ذمہ داران کی ملی بھگت سے ریاستی
جنگل کے بے دریغ کٹاؤ سے خطرناک ماحولیاتی وارضیاتی تبدیلیاں
ملک اورقومیں لاکھوں جانوں‘عزت وحرمت ،مال واسباب اورہزاروں پاکیزہ عصمتیں
لٹانے جیسی لازوال قربانیوں کے بعدمعرض وجودمیں آتی ہیں۔اگراس آزادی کی
قدرنہ کی جائے تو پھروہ اس نعمت سے ہاتھ دھوبیٹھتی ہیں۔ تاریخ عالم میں بہت
کم ایساہواہے کہ کسی آزادوخودمختارملک پرکسی دوسرے ملک نے اچانک حملہ کرکے
غاصبانہ تسلط جمالیاہوبلکہ ملکوں اورقوموں کی تباہی وبربادی کا عمل بڑاسست
رفتارہوتاہے۔قومیں اورملک جلداپناوجودنہیں کھوتے۔ یہ عمل صدیوں پرمحیط
ہوتاہے۔اسپین پرمسلمانوں نے آٹھ سوسال حکومت کی۔ مگراب وہاں سے مسلمانوں
کانام ونشان تک مٹ چکاہے۔ کوئی اس کا تصوربھی نہیں کرسکتاکہ کبھی اسپین میں
مسلمان حکمران ہواکرتے تھے۔قوموں کی تباہی وبربادی کاعمل خودقوموں کے
افرادکے ہاتھوں شروع ہوتاہے اورنسل درنسل آگے بڑھتاہے۔اس عمل کو اس وقت
تقویت ملتی ہے جب حکمران سیاسی مصلحتوں،ذاتی مفادات اورہوس اقتدارکے تحت چپ
سادھ لیتے ہیں۔جوعلمی حلقے یہ رائے رکھتے ہیں کہ وطن عزیزتعمیروترقی
اوراستحکام کی طرف بڑھ رہاہے اورہم بحیثیت مسلمان قوم اپنے نشان منزل پرہی
گامزن ہیں تومعذرت کے ساتھ عرض ہے کہ چشم بصیرت کوایساکچھ نظرنہیں آتاکہ جس
پر یہ سمجھاجاسکے کہ واقعی بحیثیت قوم ہم کامیابی کی طرف رواں دواں ہیں۔جب
قوموں کے مٹنے کا عمل شروع ہوتاہے توسب سے پہلے اس قوم کے ادارے
کمزورہوجاتے ہیں،یاکردئے جاتے ہیں۔قوم کے افرادکے کردارکو گھن لگ جاتاہے
اوریہی گھن ایک دن پوری قوم کاسفینہ ڈبودیتاہے۔معاشرے کے بے حیثیت وبے
نواافرادپرتوقانون،ضابطہ لاگوہوتاہے۔ لیکن اصل چوروں اورلٹیروں کاکوئی بال
بھی بیکانہیں کرسکتا۔یہ سب کچھ حکومت اورانتظامیہ کی پشت پناہی اورمنشاء سے
ہی ہوتاہے۔مثلاً محکمہ پولیس کوہی لیجئے‘یہ ادارہ افرادمعاشرہ کی جان ومال
کا محافظ ہے،اگراس کے اہلکارخودڈکیت بن جائیں،توایسی صورت میں پولیس سے
بہتری کی کیاتوقع رکھی جاسکتی ہے۔ عموماًدیکھاگیاہے کہ ہمارے قانون
نافذکرنیواے اداروں کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے اور وہ دیدہ دلیری سے
وہی کچھ کرتے ہیں جو اُن سیاستکاروں کے مفادمیں ہوتاہے۔جوپولیس آفیسرسیاسی
دباؤ قبول نہیں کرتے انہیں تبدیل کروادیاجاتاہے۔ایسے معاشرے کے بارے میں
کوئی رائے قائم کرناخودفریبی کے سوااورکیاہوسکتاہے۔آئے روزایسے واقعات
رونماہوتے ہیں جن میں ظلم وناانصافی،جبرولاقانونیت کی تمام حدیں پارکردی
جاتی ہیں۔ہمارے دیگراداروں کے احوال بھی پولیس سے کچھ مختلف نہیں
ہیں۔ہرادارہ اپنے اصل سے ہٹاہواہے،ڈپٹی کمشنرواے سی دفاتررشوت ستانی کاگڑھ
بنے ہوئے ہیں۔آپ کو پشتنی سرٹیفیکٹ اورڈومیسائل وغیرہ بنوانے کے لئے ان
دفاترسے فیس کی کبھی کوئی رسیدنہیں ملے گی۔حیران کن امریہ بھی ہے کہ
میڈیانے بھی کبھی اس جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی۔یہ بنیادی سرٹیفکیٹس حاصل
