لڑکیوں جذبات میں آکر اپنی مرضی کی شادی کی بری عادت سے
بچو جومعاشرے میں جڑ پکڑ رہی ہے
آج کل ٹی وی اور اخباروں میں یہ خبریں عام ہیں کہ مرضی کی شادی کرنے والوں
کو خاندان والوں نے ڈھوند کر قتل کردیا۔ عدالت کے سامنے والدین اور خاندان
والوں نے لڑکی کو قتل کر دیا۔ان خبروں کے بعد کہیں نہ کہیں کوئی مضمون نظر
سے گزرتا ہے مگر اس کی وجوہات کو کوئی بھی زیر بحث نہیں لاتا ۔بلکہ کسی بھی
قسم کی خبر کا جذباتی رد عمل ہوتا ہے اسے کوئی معاشرتی یا مالی، نفسیاتی
یامذہبی لحاظ سے تجزیہ نہیں کرتا ، یہی وجہ ہے کہ کہیں بھی اصلاح کی صورت
نہیں نکلتی۔
ان واقعات کی وجہ دراصل صرف ایک پوائنٹ پر کئی ڈراموں میں زور تھا کہ
اٹھارہ سال کی عمرکے بعدلڑکے یا لڑکی کو اسلام اور ملکی قانون دونوں شادی
کے لئے فیصلہ کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ جیسے مردوں کو اسلام کی باتوں مین
صرف چار شادیوں کی اجازت یاد رہ جاتی ہے ان مین انساف کرنا نہیں اسی طرح اب
بچوں کی بھی اسلام کی صرف یہ اجازت یاد رہ گئی ہے والدین کے حقوق، شادی کے
دوسرے حکم سب بھول جاتے ہیں۔
مغربی ممالک میں بچوں کی اپنی پسند شادی کی مثال کو بھی کاپی کرنے کی کوشش
کی جاتی ہے مگر اہمارے بچے صرف سنی سنائی پر جاتے ہیں ان کی ایسی شادی کی
تفصیل معلوم نہیں ہوتی۔ انٹرنیٹ پر بھی مواد موجود ہے۔ تعلیم عام ہونے سے
بھی یہ پوائنٹ زیادہ بچوں کو پتہ لگنا شروع ہو گیا ہے ۔ وڈیو میڈیا پر جنسی
مناظر بھی جنسی ہیجان پیدا کرنے مین اپنا حصہ ڈال رہے ہیں کہ ایک واقعہ میں
ایک سولہ سالہ لڑکی نے پسند کی شادی پر راضی نہ ہونے پر سب گھر والوں کو
قتل کر دیا تھا۔
مگر کہیں بھی ایسی فیصلے کے برے اثرات کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ اس لئے میں نے
مناسب سمجھا کہ میں اس سلسلے میں بچوں کو زندگی کی اصل حقیقت سے آ گاہ
کروں۔ یہ چونکہ بہت اہم مسئلہ ہے اس لئے میں تمام قارئین سے درخواست کرتا
ہوں کہ وہ اس مین اپنی رائے کا اضافہ کرتے ہوئے مزید پوائنٹ ضرور لکھیں تا
کہ اس مسئلے کے تمام پہلو سامنے آ جائیں۔یہ بلاگ کی شکل اختیار کر لے تو
بہت اچھا ہے تا کہ ہم لڑکیوں کی صحیح رہنمائی کر سکیں۔
اصول؛ پہلی بات تو یہ ہے کہ survival یا اپنی زندگی کی حفاظت کرنا فطرت کا
پہلا اصول ہے۔
دوسرا یہ کہ ہر معاشرے میں حفاظت کے مختلف سسٹم ہوتے ہیں۔ اور ان کے مطابق
ہی زندگی گزارنی ہوتی ہے۔
یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ اپنے معاشرے میں کسی معاشرے کے اصول پریکٹس کر سکتے
ہیں۔یہ کسی کو قابل قبول نہیں ہوتا۔
