اب آئیے اس دلیل کی طرف جس کی
بنیاد پر پورے صوبے کے نصابِ تعلیم کی بساط لپیٹ دی گئی ہے۔ ذرا جملے پر
غور کیجیے گا " انگلش، ریاضی اور سائنس کے مضامین کا علم انگریزی میں موجود
ہے اور انگریزی میں ہی پیدا ہو رہا ہے لہٰذا حکومتِ پنجاب نے ان مضامین کی
تدریس کے لیے انگلش میڈیم سکولوں میں انگریزی زبان کو لازمی قرار دیا ہے"
کیا یہ ڈھکوسلہ کوئی نصاب سازی کا اصول ہے؟ کیا اس کی بنیاد پر چین، جاپان،
روس، فرانس اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک نے اپنا سائنس اور ریاضی کا نصاب
انگریزی میں کر دیا ہے؟ کیا یہ حقیقت حکومت پر ابھی ابھی کھلی ہے؟ لکھنے
والے نے کبھی جاپان کی لائبریریاں دیکھیں ہوتیں اور ان میں سائنس، ریاضی
میں لکھے ہوئے علمی سرمائے کو دیکھا ہوتا تو ایسا جھوٹ بولنے کی جسارت نہ
کرتا۔ اس نے تیزی سے سپر طاقت کے منصب پر فائز ہوتے ہوئے چین کے تعلیمی
اداروں کی لائبریریاں دیکھی ہوتیں تو پتہ چل جاتا کہ سائنسی علم انگریزی
میں ہی نہیں پیدا ہو رہا ہے۔ ان کے علاوہ روس، فرانس اور تمام دیگر ممالک
جو ترقی کے منصب پر فائز ہیں اپنی اپنی زبانوں میں جدید علوم کو پیدا کر
رہے ہیں۔ یہ بات عین ممکن ہے کہ ان علوم کی بدولت وہ امریکہ سے چند سالوں
میں آگے نکل جائیں جیسا کہ چین کے بارے میں لوگ پیشین گوئی کرتے ہیں۔ پھر
جملے کی ساخت پر غور کیجیے اور اس کی حماقت خیزی کی سطح دیکھیے کہ " ان
علوم کا علم انگریزی میں ہی پیدا ہو رہا ہے" واہ جناب اسے کہتے ہیں عقل کے
بخیے ادھیڑنا۔ پنجاب حکومت کے جن ماہرین نے یہ مسودہ تیار کیا ہے ان کی عقل
اور مبلغ علم کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اپنے دماغ سے سوچنے
والا کوئی شخص اس طرح کی بات نہیں کر سکتا۔ یہ اسی کا کام ہے جو سر سے پاؤں
تک اور جس کے دماغ کا ایک ایک خلیہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہو۔ میرے
سامنے " ترقی اردو بورڈ کراچی" کی اکیس ضخیم جلدوں پر مشتمل اردو لغت پڑی
ہے جس میں سائنس، ریاضی اور دیگر سائنسی و ادبی علوم کے کم و بیش تمام
الفاظ موجود ہیں جن کے ذریعے یہ علوم حاصل کیے جاتے ہیں۔ ان تمام الفاظ کا
ماحول اور ہمارے اردو اور مقامی ادب کے سرمائے میں استعمال بھی بتایا گیا
ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد اس منصوبے کا آغاز ہوا اور ابھی بھی اس کی آخری
دو جلدوں پر کام ہو رہا ہے۔ کیا یہ جلدیں خود بخود زمین سے پیدا ہو گئیں
ہیں یا آسمان سے نازل ہوئیں ہیں۔ ظاہر بات ہے حکومت نے منصوبہ بندی کے تحت
ماہرین کو بٹھایا جنہوں نے اتنا بڑا علمی کارنامہ انجام دے دیا جو فقط اب
تک دنیا کے دو ممالک نے ہی انجام دیا ہے۔ ایک امریکہ اور دوسرا جرمنی۔ میرے
پاس کراچی کے پروفیسر محترم وصی عسکری کی بی ایس سی سطح کی اردو میں لکھی
ہوئی کیمسٹری کی تمام کتابیں موجود ہیں جو ان کی زندگی کی عرق ریزی سے کی
گئی محنت کا نتیجہ ہے۔ کیا یہ کتابیں زمین سے نکلی ہیں یا آسمان سے گری ہیں؟
میرے پاس کراچی کے پروفیسر محترم ایم اے عظیم کی ایم ایس سی سطح کی کیمسٹری
پر لکھی جانے والی تمام کتابیں ( جدید نامیاتی کیمیا، جدید غیر نامیاتی
کیمیا، تجزیاتی کیمیا، سطحی کیمیا وغیرہ ) موجود ہیں جو اردو سائنس
یونیورسٹی کراچی نے شائع کیں۔ کیا یہ کتابیں اسی طرح نہیں پیدا ہوئیں جس