کرنے کے لئے عام آدمی کو ہزاروں روپے خرچ کرناپڑتے ہیں اوران ہزاروں روپے
میں سے زیادہ سے زیادہ چالیس،پچاس روپے ہی خزانہ سرکارمیں جمع ہوتے ہوں
گے۔باقی کا ساراپیسہ سائل کی آمدورفت،قیام وطعام اورپھران دفتروں کے
منشی،کلرک بادشاہ اورریکارڈکیپرکے حصے میں چلاجاتاہے۔یہ بھی شنیدہے کہ
محکمہ مال کے پٹواری جوپیسہ لیتے ہیں وہ نیچے سے اوپرتک جاتاہے۔ایک عقل کا
اندھاآدمی بھی یہ جانتاہے کہ پٹواری جو سکیل7کاملازم ہے‘اورجس کی ماہانہ
تنخواہ اب جاکے کہیں،زیادہ سے زیادہ بائیس،پچیس ہزارروپے ہوئی ہے‘یہ گاڑیوں
اورکوٹھیوں کا مالک کیسے بن جاتاہے۔محکمہ تعلیم کے بعض کلرک ایسے ہیں جن کی
چودہ چودہ ،سولہ سولہ لاکھ روپے کی گاڑیاں مختلف روٹس پر چلتی ہیں۔آخرکلرک
بادشاہ کے پاس اتنے وسائل کہاں سے آتے ہیں،احتساب عدالتیں،اینٹی کرپشن کے
ادارے ،سب کچھ ہے، مگرقانون اورضابطہ جوتے کی نوک پررکھاجاتاہے۔یہ محاسبہ
اورمواخذہ کرنے والے آخر کچھ زحمت اٹھاکر ایسے لوگوں سے بازپرس کیوں نہیں
کرتے؟
آزادکشمیرکامحکمہ جنگلات ریاست کا سب سے زیادہ آمدنی والاادارہ ہے۔مگراس
محکمہ کے حالات دیکھ کرلگتاہے کہ اسے اب ’’محکمہ انسدادجنگلات ‘‘کا نام
دیاجاناچاہیئے۔اس محکمہ کی جانب سے ازخودایسے اقدامات کیئے گئے ہیں۔جن سے
لگتاہے کہ یہ ادارہ اب آزادخطہ سے عملاًجنگلات کانام ونشان ہی مٹانے کے
درپے ہے۔پوری ریاست میں لوگ کھلے عام جنگلات کارقبہ نتوڑکرکے جنگل پرقابض
ہورہے ہیں۔جنگل کی بے دریغ کٹائی سے ہزاروں ایکڑرقبہ سے جنگل کا
صفایاہوچکاہے۔محکمہ جنگلات کے اہلکارملی بھگت سے اپنی جیبیں گرم کرکے
خودجنگل کٹوارہے ہیں‘لیکن کوئی پوچھنے والانہیں ہے۔یہ سب دانستہ طورپر
ارادتاً محکمہ کے اعلیٰ آفیسران ‘یہاں تک کہ وزارت جنگلات کی منشاء اورمرضی
سے ہورہاہے۔جنگل کاٹ کر اس کانشان متانے کے لئے ’’منڈی کو جلا دیاجاتاہے
۔اس باعث ہرسال مختلف مقامات پرجنگل میں پوری منصوبہ بندی سے آگ لگائی جاتی
ہے۔اس آتشزدگی سے نہ صرف غیرقانونی جنگل کٹائی کوچھپادیاجاتاہے بلکہ اس سے
جنگلی حیات کو بھی شدیدنقصان پہنچتاہے۔ معتبراورمصدقہ ذرائع سے معلوم ہواہے
کہ فاریسٹ مجسٹریٹ کے پاس غیرقانونی طورپرجنگلات کٹائی کی شکایات پرمشتمل
تین لاکھ سے زائدفائلیں سال ہاء سال سے زیرالتواء پڑی ہیں۔محکمہ جنگلات کے
اعلیٰ حکام اورآفیسران ایک طے شدہ پالیسی کے تحت ان شکایات اوردرخواستوں
پرکوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ایسی شکایات پرمبنی درخواستیں پہلے عدالت
العالیہ کے ماتحت عدالت میں پیش کی جاتی تھیں مگرکچھ ہی عرصہ قبل نہ جانے
کیوں یہ فیصلہ کیاگیاکہ اب یہ تمام کیسزمحکمہ جنگلات کی جانب سے قائم کردہ
فاریسٹ مجسٹریٹ کے زریعے یکسوکئے جائیں گے۔گزشتہ کئی برسوں سے ایسے تین
لاکھ مقدمات تاحال التوء کا شکارہیں۔اگرایک کیس میں دس درختوں کی کٹائی کی
شکائت ہو تو تین لاکھ کیسوں میں اوسطاًتیس لاکھ درخت بنتی ہے۔نیلامی کے