تیسرا اصول یہ ہے کہ آپ کو پتہ ہونا چاہئے کہ زندگی میں رشتوں کی ترجیحات
کیا ہے۔
چوتھا اصول یہ ہے کہ زندگی چانس کا نام ہے چانس لینے کے اپنے اصول ہیں ان
کو سمجھ کر چانس لیں۔
معاشروں کا موازنہ؛۔ ہر معاشرے میں دو فنکشن ہوتے ہیں ایک دنیاوی دوسرا
مذہبی،ٍ دنیاوی لحاظ سے ایک بڑی دلچسپ سٹڈی واشنگٹن یونیورسٹی کے دو مسلمان
پروفیسروں نے یہ دیکھنے کے لئے کہ تمام ممالک اسلام کے دنیاوی زندگی کے
معاشرتی، مالی، معاشی، قانون کی حکمرانی، بنیادی انسانی حقوق، معاشی اور
معاشرتی مساوات اور انصاف، شرف انسانی ، ہمدردی ایثار وغیرہ کے لحاظ سے
کتنی پریکٹس کر رہے جن کی بنا پر انہیں اسلامی ممالک کہا جا سکتا ہے۔ اس کی
انہوں نے لسٹ بنائی تھی اس سے پتہ چل جاتا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔
فائنل لسٹ کی رینکنگ یہ تھی۔ نیوزی لینڈ فرسٹ، لکسمبرگ دوسرے اور آئر لینڈ
تیسرے نمبر پر تھا پھر آئیس لینڈ، فن لینڈ، دنمارک، کینیڈا، برطانیہ،
آسٹریلیا، ہالینڈ، آسٹریا۔ناروے، سوئٹز ر لینڈ، بلجیم، سویڈن تھے۔ مسلمان
ممالک میں سب سے اچھا ملائشیا تھا مگر وہ بھی38 نمبرپر، کویت 48 ، بحرین 64
، برونائی65 ،متحدہ عرب امارات66 ،اردن 77 ، تیونس83 ، سعودی عرب131
،مراکش119 ،پاکستان 147 ، بنگلا دیش152 ،مصر153 ، افغانستان160 ،صومالیہ206
نمبر پر تھا ۔ اس سٹدی سے یہ بخوبی پتہ چل جاتا ہے کہ تمامسلم ممالک میں
بھی اور پاکستان میں بھی اﷲ تعالی کے احکام پر عمل کی مجموعی صورت حال کوئی
اچھی نہیں ہے ۔
ان کو دیکھنے کے بعد کوئی لڑکی کسی مسلمان ملک میں مرضی کی شادی کرنے کی
ہمت نہیں کرے گی کیونکہ ان میں رسوم کو اسلام پر ترجیح دی جاتی ہے ۔اسی کو
انڈین فلمیں پرم پرا کہتی ہیں یعنی باپ دادا کی رسوم پر عمل بجائے اﷲ کے
اصولوں کے۔اب میں مختصرا عرب، مغربی ممالک اور پاکستان کا عورتوں کے ساتھ
برتاؤ کا موازنہ کروں گا کہ یہ کتنے اسلامی ہیں؛۔
اسلام کے ابتدائی دور کے عرب معاشرے کی قبائلی طرزندگی تھی۔ جس کے اپنے
طریقے تھے، مغربی ممالک نے اسلامی تہذیب کے اصول اپنائے تھے جس میں مساوات
، انساف، سچ اور امانت بڑے اصول ہیں۔ ہندوستان میں اسلام پر ہندو تہذیب کے
اثرات کے تحت کلاس سسٹم رائج رہا تھا مساوات، انصاف، سچ، رواج نہیں پا سکا
تھا۔ یہ سسٹم بنیادی طور پر کمزور کا استحصال کرنے پر مبنی ہے۔ جو آج کل
بھی ہم پاکستان میں دیکھتے ہیں۔عورتوں اور بیویوں کو ملکیت سمجھا جاتا تھا
اور اب بھی ہے۔ ثبوت دیکھنا ہو تو لڑکیاں پیدا ہونے پر، یا جہیز کم لانے پر
جلا دینے کے روز افزوں واقعات ہیں۔ انڈیا میں راجستھان میں دیہات میں خاوند
