تعلیم، تہذیب اور قومی زبان کے قتلِ عام کا دوسرا راؤنڈ - حصہ 1

ڈائریکٹوریٹ آف پبلک انسٹرکشن پنجاب لاہور مراسلہ نمبر 11363 مورخہ 15٫10٫2009 تمام ضلعی افسرانِ تعلیم (D.E.O,s) کے نام جاری ہوا۔ جس کے بائیں کونے میں most important, personal attention, top priority, by name جیسے الفاظ لکھے ہوئے ہیں۔ سب سے اہم، ذاتی توجہ کی حامل، ترجیحِ اوّل اور نام کی منسوبیت کے ساتھ روانہ کردہ اس چٹھی کا آغاز اس طرح ہے کہ " معیاری تعلیم اور مسابقتی فضا مہیا کرنے کے لیے گورنمنٹ موجودہ سیکنڈری سکولوں کو یکم اپریل ۲۰۱۰ یعنی موجودہ تعلیمی سال سے انگلش میڈیم میں تبدیل کر رہی ہے۔ یہ پروگرام ۵۸۸ سیکنڈری سکولوں میں پہلے مرحلے میں نافذ العمل ہو چکا ہے۔ پہلے مرحلے کی فیڈ بیک کی بنیاد پر حکومت کے شعبہ تعلیم (سکولز) نے اسے وسعت دینے کا فیصلہ کیا ہے اور مزید ۱۱۷۶ طلباء اور طالبات کے سکولوں کو دوسرے مرحلے میں یکم اپریل ۲۰۱۰ سے انگلش میڈیم کر دیا جائے گا۔ ان سکولوں کی فہرست چٹھی ہٰذا کے ساتھ لف ہے۔آپ سے درخواست ہے کہ متعلقہ تعلیمی اداروں کی ضلعی ہیڈ کوارٹر پرمیٹنگ بلا کر انہیں آگاہ کردیں اور اس ڈائریکٹوریٹ (D.P.I) کو سرٹیفکیٹ دیں کہ اطلاع پہنچ گئی ہے اور متعلقہ سکولز یکم اپریل 2010 سے انگلش میڈیم کی حیثیت سے شروع ہورہے ہیں۔ مقامی ذرائع ابلاغ میں اس پروگرام کی وسیع پیمانے پر اشتہار بازی کی جائے گی اور اس کی منصوبہ بندی ابھی سے شروع کی جائے۔ اس مسئلے کو ترجیحِ اوّل کے طور پر لیا جائے"۔

اس چٹھی کے ساتھ ایک دوسری چٹھی ہے جو NO, PS/SSE/MISC/2009/176 ہے جو حکومتِ پنجاب شعبہ تعلیم کی طرف سے ہے جس کا اردو ترجمہ یہ ہے " نیشنل سکیم آف سٹڈیز کے تحت ہر سکول میں انگریزی میں پڑھائے جائیں گے۔ حکومتِ پنجاب اس پالیسی کو مرحلہ وار نافذ العمل کر رہی ہے۔ پہلے مرحلے میں ۵۸۸ ہائی سکولز اور ۱۱۰۳ کمیونٹی ماڈل گرلز پرائمری سکولز انگلش میڈیم میں تبدیل کیے گئے۔ اس مرحلے میں ۱۱۷۶ مزید ہائی اور ہائر سیکنڈری سکولز (پہلے مرحلے سے دوگنے) یکم اپریل ۲۰۱۰ سے انگلش میڈیم میں تبدیل کیے جائیں گے۔ منتخب کردہ ہائی اور ہائر سیکنڈری سکولوں کی کل تعداد اب ۱۷۶۴ ہے۔ آخر کار تمام پرائمری سے ہائر سیکنڈری سکولوں تک یکم اپریل ۲۰۱۱ تک ریاضی اور سائنس انگلش میں پڑھائیں گے۔

ایلیمنٹری سطح پر ۱۷۶۴ سکول یکم اپریل ۲۰۱۰ سے انگلش میڈیم میں تبدیل کیے جائیں گے۔ وہ ریاضی، سائنس /جنرل نالج نرسری، اول اور دوم میں انگریزی میں اور سائنس اور ریاضی ششم سے انگلش میں شروع کریں گے۔