حساب سے ایک درخت کی قیمت پانچ ہزارروپے مقررکی جائے تویہ لاگت مجموعی
طورپرپندرہ ارب روپے بنتی ہے۔گویا محکمہ جنگلات کے ذمہ داران نے دانستہ
طورپرپندرہ ارب روپے کی آمدن کو ضائع کردیاہے بلکہ یوں کہاجائے توبے جانہ
ہوگاکہ محکمہ انسدادجنگلات کے ارباب اختیارکم سے کم پندرہ ارب روپے کی اس
بڑی کرپشن میں برابرکے حصہ دار ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق قیام پاکستان کے وقت جنگلات کل رقبے کا
47فیصدتھے جبکہ حالیہ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ اب یہ جنگلات محض11فیصداوربعض
رپورٹس کے مطابق صرف 9فیصدرہ گئے ہیں۔آزادزرائع کے مطابق المیہ یہ ہے کہ
1989-90ء کے بعدسے اب تک جنگلات کے رقبہ کی پیمائش تک نہیں کی
گئی۔آزادکشمیرکی وادی جہلم اورنیلم ویلی گھنے جنگلات کی وجہ سے ہی شہرت
رکھتی ہیں مگرمحکمہ جنگلات کے کارپردازوں نے ان دونوں وادیوں کو’’گنجی
وادیوں‘‘میں بدل کررکھ دیاہے۔ان علاقوں سے جنگلات کوا نتہائی بے دردی سے
کاٹاگیاہے اور یہ سلسلہ ہنوزاسی تسلسل سے جاری ہے۔لگتاہے محکمہ جنگلات ان
علاقوں سے جنگلات کامکمل صفایاکرنے کے درپے ہے۔جنگلات ہماراقیمتی سرمایہ
ہیں اورمحکمہ جنگلات ان جنگلات کاکٹاؤکرکے’’محکمہ
انسدادجنگلات‘‘کاکرداراداکرتانظرآرہاہے۔جنگلات کے بے دریغ کٹاؤ سے جہاں
ریاست کا قدرتی ماحول اورمناظرفطرت بری طرح مسخ ہوکررہ گئے ہیں‘وہیں ان
جنگلات میں نایاب اورحددرجہ قیمتی قدرتی جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں۔جو‘
اب بے پناہ جنگل کاٹے جانے کے باعث ناپیدہوتی جارہی ہیں۔جنگلات کے کٹاؤ سے
نایاب نسل جنگلی جانور،پرندے،اوردیگرانواع اقسام کی حیات کاوجودنابودہوکررہ
گیا۔اب اُس جنگلی حیات کاخطہ میں نام ونشان تک باقی نہیں رہا۔جوکبھی وادی
کشمیرکے حسن فطرت کو چارچاندلگاتے تھے۔یہ وہ نایاب جنگلی حیات ،مختلف رنگ
ونسل کے پیارے پیارے جانوراورقدرت کا حسین شاہکارپرندے ہوتے تھے‘جب ہم جہلم
ویلی جانے کے لئے نیلی روڈ موجودہ شاہراہ سرینگرپرپہنچتے‘یاکامسرسے آگے
نیلم ویلی میں قدم رکھتے تھے توقدم قدم پراپنی خوبصورت اداؤں،اوردلکش صداؤں
سے ہمارااستقبال کرتے نظرآتے تھے۔مگراب اس کا تصوربھی نہیں رہا۔نایاب نسل
جنگلی حیات کی اس نسل کشی کا ذمہ دار محکمہ انسدادجنگلات ہی ہے۔جس کی عدم
دلچسپی،کام چوری،کرپشن اورلوٹ مارکے سبب اب جنگلی حیات کی نسلیں ختم ہوکررہ
گئی ہیں۔حیران کن امرہے کہ محکمہ وائلڈلائف نے بھی اس جانب کوئی توجہ نہیں
دی ہے۔یہ سب محکمہ انسدادجنگلات کاہی کیادھراہے۔جنگلات کے کٹاؤ سے ہی ماحول
پرگہرے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔زمینی کٹاؤبڑھ رہاہے لینڈسلائیڈنگ سے
ہزارونایکڑرقبہ تباہ ہورہاہے۔زرعی اراضی بنجرہونے لگی ہے،بارشیں اوربرفباری
بے موسمی ہوتی جارہی ہیں۔آلودگی پھیل رہی ہے۔جنگلی حیات کے ساتھ ساتھ اس کے
