حنیف ایسے سنجیدہ شخص سے‘ نامعقول قسم کی
گفتگو کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ اسے ہمیشہ حفظ مراتب کا خیال رہتا۔
دوسرا وہ کہتا کم‘ سنتا زیادہ تھا۔ ایک مزدور پیشہ سے متعلق شخص کے بارے
میں‘ اس کی لب کشائی کم از کم میرے لیے‘ حیرت سے خالی نہ تھی۔ علی رضا
پچھلے پندرہ برس سے‘ اس محلہ میں رہ رہا تھا۔ درزی پیشہ سے تعلق رکھتا تھا۔
ہر قسم کے لوگ اس کے پاس آتے تھے۔ وہ ہر کسی سے‘ خوش اخلاقی سے پیش آتا تھا۔
کسی کو اس سے شکایت نہ تھی۔ سارا دن ٹیپ ریکارڈر پر‘ حسینی مرثیے اور نوحے‘
مناسب آواز میں‘ لگائے رکھتا۔
اس کے گھر کے قریب ہی‘ مسجد تھی۔ جب آذان کی آواز سنتا‘ فورا ٹیپ ریکارڈر
بند کر دیتا۔ جمعہ کے روز‘ مولوی صاحب کے وعظ سے پہلے‘ دکان ہی بند کر
دیتا۔ اگر کسی کو کوئی کام ہوتا‘ تو دروازہ کھٹکٹھا دیتا۔ مولوی صاحب نے
بھی‘ اس کے اس شوق پر انگلی نہ رکھی تھی۔ چوہدری صاحب جو مسجد کمیٹی کے صدر
تھے‘ نے پہلے مولوی صاحب کو فارغ کر دیا‘ اور اپنے ایک غیر شرعی سالے کی
سفارش پر ایک دوسرے مولوی صاحب کو لے آئے۔
مولوی صاحب کیا آئے‘ علاقہ میں قیامت آ گئی۔ اس قیامت کا پہلا شکار علی رضا
بنا۔ اسے کافر قرار دیا۔ اس سے‘ ہر کسی نے‘ سماجی بائیکاٹ کر دیا۔ اس کی
دکان بند ہو گئی۔ گھر کے کواڑ بھی کھلے نہ رہتے۔ دروازے پر کوئی نہ آتا۔ ان
کے گھر کے اندر کے احوال سے‘ کسی کو کوئی دل چسپی نہ تھی۔ دوسرا لوگ مولوی
صاحب کے فتوے سے ڈرتے‘ ان کے دروازے کے قریب سے بھی‘ نہ گزرتے تھے۔ ہر کوئی
اس جلتی آگ سے اپنا دامن بچانا چاہتا تھا۔ ایسے ناگوار حالات میں‘ حنیف نے‘
دہی دودھ کی دکان پر کھڑے ہو کر‘ بڑی سنجیدگی سے کہا: علی رضا کو قبض ہو
گئی ہے اور پوٹیاں لگی ہوئی ہیں۔ اس وقت سب ہنس پڑے۔ شاید کوئی کچھ نہ سمجھ
سکا تھا۔ جب کوئی کچھ سمجھ نہ سکے‘ تو بھی ہنس پڑتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے‘
کہ میں بھی کچھ نہ سمجھ سکا تھا۔
میں گھر آ کر غور کرتا رہا‘ کہ آخر حنیف کی بات کا کیا مفہوم ہے۔ قبض اور
پوٹیوں کی‘ ایک ساتھ کیسے شکایت ہو سکتی ہے۔
لوگوں نے اس کی بات ہنسی میں ڈال دی تھی۔ میرے لیے حیرت کی بات تو یہ بھی
تھی‘ کہ شروع میں یہ ہی مولوی صاحب‘ علی رضا کی دکان پر آئے تھے۔ اس کی
بیوی شبیراں نے‘ مولوی کی تواضع بھی کی تھی۔ شاید تواضع میں کہیں کسر رہ
گئی تھی۔ شبیراں ان پڑھ عورت ہوتے‘ منہ متھے لگتی‘ سلیقہ شعار اور باتمیز
عورت تھی۔ مجھے جہاں حنیف کی زومعنی بات نے پریشان کیا‘ وہاں یہ بھی چنتا
ہونے لگی‘ کہ علی رضا اور اس کے گھر والے‘ کھاتے کہاں سے ہوں گے۔ ان کا
اندر کیا حال رہا ہو گا۔ میں نے ان کی مدد کرنے کی ٹھان لی۔ وہاں مختلف
مسلک کے لوگ اقامت رکھتے تھے۔ اس طرح تو وہ بھی کافر قرار پاتے رہیں گے۔
دن اندر باہر تھا‘ میں چپکے سے‘ گھر سے نکلا اور بڑے محتاط انداز میں‘ علی
رضا کے گھر کی طرف بڑھنے لگا۔ میرا خیال تھا اسے بطور امداد کچھ پیسے دے
دوں گا۔ رستے ہی میں خیال آیا‘ پیسے اس نے سر میں مارنے ہیں‘ انہیں تو
خوردنی سامان پہنچنا چاہیے۔ میں نے سوچا‘ پہلے پوچھ لیتا ہوں‘ پھر جو فوری
ضرورت ہو گی‘ کسی ناکسی طرح پہنچنا دوں گا۔ ڈرتا ڈرتا اور بڑے محتاط انداز
میں‘ ان کے گھر کی طرف بڑھ گیا۔ میری قسمت اچھی تھی دوسرا دن کا وقت ہی کچھ
ایسا تھا‘ کہ ان کی گلی ویران پڑی تھی۔ میں نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے‘
دروازے پر دستک دی۔ خود علی رضا دروازے پر آیا اور اس نے روزن در سے دیکھتے
ہوئے‘ دروازے کھولے بغیر‘ مجھ سے آنے کا مطلب پوچھا۔ میں نے جوابا کہا میرے
لائق کوئی خدمت ہو تو کہیں۔ اس نے جوابا شکریہ ادا کیا‘ مولا آپ کو خوش
رکھے‘ کہہ کر اندر چلا گیا۔ میں نے بھی وہاں سے کھسکنے میں عافیت جانی۔
بلاشبہ ڈر‘ خوف اور رنج نے‘ اس کے اعصاب شل کر دیے تھے۔ اس کی آواز سہمی
سہمی تھی۔ وہ اپنا درد کہنے سے بھی ڈرتا تھا۔ ان لمحوں میں ڈر اور خوف کا
مجھ پر بھی غلبہ تھا۔ اس کیفیت اور صورت حال سے گزرنے کے بعد‘ مجھے حنیف کے
کہے کا مفہوم سمجھ میں آیا۔ ڈر اور خوف سے مجھے بھی علامتی پوٹیاں لگی ہوئی
تھیں۔ میں ٹھیک سے کچھ کہہ نہیں پا رہا تھا‘ تو اس حوالہ سے استعارتی قبض
کی بھی شکایت تھی۔ ایسے حالات میں متضاد عوارض بایک وقت گھیر لیتے ہیں۔
میرے لیے معاملہ لمحاتی تھا‘ تو یہ حالت تھی۔ علی رضا پر تو یہ عذاب کل
وقتی تھا‘ اس کا کیا حال رہا ہو گا‘ اندازہ کرنا مشکل نہیں۔
سچی بات ہے‘ مجھے ان لوگوں پر بڑا رحم آیا۔ میں نے سوچا‘ کل سویرے ہی‘ اپنے
مرشد پاک سے‘ ماجرا کہہ کر‘ دعا کرنے کی استدعا کرتا ہوں۔
جملہ حالات سن کر‘ میرے مرشد پاک بڑے رنجیدہ ہوئے‘ بلکہ جذباتی سے ہو گیے۔
ان کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے‘ پھر فرمانے لگے‘ فکر نہ کرو بیٹا‘ الله ان
کے لیے آسانی کا دروازہ ضرور کھولے گا۔ ہاں پانچ لوگ جنت میں نہیں جا سکیں
گے۔
ان کی یہ بات سن کر میں بڑا حیران ہوا۔ میں نے پوچھا‘ حضور وہ کون سے پانچ
لوگ ہوں گے۔
فرمانے لگے:
صاحب اقتدار‘ جو اپنی ذات کے خول سے باہر نہیں نکلتے۔ ان کے ہر کرنے میں‘
ان کی ذات کا مفاد موجود ہوتا ہے۔ ان کے ادارے‘ صرف ان ہی کے مفاد کے لیے
کام کرتے ہیں۔ انہیں رعایا کے دکھ درد سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا۔
سید‘ اگرچہ شروع ہی سے چھری تلے ہیں‘ لیکن آج‘ وہ بھی دوسروں کے سے ہیں۔
