خوراک کے عالمی بحران کا خطرہ

عالمی بنک کے سربراہ رابرٹ زوئلک کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں اشیائے خوردونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتیں دس کروڑ غریب افراد کو مزید غربت کی گہرائیوں میں دھکیل سکتی ہیں۔

ان کا یہ بیان بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی اس تنبیہ کے بعد سامنے آیا ہے جس میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ جاری رہا تو لاکھوں لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہو جائیں گے اور یہی نہیں بلکہ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے پیدا ہونے والی معاشرتی بے چینی کسی تنازعہ کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔
 

رابرٹ زوئلک کا کہنا تھا کہ’ ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ تین برس میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کے دوگنا ہونے سے ممکنہ طور پر کم آمدن والے ممالک کے دس کروڑ افراد مزید غربت کا شکار ہو سکتے ہیں‘۔
 

انہوں نے کہا کہ خوراک کے اس عالمی بحران سے نمٹنے کے لیے نئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے امیر ممالک پر زور دیا کہ وہ نہ صرف عالمی خوراک پروگرام کے لیے پانچ سو ملین ڈالر کی امداد کا بھی انتظام کریں بلکہ بنیادی خوراک اور فصلوں کی پیداوار کے لیے فنڈ فراہم کریں۔

ادھر عالمی بنک سے جڑی مختلف ایجنسیوں کی حال ہی میں جاری ہونے والی رپورٹ میں پاکستان کو بھی ان چھتیس ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جہاں خوراک کے شدید بحران کا خطرہ موجود ہے اور جنہیں مزید ابتر صورتحال سے بچانے کے لیے بیرونی مدد درکار ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ماضی قریب میں آنے والا سیلاب اور غیر یقینی ملکی صورتحال بھی ملک میں اشیائے خوردو نوش کی کمی کی وجہ بنی ہیں۔ تاہم رپورٹ کے مطابق 2008 میں پاکستان میں گندم کی فصل اچھی ہونے کا امکان ہے جو کہ ایک خود آئند بات ہے۔

دنیا بھر میں حالیہ مہینوں میں اشیائے خورد ونوش کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جبکہ عالمی بنک کے مطابق گندم، چاول اور مکئی کی قیمتوں میں اضافے سے گزشتہ تین برس میں دنیا میں کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں تراسّی فیصد بڑھ گئی ہیں۔
 

قیمتوں میں اس ہوشربا اضافے کے بعد مصر، آئیوری کوسٹ، ایتھوپیا اور فلپائن سمیت متعدد ممالک میں مظاہرے اور فسادات بھی ہوئے ہیں۔ ایسے ہی ایک واقعے میں گزشتہ ہفتے ہیٹی میں اشیائے خوردونوش کی کمیابی کے خلاف مظاہرے کے دوران تشدد سے پانچ افراد مارے گئے تھے۔

قیمتوں میں اضافوں کے بعد بھارت، چین ،ویت نام اور مصر میں چاول کی برآمد پر پابندی بھی عائد کی گئی ہے جس کا اثر بنگلہ دیش، فلپائن اور افغانستان جیسے ممالک پر پڑا ہے جو کہ چاول کے درآمد کنندگان ہیں۔

YOU MAY ALSO LIKE: