سبق

میں اس وقت بے حد خاموشی سے سر تھام کر بیٹھا خود کو، اپنی قسمت کو اور اپنی زندگی کو کوس رہا تھا..میرے بائیں طرف گلاس وال کے اس طرف سوئمنگ پول کا نظارہ واضح طور پر دکھائی دے رہا تھا، ہوا ساکت تھی، اور میرے گھر میں بھی نا ختم ہونے والی خاموشی چھائی ہوئی تھی،..اسی لمحے ملازم نے مجھے میرے دوست کے آنے کی اطلاع دی، میرے کہنے پر وہ اسے سیدھا یہاں لے آیا، میں نے سر اٹھا کر اسے دیکھا، ہمیشہ کی طرح مسکراتے ہوئے وہ میرے سامنے بیٹھ کر مجھے غور سے دیکھنے لگا،چند لمحوں کے لئیے مجھے دیکھتے رہنے کے بعد وہ قہقہہ مار کر ہنسا تھا، خدا ایسے دوست دشمنوں کو بھی نہ دے، میں نے غصے سے اسے ہنستا دیکھ کر سوچا، میں یہاں پریشان بیٹھا تھا اور وہ میری حالت پر ہنسے جا رہا تھا..بے حسی کی بھی حد تھی!...

"بہت اچھے لگ رہے ہو اس طرح بیٹھے ہوئے، دنیا جہاں کی غموں کو گلے لگا کر..اور اس طرح سنجیدہ سا چہرہ بنا کر.."

اس کی ہنسی نہیں رک رہی تھی اور میرا غصہ تھا کہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتا جا رہا تھا..."ویسے مجھے ایک بات بتاؤ اس طرح منہ لٹکا کر بیٹھنے سے کوئی مسئلہ حل ہوا ہے کبھی جو آج ہوگا؟؟"

میں خاموشی سے اسے گھورنے لگا..مجھے اس کی مسکراہٹ زہر لگ رہی تھی..

"بکو بھی...نہیں ابھی رکو..میں تمہاری کچھ تصویریں لے لوں"اپنی جیب سے موبائل نکال کر مجھے کیمرے کے فوکس میں لیتے ہوئے اس نے سنجیدگی سے کہا..

"ہاں..گڈ..ہلنا مت..ایسے سہی ہے..یار..جب تمھارا موڈ آف ہوتا ہے تو کیا مزے کی تصویریں آتی ہیں..یہ میں تمھارے ہونے والے بچوں کو دکھاؤں گا کہ ان کا باپ اپنی جوانی میں کتنا بے وقوف ہوتا تھا..."
بےوقوف مت کہو مجھے.."میرا موڈ مزید چوپٹ ہو گیا..

"اچھا بتاؤ کیا ہوا ہے؟؟"میری ہر زاویے سے تصویر کھینچے کے بعد اسے فرصت ملی تو پوچھنے لگا..."یہ پوچھو کہ کیا نہیں ہوا"میں افسردہ لہجے میں بولا"زندگی میرے ساتھ کبھی اچھا نہیں کرتی"...

"کیا واقعی.."وہ اپنی گہری آنکھیں میرے چہرے پر گاڑ کر پوچھنے لگا...

"بے حسی کی بھی حد ہوتی ہے"میں نے سلگ کر کہا-وہ ہنسنے لگااس سے پہلے کے میں اپنے دکھڑوں کا رونا روتا، وہ اٹھتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوا.."ایک کام کرتے ہیں..سوئمنگ کرتے ہیں"

میں نے بمشکل خود پر ضبط کے پہرے بٹھائے تھے..اسے ذرہ بھر میرا احساس نہیں تھا-وہ جانتا تھا مجھے پانی سے بہت چڑ تھی..اسے معلوم تھا کہ میں تیراکی نہیں جانتا تھا اس کے باوجود....

"آج کے بعد مجھے اپنی شکل مت دکھانا"میں نے درشت لہجے میں کہا-وہ میرے غصے کی پرواہ کیے بغیر کھینچتے ہوئے مجھے باہر لے گیا-سوئمنگ پول کے گہرے پانی کے سامنے کنارے پر کھڑا کرنے کے بعد اس نے میرے گرد اپنے بازو مظبوطی سے باندھ لیے تھے-میں سختی سے لب بھینچ کر کھڑا ساکت پانی کو دیکھنے لگا...