کے مرنے پر ستی کے چند واقعات پھر شروع ہو گئے ہیں۔ بلوچستان میں عورتوں کو
زندہ دفن کیا جا چکا ہے۔ پاکستانی جرگے سزا کے طور پر لڑکی کے ساتھ اجتماعی
زیادتی کے فیصلے کر چکے ہیں۔ لڑکی زبردستی بھی اغوا کر لی جائے تو لڑکی کو
ہی غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔سب سے بڑا ثبوت کینیڈا کی چند سال
پہلے کی ایک مثال ہے کہ ایک پاکستانی خاندان کی لڑکی نے بالغ ہونے پر سکارف
پہننے سے سے ا نکار دیا تھا تو اس کے والد اور بھائیوں نے اسے قتل کر دیا
تھا کیونکہ غلام حکم عدولی نہیں کر سکتے۔وہ مغربی معاشرے رہتے ہوئے بھی
بیٹی کو ملکیت اور غلام ہی سمجھ رہے تھے۔ میرا خیال ہے کہ میں نے کافی واضح
کر دیا ہے کہ تمام صوبوں کے زیادہ تر گھرانوں میں لڑکیوں کی گھر میں کیا
حیثیت ہوتی ہے۔یہ بات سمجھ میں آ جائے تو پھر مرضی کی شادی کرنے سے پہلے
لڑکیوں کو خوب سوچ سمجھ لینا چاہئے کہ وہ کس قسم کے معاشرے میں رہ رہی ہیں۔
وہ ہندو ذہنیت کے معاشرے میں اسلامی یامغربی اصولوں کو پریکٹس نہیں کر
سکتیں۔
دوسرا پوائینٹ جبر کا ہے کہ انسان بہت سی مجبوریوں کا شکار ہوتا ہے ۔سب سے
پہلی یہ ہے کہ وہ کس ملک، والدین، امیر یا غریب، جاہل یا پڑھے لکھے ، دیہات
یا شہر۔ مذہب یامسلک میں پیدا ہوتا ہے اس پر اس کا کوئی کنٹرول یا چوائس
نہیں ہوتی۔ والدین اس کو کس پیشے کے لئے تعلیم دلاتے ہیں۔ زندگی کی جنگ
لڑنے کے لئے کیسی اور کتنی تیاری کراتے ہیں ۔ اس میں بہت کم رائے ہوتی ہے۔
جہاں رہتے ہیں اردگرد کے لوگ کیسے ہیں اچھے یا برے اس پر کنترول نہیں ہوتا۔
ملک کے حکمران کیسے ہیں معاشی، معاشرتی ، مساوات یا انصاف، قانون پر عمل کی
کیا حالت ہے اس پر بندے کا کوئی کنترول نہین ہوتا۔ اس نے ان سب مجبوریوں کے
باوجوڈ زندہ رہنا ہوتا ہے اور ترقی کی کوشش کرنی ہوتی ہے۔اس سے بغاوت نہیں
کر سکتا بلکہ اس میں ہی اڈجسٹ کرنا ہوتا ہے،ہمارے یہاں سچ بولنا بہت مشکل
ہے گھر والے بھی پسند نہین کرتے،،
شادی کے بعد خاوند اور سسرال والے کیسے نکلتے ہیں اس کا بھی پتہ نہیں ہوتا۔
یہاں بنیادی انسانی حقوق کی نہ کوئی بات کرتا ہے نہ ہی پریکٹس۔ یہی وجہ ہے
ہمارے بچے اب مغربی ممالک بھاگ جانا چاہتے ہیں۔
سب سے پہلے میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ بتاؤں کہ ہمارے پیارے نبی
کریم ﷺ کبھی کسی رواج ، رسم، یا معاشرتی پریکٹس یا سسٹم کو اس وقت تبدیل
نہیں کرتے تھے جب تک کہ اس کا متبادل سسٹم ڈیزائن ہو کر فوری استعمال کے
لئے تیار نہیں ہو جاتا تھا۔آپ ﷺ ہر رواج یا سسٹم کو صرف مذہبی زاویہ سے