پرائمری سطح پر ۷۰۵۶ پرائمری سکولوں میں یکم اپریل ۲۰۱۰ سے نرسری، اوّل اور دوم میں مذکورہ مضامین انگلش میں پڑھائے جائیں گے۔ منتخب کردہ پرائمری اور ایلیمنٹری سکولوں کی فہرست اس چٹھی کے ساتھ لف ہے۔ تمام سکولوں کو تعداد کے لحاظ سے منتخب کیا گیا ہے۔

اس بات کی دوبارہ وضاحت کی جاتی ہے کہ تمام سکولوں کے سربراہان پرائمری سے ہائر سیکنڈری تک کلاسیں شروع کرنے کے مکمل مجاز ہیں اور اس مقصد کے لیے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ ڈائریکٹر پبلک انسٹرکشن متعلقہ سکولوں میں عملدرآمد اور نگرانی کا صوبائی سطح پر ذمہ دار ہے اور ڈی اوز اسے نافذ العمل کرنے کے لیے ذمہ دار ہیں"

مذکورہ بالا دونوں چٹھیوں کے ساتھ ایک تیسری چٹھی بھی لف ہے جو اردو میں لکھی ہوئی ہے۔ اس چٹھی کا عنوان ہے " حکومتِ پنجاب کا یکساں نظامِ تعلیم کی طرف ایک مستحسن قدم" اس چٹھی کا متن بھی ملاحظہ فرما لیجئے تاکہ تعلیم، تہذیب اور قومی زبان کی تباہی کا پورا منظر اپنے درست خدوخال کے ساتھ دیکھا جا سکے۔" یہ ایک حقیقت ہے کہ طبقاتی نظامِ تعلیم قوموں کی اجتماعی سوچ کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ حکومتِ پنجاب نے قوم میں اجتماعی سوچ پیدا کرنے کے لیے اس طبقاتی نظامِ تعلیم کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے حکومت نے پانچویں اور آٹھویں جماعت میں جہاں یکساں نظامِ امتحانات کا فیصلہ کیا ہے اسی کے ساتھ یکساں تدریسی زبان کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ زبان اردو ہو یا انگریزی اس فیصلہ کی بنیاد اس پر ہے کہ جس مضمون کا علم جس زبان میں پیدا ہو رہا ہوتا ہے وہی زبان اس کی تدریسی (تدریس) کے لیے بہترین ہوتی ہے۔ ہم اپنے سکولز میں درج ذیل 6 مضامین کی تدریس کر رہے ہیں۔ 1۔ اردو 2۔ اسلامیات 3۔ معاشرتی علوم4۔ انگریزی 5۔سائنس6۔ ریاضی۔

اردو اور اسلامیات کی تدریس کے کے لیے اردو زبان کو ذریعہ تعلیم مانا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو تو ویسے ہی اردو زبان ہے اور اسلامیات کی تدریس کے لیے ہمارے ملک میں دو نظام رائج ہیں۔1۔مساجد کا نظام۔2۔ سکولوں کا نظام۔

معاشرتی علوم کا علم دو سطحوں پر پیدا ہوتا ہے1۔ مقانی طور پر 2۔ بین الاقوامی طور پر۔مقامی طور پر جو زبان استعمال ہوتی ہے وہ اردو ہے اور بین الاقوامی طور پر استعمال ہونے والی زبان انگریزی ہے۔ لہٰذا اس مضمون کی تدریس کو اختیاری رکھا گیا ہے کہ جو سکول چاہے اردو زبان میں معاشرتی علوم پڑھائے اور جو چاہے انگریزی زبان استعمال کرے۔

انگلش، ریاضی اور سائنس کے مضامین کا علم انگریزی زبان میں موجود ہے اور انگریزی زبان میں ہی پیدا ہو رہا ہے۔ لہٰذا حکومتِ پنجاب نے ان مضامین کی تدریس کے لیے انگلش میڈیم سکولوں میں انگریزی زبان کو لازمی قرار دیا ہے"