آبی حیات پر بھی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔نیلم اورجہلم ویلی کے مضافاتی
علاقوں میں پورے پورے جنگل کاٹ لیئے گئے ہیں۔مقامی لوگ محکمہ پراورمحکمہ
لوگوں پر الزام دے رہاہے۔دیہی علاقومیں جنگل پرقبضے کے لئے ایک بڑافتنہ
یعنی طریقہ ءِ واردات یہ ہے کہ مقامی جنگل عملہ کی ملی بھگت سے کسی بھی
مقام کو اپنی ’’بہک‘‘قراردے دیاجائے‘اورپھرجنگل بھی کاٹ لواورقبضہ بھی
کرلو‘کوئی پوچھنے والانہیں۔چندروزقبل ہمیں’’اڑنگ کیل‘‘جانے کا اتفاق ہوا۔یہ
مقام سیاحتی اعتبارسے اسقدرخوبصورت ہے کہ ہم نے آزادکشمیرمیں اس جیسی کوئی
دوسری جگہ نہیں دیکھی،ہماری حیرت کی انتہانہ رہی کہ اس مقام پر سیاحوں کی
آمدورفت کے لئے تو کوئی انتظام نہیں البتہ جنگل سے ’’گیلیاں‘‘لانے کے لئے
مناسب سڑک موجودہے جس پر ترک بھی چل رہے ہیں اور وہ ایک خاص مقام تک
لاکرلکڑسٹاک کرتے ہیں۔جہاں سے لفٹ کے ذریعے لکڑی کی ترسیل کردی جاتی ہے۔
یہاں ایک بات ضمناًعرض کردوں، یہ ایک الگ قضیہ ہے کہ ان اربوں روپے مالیتی
معدنیات،نادرپتھر،قیمتی جڑی بوٹیوں’’گچھی‘ ترے پترا‘‘ وغیرہ کے تحفظ،قانونی
طورپردرآمدکے لئے اقدامات کے حوالے سے محکمہ انسدادجنگلات نے کوئی توجہ
نہیں دی۔صرف ایک ’’ترے پتراکو ہی لیجئے،یہ جڑی نیلامی کے حساب سے اس وقت
مارکیٹ میں کم وبیش 20ہزارروپے فی کلوگرام فروخت ہورہی ہے اورآئے
روزمیڈیاکی زینت بننے والی خبروں کے مطابق سینکڑوں من ترے پترااوراسی طرح
کی خطیرمالیتی دیگربوٹیاں بھارت اورافغانستان سمیت دیگرممالک میں سمگل
کیاجاچکاہے‘اوریہ سلسلہ اسی طرح تسلسل سے جاری ہے۔اس دھندے میں جو
ریکارڈکرپشن کی گئی ہے اور کس کس نے کتناکتناحصہ لیاہے‘کس طرح اس قومی
سرمایہ کو دشمن ملک بھارت سمگل کیاجاتاہے‘اس پر پھرکبھی تفصیلی بات
ہوگی۔لیکن انتہادرجے کی اس غفلت،لاپرواہی اورکرپشن سے ایسالگتاہے کہ یہ سب
ہمارے صاحبان اقتدارکی مرضی سے ہورہاہے اوراس کرپشن میں ہرایک اپنی حیثیت
کے مطابق حصہ دارہے۔نیلم اورجہلم ویلی میں قدیم تاریخی تہذیبوں کے آثاربھی
موجودہیں مگرمتعلقہ اداروں،بالخصوص محکمہ آثارقدیمہ نے اس جانب کوئی توجہ
نہیں دی ان کی عدم دلچسپی اورڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں کے باعث اب وہ قدیم تہذیب
وثقافتی آثاربھی رفتہ رفتہ منظرسے غائب ہوتے جارہے ہیں۔
آہ ،................!میری قوم ہرسال اپنی آزادی کاجشن بڑے دھوم دھام سے
مناتی ہے ۔امسال بھی چودہ اگست منایاگیا،یہ پاکستان کی آزادی کا مبارک دن
ہے مگراس عظیم دن کسی نے بھی اپنے عمل اورکردارپرکوئی غوروفکرنہیں کیاجس
گھناؤنے کردارپرسنجیدہ ومحب وطن افرادکو گھن آتی ہے۔خدارا................!
اپنے گریبان میں ضرورجھانکیں۔اپنے اداروں کاخیال کریں۔بدقماش،راشی اورکرپٹ
آفیسران واہلکاران کا کڑااحتساب کرکے ان کو قرارواقعی سزادیں۔کاغذی قانون
کوحرکت میں لائیں اورصاحب حیثیت بدمست ،کرپٹ آفیسران کوقوم کی تقدیرسے نہ
کھیلنے دیں۔ |