شادی دو انسانوں دو خاندانوں کے
ملاپ کا بندھن ہے اس دنیا کا کوئی دیس ہو کوئی مذہب ہو کوئی قبیلہ ہو کوئی
علاقہ ہو شادی ہر جگہ ہوتی ہے شادی لڑکے اور لڑکی یا مرد اور عورت کو ایک
دوسرے کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک کرنا یعنی ان کےدر میاں بیوی کا رشتہ
قائم کرنا ہے خواندہ طبقہ ہو یا ناخواندہ امیر ہو یا غریب شادی تو ہر ایک
کا خواب ضرورت ذمہ داری یا مجبوری ہے اور سب کو کرنا بھی پڑتی ہے کچھ لوگ
نہیں بھی کرتے لیکن کرنی چاہئے کہ یہ فطری ضرورت بھی ہے تقاضہ بھی ہے اور
ایک معاشرتی ذمہ داری بھی ہے اگرچہ شادی ہر مذہب میں کی جاتی ہے لیکن ہر
مذہب اور ہر علاقے میں شادی کی تقریبات کا انتظام و اہتمام اور رسم و رواج
مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں مثلاً ہندو مذہب میں یہ رشتہ آگ کے گرد سات پھیرے
لے کر تکمیل پاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں میاں بیوی کو رشتہ ازدواج میں منسلک
کرنے کے لئے نکاح کی رسم لازم ہے کہ نکاح کے بغیر کوئی لڑکا یا لڑکی مرد یا
عورت کی شادی نہیں ہو سکتی اور نہ ہی وہ نکاح کے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ
رشتہ ازدواج میں منسلک ہو سکتے ہیں ہمارے ہاں نکاح ہی شادی کا شرعی طریقہ
ہے اور دوسری کوئی صورت میاں بیوی کو شادی کے بندھن میں باندھنے کی جائز
صورت نہیں اور نکاح بھی اسی صورت جائز ہوتا ہے جب دونوں فریقین شادی کے لئے
دل سے باہم رضا مند ہوں جبراً یعنی زور زبردستی سے ڈرا دھمکا کر یا کسی بھی
قسم کی بلیک میلنگ سے کسی کو نکاح کے ذریعے رشتہ ازدواج میں منسلک کرنا
جائز نہیں بلکہ یہ ظلم ہے (جبکہ بہت سی خاندانی و معاشرتی پابندیوں کے باعث
ہمارے ہاں یہ ظلم کسی حد تک ہو بھی رہا ہے جو کہ ہمارے معاشرے کی خود ایجاد
کردہ ہیں جبکہ اسلام میں لڑکے یا لڑکی کی جبر سے شادی کروانے کی کوئی اجازت
نہیں اور جو ایسا کرتا ہے وہ ظالم اور گنہگار ہے اور ظلم کی اسلام میں
گنجائش نہیں کہ ظلم محبت نہیں نفرت پیدا کرتا ہے جبکہ اسلام امن خوشی اور
محبت کے فروغ کا مذہب ہے اور نکاح بھی میاں بیوی میں الفت و محبت کا
خوبصورت رشتہ ہے جو ظلم یا زبردستی کی کوشش سے قائم نہیں کیا جا سکتا اور
ایسے جوڑا جانے والا تعلق نہ ہی تادیر قائم رہ سکتا ہے) نکاح کے لئے لڑکے
اور لڑکی کا ہم مذہب ہونا ضروری شرط ہے اس میں مصلحت بھی ہے اور بہتری بھی
اس کے علاوہ امیری غریبی زبان علاقہ خاندان ذات پات سب کی پابندیاں اہم یا
لازمی شرائط نہیں یہ پابندیاں انسان کی اپنے اوپر خود لگائی جانے والی
پابندیاں ہیں ایک مسلمان لڑکی کی دوسرے مسلمان لڑکے سے چاہے وہ کسی بھی ملک
شہر زبان یا خاندان یا ذات سے تعلق رکھتا ہے دولت مند ہے یا غریب ہے اگر
لڑکا لڑکی دونوں شادی کے لئے رضا مند ہیں تو ان کا نکاح کروا دینا جائز ہے
شادی کے بارے میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ کسی بھی لڑکے یا لڑکی
یا کسی بھی مرد یا خاتون اور ان کے گھر والوں یا خاندان والوں کے لئے
انتہائی خوشی کا موقعہ ہوتا ہے اور یہ کہ شادی زندگی میں ایک ہی بار کی
جاتی ہے ایک بار شادی کا تصور عام ہے لیکن بعض اوقات بعض افراد کی زندگی
میں یہ موقعہ دو یا دو سے زیادہ مرتبہ بھی آجایا کرتا ہے اور اس کی کچھ بھی
وجوہات ہو سکتی ہیں بہرحال شادی ایک ایسا موقعہ ہوتا ہے جب تمام دوست احباب
اور عزیز رشتہ دار اکھٹے ہو کر دلہا دلہن کی خوشیوں کو چار چاند لگا دیتے
ہیں خوب ناچ گانا کرتے ہیں جس سے دلہا دلہن کے لئے ان کی محبت اور خوشی کے
جذبات ظاہر ہوتے ہیں کہ اپنوں کی خوشیوں سے ہی زندگی کا رنگ دوبالا ہوتا ہے
ایک دوسرے کی خوشی میں شریک ہونا چاہئیے اور یہ احساس دلانا چاہئیے کہ
واقعی ہم دوسروں کے لئے اور دوسرے ہمارے لئے کتنے اہم ہیں اور سب ایک دوسرے
سے کتنی محبت کرتے ہیں مانا کہ شادی خوشی ہے اور اپنی زندگی کی خوشیوں کو
منانا اور ان سے لطف اٹھانا انسان کا حق ہے اور اسے اپنے حق سے استفادہ
حاصل بھی کرنا چاہئیے لیکن کوئی بھی چیز حد سے تجاوز کر جائے یہ مناسب نہیں
ہمارا معاشرہ اسلامی معاشرہ ہے اور ہمارے مذہب میں دین و دنیا کا ابدی
اخروی اور دنیوی و معاشرتی زندگی کا کوئی ایسا پہلو معاملہ یا مسئلہ ایسا
نہیں جس کا ذکر اسلامی تعلیمات سے محو ہو اسلامی تعلیمات کا مآخذ اللہ کا
پاک کلام جو قرآن پاک کی صورت میں ہم تک اللہ کے آخری اور پیارے نبی حضرت
محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پر اللہ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل امین
علیہ السلام کے ذریعے بتدریج نازل کیا گیا ہے
زندگی کے دیگر تمام معاملات و مسائل کے ساتھ ساتھ شادی جیسے اہم اور نازک
معاملے یعنی نکاح کی ضرورت شرعی حیثیت اور نکاح کی تمام شرائط کی شرع میں
بہت وضاحت کے ساتھ درج ہیں لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ سب کچھ جاننے اور
سمجھنے کے باوجود بھی ہمارے معاشرے میں بہت سے دیگر معاملات کی طرح شادی کی
رسومات میں بھی بہت سی غیری شرعی و غیر اسلامی رسومات رواج پا گئی ہیں جن
کے باعث ہمارے ہی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ یہ شادی کی یہ رسومات
جنہیں ہمارے ہاں کوشیوں کو دوبالا کرنے کا باعث سمجھا جاتا ہے وہ بہت سے
لوگوں کے لئے دکھ تکلیف اور اذیت کا باعث بھی بن رہی ہیں یہ ہمارے سوچنے
اور محسوس کرنے کی بات ہے
جب ہمارے پاس ایک مکمل ضابطہ حیات موجود ہے تو پھر ہمیں کیا ضرورت ہے کہ
غیر اسلامی رسم و رواج کا سہارا لے کر خود اپنے ہی مسائل میں اضافہ کرتے
رہیں شادی یا نکاح ایک فرض اور ذمہ داری ہے جس میں خاندان کے بزرگوں کی
گواہی و شہادے کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر دلہا دلہن ایک
دوسرے کو شرعی حکم کے مطابق ایجاب و قبول کے ذریعے خود کو ایک دوسرے کی
سپردگی میں دیتے ہیں اور اپنی اپنی ازدواجی حیثیت سے اپنی اپنی ذمی داریوں
