اسلامی تمدن میں علم اور تحصیل علم انتہائی اہمیت کے حامل
ہیں۔ حقائق اشیا ء کا علم آدمؑ نے خود ذات باری تعالیٰ سے حاصل کیا۔ اس علم
نے اسے اشرف المخلوقات بنایا۔ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل ہونے
والی پہلی وحی اس حقیقت پر مبنی تھی کہ پڑھنا، لکھنا اور علم حاصل کرنا
انسان کا ایک بنیادی فریضہ ہے۔ اس طرح اسلام نے انسانی تاریخ میں پہلی بار
عالم گیر تعلیم کا نظریہ پیش کیا۔ قرآن حکیم میں علم اور تحصیل علم کی
اہمیت کو متعدد آیات میں بیان کیا گیا ہے۔
علم کی فضیلت اور اہمیت کے متعلق ایک نہایت جامع روایت یہ بیان کی گئی ہے
جسے حافظ ابن عبدالبر نے اپنی کتاب فضل العلم میں درج کیا ہے۔ ’’علم حاصل
کرو۔ اس کی مدد سے حق اور باطل میں تمیز کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ علم
جنت کے راستے کو روشن کرتا ہے۔ جب ہمارا کوئی دوست نہیں ہوتا تو وہ ہمارا
ساتھ دیتا ہے وہ مصیبت کے وقت ہماری ڈھارس بندھاتا ہے۔ دشمنوں کے مقابلے
میں ہتھیار کا کام دیتا ہے اور دوستوں کے مابین زینت ہے۔ اس کی بدولت اﷲ
تعالیٰ قوموں کو بلند مقام عطا فرماتے ہیں اور ان کو نیک مشاغل کی طرف
رہبری کا منصب سپرد کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے نقش قدم کی پیروی اور ان کے
اعمال کی نقل کی جاتی ہے ان کی رائے کو تسلیم کیا جاتا ہے اور ان کو عزت کی
نگاہ سے دیکھا جاتا ہے‘‘۔اسلام نے تلقین کی کہ تحصیل علم ایک مقدس فریضہ
ہے۔ اسی تعلیم کا اثر تھا کہ اسلامی دنیا میں علمی تحقیق و تجسّس کا ذوق و
شوق سرعت کے ساتھ پھیلتا گیا۔ کتاب و حکمت کی یہی تعلیم ہے کہ جس کی بدولت
انسانوں نے طبعی کائنات کی قوتوں کو مسخر کیا اور انھیں اپنے تصرف میں
لایا۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ امت مسلمہ کے ہر فرد کے لیے کتاب و حکمت دونوں
کی تعلیم حاصل کرنا لازمی ہے مطالعہ انسان کو حصول علم کی جانب مائل کر تا
ہے، یہ انسان کو اپنی ذات سے روشناس کرا تا ہے، معاشرے اور اس میں بسنے
والوں کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے،یہ انسان کو نئی فکر عطا کر تا ہے، انسان
کی سوچ کو وسیع کر نے اور س میں کشادگی کا باعث ہو تا ہے، یہ انسان میں قوت
مشاہدہ پیدا کر تا ہے ، مطالعہ سے انسان میں اچھا ئی اور برئی کی پہچان ہو
تی ہے،مطالعہ سے ہی انسان نے کائنات میں پوشیدہ رازوں کو دریافت کیا، دنیا
میں جتنے بھی عالم ، فاضل، فلسفی، بلند پایا محقق،عظیم سائنسداں، مصنف،
موجداور جتنے بھی اربابِ سَیف و قلم گزرے ہیں مطالعہ ان کی زندگی کا ایک
اہم اور لازمی حصہ تھا۔مطالعہ وقت گزارنے کا سب سے بہترین ذریعہ ہے۔ مطالعہ
کی عادت سے انسان دنیا کے حالات سے باخبر رہتا ہے ۔مطالعہ کے بے شمار ذرائع
ہیں ان میں اخبارات، رسائل و جرائد، کتب ،بر قی ذرائع جن میں ریڈیو، ٹیلی
ویژن، وی سی آر، انٹر نیٹ، ڈسک، سی ڈی وغیرہ۔ ان تمام میں کتب کا مطالعہ سب