"کیا خیال ہے! دھکا دے دوں!!؟؟"

"اگر تم نے ایسی کوئی حرکت کی تو میں زندگی بھر تم سے بات نہیں کروں گا"

میں نے حتمی لہجے میں کہتے ہوئے اسے دھمکایا-اس کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی-

"تم جانتے ہو مجھے پانی سے چڑ ہے-"میں نے کہا-

"ہاں یہ مجھ سے بہتر کون جانتا ہو گا! جس قدر مشکل سے تم روز اٹھ کر نہاتے ہو یہ بھی مجھے پتہ ہے-"وہ ہنستے ہوئے مزید بولا-"عجیب نمونے ہو تم بھی"

"ہٹو پیچھے" میں اسے دھکیل کر پیچھے ہٹنا چاہتا تھا مگر اس نے مجھے آگے کی طرف جھکا دیا-میں سوئمنگ پول میں گرنے کا رسک نہیں لے سکتا تھا اس لئے اپنی جگہ جم کر کھڑا ہو گیا-اور غصے سے بولا"بہت ہوا-"

اگلے ہی لمحے اس نے مجھے پانی میں دھکا دے دیا-میری تو گویا جان ہی نکل گئی..یہ میرا کیسا دوست تھا جس نے مجھے موت کے منہ میں دھکیل دیا تھا-ٹھنڈے ٹھار پانی میں گرتے ہی میں نے ڈبکی کھا کر سر نکالا اور ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے اسے پکارا تھا-مگر وہ میری مدد کرنے کے بجائے پنجوں کے بل بیٹھ کر دلچسپی سے مجھے دیکھنے لگا-

کئی بار مجھے ایسے لگا جیسے میں مرنے لگا ہوں، میری جان نکلنے والی ہے.سانسیں اکھڑنے لگیں تھیں، دل شدت سے دھڑک رہا تھا-میں اوپر ابھرنے کی کوشش میں ناکام ہو رہا تھا-ایسے لگتا تھا جیسے کوئی جیز مجھے نیچے سے کھینچ رہی ہو-میں اپنے پیروں کو اس طرح سے حرکت دے رہا تھا جیسے پانی کے اندر کوئی شے موجود ہو، جس پر قدم جما کر اوپر ہوتے ہوئے میں آسانی سے سانس کھینچ لوں گا...درد، تکلیف اور خوف کا وہ بھیانک لمحہ تھا-مجھے یقین ہو گیا تھا کہ میں مرنے لگا ہوں کہ یک دم اس نے پانی میں کود کر مجھے اوپر نکالا اور آہنی سیڑھی کے قریب لا کر خود اوپر چڑھ گیا..مجھ میں اوپر چڑھنے کی ہمت نہیں تھی..میں سیڑھی کو مضبوطی سے تھام کر سانسیں کھینچنے لگا...وہ میرے دائیں جانب پانی میں ٹانگیں ڈال کر بیٹھ گیا-میری آنکھیں نم زدہ ہو گئیں-میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ اب زندگی بھر اس سے بات نہیں کروں گا.کیا دوست بھی اس طرح کرتے ہیں...بس اب دوستی ختم...

"کیسا محسوس کر رہے ہو"چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اس نے شریر مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف دیکھا-مجھ میں ویسے بھی بولنے کی ہمت نہیں تھی اس لئے خاموش رہا-وہ موت تھی جسے تھوڑی دیر پہلے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا-

"پانی میں اترنے کے بعد تم نے پہلی بات کیا سوچی تھی!؟" اس کے سوال پر میں نے سر گھما کر غصے سے اسے گھورا-" یہی کہ میں مرنے لگا ہوں اور میری موت کا سبب کوئی اور نہیں..... میرا اپنا دوست ہے-"

