12۔ کنکریاں مارنے کا عمل سنتِ
ابراہیمی علیہ السلام ہے:-
حجاج کرام تین دن منیٰ میں قیام کرتے ہیں اور ان ستونوں کو پتھر مارتے ہیں
جو جمرۂ اُولیٰ، جمرۂ وُسطیٰ اور جمرۂ عقبیٰ کے نام سے معروف ہیں۔ یہ حضرت
ابراہیم علیہ السلام کے عمل کی یاد گار ہے۔
1۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إن جبريل ذهب بإبراهيم إلي جمرة العقبة، فعرض له الشيطان، فرماه بسبع حصيات،
فساخ، ثم أتي الجمرة الوسطي، فعرض له الشيطان، فرماه بسبع حصياتٍ، فساخ، ثم
أتي الجمرة القصوي، فعرض له الشيطان، فرماه بسبع حصيات، فساخ.
’’جبرائیل امین ابراہیم علیہ السلام کو لے کر جمرۂ عقبیٰ پر گئے تو وہاں ان
کے سامنے شیطان آیا۔ انہوں نے اسے سات کنکریاں ماریں تو وہ زمین میں دھنس
گیا۔ پھر آپ جمرہء وسطیٰ پر تشریف لائے تو شیطان کے (دوبارہ) سامنے آنے پر
انہوں نے اسے سات کنکریاں ماریں۔ وہ پھر زمین میں دھنس گیا۔ پھر آپ جمرۂ
اُولیٰ پر پہنچے تو شیطان سے (سہ بارہ) آمنا سامنا ہونے پر اسے سات کنکریاں
ماریں۔ وہ زمین میں دھنس گیا۔‘‘
1. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 306
2. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 1 : 638، رقم : 1713
3. بيهقي، السنن الکبري، 5 : 153، رقم : 9475
4. مقدسي، الأحاديث المختارة، 10 : 283، رقم : 296
5. منذري، الترغيب والترهيب من الحديث الشريف، 2 : 134، رقم : 1807
6. هيثمي، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، 3 :259
2۔ ایک اور روایت میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما خود بیان فرماتے
ہیں :
إن إبراهيم لمّا أمر بالمناسک. . . ذهب به جبريل إلي جمرة العقبة فعرض له
الشيطان، فرماه بسبع حصيات حتي ذهب، ثم عرض له عند الجمرة الوسطي، فرماه
بسبع حصيات، قال : قد (تَلَّهُ لِلْجَبِينِ)(1) وعلي إسماعيل قميص أبيضُ،
وقال : يا أبت! إنه ليس لي ثوب تُکَفِّنُنِي فيه غيره، فاخلعه حتي
تُکَفِّنُنِي فيه، فعالجه ليخلعه فنُودي من خلفه (أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُo
قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا.)(2) فالتفت إبراهيم، فإذا هو بکبش أبيض أقرن
أعين، قال ابن عباس : لقد رأيتنا نبيع هذا الضرب من الکباش. قال : ثم ذهب
به جبريل إلي الجمرة القصوي، فعرض له الشيطان فرماه بسبع حصيات حتي ذهب.