سے اہم اور دیر پا ہو تاہے کیوں کہ کتاب ہر دم تازہ رہتی ہے ،اس کی حیثیت
مستقل اورمسلسل ہو تی ہے ۔ انسان کا جب جی چاہے اسے پڑھے جب جی چاہے اسے
بند کر کے رکھدے، خرید کر پڑھے یا کسی لائبریری سے مفت لاکر مطالعہ کرے یا
کسی اپنے دوست سے مستعارلے کر فیض حاصل کرلے۔ یہ اپنے پڑھنے والے کو ہر حال
میں خوش رکھتی ہے۔یہ جتنی پرانی ہو تی جا تی ہے نادر و نایاب کہلانے لگتی
ہے۔کسی شاعر نے کہا
بیٹھ کر سیر دو جہاں کرنا
یہ تماشا کتاب میں دیکھا
کتاب ایک مسلمہ حقیقت ہے اسے ہر دور، ہر زمانے میں فضیلت حاصل رہی ہے۔ بقول
حکیم محمد سعید شہید’’انسانی تہذیب کے دور میں کتاب کو بلند مقام حاصل رہا
ہے۔ بلاخوف تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ تہذیب انسانی کا کوئی دور ایسا نہیں
گذراجو کتاب سے تہی دامن رہا ہو اور فکر کتاب سے آزاد ہوجائے۔ دراصل کتابیں
بلند خیالات اور سنہری جذبات کی دستاویزی یادگاریں ہوتی ہیں۔ کتابیں
بحرحیات کی سیپیاں ہیں جن میں پراسرار موتی بند ہیں۔ اگر ہم ان کی تعریف
میں ادبی اور شعری انداز بیان اختیار کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ کتابیں
معلومات کے ثمر دار درختوں کے باغ ہیں، گزرے ہوئے بزرگوں کے دھڑکتے دل
ہیں،حسن و جمال کے آئینے ہیں اور وقت کی گزری ہوئی بہاروں کے عکس ہیں۔
کتابیں لافانی بلبلیں ہیں جو زندگی کے پھولوں پر سرمدی نغمے گاتی ہیں۔ محی
الدین بن عربی کے خیال میں ’’کتاب پھلوں کا ایک ایسا باغ ہے کہ اسے ساتھ
لیے پھرو اور جہاں چاہو اس سے خوشہ چینی کر لو۔کتاب کے بارے میں میرا انداز
فکر یہ ہے کہ جس گھر میں کتابیں نہ ہوں وہ ایک ایسے جسم کی مانند ہے جس میں
روح نہ ہو، جس درسگاہ میں کتابیں نہ ہوں وہ ایسی درس گاہ کی مانند ہے جس
میں طلبہ نہ ہوں۔ جس شہر میں کتب خانے نہ ہوں وہ ایک شہر ویراں ہے اور جس
کتب خانے میں لوگوں کو کتابوں سے عشق و محبت نہ ہو وہ کتب خانہ علم کی بس
ایک نمائش گاہ ہے، یہ نمائش گاہ لگی بھی رہ سکتی ہے اور یہ نمائش زمانے کے
ہاتھوں تباہ بھی ہوسکتی ہے‘ ۔ درحقیقت، کتاب ایک ایسی روشنی ہے کہ جس نے
گزرے زمانے کی شمع کو کسی لمحہ مدھم ہونے نہیں دیا۔ زمانے کی ترقی اسی
مینارہ نور کی مرہون منت ہے۔ یہ ایک ایسا انمٹ لازوال سرمایہ ہے کہ جس نے
انسانی ترقی کے تمام ادوار یعنی ماضی،حال اور مستقبل کو مربوط رکھنے کے
ساتھ ساتھ انھیں ایک دوسرے سے متعارف کرانے کا خوش گوار فریضہ بھی انجام
دیا ہے۔کتاب کا حصول اس قدر آسان ہے کہ کوئی چیز اس کا مقابلہ نہیں کر
سکتی۔ یہ ہمیں عجائبات کی سیر کراتی ہے۔ اس کے ذریعے سے سلجھے ہوئے ذہن کے
مصنفین کے خیالات سے آگاہی ہوتی ہے۔ کتاب ہمیں اسلاف اور ان لوگوں کے حالات
بڑی آسانی سے مہیا کر دیتی ہے جن تک ہم پہنچ نہیں سکتے۔ کتاب جیسا ساتھ کسی
کو مل سکتا ہے کہ جب آپ چاہیں کچھ وقت آپ کے ساتھ گزارنے پر تیار ہو جائے
اور جب آپ پسند کریں تو سائے کی طرح آپ کے ساتھ لگی رہے، بلکہ آپ کی خواہش