طرح انگریزوں نے اپنا علمی سرمایہ اپنی زبانوں میں تیار کیا؟ مقتدرہ قومی
زبان کی لکھی ہوئی " قومی انگریزی لغت " جس میں کم و بیش تمام جدید سائنس
کے الفاظ اردو میں موجود ہیں کس طرح معرضِ وجود میں آئی؟ اب سے دو سال پہلے
اردو سائنس بورڈ کی دس جلدوں پر مشتمل " سائنس انسائکلوپیڈیا " لکھا گیا۔
کیا یہ دس جلدیں پیدا ہوئیں یا پیدا کی گئیں؟ ایم ایس سی سطح کی فزکس،
بیالوجی اور دیگر علوم پر بھی کتابیں لکھی گئیں ہیں جن کا بندہ ناچیز کے
پاس ایک ذخیرہ موجود ہے۔ طب کی ہزاروں کتابیں اردو میں موجود ہیں۔ ان کی
بنیاد پر تین چار سالوں میں پورا ایم بی بی ایس کا نصاب تیار ہو سکتا ہے۔
اسی طرح کمپیوٹر کی کم و بیش تمام اصطلاحات بھی اردو میں بن چکی ہیں جو
اردو میں بنائے گئے ایم ایس آفس (2003، 2007) کی صورت میں موجود ہیں۔ ونڈو
وسٹا کی تمام اصطالاحات اردو میں اس کے انٹر فیس کی صورت میں آ چکی ہیں ہیں۔
چند سال پہلے یہی لوگ شور مچاتے تھے کہ کمپیوٹر کی زبان انگریزی ہے۔
حالانکہ کمپیوٹر کی کوئی زبان نہیں ہوتی۔ صرف 1 اور 0 ہوتی ہے۔ نصاب کا سب
سے بڑا اصول یہ ہے کہ یہ ماحول سے مربوط ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اپنی قومی اور
مادری زبان چھوڑ کر کسی دوسری زبان میں لکھا ہوا نصاب کیسے ماحول کے ساتھ
مربوط ہو سکتا ہے؟ یہ سوچ مُردوں کی تو ہو سکتی ہے زندہ انسانوں کی نہیں جن
کو اللہ نے دماغ کی طاقت عطا کی ہے وہ ایسی باتیں کریں تو اندازہ لگانا
مشکل نہیں کہ وہ قوم کے زندہ افراد میں شامل ہیں یا مردہ میں۔
مسلمانوں کے دورِ عروج میں جو سائنسی علوم پر کتب تحریر ہوئیں وہ کیسے
ہوئیں؟ دراصل سائنس کے بانی تو ہم ہیں۔ اس کی بانی زبان عربی ہے جو قرآن کی
زبان ہے۔ اسی سے زیادہ تر غذا فارسی، اردو اور ہماری مقامی زبانیں حاصل
کرتی ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ پورے نظامِ تعلیم میں قومی زبان کو خارج کرنے کی
دلیل جو دی جاتی ہے وہ ایسی ہے کہ بر سرِ اقتدار لوگوں کے خطرناک ترین
نظریات کی عکاس ہے؟ پھر ہنگامی حالت میں یہ سب کچھ کرنا بیرونی طاقتوں کی
کھلی مداخلت اور اپنوں کی وطنِ عزیز سے کھلی دشمنی کے مترادف ہے۔
میں خادمِ اعلیٰ سے سوال کرتا ہوں کہ یکساں نظامِ تعلیم کے نام سے جو کچھ
وہ کر رہے ہیں وہ کس کی امداد سے کر رہے ہیں؟ کتنے پیسے ان کی جھولی میں
عالمی بینک اور ایشیائی بینک نے تباہی کے اس نظامِ کے عوض ڈالے ہیں؟ اگر وہ
عوام سے مخلص ہونے کے دعوے دار ہیں اور خادمِ اعلیٰ ہیں تو پائی پائی کی
تفصیل بتائیں۔ جناب خادمِ اعلیٰ صاحب ! مانگے کے چراغوں سے کبھی اجالا نہیں
ہوتا۔ اندھیرا ہی بڑھتا ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ خادمِ اعلیٰ کی اصطلاح اب
ان کے نام کے ساتھ قطعی میل نہیں کھاتی۔ اتنا پیسہ جھولی میں ڈالنے کے بعد
عزتِ نفس کہاں باقی رہتی ہے جو کسی قائد کےعوام الناس سے اخلاص کے رشتے کو
برقرار رکھ سکے۔
پہلے ہی ٹیوشن بزنس اتنا زوروں پر ہے جس کی وجہ سے پہلی جماعت سے ہی بچے
ٹیوشن پڑھنے پر مجبور ہیں اور نصاب سے بد دلی کا یہ عالم ہے کہ ابتدائی
کلاسوں سے ہی سکول چھوڑ جانے والوں کی تعداد میں تحیر خیز اضافہ ہو چکا ہے۔
اب مزید مضامین انگریزی میں پڑھنے سے یہ سلسلہ کہاں تک جائے گا اور کتنی