اور حقوق و فرائض کی ادائیگی کا اقرار کرتے ہیں اس فرض کی ادائیگی کے بعد
دونوں پر ایک دوسرے کے حقوق و فرائض واجب ہوتے ہیں اور انہیں یہ پابندیاں
بخوشی قبول کرنی چاہئیں اور اگر کوئی بخوشی یہ فیصلہ قبول نہیں کرتا تو
شادی یا نکاح کا مقصد فوت ہو جاتا ہے اس لئے یہ فیصلے بہت سوچ سمجھ کر اور
دلہا دلہن کی باہمی رضا مندی سے طے کرنے چاہئیں تاکہ بعد میں کسی بھی قسم
کے مسائل کی صورت میں کسی قسم کی رنجش یا بدمزگی کا احتمال نہ رہے
بات ہو رہی تھی شادی کی رسومات ہمیں اپنی خوشیاں مناتے ہوئے یہ دھیان رکھنا
چاہئیے کہ کہیں ہماری خوشیاں دوسروں کے لئے تکلیف کا باعث نہیں شادی کی رسم
سادگی سے انجام دی جائے تو زیادہ بہتر ہے لیکن آج کل؛ صورت حال بہت مشکل ہے
سادگی سے شادی انجام دینے کو معیوب سمجھا جاتا ہے
آج کل شادی کی رسومات اس قدر طول پکڑ گئی ہیں کہ مہینہ پہلے سے ہی آس پڑوس
میں خبر پھیل جاتی ہے کہ فلاں گھر میں شادی ہے مایؤں مہندی بارات ولیمہ اور
اس کے بعد لڑکی کا اپنے میکے جانا پھر لڑکے والوں کا دوبارہ سے لڑکی کو
سسرال لے کر آنا اور بھی جانے کیا کیا رسومات ہیں ان تمام دنوں کی رسومات
کے الگ الگ تقاضے خاندان میں ناک اونچی رکھنے یا سسرالیوں پر رعب قائم
رکھنے کے لئے جہیز کی بہتات، دودھ پلائی جوتا چرائی راستہ رکاوائی پتہ نہیں
یہ کیا رسمیں ہیں اور ہمارے معاشرے میں کہاں سے آگئی ہیں ان کا ہماری شریعت
سے کوئی تعلق نہیں جبکہ ہمیں اس کا شعور بھی ہے اور یہی المیہ ہے کہ شعور
ہونے کے باوجود بھی ہم انہیں کم کرنے کی بجائے ان میں وقت کے ساتھ ساتھ
اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں
مہندی سے لیکر ولیمے کی تقریب تک خوب شور و ہنگامہ اگر آپ شادی کی خوشی جوش
و خروش سے منانا چاہتے ہیں تو یہ خوشی اور جوش و خروش اپنے گھر کی حدود میں
رہ کر اور مناسب اوقات میں بھی دکھایا اور منایا جا سکتا ہے کہ آپ تو رات
رات بھر جاگ کر خوب پلڑ بازی کرتے ہیں جو کہ شادی کا حصہ نہیں لیکن اب
لازمی جز بنتا جا رہا ہے کہ جس کے بغیر شادی کی تکمیل کہیں مشکوک ہی نہ ہو
جائے خدا کے بندوں اس شور اور ہنگامے سے ان لوگوں کو بہت اذیت ہوتی ہے جو
سمجھتے ہیں کے دن کام اور رات کا پہر کچھ عبادت اور کچھ آرام کے لئے ہے
اپنی خوشی میں دوسروں کے آرام عبادت یا کام میں خلل نہ ڈالیں آپ کے ڈیک کی
اونچی آواز کسی ضعیف کسی بیمار یا کسی طالب علم کے لئے بہت سی مشکلات و درد
سر کا باعث بنتی ہے آپ کے ڈھول ڈھماکوں سے وہ لوگ رات بھر سو نہیں پاتے
جنہوں نے صبح سویرے اٹھ کر ڈیوٹی پر جانا ہے دفتر، سکول کالج یا یونیورسٹی
جانا ہے دن بھر اپنے فرائض کی ادئیگی میں بتانا ہے امتحان دینا ہے تھوڑا سا
خیال ان لوگوں کا بھی کر لیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں نہ ہی کوئی
برائی ہے سوچا جائے تو یہ بھی اخلاقی معاشرتی اور انسانی جرم کے زمرے میں