نہیں دیکھتے تھے بلکہ اس کے تمام پہلو یعنی معاشرتی، مالی، جزباتی، نفسیاتی
وغیرہ پر غور نہیں فرما لیتے تھے۔سب سے اچھی مثال سود کی ہے کہ سود کی مطلق
ممانعت حجۃ الوداع کے موقع پر کی گئی تب تک زکوۃ اور صدقات کا سسٹم استعمال
میں آ چکا تھا۔ اسی طرح قتل کی دیت جو کہ سو اونٹ تھی اس کو تبدیل نہیں کیا
گیا تھا بلکہ اسی ریٹ کو جاری رہنے دیا تھا۔
والدین یا ولی کو بچپن میں بچوں کانکاح کر دینے کی اجازت کے باوجود بلوغت
کے بعد بچوں کو اس فیصلے کو قبول کرنے یا رد کرنے کی اجازت اس لئے دی گئی
تھی کہ اسلام کے اصول کے مطابق اٹھارہ سال کے بعد بچہ اپنے تمام اعمال کا
ذمہ دار بن جاتا ہے۔اور جن وجوہات یا فوائد کی وجہ سے ولی نے بچپن میں نکاح
کر دیا تھا اگر وہ اب بھی موجود ہوں تو لڑکی مان جاتی تھی ورنہ انکار کر
دیتی تھی اور اس کو مان بھی لیا جاتا تھا قتل نہیں کر دی جاتی تھی۔ ہمارے
یہاں ایسا ہو جائے تو والدیں چھوڑیں جس سے نکاح ہوا تھا وہی یا تو زبردستی
اٹھا کر لے جائے گا یا قتل کر دے گا ،نکاح چھوڑیں منگبی توڑنے پر اسے غیرت
کا مسئلہ بنا لیا جاتا ہے اور قتل ہو جاتے ہیں۔ایسے ذہن، فکری قبض والے
معاشرے میں کھلے ذہن کی کون بات کر سکتا ہے۔
ہمارے۔ مغربی اور عرب معاشرے میں بہت فرق ہے ۔ مغربی اورعرب معاشرے میں آج
بھی ایک یا دو بار طلاق یافتہ عورت کی شادی ہو جاتی ہے ہماری طلاق یافتہ سے
کوئی شادی کے لئے تیار نہیں ہوتا۔
حضور اکرم ﷺ کے دور میں بنیادی انسانی حقوق کی بہترین مثال حضرت بریرہ ؓ کی
ہے کہ جب ان کو حضرت عائشہ ؓ نے آزاد کر دیا تو انہوں نے اپنے غلام خادند
سے خلع چاہا تو آپ نے منع فرمایا تو حضرت بریرہ نے پوچھا کہ یہ آپ ﷺ کا حکم
ہے یا رائے تو اس پر آپ ن ﷺے فرمایا کہ میری رائے ہت تو اس پر انہوں نے کہا
کہ حضور ﷺ پھر مجھے اجازت دیں کہ میں آ پ ﷺ کی رائے سے اختلاف کروں تو آپ ﷺ
نے فرمایا کہ یہ تمہارا ذاتی معاملہ ہے جیسے مناسب سمجھو کرو۔ اس سے اچھی
مثال کون پیش کر سکتا ہے ،۔ مگر ہمارے یہاں آپ والدین، استاد، باس، حکومت
،کسی عالم دین سے اختلاف کر دیکھ لیں آپ کو پتہ چل جائے گا کہ کتنا اسلامی
معاشرہ ہے۔اور کنتنی مساوات یا بنیادی حقوق کا احساس ہے۔ یہاں تو عقیدت کے
ساتھ ہی غلامی شروع شروع ہو جاتی ہے۔کہاں حضور اکرم ﷺ کی شخصیت اور ان سے
عقیدت کے باوجود انسانی حقوق کی پریکٹس میں فرق نہیں آیا ۔نہ حضور ﷺ نے
ناراضگی یا نا پسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ مجھے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ آج
کل صرف مغربی ممالک میں رائے رکھنے کے حق کو پریکٹس کیا جاتا ہے۔ مسلم