حالاں کہ انہیں حضور کا پیغام حسینی رستے سے گزرتے ہوئے‘ ہر کسی کے پاس
پہنچانا چاہیے۔ یا تو سید کہلانا چھوڑ دیں یا حضور کا کہا بار بار ہر کسی
کے سامنے دہرائیں۔ خیر کریں اور لوگوں کو بھی خیر کرنے کی تلقین کریں۔
شیوخ نے‘ فقر کو پیشہ بنا لیا ہے۔ موج مستی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ فقیر
اور درویش کا موج مستی سے کیا تعلق واسطہ۔ انہیں اپنے لیے بھوک دوسروں کے
لیے سیری بچانا چاہیے۔ یہ خود ہدایت سے کوسوں دور ہیں‘ لوگوں کو خاک ہدایت
دیں گے۔
مولوی تفریق کے دوازے کھولتا ہے۔ اس نے اسلام کو اپنی جاگیر سمجھ رکھا ہے۔
جو اس جاگیر کے دائرہ میں ہے‘ اور اس کے کہے پر چلتا ہے‘ بس وہ ہی مسلمان
ہے۔ منصور حمادی کے کہے کی جاگیر سے باہر تھا‘ اسی لیے مارا گیا۔ منصور
حمادی سے کہیں بڑا عالم تھا۔
بلھے شاہ خوش قسمت تھا‘ ورنہ وہ بھی مارا جاتا۔ اس نے بھی منصور والا دعوی
کیا تھا
بلھیا! اساں مرنا نئیں گور پیا کوئی ہور
یہ کہا منصور والا ہی ہے۔
امت میں تفرقہ‘ کسی بھی حوالہ سے ڈالنے والا الله کے قہر وغضب سے نہ بچ
پائے گا۔ تفرقہ ڈالنے والے کا ساتھ دینے والا بھی مجرم ٹھہرے گا۔
حضرت پیر صاحب کی باتوں میں حقیقت رقصاں تھی۔ وہ بےچارے دعا ہی کر سکتے
تھے۔ وہ علی رضا کے لیے کیا کر سکتے تھے۔ ان کی باتیں‘ ان کے علاقہ کے
چوہدری صاحب کو‘ گولی کی طرح لگتی تھیں۔ حالاں کہ وہ کسی کا نقصان نہیں
کرتے تھے۔ وہ تو‘ اپنے منہ کا لقمہ‘ حاجت مندوں کو دے دیتے تھے۔ چوہدری کے
ڈیرے پر لوگ گلپ کرتے تھے لیکن پیر صاحب کبھی کسی ذاتی حاجت کے لیے‘ اس کے
پاس نہیں گیے تھے۔ ہاں لوگوں کی جائز حاجات کے لیے آخری حد تک جاتے تھے۔
میں ساری رات‘ بستر پر پڑا کروٹیں لیتا رہا۔ علی رضا کا حقیقی قصور یہ تھا‘
کہ اس نے مولوی صاحب سے سلائی کی اجرت مانگ لی تھی۔ دوسرا اس کی بیوی نے
خوب صورت ہونے کے ناتے مولوی صاحب کی‘ ان کے وسیبی استحقاق کو مدنظر رکھتے
ہوئے‘ جنسی تواضع نہ کی تھی۔ یہ اس کی خوش نصیبی تھی‘ جو ابھی تک سانس لے
رہا تھا۔
حضرت پیر صاحب کی بھی جان خطرے کی گرفت میں تھی۔ اس سوچ کا آنا تھا‘ کہ
میری روح تڑپ اٹھی۔ اچانک میرے منہ سے نکل گیا
۔۔۔۔ میں چیر نہ دوں گا۔۔۔۔
پہگاں اک دم چونک کر اٹھ بیٹھی‘ اور پوچھنے بیٹھ گئی‘ کس کو چیر دو گے۔ بات
سیاق و سباق سے عاری تھی‘ اس لیے اس نے‘ اسے اپنی ذات پر محمول کر لیا۔
حالاں کہ اس کا اس سے دور کا بھی تعلق واسطہ نہ تھا۔ کیا کہتا‘ بات پردے کی
تھی‘ کہہ نہیں سکتا تھا۔ رات بھر تو بکواس سننے میں گزرے گی ہی‘ صبح کو
پورے علاقہ اور برادری میں گڈا باندھ دے گی۔ یہ دوسری بار تھی‘ کہ میں ایک
ساتھ دو متضاد عوارض کی گرفت میں آ گیا تھا۔ |