5 نومبر جمعرات کے روز ٹیکساس کے
فورٹ ہڈ فوجی اڈے میں ہونے والی فائرنگ کے بعد بالاآخر دہشت گردی کے خلا ف
جنگ امریکا کے اندر آپہنچی ہے، تاہم فائرنگ میں ملوث القاعدہ، طالبان یا
کسی اور تنظیم سے تعلق رکھنے والا نہیں بلکہ فلسطینی نژاد امریکی ہی تھا-
اس روز امریکی میجر ندال مالک حسن اس سنٹر میں پہنچا جہاں عراق اور
افغانستان میں تعیناتی کے لیے فوجیوں کی کاغذی کاروائی مکمل کی جارہی تھی،
فائرنگ شروع کر دی اور 13 افراد ہلاک 30 زائد زخمی کر دئے تھے۔
مجرم کے کزن نادر حسن نے بتایا کہ میجر ندال امریکا سے باہر تعیناتی سے
ہچکچاتا تھا۔ سابق صدر بش کی ریاست ٹیکساس کے مرکز میں واقع فورٹ ہڈ دنیا
بھر میں سب سے بڑا امریکی ملٹری بیس ہے جہاں 50 ہزار فوجی مقیم ہیں یہ بھی
ایک حقیقت ہے کہ اس بیس کے فوجیوں کو افغانستان اور عراق میں سب سے زیادہ
خودکش حملوں اور ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اس سال اس طرح کا واقعہ 11 مئی کو بغداد میں امریکی فوجی اڈا میں پیش آیا
جب ایک امریکی فوجی نے غصے میں آکر آپنے پا نچ ساتھیوں کو بھون ڈالا تھا۔
امریکی ایڈمرل ما ئیک مولن کہتے ہیں کہ اس واقعہ نے ہمیں سوچنے پر مجبور کر
دیا کہ تناﺅ اور دباﺅ سے نمٹنے کی کوشش ڈیل کرنے کی ضرورت ہے جبکہ امریکی
وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کا بھی ایسا ہی موقوف ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ سڑیس ختم
کرنے کے لیے پینٹگان کو فوری اور مؤثر کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔
صحت کے ماہرین فوجیوں کی اس حالت کو پوسٹ ٹرامیٹک سڑیس ڈس آرڈر post
tramatic strem disorder کا نام دیتے ہیں واضح رہے کہ عراق اور افغانستان
آنے والے امریکی فوجیوں میں خودکشی، فائرنگ پر تشدد رویے اور خود اذیتی کے
واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اور امریکی حکام اس سے آج کے نہیں بلکہ 1991 کی
پہلی عراق جنگ سے واقف ہیں۔
امریکا کے آرمڈ فورسز ہیلتھ سرویلنس سنٹر کے مطابق 43 ہزار افراد کو محاذ
پر بھیجنے کے حوالے سے آن فٹ قرار دیا گیا تھا۔ لیکن تین ماہ بعد ان میں سے
دو تہائی کو عراق روانہ کر دیا گیا۔ اپریل 2008 میں ایک امریکی اخبار نے
رپورٹ جاری کی کہ عراق اور افغانستان سے واپس آنے والے 20 فیصد ملٹری سروس
کرنے والے زبردست تناﺅ اور ڈپریشن کے مریض بن چکے ہیں۔ ان کی مجموعی تعداد
3 لاکھ کے قریب اور ان میں صرف نصف کا علاج ہوا ہے۔
ماہر نفسیات کے میجر ندال کی اس حرکت سے امریکی فوج میں موجود مسلمانوں کی
کثیر تعداد کی طرف توجہ دی جائے گی۔ اس وقت امریکی فوج میں 35 ہزار امریکی
مسلمان ہیں جبکہ کل امریکی فوجیوں میں سے 2 لا کھ 83 ہزار ایسے ہیں جن کے
مذاہب واضح نہیں اور ان میں سے کافی فوجی مسلمان بھی ہو سکتے ہیں۔ میجر
ندال کی پرسنل فائل میں اس کی شناخت بطور مسلمان نہیں ہے۔ واضح رہے کہ نائن
الیون کے بعد پینٹگان نے فوج میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے مسلمانوں کی
غیر معمولی حوصلہ افزائی کی تھی۔ مثال کے طور پر 2008 میں عربی بولنے والے
فوجی کے لیے ڈیڑھ لاکھ ڈالر بونس کا اعلان کیا تھا۔
میجر ندال حسن کے کزن نادر حسن نے امریکی نیوز چینل فوکس نیوز کو بتایا ہے
کہ ’انہوں نے ایک فوجی وکیل کی خدمات بھی حاصل کی تھیں تاکہ اس معاملے سے
نمٹا جا سکے۔ وہ فوج چھوڑنا چاہتے تھے‘۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نسلی طور
پر مشرقِ وسطٰیٰ سے تعلق کی وجہ سے میجر حسن کو نسلی تعصب کا سامنا بھی
کرنا پڑتا تھا۔
اس واقعہ کے بعد میجر ندال ملک حسن کے بارے میں ان کے چچا کا کہنا ہے کہ
میجر حسن بہت اچھا ڈاکٹر تھا اور وہ صرف اپنے کام میں ہی دلچسپی لیتا تھا
وہ کلینک بند کرنے کے بعد گھر میں بھی مریضوں کا چیک اپ کرتا تھا جب حسن کے
بارے میں یہ خبریں آئیں کہ فورٹ بڈ میں فائرنگ اُس نے کی ہے تو ہم بہت
حیران ہوئے کہ وہ بھی ایسا کر سکتا ہے اور ہمیں محسوس ہو رہا تھا کہ یہ جھو
ٹ ہے کیونکہ میجر حسن ایک حساس انسان تھا اور جب یہ معلوم ہوا کہ اُسے
فائرنگ کے بعد زخمی حالت میں گرفتار کر لیا گیا ہے تو میں بہت حیران ہوا کہ
اُس نے اچانک ایسا کیوں کیا۔ میرے خیال میں اُس کے ایسا کرنے کی وجہ اُس کے
ساتھی سپاہیوں کی طرف سے اُس پر کوئی مذہبی طعنہ بازی ہی ہو سکتی ہے جبکہ
حسن نہ تو کوئی سیاست دان تھا نہ ہی اس کا کسی تنظیم سے تعلق تھا۔ بلکہ وہ
ایک مہذب امریکی شہری تھا۔ تاہم امریکہ میں مسلمانوں کی تنظیموں نے خدشہ
ظاہر کیا ہے کہ اس واقعے کے امریکہ میں مقیم مسلمانوں پر منفی نتائج پڑ
سکتے ہیں۔
امریکہ میں مسلمان فوجیوں سے متعلق امور کے کونسل کے ایک رکن قاسم علی عقدہ
نے کہا ہے کہ یہ حملہ ایک مجرمانہ کارروائی تھی اور اس کو مذہب سے نہیں
جوڑنا چاہیے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ فورٹ ہڈ حملے کے بعد مسلمانوں کو
اسی طرح شک اور تعصب کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے جیسے کہ امریکہ پر گیارہ
ستمبر کے حملوں کے بعد ہوا تھا۔ |