معاشروں میں نہیں۔
اسی طرح غلامی کے سسٹم کو معاشرتی وجوہات کی وجہ سے ختم نہیں کیا گیا تھا
بلکہ غلاموں کے انسانی حقوق ادا کرنے پر زور دیا گیا تھا اور ساتھ ہی کفارے
کے طور پر غلام آزاد کرنے کے سسٹم کو رائج کیا گیا تھا۔ حضرت بلال ؓمسلمان
ہونے پر مشکلات کا شکار ہوئے تھے تو حضرت ابو بکر ؓ کو انہیں خرید کر آزاد
کرنا پڑا تھا۔؛۔
آج کل ٹی وی نے تیسرے والدین کی جگہ لے لی ہے۔ یہ دنیا کے ہر ملک میں ہورہا
ہے صرف پاکستان میں نہیں۔ بچے میڈیا پر فلموں ، ڈراموں۔ پروگراموں کو دیکھ
کر زیادہ سیکھنے لگے ہیں اور والدین کی نصیحت کم سنتے ہیں حالانکہ ان کے سب
سے اچھے ہمدرد یا well wisher پہلے نمبر پر خدا اور دوسرے نمبر پر والدین
ہوتے ہیں اور یہی دونوں ہی ان کیback up support ہوتے ہیں یعنی ہر مشکل میں
یہی کام آتے ہیں۔ مرضی کرنے سے دونوں ناراض ہو جاتے ہیں۔
گھوڑی کی مثال؛۔ پنجاب میں یہ کہانی مشہور ہے کہ ایک لڑکی، کسی دوسرے گاؤں
کے لڑکے کے ساتھ گھوڑی پر سوار بھاگ کر جا رہی تھی۔ راستے میں نالہ آ گیا
تو کراس کرتے گھوڑی آدھ نالے میں پانی پینے لگ گئی اور چلنے سے انکار کر
دیا اس پر لڑکی کہنے لگی کہ اس کی ماں کی بھی یہی عادت تھی۔ اس پر لڑکے نے
گھوڑی واپس کی اور کہنے لگا کہ اگر جانور کی یہ فطرت ہے تو پھر میری بیٹی
بھی گھر سے بھا گ جائے گی۔اس لئے میں تمہیں تمہارے گھر واپس چھوڑ رہاہوں۔
تو آپ کو بھی یہ مشکلات آئیں گی آپ کا ماضی بھی بیٹی کے رشتے کے وقت سامنے
آئے گا۔
مغربی ممالک میں لڑکیاں اور لڑکے جب ڈیٹنگ کے بعد شادی کا ارادہ کر
کےsteady ہوتے ہیں تو لڑکی ہمیشہ لڑکے کو والدین سے ملاتی ہے۔ میرے بیٹے کے
گورے دوست نے بتایا کہ اس نے جب لڑکی کے بارے گھر والوں سے رائے پو چھی تو
اس کا بھائی کہنے لگا کہ اسے لانگ ڈرائیو پر لے جاؤ۔ اس کی اصلیت اور فطرت
تب پتہ چلے گی۔ اس نے یہ طریقہ آزمایا اور فیصلہ کر لیا ۔پچھلے بیس سال سے
اس کی بیوی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ گورے بھی بھاگ کر شادی نہ کرتے بلکہ
گھر والوں کی رائے سے کرتے ہیں۔ کیونکہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ شادی کے بعد
دونوں خاندانوں کے تعلقات شروع ہونے ہیں ۔ ہمارے یہان گورون کے بارے
انتہائی غلط باتیں مشہور ہیں ۔امیرے بیٹے کے گورے دوستوں میں سے دو شادی کے
بعداب بھی جوانٹ فیمل میں رہتے ہیں ھالانکہ وہ اکیلے رہ سکتے ہیں۔ اچھ
خاندان کے گورے اب بھی خاندانی روایات کے مطابق رہتے ہیں چرچ بھی جاتے
ہیں۔ہم مین عادت ہے کہ ایک دو چھوٹے طبقے کے گوروں کی عادت دیکھ کر سب کو
