آج کے ماڈرن دور میں جب ہر طرف سائنس و
ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہے فنون لطیفہ، ثقافت، تہذیب تمدن جیسے الفاظ بولنا
دنیا کے ہر شخص کا طرہ امتیاز بن چکا وہاں کچھ لوگ اب بھی ایسے ہیں جنہیں
دنیا غیر تہذیب یافتہ، غیر مہذب، ناقابل اعتبار اور جاہل جیسے خطاب سے نواز
رہی ہے آخر یہ لوگ کون ہیں؟ جی ہاں یہ لوگ وہ مسلمان ہیں جن کے دل اسلام کے
نور سے جگمگا رہے ہیں جو اللہ اور نبی کی زبان بولتے ہیں، جن کے گھروں میں
مہذب دور کی عریاں اور حیا سے عاری آوازیں نہیں نکلتی جن لبوں پہ آج بھی
قرآن کے الفاظ چھلکتے ہیں۔ یہی ہیں وہ لوگ جو آج کے اس مہذب دور میں سب سے
پیچھے رہ گئے ہیں آخر ان کا کیا قصور ہے؟ غیروں کی بات نہ کیجے اپنے ملک
میں ہی ان کو نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھا جانے لگا ہے آخر کیوں میرا
سوال اس ملک کی مسلم برادری سے ہے کہ انہوں نے اپنی آنکھوں پہ رنگ دنیا سجا
لیا ہے کہ انہیں اب کچھ دکھائے ہی نہیں دیتا۔ کیا یہ سب لوگ انسانیت کے
دشمن ہیں، کیا انہیں اسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کے گلے
کاٹے اور اپنے ہی ہم مذہبوں کا خون کرے۔ کیا قرآن و حدیث کا طالب علم ایسا
کرسکتا ہے؟ نجانے کیا ماجرا ہے۔ کوئی تو کمی ہے کہیں جو یہ سب کچھ ہورہا ہے۔
میں تو صرف یہی کہوں گا کہ اب بھی وقت ہے کہ ہم دین پہ کاربند ہوجائیں کہ
پھر ہمیں کسی اور کی امامت کی بھی ضرورت ہی نہ پڑے ہم اپنی مسجدوں کے بھی
خود امام ہوں ہماری خواتین سٹار پلس میں دکھائی دینے والے لباس کی تلاش کی
بجائے دینی محافل سجائے اور اللہ اور رسول کی محبت دل میں سجائے۔
شائد یہ ہمارا اپنا قصور ہے کہ ہم نے اپنا دین غیروں کے حوالے کردیا جنہوں
نے اس کو بگاڑ کے رکھ دیا کیوں ایسا بھی کبھی ہوتا ہے کہ اگر کسی چیز کو
استعمال نہ کیا جائے تو وہ خراب ہوجاتی ہے یا پھر اس چیز کے مالک کے دل میں
اس کی قدر نہیں رہتی جس کی وجہ سے وہ اسے پھینک دیتا ہے اور اسے کوئی دوسرا
اٹھا کر جیسے چاہے استعمال کرتا ہے۔ آج ہم آنسو بہاتے ہیں اپنی بربادیوں کا
ماتم کرتے ہیں لیکن اب ہم اپنی زندگیوں کو بدلنے کا نہیں سوچتے ہمیں وہ
انگریز کا دیا قانون ہی اچھا لگتا ہے قوانین خداوندی کو آج تک ہم نے اپنانے
کی کوشش نہیں کی چلو ہم اتنا تو کرسکتے ہیں کو اپنے گھروں کو ہی اسلامی
بنالیں آخر کب تک ہم یوں ہی دھوکہ کھاتے رہے گے۔ شائد یہ اللہ کی ناراضگی
اور عذاب ہے جو ہم پہ مسلط ہوگیا ہے کہ اسلام تو امن اور سکون کا دین ہے
پھر کیوں ہمیں سکون نہیں۔ ہم اپنی منافقت چھوڑنے کو کیوں تیار نہیں۔ داڑھی
نہیں رکھنی تو نہ رکھو مگر اسے نبی کی سنت تو کہو۔ موسیقی سنتے ہو تو سنو
مگر اسے حلال تو نہ کہو۔ سود کھاتے ہو تو کھاؤ مگر اسے حلال تو نہ سمجھو۔
اپنی خواتین کو پردہ نہیں کرواتے تو نہ کروا۔ مگر اسے حقارت سے تو نہ دیکھو۔
گناہ کرتے ہو تو کرو مگر اسے عام تو نہ کرو ۔اسلام پہ عمل نہیں کرتے تو نہ
کرو دنیا میں اسے بدنام تو نہ کرو۔ |