آتا ہے کہ ہر وہ عمل ہر وہ فعل ہر وہ بات جو دوسروں کے لئے باعث آزار ہے وہ
جرم ہے تو کیوں آپ اپنی خوشیوں کو جرم کی نظر کرتے ہیں کیوں اپنا وقت اور
روپیہ ناحق فضول رسوم میں ضائع کرتے ہیں تھوڑا سا احتیاط کر لیں تو دوسروں
کو آپ کی خوشیاں ناگوار نہ گزریں اس میں آپ کا بھی فائدہ ہے دوسروں کا بھی
کہیں ایسا نہ ہو کہیں کبھی کسی بیماری سے آوازار و بیزار ضعیف مریض کے منہ
سے بےاختیاری میں آپ کے لئے ناگوار الفاظ نہ نکل جائے کہیں آرام میں خلل کے
باعث کسی کے منہ سے آپ کے لئے مغلظات برآمد ہوتے ہوں کہیں کوئی ماں اپنے
بچے کی امتحان کی تیاری میں خلل کو برداشت نہ کرتے ہوئے کوئی ایسی دعا منہ
سے نہ نکال دے جو آپ کے لئے انجانے میں بددعا بن جائے
خوشی ضرور منائیں لیکن حد میں رہ کر اس قدر کہ آپ کی خوشی سے کسی کو تکلیف
نہ پہنچے آتش بازی فائرنگ بے انتہا اونچی آواز میں رات بھر ڈیک اور ڈھول کی
تھاپ پر بھنگڑے اور بڑھکے یہ سب تہذیب یافتہ قوم یا معاشرے کے طور طریقے
نہیں ہیں شادی مت بھولیں کے شادی ایک ذمہ داری اور فرض کی ادائیگی کا عمل
ہے اور فرض کی ادائیگی کا یہ کونسا طریقہ ہے کونسی رسم ہے کیسا رواج اور
کیسی ثقافت ہے سوچئیے کیا یہی ہماری تعلیمات ہیں کیا یہی اسلامی طور طریقے
ہیں کیا یہی شرعی رسم و رواج ہیں کیا یہی خوشی منانے یا فرائض و ذمہ داریوں
کی ادائیگی کا طریقہ اور دستور ہے ہے یہی وہ وجوہات ہیں جو پاکستان میں بہت
سے لوگوں کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں کہ پاکستان میں دولت مند امراء کے
مقابلے میں متوسط اور غریب آبادی کا تناسب کہیں زیادہ ہے تو سوچیں آپ کی
خوشیاں منانے کا عمل کتنے لوگوں کے لئے دل آزاری اور مسائل پیدا کرنے کا
سبب بن رہا ہوتا ہے جو آپ اپنی مستی میں نہ دیکھ پاتے ہپیں نہ سوچ پاتے ہیں
ہماری قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی عاقب جاوید کی شادی کی تقریب یاد آگئی آپ کو
یاد ہو تو جب ہمارا قومی ہیرو یہ کر سکتا ہے تو اس کی تقلید میں آپ کیوں
نہیں کر سکتے یہ ایک مثال ہے ہمارے ہیرو کی ایک کوشش ہے جو انہوں نے اپنی
شادی انتہائی سادگی سے کی یہ شادی جیسی ذمہ داری کی ادائیگی سے بےجا رسموں
کو ختم کرنے کی ایک کوشش کی تھی ان کے علاوہ ابھی بھی بہت سے ایسے گھرانے
ہیں ایسے خاندان ہیں جو آج بھی اپنے تمام معاملات کی ادائیگی عین اسلامی
روایات اور تعلیمات کے مطابق انجام دینے پر کاربند ہیں جب چند لوگ یہ کر
سکتے ہیں تو ہم سب کیوں نہیں کر سکتے کہ یہ تمام بے جا رسمیں ہماری تہذیب و
ثقافت نہیں ہیں انہیں اپنا کر اپنی شناخت نہ مٹائیں بلکہ اپنے معاشرے کو ان
فضول رسومات سے پاک کرنے کو کوشش کریں کہ اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے
اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنے تمام معاملات و مسائل اسلامی تعلیمات کی روشنی
میں اد کرنے کی توفیق و صلاحیت عطا فرمائے (آمین) |