ایسا ہی سمجھ لیتے ہیں۔گوروں کے تمام ممالک میں جب کوئی کسی پبلک آفس کے
لئے چنا جاتا ہے تو اس کے بعد اخلاقی لحاط سے اسے انتہائی محطاط رہنا پڑتا
ہے چھوٹی سی اخلاقی برائی سے اسے آفس سے ہاتھ دھونا پڑ جاتا ہے ہماری یہا
آفس کے بعد ہی برائی کرنا شروع کرتے ہیں کہ اب مجھے کوئی ہاتھ نہیں لگا
سکتا۔
لڑکیوں کو فلموں اور ڈراموں سے یہ بھی سیکھنا چاہئے کہ والدین کی اطلاع کے
بغیر شادی کے بعد جب لڑکے کے گھر والے لڑکی کو قبول نہیں کرتے تو لڑکا اپنے
والدین کو نہ چھوڑ سکنے کا ہمیشہ بہانہ بناتا ہے۔ وہ چھوڑ بھی نہیں سکتا اس
نے جائداد میں حصہ جو لینا ہوتا ہے۔ تب لڑکیاں پھنس جاتی ہیں کہ اپنے گھر
کیسے جائیں ۔ اگر قبول کر لیں تو ساری عمر عورتوں میں آنکھین نیچی کرنی
پڑیں گی۔۔زندگی کا یہ رنگ یاaspect بھی سوچ لیں۔کہ لڑکا کتنا سچا ہے یا
کتنا بہادر۔ یاد رکھیں پاکستانی ویسے ہی چھوٹے ،فریبی، دھوکے باز مشہور
ہیں۔یہ یاد لینا۔ اندھا اعتماد نہ کر لینا۔صرف زندگی کاbright side ہی نہیں
سوچ لینا چاہئے۔ سیاسی لحاظ سے بھی، اور جنگوں کے لحاظ سے بھی ہم نے ہمیشہ
خوش فہمی میں پنگا لینے کی یہی غلطی کی تھی اور اس کے نتائج سب کے سامنے
ہیں۔ہم نے حقیقت پسند ہونا سیکھا ہی نہیں۔
مغربی ممالک میں بھی میں نے ایسی لڑکیوں کو خوار ہوتے دیکھا ہے بچوں کے
ساتھ سنگل پیرنٹ کے طور مشکل بن جاتی ہے۔ معاشرے مین جنسی کھلونا بھی بن
جاتی ہے۔
مرضی کی شادی کا حق یاد ہے مگر والدین کے حقوق یاد نہیں۔ ہارمن تنگ کرتے
ہین ھل اﷲ سے لگاؤ۔ راٹر بکواس کرتے ہیں ہر معاشرے کی اپنے قانون کے حفاطت
کے طریقے ہوتے ہیں۔ مغربی ممالک اگر شادی کی آ زادی دیتے ہیں تو اس کے ساتھ
حکومت حفاظت دیتی ہے۔ ہماری حکومت نہیں۔ ایک سسٹم کے بدلنے کے بعد دوسرے کا
حکم دیا جاتا ہے۔ ہمارے تو اسلامی یا اخلاقی حکومت کی بات تو چھوڑیں بلکہ
کوئی حکومت بھی نہیں رہی۔ اﷲ بھی اپنی مرضی کرنے سے روکتا ہے ۔کیا یہاں
انصاف اور مساوات ہے یا عورت کی کوئی وقعت یاقیمت ہے جو کمزر ہو کر بھی
مرضی کرسکتی ہو۔ صرف طاقتور اپنی مرضی کر سکتا ہے کمزور نہیں۔
اﷲ تعالی کا ہر ملک میں یہی سسٹم ہے کہ لڑکا روزی کما کر لاتا ہے۔ لڑکی گھر
اور بچوں کو سنبھالتی ہے۔ لڑکی کے والدین بھی یہی بات دیکھتے ہیں کہ لڑکا
کیا کرتا ہے بیوی بچوں کو پال سکے گا یا نہیں۔ امام شاذلی ؒ شمالی افریقہ
کے مشہور صوفی بزرگ گزرے ہیں۔ وہ کسی کو اس وقت تک مرید نہیں بناتے تھے یا
تصوف میں آنے نہیں دیتے تھے جب تک وہ روزگار کمانے نہ لگ جائے اور مرید
بننے کے بیوی بچوں کے ساتھ نارمل زندگی نہ گزارے۔ کیونکہ یہی سنت طریقہ ہے
