ہر انسان کا کوئی نہ کوئی انداز
ہوتا ہے کسی کا انداز اچھا اور کسی کا انداز برا یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں
کہ ہمیں کچھ لوگوں کے کچھ انداز یا کچھ باتیں پسند ہوتے ہیں اور کچھ انداز
یا باتوں کو ہم ناپسند کرتے ہیں انداز بات یا گفتگو کا بھی ہوتا ہے اور
عادات و اطوار کا بھی ہوتا ہے بات کرنا ہر انسان کا حق ہے ‘بات‘ انسان کسی
کی بات پر بھی کرتا ہے وہ کہتے ہیں نہ کہ ‘ بات سے بات نکلتی ہے تو بات چل
نکلتی ہے‘ اور بات کسی کے ‘انداز‘ اور عادات و اطوار پر بھی کی جاتی ہے
رہی بات ‘برداشت‘ کی تو جس طرح بعض انسانوں کی بعض باتیں قابل برداشت اور
بعض باتیں ناقابل برداشت ہوتی ہیں بالکل اسی طرح بعض لوگوں کے بعض انداز
بعض لوگوں کے لئے قابل برداشت اور پسندیدہ جبکہ بعض کے لئے ناقابل برداشت
اور ناپسندیدہ بھی ہوتے ہیں
انداز درست ہو تو کوئی بات کیوں کرے کہ انسان کسی پر اسی وقت بات کرتا ہے
جب وہ کسی کا کوئی انداز دیکھتا ہے اگر آپ اپنے انداز پر کسی کی کوئی بات
نہیں سن سکتے تو بہتر ہے کہ آپ یا تو اپنا انداز بدل لیں یا دوسروں کی بات
برداشت کر لیں کیونکہ انداز دیکھنے والوں کو آپ کی باتوں پر یا آپ کے انداز
و اطوار پر بات کرنے سے روکا نہیں جاسکتا اور نہ ہی انداز دیکھنے والے خود
دوسروں کے بارے میں بات کرنے سے رکتے ہیں اور نہ ہی چوکتے ہیں
اب اس مسئلے کا واحد حل یہی رہ جاتا ہے کہ اگر آپ کو اپنی کسی بات کے بارے
میں یا اپنے کسی انداز کے بارے میں دوسروں کی بات سننا گوارہ نہیں ہے تو
پھر یا تو آپ کو مذکورہ تدبیر پر عامل کرنا چاہیے یعنی اپنے انداز بدل لیں
یا پھر اپنے اندر خود پر دوسروں کی بات برداشت کرنے کا ظرف اور حوصلہ پیدا
کر لیں کہ کہنے والے تو وہی کچھ کہتے ہیں جو کچھ دوسروں کے انداز دیکھ کر
محسوس کرتے ہیں
اس سے پہلے کے کوئی آپ کے انداز دیکھ کر آپ پر کوئی ایسی بات کرے جو آپ
سننا نہیں چاہتے تو آپ کو چاہیے کہ آپ خود کو دوسروں کی نظر سے دیکھنا شروع
کر دیں اور پھر غور کریں کہ کوئی آپ کے کسی انداز پر کوئی بات کرتا ہے تو
کیوں کرتا ہے اور اس ‘کیوں‘ کے سبب کو ختم کرنے کی کوشش کریں
آپ اپنے ان انداز، عادتوں، خصلتوں اور باتوں میں مناسب تبدیلی لانے کی کوشش
کریں جو دوسروں کو آپ پر بات کرنے کی تحریک دیتی ہے آمادہ کرتی ہے یا آپ کے
بارے میں باتیں بنانے پر اکساتے ہیں پھر نہ تو آپ کو کسی کی ناپسندیدہ
باتیں سننا پڑیں گی اور نہ ہی آپ کو کچھ برداشت کرنے کی دقت سہنا پڑے گی |