ہو تو آپ کے جسم و جان کا جزو بن جائے۔ جب تک آپ چاہیں خاموش رہے اور جب آپ
کا جی اس سے بولنے کو چاہے تو چہکنے لگے۔آپ کسی کام میں مصروف ہوں وہ خلل
انداز نہیں ہوتی اور آپ تنہائی محسوس کریں تو آپ اسے شفیق ساتھی محسوس
کریں۔ کتاب ایک ایسا قابل اعتماد دوست ہے جو کبھی بے وفائی نہیں کرتا اور
نہ کبھی آپ کا ساتھ دینے سے جی چراتا ہے۔شاعر خیال آفاقی کے بقول
نئے ذریعۂ بلاغ خوب ہیں لیکن کتاب میں جو مزاہ ہے ، کتاب ہی میں رہا
سقراط کا کہنا تھا کہ’’ جس گھر میں اچھی کتابیں نہیں وہ گھر حقیقتاً گھر
کہلانے کا مستحق نہیں ہے وہ تو زندہ مردوں کا قبرستان ہے‘‘۔ فلسفی ایمرسن
کا کہنا ہے کہ ’’اچھی کتاب بے مثال دوست ہے جو ہمیشہ سیدھے راستے پر چلنے
کی صلاح دیتا ہے‘‘ کارلائل کے خیال میں ’’اچھی کتابوں کا مجموعہ دور جدید
کی سچی یونیورسٹی ہے‘‘ ۔ ملٹن کا کہنا تھا کہ ’’ایک اچھی کتاب عظیم روح کے
قیمتی خون سے تحریر ہوتی ہے۔ اس کو محفوظ کرنے کا مقصد ایک زندگی کے بعد
دوسری زندگی کو اس عظیم روح سے روشناس کرانا ہے‘‘ ۔کتاب دراصل صداے ماضی
ہے، جس کی بازگشت نے قرنہا قرن کے فاصلوں کو شکست دے کر انسان کو کامیابی
اور ترقی سے ہمکنار کیا۔ کتاب وہ روشنی ہے جس نے ماضی کی شمع کو کبھی مدہم
نہ ہونے دیا اور انسان کی تر قی و ظفر مندی دراصل اسیِ شمع فروزان کی مرہون
منت ہے۔ یہ فاصلوں کی بازگشت ہے اور خاموشیوں کی آوازیں ہیں۔ یہ ہمیں پرانے
زمانے کی روحانی اور ذہنی کاوشوں کا وارث بناتی ہیں۔ یہ علم و آگہی کا وہ
خزانہ ہے، جس کی دولت کبھی ختم نہیں ہوتی اور جو نسل در نسل وراثتاً سونپا
جاسکتا ہے۔ کتاب
ایک زندہ اور متحرک شے ہے جس نے تاریخ، اقتصادیات، ثقافت، تہذیب و تمدن غرض
کہ ہر مکتبہ فکر پر گہرا اثر ڈالا ہے۔کتاب کے حوالے سے میرا ایک شعر
حصول علم ہے ہر اِک فعل سے بہتر
دوست نہیں ہے کوئی کتاب سے بہتر
مطالعہ کے عدم فروغ اور کتاب سے دوری کی وجوہات
یہ امر باعث افسوس ہے کہ ہم مطالعے سے دور ہو گئے ہیں اور مطالعہ کا شوق
خطر ناک حد تک زوال پذیر ہے۔عام لو گوں میں کتاب پڑھنے کا رجحان نا پید ہو
چکا ہے۔ اس کی اہم وجہ معاشرے میں رو نما ہو نے والی وہ تبدیلی ہے جس کے
باعث ہر فرد کم سے کم وقت اور کم سے کم محنت کر کے زیادہ سے زیادہ دولت
حاصل کر نے کی فکر میں مصروف ہو گیا ہے، مہنگا ئی کے باعث لو گوں میں قوت
خرید باقی نہیں رہی، والدین نے اپنے بچوں کو کتا بیں دلانا چھوڑ دی ہیں،
طالب علموں نے اپنے آپ کو صرف اور صرف نصابی ضروریات کی تکمیل اور امتحان
پاس کر نے تک محدود کر لیا ہے، وہ نصابی کتب کے علاوہ کچھ پڑھنے کی جانب
راغب نہیں ہو تے ۔نوٹس کا سلسلہ بھی کتب اور مطالعہ کے فروغ میں سب سے بڑی
رکاوٹ ہے ۔سرکاری اسکولوں میں لائبریری کا تصور ہی نہیں ، کالجوں اور
جامعات کے کتب خانوں کو مناسب ٖفنڈز راہم نہیں کئے جاتے۔ دیگر پڑھے لکھے
لوگ بھی اپنا زیادہ تر وقت ٹیلی ویژن اور انٹر نیٹ کی نظر کر دیتے ہیں۔ اس
صورت حال کے پیش نظر ضروری ہے کہ اس اہم اور قومی مسئلہ پر سنجیدگی کے ساتھ