زندگی گزارنے کا۔تو لڑکیوں کو یہ سوچ لینا چاہئے۔
قائد اعظم سے کسی نے سیاست میں آنے کی خواہش کا ذکر کیا تو کہنے لگے کہ
پہلے کافی ساری دولت جمع کر لو پھر اس میں پڑنا۔اسی طرح ایک صحافی نے ایوب
خان کے زمانے میں سچ لکھنے کو اپنانا چاہا تو کسی نے بڑی اچھی نصیحت کی کہ
پہلے اچھی اور مستحکم روزی کا بند بست کر لو پھر یہ کام کرنے میں پڑنا غریب
کو سچ بولنے کی آزادی نہیں ہے ورنہ تمہارے بچے رل جائیں گے۔ اس نے یہ مان
لیا دبئی میں کاروبار سیٹ کیااور پھر لکھنا شروع کیا تو خود یہ بات لکھی
تھی۔ہمارے ماحول میں زندہ رہنے کے لئے بہت ہی حقیقت پسندی بہت ضروری ہے۔
جس معاشرے میں کوئی اصول نہ ہو، استحصال ہو۔ انصاف نہ مل سکے اس میں اپنی
حفاظت اور بھی ضروری ہو جاتی ہے۔ گوروں میں طلاق ہو جایے تو حکومت بیوی کو
جائداد میں سے حصہ ضرور دیتی ہے کہ اس نے گھر کا کام کاج کر کے مالی لحاظ
سے حصہ ڈالا ہے اگر وہ کام کرتی ہو تو آدھی جائدا سکو مل جاتی ہے۔ہمارے
یہاں بیوی کی گھر میں حیثیت ڈیلی ویجز کے نوکر کی ہے طلاق دی تو کان سے پکڑ
کر نکال دیا زیور بھی کھا جاتے ہیں۔ کام کرتی ہو تو سب رقم بھی ہڑپ کر لی
جاتی ہے جو اس کا حق ہوتا ہے۔ بچے ماں کے ساتھ جائیں تو نفقہ نہیں دیا
جاتا۔ایسی پریکٹس اور اقدار میں والے معاشرے کیکسی لڑکے پر اندھا بھروسہ کر
کے والدین بہن بھائیوں کو چھوڑ دینا صریح بہت وقوفی ہے۔ نا سمجھی ہے۔
پاکستانی لڑکے کتنے فراڈی ہیں اس کی مثال مغربی ممالک میں دیکھنے میں آتی
ہے۔ پہلے گوریوں ان سے شادی کر لیتی تھیں مگر جونہی انہیں پاسپورٹ مل جاتا
تھا تو یہ ان کو طلاق دے دیتے تھے۔ تو گوریوں نے شادیاں بند کر دیں۔ اب
پاکستانی خاندان اپنی لڑکیوں کی شادیان پاکستان میں کرنے لگے تو یہ شادی کر
کے یورپ امریکہ کینیڈا پہنچ جاتے تھے ۔پہلے ایک دو سال میں پاسپورت مل جاتا
تھا تو یہ طلاق دے دیتے تھے اور پھر پاکستان میں اپنی فیملی کی لڑکی ست
شادی کر لیتے تھے۔ اس پر گوروں نے پاسپورٹ ملنے کی مدت پانچ سال کر دی گئی
تو پھر بھی یہی کرتے تھے۔ اب رولز تبدیل کر دئے گئے ہیں ۔ بلکہ کچھ ممالک
نے کہا ہے کہ لوکل پاکستانی لڑکوں سے شادی کرو باہر سے لڑکے نہیں لا
سکتے۔گورے اپنے شہریوں کے مسائل ضرور حل کرتے ہیں جبکہ ہم مسائل پیدا کرتے
ہیں کیونکہ ہم ہر وقت داؤ پر ہوتے ہیں۔ نہ بھی ضرورت ہو تب بھی چکر چلانا
ہماری فطرت بن گیا ہے۔
اس لئے ان تمام پوائنٹ ذہن میں رکھو۔ اور اپنی زندگے کے فیصلوں مین والدین
کو شامل رکھو۔ اور کبھی کسی لڑکے کے جھوٹ موٹ محبت کے دعوں میں نہ پھنس
جانا- |