جواباً اس نے مجھے چھبتی نظروں سے دیکھا،"ڈفر ہو تم...تمہیں یہ سوچنا چاہیے تھا کہ اگر تمہیں تیرنا آتا ہوتا تو تم اس وقت ہاتھ پاؤں نہ مار رہے ہوتے"-میں نے چونک کر اسے دیکھا، اگلے ہی لمحے میری بھنویں سکڑ گئیں،"اس سے کیا ہوتا!!؟؟-"

"اس سے تمہیں اس بات کا اندازہ ہوتا کہ تیراکی کا آنا کس قدر ضروری ہے-"اس نے مجھے ڈانٹ کر کہا-

اوہ-یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا-سیدھی لائن پر آتے آتے میں پٹری سے اتر گیا اور سخت لہجے میں بولا
"جب مجھے گہرے پانی میں جانا ہی نہیں ہے تو پھر تیرنا کیوں سیکھوں!؟"

"دیکھا یہی تو مسئلہ ہے-"وہ سمجھداری سے سر ہلاتے ہوئے ایسے بولا جیسے اس کے اندازے سو فیصد درست نکلے ہوں-

"کیا مسئلہ! !؟،"میں نے گھورا-

"یہی کہ تمہیں زندگی کے سمندر میں تیرنا نہیں آتا اور تم چاہتے ہو کہ تمہاری سانسیں بھی نہ اکھڑیں..درد بھی نہ ہو، خوف بھی محسوس نہ ہو، ایسا تو تب ممکن ہو گا جب تمہیں تیرنا آتا ہو گا"

زندگی کا تیراکی سے کیا تعلق! ؟؟" میں نے نا سمجھی کے عالم میں اسے دیکھا-

اس کی ہر بات ہمیشہ کی طرح میرے سر سے گزر رہی تھی-

"یہ زندگی ہے.."اس نے پانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا"جس میں تم اس وقت اپنی جگہ پر کھڑے ہو...اس آہنی سیڑھی کو پکڑ کر...تم میں آگے بڑھنے کی سکت نہیں ہے..کیونکہ تم گہرے پانی سے ڈرتے ہو جو کہ ایک طرح سے آنے والے وقت کا خوف ہے-تم آگے نہیں بڑھ سکتے-دوسرے کنارے نہیں پہنچ سکتے کیونکہ تمہیں تیرنا نہیں آتا-اور اس وقت مصیبتوں کے گہرے پانی میں ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے تمہیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ تم مرنے لگے ہو یا تمہیں کن لوگوں نے اس مصیبت بھرے پانی میں دھکا دے دیا ہے..بلکہ تمہیں یہ سوچنا چاہیے کہ تمہیں تیراکی آنی چاہیے تاکہ اس میں گرنے کے بعد تم مشکل سے ہی سہی مگر تیر کر کنارے پہنچ سکو-"

باتوں کا رخ دوسری طرف مڑ گیا تھا اور اب مجھے اس کی باتیں کچھ کچھ سمجھ آ رہی تھیں-

"یہ زندگی بھی گہرے سمندر کی طرح ہوتی ہے-جس کےپانی میں اکثر طغیانی آتی ہے-اس کے اندر مصیبتوں کی بہت سی مچھلیاں اپنا منہ کھولے شکار کہ تلاش میں تیرتی نظر آتی ہیں-کسی بھی وقت کوئی بھی مچھلی ہمیں اپنے منہ میں ڈال سکتی ہے-ایسا نہیں ہے کہ ہم مچھلیوں کے اندر جانے کے بعد نکل نہیں سکتے-"

وہ میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے دھیرے سے مسکرایا"یونس علیہ السلام کو بھی تو مچھلی نے ایک دن نکال ہی دیا تھا"

میں نے چونک کر اسے دیکھا.."یونس!....مچھلی...."

اس لمحے نہ جانے مجھے کیا ہوا تھا کہ میری آنکھیں بھیگ گئیں..