(3)
’’بے شک جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مناسکِ حج کی ادائیگی کا حکم دیا
گیا تو جبرئیل علیہ السلام آپ کو جمرہء عقبیٰ پر لے گئے، وہاں آپ کے سامنے
شیطان آیا۔ آپ نے اسے سات کنکریاں ماریں یہاں تک کہ وہ چلا گیا۔ پھر وہ آپ
کے سامنے جمرۂ وُسطیٰ پر آیا۔ آپ نے اسے سات کنکر مارے، (یہ ایسا مقام تھا
جس کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے قرآنی آیت پڑھتے
ہوئے) فرمایا : ابراہیم علیہ السلام نے اسے (یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام
کو) پیشانی کے بل لٹا دیا، اس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کے اوپر سفید
قمیض تھی، انہوں نے کہا : ابا جان! میرے پاس اس کے علاوہ اور کوئی کپڑا
نہیں ہے جس میں آپ مجھے کفن دیں، لہٰذا اسے میرے جسم سے اتار لیں تاکہ آپ
مجھے اس میں کفن دے سکیں۔ پس آپ نے انہیں سیدھا کیا کہ وہ قمیض اتار لیں،
تو آپ کو پیچھے سے (غیبی) ندا دی گئی : (اے ابراہیم! واقعی تم نے اپنا خواب
(کیا خوب) سچا کر دکھایا۔) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پلٹ کر دیکھا تو
وہاں موٹی آنکھوں اور سینگوں والا سفید (خوبصورت) مینڈھا کھڑا پایا۔ حضرت
عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما یہاں (اپنا اظہارِ خیال کرتے ہوئے) فرماتے
ہیں : ہمارا خیال ہے کہ ہم اسی قسم کے مینڈھے فروخت کرتے ہیں۔ پھر بیان
کرتے ہیں کہ جبرئیل علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جمرۂ اولیٰ
پر لے گئے تو وہاں بھی شیطان سے مڈھ بھیڑ ہو گئی، آپ نے پھر اسے سات کنکر
مارے یہاں تک کہ وہ بھاگ گیا۔‘‘
(1) القرآن، الصافات، 37 : 103
(2) القرآن، الصافات، 37 : 104، 105
(3) 1. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 297
2. طبراني، المعجم الکبير، 10 : 268، رقم : 10628
3. بيهقي، السنن الکبري، 5 : 153. 154
4. هيثمي، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، 3 : 259
5. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 23 : 80
6. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 4 : 16
حضرت ابراہیم علیہ السلام شیطان کو کنکر مارنے کے ساتھ ساتھ تکبیر بھی کہتے
رہے۔ اس کی تائید درج ذیل روایت سے ہوتی ہے :
3۔ حضرت مجاہد بن جبیر (م 104ھ) فرماتے ہیں :
خرج بإبراهيم جبريل، فلما مرّ بجمرة العقبة إذا بإبليس عليها، فقال جبريل :
کبّر وارمه، ثم ارتفع إبليس إلي الجمرة الوسطي، فقال له جبريل : کبّر
وارمه، ثم ارتفع إبليس إلي الجمرة القصوي، فقال له جبريل : کبّر وارمه.
’’جبریل امین حضرت ابراہیم علیہ السلام کو لے کر جمرۂ عقبیٰ کے مقام سے
گزرے تو وہاں ابلیس کھڑا تھا۔ حضرت جبرئیل نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے
کہا : تکبیر کہہ کر اسے کنکر ماریں، پھر جمرۂ وسطیٰ پر ابلیس سے سامنا ہونے
پر حضرت جبرئیل نے آپ سے کہا کہ تکبیر کہہ کر اسے کنکر ماریں، پھر جمرۂ
اولیٰ پر ابلیس ملا تو حضرت جبرئیل نے آپ سے عرض کیا کہ تکبیر کہہ کر اسے
کنکر ماریں۔‘‘
أزرقي، أخبار مکة و ماجاء فيها من الآثار، 1 : 68
شیطان کو کنکریاں مارنا صرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہی سنت نہیں بلکہ
حضرت آدم علیہ السلام کی بھی سنت ہے جیسا کہ درج ذیل روایت سے ظاہر ہے :
امام کلبی فرماتے ہیں :
إنما سميت الجمار، الجمار لأن آدم عليه السلام کان يرمي إبليس فَيُجْمِرُ
من بين يديه.