تباہی مچائے گا، اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ طبقہ اشرافیہ میں
گھرے ہوئے خادمِ اعلیٰ اس لعنت کو ختم کر پائیں گے؟ ہرگز نہیں۔ پوری فوج
اور پولیس بھی طلباء اور اساتذہ کی نگرانی پر لگا دی جائے تو تب بھی یہ
وباء ختم نہیں ہو سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے اس کے فروغ کے تمام
اسباب پہلے کی نسبت کئی گنا بڑھا دیے ہیں۔ کیا خادمِ اعلیٰ میرے اس چیلنج
کو قبول کریں گے اور اس وباء کو ختم کریں گے۔ اگر اب ملنے والی امداد سے
ہزار گنا امداد بھی ان کوزیادہ ملے تو تب بھی ایسا کرنے میں ناکام رہیں گے۔
"مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی"کے مصداق مسائل اتنے بڑھ جائیں گے کہ سوائے
ناکامی، اور رسوائی کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
پنجاب حکومت سرکاری سکولوں کو تو اس انداز سے انگلش میڈیم میں بدل رہی ہے
جیسے کسی نے کنپٹی پر بندوق رکھی ہو اور یہ کہہ رہا ہو کہ کرو تمام سکولوں
کو انگلش میڈیم ورنہ گولی چلا دوں گا۔ انگلش میڈیم سکول بدستور تمام نصاب
انگلش میڈیم میں ہی پڑھا رہے انہیں تو ذرا بھی نہیں چھیڑا گیا۔ وہ اسلامیات
اور مطالعہء پاکستان بھی انگریزی میں پڑھا رہے ہیں۔ خادمِ اعلیٰ کے اپنے
قائم کردہ ڈویژنل اور سب ڈویژنل پبلک سکول وغیرہ بھی سب کچھ انگریزی میں
پڑھا رہے۔ اس کے علاوہ اے لیول اور او لیول بھی اپنے دائرہ کار کو مزید
وسعت دے رہے ہیں۔ انہیں تو قومی دھارے میں لانے کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا
ہے اور نہ ہی خادمِ اعلیٰ ایسا اب کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔
پاکستان کے دیگر تین صوبوں میں سرکاری سکولوں کو انگلش میڈیم میں بدلنے کا
سلسلہ شروع نہیں کیا گیا۔ یہ صرف پنجاب میں ہے۔ کیا قومی تعلیمی پالیسی صرف
پنجاب کے لیے بنائی گئی ہے؟ یہ تو تمام صوبوں میں یکساں نظامِ تعلیم کی
بجائے تفاوت کو اور بڑھانے کے مترادف ہے۔ یہی ہمارے دشمنوں کی سازش ہے کہ
ان کو پیسوں سے لاد کر ان کے درمیان تفرقے اور پھوٹ کے اتنے اسباب پیدا کر
دو کہ یہ ایک اکائی کے طور پر اپنے وجود کو ہی برقرار رکھنے کے قابل نہ
رہیں۔
اردو کو علاقائی زبان کی حیثیت سے معاملہ کیا جا رہا ہے جو سب سے زیادہ
خطرناک ہے۔ اگر وحدت کی اس بڑی اکائی کو درمیان سے نکال دیا گیا تو ملک کے
صوبوں کے درمیان یگانگت کا جنازہ نکل جائے گا۔ مرکز گریز قوتیں شہ پاکر
مزید فعال ہوں گی۔ عملاً یہ مرکز گریز قوتیں فعال ہو رہی ہیں جو عین اس
موقع پر ہو رہی ہیں جب اس طرح کے خطرناک منصوبوں پر زور شور سے عمل جاری
ہے۔ ان سکولوں میں اردو میں لکھے ہوئے بورڈ زیادہ تر مٹا کر انگریزی میں کر
دیے گئے ہیں اور اسی چٹھی میں آگے چل کر لکھا ہے کہ" انگلش میڈیم سکولوں
میں اسمبلی تین دن اردو میں ہوگی اور تین دن انگریزی میں"۔ پھر تحریر ہے کہ
" ہم نصابی سرگرمیوں کی کاروائی ممکنہ حد تک انگریزی میں ہوگی" ان اقدامات
سے ظاہر ہے کہ کمپنی بہادر کی حکومت پھر سے قائم ہو چکی ہے۔ دوبارہ آزادی
کے لیے کتنی قربانیاں دینا پڑیں گی؟ کتنے لوگ نظریہ پاکستان کے تحفظ کے لیے
دار و رسن پر جھولیں گے؟ اب یہ اور اس طرح کے دوسرے سوالوں کا جواب دینے کے
لیے قوم کو تیار رہنا ہوگا۔ |