"ہاں انہیں بھی تو مچھلی نےاللہ کے حکم سے نکال دیا تھا تو پھر تم کیوں پریشان ہوتے ہو-"میں نے سر جھکا لیا-

"کیا تم جانتے ہو کہ زندگی کی سمندر میں تیراکی کسے کہتے ہیں؟؟"

"میرے پاس جواب نہیں تھا اور وہ یہ بات اچھی طرح سے جانتا تھا تبھی سوال کہ بعد بتانےلگا-"مصیبت پر صبر کرتے ہوئے، اللہ پر اچھی امید رکھتے ہوئے، استقامت کے ساتھ اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے ثابت قدم رہنے کو زندگی کے سمندر میں تیراکی کہتے ہیں...اس سے بڑھ کر اس لفظ کی اور کوئی وضاحت ہو ہی نہیں سکتی-اور جنہیں تیرنا نہیں آتا، وہ ڈوب جاتے ہیں، اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آیا انہیں مچھلی کھا لیتی ہے یا پانی نگل لیتا ہے-اب ایسا کہنا تو بے وقوفی ہی ہے کہ جب میں نے پانی میں اترنا ہی نہیں ہے تو تیرنا کیوں سیکھوں"

اس نے پانی سے نظریں ہٹا کر میری طرف دیکھا پھر اٹھ کر اندر چلا گیا، میں آہنی سیڑھی کی مدد سے چڑھ کر پانی سے باہر آیا اور اس کے پیچھے چل دیا-

کپڑے بدلنے کے بعد جب میں نیچے آیا تو ملازم نے بتایا میرا دوست باہر جا چکا ہے..میں تیزی سے باہر لپکا تو وہ گاڑی اسٹارٹ کر چکا تھا- وہ مجھے اپنی جانب آتا دیکھ کر کھڑکی کا شیشہ نیچے کرتے ہوئے بھرپور انداز میں مسکریا-میں کھڑکی میں جھک کر اس کی جانب متوجہ ہوا- "اتنی جلدی جا رہے ہو؟"

"ہاں...مجھے بہت سے ضروری کام ہیں تمہاری طرح فارغ نہیں ہو"-

میں مسکرا دیا-"خیر"میں نے گہری سانس لی.."تم نے مجھے تیرنا نہیں سکھایا-"

اس نے مجھے خفگی سے دیکھا اور بولا"یار کوئی کام تم خود سے بھی کر لیا کرو..."

"میں زندگی کے سمندر کی تیراکی کی بات کر رہا ہوں"میں نے وضاحت دی..اس نے ایک منٹ کہتے ہوئے پچھلی سیٹ پر پڑے ایک شاپر سے سبز جلد والی کتاب نکال کر میری طرف بڑھائی جسے میں تھام کر دیکھنے لگا-"یہ کیا ہے!؟"

"یہ ایک کتاب ہے-اس میں لکھا ہوا ہے کہ زندگی کے سمندر میں کیسے تیرنا ہے-"

میں اسے سلام کرنے کے بعد پیچھے ہٹ گیا اور گاڑی کو میں گیٹ سے جاتے ہوئے دیکھتا رہا-چند لمحوں کے بعد میں نے کتاب کھولی اور ساکت ہو گیا...وہ کوئی عام کتاب نہیں تھی بلکہ قرآن تھا-

میری سابقہ زندگی میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگی-وہاں سب کچھ تھا مگر قرآن نہیں تھا-شاید یہی وجہ تھی کہ میں زندگی کے سب سے اہم سبق سے ناواقف تھا....شاید یہی وجہ تھی کہ میں ہر وقت مشکلات کے سمندر میں گھرا رہتا تھا، شاید نہیں بلکہ یقیناً یہی وجہ تھی کہ میں ہر وقت بے سکون رہتا تھا، کیونکہ مجھے تیرنا نہیں آتا تھا-کیونکہ میرے دل میں وہ کتاب نہیں تھی جو تیرنا سکھاتی تھی- میں نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا، پھر سر گھما کر سوئمنگ پول کی طرف جس کا شفاف پانی ساکت تھا،

"یونس علیہ السلام کو بھی تو مچھلی نے اللہ کے حکم سے نکال دیا تھا پھر تم کیوں پریشان ہوتے ہو" مین گیٹ کی جانب بڑھتے ہوئے میں نے دل سے دعا کی تھی کہ اللہ ایسے دوست ہر انسان کو دے.

Husna Mehtab
About the Author: Husna Mehtab Read More Articles by Husna Mehtab: 4 Articles with 8170 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.