سیرت طیبہ معرفتِ الہٰی کی قطعی دلیل

اﷲ تعالیٰ نے تخلیق انسانیت کے رازوں میں ایک اہم رازاپنی معرفت رکھاہے اب اس معرفت کے حصول کیلئے پوری کائنات کھلا آئینہ ہے چاند تاروں اور سورج کا طلوع و غروب بھی اس معرفت الہٰیہ کا ذریعہ ہے آسمانوں کا بغیر ستونوں کے کھڑا ہونا زمین کا ہموار فرش بھی اس معرفت کی نشاندھی ہے ،دن رات کی تبدیلی ، انسان درند ، چرند ، پرند کی تخلیق حیران کن طریقہ سے ان کی نشونما ،پھر ان پر صحت و بیماری کا تسلط ،موت کا قبضہ وغیرہ اسی معرفت کے نشانات ہیں۔

وفی کل شی لہ آیۃ تدل علی انہ واحد۔ہر شے میں اس کی معرفت کے نشانات پائے جاتے ہیں اور وہ نشانات اس کی واحدنیت کے گواہ ہیں مگر ان تمام ذرائع معرفت سے عظیم ترین ذریعہ انبیاء کرام علیہم السلام کا وجود ہے اس مقدس وجود کو جاننے ،سمجھنے اور پانے کیلئے انبیاء کرام علیہم السلام کی حیات مقدسہ ان کے اعمال و افعال سے واقفیت ، ان کے ارشادات کی تکمیل بڑی ضروری ہے ۔ انسانی اصلاح کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ پڑھایا سکھایا جائے وعظ نصیحت کے ذریعہ اس کے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا کیے جائیں ۔ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اسے جبر و تشدد سے ایک راستہ پر لگادیا جائے مگر ان ذرائع سے اہم ترین ذریعہ کا مل ترین طریقہ یہ ہے کہ کسی ایسی شخصیت کو پیش کر دیا جائے جس کے علم و عمل ، قول و فعل اور خدو خال کو دیکھتے ہی حصول اصلاح کے تمام طریقے عجز و انکساری سے سرجھکادیں یہ جاذبیت صرف اور صرف انبیاء کرام علیہ السلام کے وجود مقدسہ میں ہی پائی جاتی ہے اور پھر سید الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰ ﷺکا وجود مسعود تو وہ گوہر نایاب ہے جس کا جواب ممکن ہی نہیں مسلمانوں کا سر فخر سے بلند ہے کہ انہوں نے اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے حالات زندگی کو اس طرح جامعیت سے بیان کیا ہے جس کی مثال دنیا بھر کے راہنماؤں میں کہیں نہیں مل سکتی ملت اسلامیہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ یہ قوم شروع سے قیامت تک اپنے رسول محتشم ﷺ سے دور نہیں ہو گی۔

سیرت النبی ﷺاپنانے کی اہم ضرورت یہ بھی ہے کہ انسان فطری طور پر سکون کا متلاشی ہے اور سکون کی دولت انبیاء کرام علیہم السلام کی ذوات قدسیہ سے وابستہ ہے قرآن مقدس نے اسی عنوان کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔

اور ہم آپ پر انبیاء علیہم السلام کے واقعات بیان کرتے ہیں جن سے آپ کے دل کو قوت و سکون حاصل ہو ان واقعات میں ایمان والوں کیلئے حق اور نصیحت ہے ۔

اسلام ایک مکمل ترین ضابطہ حیات ہے تکمیل اسلام کا تعلق دو چیزوں سے ہے ۔قرآن حکیم اور حدیث نبوی ﷺ یایوں سمجھ لیجئے کہ قرآن حکیم کا ظہور حضور ﷺ کی زبان فیض ترجمان سے ہے اور سنت رسول ﷺ کا تعلق حضور کے عمل سے ہے ۔

قرآن فہمی کیلئے حضور اکرم ﷺ کے ارشادات اور فرامین کی راہنمائی بے حد ضروری ہے جو سیرت کا حصہ ہے ۔