سب سے پہلے تو ان دلائل کو لیجئے جن کی بنیاد پر مذکورہ تبدیلیاں ہنگامی بنیادوں پر کی جا رہی ہیں۔ تعلیم سے متعلق تھوڑا سا شعور اور تعلیم سے معمولی سا واسطہ رکھنے والا آدمی بھی جانتا ہے کہ ایک بچہ پرائمری جماعت تک سائنس اور ریاضی اردو میں پڑھ کر آیا ہے جس کی انگریزی کی بنیادیں اتنی کمزور ہیں کہ صرف اے بی سی ہی لکھ سکتا ہے اسے یکدم مکمل انگریزی کی تین کتابیں (انگریزی، ریاضی، سائنس) تھما دینا اور فرض کر لینا کہ استاد اس کو پڑھا لے گا اور بچہ ان کو پڑھ لے گا، ناقابلِ عمل اور ناممکن ہے۔ یہ کام کسی بھی تبدیلی کی نفسیات کے خلاف ہے۔ اسی طرح پہلی اور دوسری جماعت کو یکدم انگلش میڈیم میں بدلنا بھی بچوں پر ایک ظلمِ عظیم ڈھانا ہے۔ جو لوگ یہ کام کر رہے ہیں ان کا تعلیم سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ پہلے ہی بچوں پر انگریزی اور سائنس کے غیر فطری نصاب کا اتنا بوجھ ہے کہ مزید بوجھ ڈالنا اور وہ بھی پہلے بوجھ سے کئی گنا زیادہ انہیں تعلیم سے باغی بنانے کے مترادف ہے۔ اگر ایک غیر جانبدار کمیٹی تشکیل دی جائے جو انگلش میڈیم میں اس طرح تبدیل کیے گئے سکولوں کے بچوں اور اساتذہ کی رائے لے تو سو فیصد حکومتی دعوؤں کے خلاف ثابت ہوگی۔ مگر ایسا وہ کیونکر کریں گے جس سے حقیقت کا پول کھل جائے۔ ابتداء میں آپ نے خط کے متن میں پنجاب حکومت کا یہ دعویٰ پڑھا کہ پہلے مرحلے کی فیڈ بیک سے انہوں نے مزید سکولوں کو انگلش میڈیم بنانے کا فیصلہ کیا۔پہلے مرحلے کا نہ ابھی امتحان ہوا اور نہ ان کی کارکردگی کا کوئی جائزہ لیا گیا تو فیڈ بیک حکومت کو کہاں سے مل گئی؟ حقیقت یہ ہے کہ سربراہانِ ادارہ سر پیٹتے رہ گئے کہ یہ ممکن نہیں ہے اور نہ ہی قابلِ عمل ہے مگر غیر ملکی امداد کے نشے میں دُھت حکومتی کارپردازوں نے کسی کی نہ سنی اور وہ کام جبراً کر دکھایا جو تمام تر حقائق کے خلاف ہے۔ ان سکولوں کے سربراہانِ اور اضلاع کے ای ڈی اوز صاحبان کو لاہور ڈائریکٹوریٹ آف سٹاف ڈیویلپمنٹ میں ٹریننگ کے نام پر بلا کر انہیں زبردستی نافذ کرنے کا حکم دیا اور عملدرآمد نہ کرنے والوں کے خلاف کاروائی کرنے کی دھمکی بھی دی۔ کہاں سے لی گئی فیڈ بیک اور کہاں ہوئی مشاورت؟ جمہوری حکومت کا یہ جبر آمرانہ حکومت سے کہیں سنگین اور نتائج کے اعتبار سے خطرناک ہے۔ پنجاب حکومت کا اتنا بڑا جھوٹ اور سادہ لوح عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے جیسا اقدام قابلِ مذمت ہی نہیں قابلِ شرم بھی ہے۔ پرویز مشرف کی آمرانہ پالیسیوں کے خلاف مارچ کرنے والے اس سے بھی بڑی آمریت کا ثبوت دے رہے ہیں۔

جاری ہے............
Ishtiaq Ahmed
About the Author: Ishtiaq Ahmed Read More Articles by Ishtiaq Ahmed: 52 Articles with 177689 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.