائیں۔

صدیاں بیت چکی ہیں مگر ہمارا کلچر نہیں بدلا۔ تھوڑی سی تبدیلی جو ہوئی ہے یہی کہ پہلے ریاض کرنے والے گروہوں میں مردانِ درویش کی اکثریت تھی اور ان کے ساتھ کوئی ایک آدھ بلی موجودتھی آج فرق یہ پڑا ہے کہ ریاض کرنے والے گروہوں میں بلیوں کی اکثریت ہے اور درویش کوئی ایک آدھ ہی نظر آتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ حج کرنے کے بعد انسان اسی طرح گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے جس طرح جنم کے وقت ہوتا ہے۔ یقینا ہو گا مگر اس کا دارومدار تو نیت پر ہے۔ یہاں عجیب صورت ہے۔ ہر راشی ہرکرپٹ حج یا عمرہ کر لیتا ہے اور پھر سمجھتا ہے پہلے گناہ معاف ہو گئے۔ اب ایک نئی ابتدا ہے۔ حج یا عمرے سے واپس آ کر دوبارہ اپنے کام کا آغاز کرتا ہے تو میٹر پہلے سے تیز ہو جاتا ہے۔ اس یقین کے ساتھ کہ پیسے کما کر حج کرنا یا عمرہ کرنا پھر سارے گناہ معاف کرا دے گا۔ اسے سمجھ نہیں کہ وہ اﷲ کو نہیں اپنی ذات کو دھوکہ دے رہا ہے۔

ایک خاص بات جو میں نے محسوس کی کہ انتہائی کرپٹ اور راشی اہلکار جب ریٹائر ہوتے ہیں تو کوشش کر کے مذہبی جماعتوں کی پناہ میں آ جاتے ہیں۔ یہ احساسِ گناہ ہے جو انہیں مائل کرتا ہے یا شاید عوام میں اپنی شخصیت کابرا تاثر زائل کرنے کے لئے مذہبی جماعتوں میں شامل ہونا ان کی مجبوری بن جاتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ مذہبی جماعتیں بھی انہیں خوش دلی سے قبول کر لیتی ہیں۔ جوں جوں اس ملک میں کرپشن بڑھتی جا رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ کرپٹ لوگ ریاض کرتی بلیوں کی طرح مکاری کرتے صاف نظر آتے ہیں اور ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اب کوئی بہت بڑا خونی انقلاب ہی اس ملک کو ان بلیوں سے نجات دلا سکتا ہے۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500869 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More