حضور اکرم ﷺ نے سب سے پہلا خطبہ جو صفا پہاڑی پر فرمایا اس میں اپنی سیرت طیبہ کو اس طرح پیش فرمایاھل وجدتمونی صادقا اوکاذبا لوگو! میں تمہارے اندر زندگی کا ایک حصہ گزار چکا ہوں تم بتاؤ اس میں تم نے مجھے سچا پایا یا جھوٹا ؟یہ سیرت طیبہ کا اتنا صاف اجلا اور نکھرا ہوا پہلو ہے کہ اہل مکہ کو یک زبان کہنا پڑا ۔یا محمد بل وجدناک صادقا۔اے محمد ﷺ ہم نے تجھے ہمیشہ سچا پایا حضور ﷺ کے اس سوالیہ فقرہ میں واضح اشارہ تھا کہ میں نے جب عام گفتگو عام معاملات میں جھوٹ نہیں بولا تو اتنی بڑی بات کہ میں اﷲ کا رسول ہوں یہ کیسے غلط ہو سکتی ہے ۔قرآن مقدس نے اس عنوان کو اس انداز میں ذکرفرمایا:’’میں نے تمہارے اندر ایک وقت گزار ا ہے کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ‘‘

اﷲ تعالیٰ جل مجدہ نے اپنے وجود اور اپنی معرفت کیلئے حضور اکرم ﷺ کو بطور قطعی دلیل اور برہان ذکر فرمایا ۔ ’’اے لوگو تمہارے رب کی طرف سے برھان آگیا‘‘ اگر خدا پناہ آپکے عمل وکردار میں کوئی کوتاہی ہوتی تو آپ کو اتنے بڑے لقب سے نوازا نہ جاتا لہٰذا آپ کی ذات آپکا عمل ،آپ کے تمام معاملات معرفت الہٰیہ کی زبردست دلیل ہیں۔

حضور اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ ہی نجات اور ہدایت کی ضامن ہے ہم نماز کی ہر رکعت میں ہدائت کی دعا کرتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے ہدایت اﷲ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے اب وہ ہدایت حاصل کیسے ہو قرآن مقدس فرماتا ہے ۔

سورہ توبہ’’اگر تم اس رسول معظم کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پا لو گے ۔‘‘اس ارشاد سے پتہ چلتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی اطاعت کے بغیر ہدایت پانے کا کوئی راستہ نہیں۔

قرآ ن مقدس نے حضور اکرم ﷺ کی سرت طیبہ کو پوری انسانیت کیلئے ایک حسین نمونہ قرار دیا ہے ۔ سورہ الاحزاب میں ارشاد ہے ۔ بے شک تمہارے لئے رسول اﷲ ﷺ کی مقدس ذات میں زندگی کا حسین نمونہ موجود ہے ۔‘‘
٭ ہم دین ، ایمان اور اسلام کو پہچاننے کیلئے حضور اکرم ﷺ کی ذات گرامی کے محتاج ہیں ۔آپکا ایک ایک عمل دین ،ایمان اور اسلام کی حسین ترین تشریح ہے ۔گویا سیرت طیبہ دین کے اجمال کی تفصیل ہے ۔دین کے مشکل باب ،ایمان کی پیچیدہ گتھی، اسلام کے گہرے معانی جاننے کے لئے سیرت طیبہ کے محتاج ہیں۔
٭ پوری انسانیت کیلئے آپ کا وجود مسعو د ناگزیر ہے ۔قرآن مقدس نے اس عنوان پر اس طرح ارشاد فرمایا ۔’’اے محبوب پاک ﷺ ہم نے آپ کو پوری انسانیت کیلئے خوشخبری اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا۔ ‘‘حضور اکرم ﷺ کا اپنا ارشا د گرامی بھی اس آیہ کریمہ کی کھلی تفسیر ہے ۔ ارسلت الی الخلق کافتہ۔’’میں ساری مخلوق کی طرف بھیجا گیا ہوں‘‘(مسلم شریف)ان ارشادات کا مقصد یہ ہے کہ لوگ آپ ﷺ کے علم و عمل سے ہدایت حاصل کریں اور نجات پائیں۔
٭ قرآن مقدس نے ایک کامیاب اور سرخرو گروہ کا ذکر اس طرح فرمایا ہے۔ الاعراف:’’جو لوگ ان پر ایمان لے آئے اور ان کی تعظیم کی اور ان کی مدد کی اور آپ پر اتاری گئی کتاب مقدس کو مانا یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ۔‘‘اس آیہ مقدس میں اﷲ تعالیٰ جل مجدہ نے حضور اکرم ﷺ پر ایمان لانے ان کی تعظیم و توقیر اور ان کی مدد کرنے کو ہی کامیابی کا راز بنایا ہے ۔
٭ رب قدوس جل مجدہ نے حضور اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ کی اہمیت کو ایک مقام پر اس طرح ارشاد فرمایا :’’رک جاؤ اس حکم کا فلسفہ تمہیں سمجھ آئے یا نہ آئے بہر حال ان کے احکام کی تعمیل تم پر لازم ہے ۔‘‘
٭ ایک مقام پر رب قدوس جل مجدہ نے حضور ﷺ کی سیرت طیبہ اپنانے کو اپنی اطاعت قرار دیا جس سے سیرت طیبہ کے عنوان کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔سورہ النساء میں ارشاد ہے ۔’’جس نے رسول ﷺ کی اطاعت کی اس نے یقینا اﷲ کی اطاعت کی ۔‘‘
٭ ایک مقام پر قرآن مقدس نے حضور اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ کو اس طرح بھی اہمیت دی ہے کہ آپ کے فیصلے کو مدار ایمان قرار دیا ۔ ’’تیرے رب کی قسم ایمان دار نہیں ہو سکتے جب تک تیرے فیصلے کو دل و جان سے تسلیم نہ کر لیں ۔‘‘احکام خدا وندی پر عمل حضور ﷺ کی سیرت طیبہ کے بغیر ممکن ہی نہیں فریضہ نماز کو قرآن مقدس نے مجمل بیان فرمایا اس کی تفصیل حضور اکرم ﷺ کے عمل پاک سے ہے ایسے ہی روزہ ،زکوٰہ،حج کے اجمالی خاکہ کو حضور اکرم ﷺ نے اپنے عمل پاک سے قابل عمل بنایا ۔نماز پڑھنے کا ارشاد اس طرح فرمایا ۔جیسے تم مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو اسی طرح تم پڑھو۔اسی طرح صحابی رسول نے ارشاد فرمایا ۔اﷲ تعالیٰ جل مجدہ نے ہماری طرف رسول ﷺ کو روانہ فرمایا اور ہمیں کسی بات کا کچھ پتہ نہیں تھا ہم صرف اسی طرح کرتے ہیں جس طرح حضور اکرم ﷺ کو کرتے دیکھتے ہیں (ابن ماجہ شریف)

سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے حجرا سود سے فرمایا مجھے پتہ ہے تو پتھر ہے نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان اگر میں نے حضور اکرم ﷺ کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے کبھی نہ چومتا پھر بوسہ لے لیا ۔ (بخاری شریف)
٭ اﷲ تعالیٰ سے محبت کرنا انسانیت کا فطری تقاضا ہے جس رب قدوس نے میرے پیدا ہونے سے پہلے میرے لئے ہزاروں نعمتیں پیدا فرما دیں ۔ میرے لئے ضروری تھا کہ اس ذات والا صفات سے پیار کروں مگر یہ صورت ہے مشکل کہ قدیم سے حادث کیسے پیار کرے باقی سے فانی کیسے محبت کرے تو اس پیچیدہ مسئلے کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کی اتباع میں رکھ دیا ہے ارشاد ہوتا ہے ۔ میری اتباع کرو اﷲ تمہیں دوست بنا لے گا لہٰذا محبت خدا وندی کیلئے اتباع نبوی ضروری ہے ۔
حضور اکرم ﷺ کے علمی ، عملی مقامات سے آشنائی حضور اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ جاننے سے ہی ہو سکتی ہے ۔
٭ ایمان کے اندر پختگی ،عقائد میں ٹھوس پن نظریات میں غیر متزلزل اقدار پیدا کرنے کیلئے سیرت طیبہ پر عمل بہت ہی ضروری ہے ۔
٭ حضور اکرم ﷺ سے عشق و محبت میں جولانی پیدا کرنے اور اسے معراج تک پہچانے کیلئے حضور اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ پر عمل ضروری ہے ۔
٭ قرآ ن کریم کا مختلف مقامات پر انبیاء علیہم السلام کے ذکر کے ساتھ ان کے محاسن افعال کا ذکر فرمانا واضح اشارہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی سیرت پر عمل کتنا ہم کام ہے ۔انسانوں میں تبدیلی حیات کا اہم حصہ انبیاء علیہم السلام کی سیرت پر عمل ہے ۔
٭ کفار سیرت طیبہ کا مطالعہ کریں گے تو ان کیلئے سیرت کا علم ایمان کی دعوت دینے اور حق تک پہچانے کا سبب بن جائے گا۔

اﷲ تعالیٰ ہمیں سیرت طیبہ پر عمل کی توفیق دے ۔آمین
 
Peer Owaisi Tabasum
About the Author: Peer Owaisi Tabasum Read More Articles by Peer Owaisi Tabasum: 85 Articles with 182720 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.