’’جمار کو اس لیے جمار (کنکریاں پھینکنے کی جگہ) کہتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ
السلام ابلیس کو کنکریاں مارتے تو وہ تیزی سے آپ کے آگے بھاگتا تھا۔‘‘
أزرقي، أخبار مکة و ماجاء فيها من الآثار، 2 : 181
اﷲ کے محبوب بندے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے آج سے ہزاروں سال پہلے جو
عمل کیا تھا اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں وہ مستجاب ہوا۔ امت مسلمہ کو اس پر
عمل کرنے کی سعادت نصیب ہو گئی۔ یہ عمل حاجیوں کے لیے لازم قرار دے دیا گیا
اور جب تک یہ عمل دہرایا نہ جائے حج جیسی عظیم عبادت مکمل نہیں ہوتی۔
یہ عمل پیغام اور مقصدیت سے خالی نہیں، اس سے تین چیزوں کی تعلیم حاصل ہوتی
ہے :
اوّلاً : اس طرح اَنبیاء کی سنت جاری رہتی ہے۔
ثانیاً : اس عمل کو بار بار دہرا کر اﷲ کے ان برگزیدہ پیغمبروں کے لیے جذبہ
محبت و اِطاعت کا والہانہ اِظہار ہوتا ہے۔
ثالثًا : مسلمان ان علامتی شیطانوں کو پتھر مار کر شیطان سے اپنی نفرت کا
اِظہار کرتے ہیں۔
اس تمام بحث کا ما حصل یہ ہے کہ کسی بھی واقعہ کی کیفیت کو تصور و تخیل میں
لا کر اس پر اپنے قلبی جذبات کا اظہار کرنا نہ صرف شرعاً جائز ہے بلکہ اﷲ
تعالیٰ کا محبوب عمل ہے۔ آج اُمتِ مسلمہ اگر اپنے پیارے اور اﷲ کے حبیب نبی
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر واقعاتِ ولادت کو
تصور و تخیل میں جاگزیں کر کے ان کی یادگار کے طور پر محافل کا انعقاد کرتی
ہے تو یہ بھی شرعاً جائز ہے۔ یہ محافل آقائے دو جہاں حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حبی و عشقی تعلق کو مزید مستحکم کرتی ہیں اور
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت و عقیدت اور قلبی وارفتگی میں
اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد دل میں بسا
لینا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد میں کھوئے رہنا اور آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حضوری کے لمحات نصیب ہو جانا وہ کیفیات ہیں
جو اﷲ رب العزت کو بے حد محبوب ہیں۔ بندہ خدا خلوصِ نیت سے رضائے الٰہی کے
لیے بیت اﷲ کا حج کر کے یاد ابراہیمی تازہ کرتا ہے تو رب کریم اس کے صغائر
و کبائر معاف فرما دیتا ہے۔ (1) اگر وہ بندہ یادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم میں سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا جشن منائے
اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ہدیہ صلوٰۃ و
سلام اور گلہائے عقیدت پیش کرے تو پھر اس کی خوش بختی کا عالم کیا ہو گا!
یہی وہ نکتہ ہے جس کا ادراک ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
اتباع و اطاعت میں پختہ تر کرتا ہے۔ یہی وہ عقیدہ ہے جو باقی تمام عقائد کی
جان ہے :
(1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
من حج ﷲ فلم يرفث، ولم يفسق، رجع کيوم ولدته أمه.
’’جو رضائے اِلٰہی کے لیے حج کرے جس میں کوئی بے ہودہ بات ہو نہ کسی گناہ
کا اِرتکاب، وہ ایسے لوٹے گا جیسے اُس کی ماں نے اُسے ابھی جنا ہو۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب فضل الحج المبرور، 2 : 553، رقم : 1449
2. ابن الجعد، المسند : 141، رقم : 896
3. ابن منده، الإيمان : 392، رقم : 230
4. مقدسي، فضائل الأعمال : 81، رقم : 347
5. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 2 : 277
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اُوست
اگر بہ اُو نرسیدی، تمام بولہبی است
اِقبال، کليات (اُردو)، اَرمغانِ حجاز : 691
(دین سارے کا سارا درِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رسائی کا نام ہے۔
اگر اس در تک ہم نہ پہنچ سکے تو ایمان رُخصت ہو جاتا ہے اور بولہبی باقی رہ
جاتی ہے۔)
جاری ہے۔۔۔ |