ہر زمہ دار توجہ دے۔ ہمارا نظام تعلیم بھی فروغ مطالعہ کے فروغ کے لئے ٹھوس
منصو بہ بندی سے خالی نظر آتا ہے جس کے نتیجے میں مو جودہ نظام تعلیم سے
ڈگری یافتہ طلبہ تو پیدا ہو رہے ہیں لیکن تعلیم یافتہ لوگ پیدا نہیں ہو رہے
۔
مطالعہ کی عادت کو فروغ دینے کے طریقے :
امریکن لائبریری ایسو سی ایشن نے مطالعہ کی عادت کو فروغ دینے کے لئے
والدین کے لئے حسب ذیل چند تجاویز دیں ہیں :
٭ والدین اپنے بچوں کو وقتاً فوقتاً لائبریری لے جائیں اور لائبریرین سے
اپنے بچے کو متعارف کر ائیں تاکہ وہ لائبریری کے عملے سے مدد لینے اور کتاب
کے حصول میں آسانی محسوس کرے۔
٭ آپ لائبریرین سے کتاب کے انتخاب کے لئے کہہ سکتے ہیں کہ وہ آپ کے بچے کو
وہ کتاب پڑھنے کے لئے دے جو وہ پسند کریں۔
٭ لائبریری کے استعمال میں اپنے آپ کو ایک نمونے کے طور پر پیش کریں تاکہ
آپ کا بچہ دیکھے کہ آپ بھی لائبریری سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
٭ اسکول و کالج کے اوقات کے بعد نیز گرمیوں کی چٹھیوں کے پروگرام سے فائدہ
اٹھائیں ۔
٭ لائبریری سے اپنی تعاون کا اظہار کیجئے ، اپنا وقت لائبریری کو دیں یا
کتب اور دیگر مواداپنے علاقے کی یا بچے کے اسکول کی لائبریری کو تحفہ کے
طور پر دیجئے۔
٭ اپنے گھرمیں مطالعہ کی حوصلہ افزائی کریں۔جب بھی وقت ملے از خود مطالعہ
کریں۔ آپ کا بچہ دیکھے کہ آپ بھی مطالعہ میں مصروف ہیں۔ گھر میں لائبریری
قائم کریں یا ہفتہ وار مطالعہ کے اوقات مقرر کریں۔
والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ بھی طلبہ میں مطالعہ کو فروغ دینے میں اہم اور
بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کلاس میں نصابی مو ضوعات کے ساتھ ساتھ
معلوماتی اور دلچسپ کتابوں کے بارے میں معلومات فراہم کی جاسکتی ہیں، نیز
انہیں مطالعہ کی اہمیت اور افادیت سے آگاہ کیا جاسکتا ہے۔
فروغ مطالعہ میں لائبریری کا کردار
مطالعہ کو فروغ دینے میں کتب خانے طلبہ اور عام لو گوں میں اہم اور بنیادی
کردار ادا کر تے ہیں۔ان میں اہم نکات حسب ذیل ہیں :
٭ لائبریری کے استعمال میں طلبہ اور قارئین کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
٭ کتب خانے اپنے قارئین کی علمی ضروریات کی تکمیل کے لئے قائم کئے جاتے ہیں
۔اگر لائبریری میں قارئین نہیں ہوں گے تو ان کے قیام کا مقصد جاتا رہے گا۔
اس لئے ضروری ہے کہ طلبہ اور قارئین کو کتب خانے کی اہمیت اورضرورت سے آگاہ
کیا جائے انہیں مختلف طریقوں سے کتب خانوں کے بارے میں بتا یا جائے ۔
٭ لائبریری کی تر تیب و تنظیم بھی لائبریری استعمال کر نے والوں پر اچھا
اثر ڈالتی ہے۔
٭ لائبریری کیٹلاگ یا لائبریری کا کمپیو ٹرائی ہو نا قارئین پر مثبت اثرات
مر تب کرتا ہیاور وہ مطالعہ کی جانب راغب ہو تے ہیں۔
٭لائبریری کے نوٹس بورڈ پر نئی آنے والی کتابوں کے بارے معلومات فراہم کرنے
سے بھی قارئین اپنی پسند اور ضرورت کی کتاب کے مطالعہ کی جانب راغب ہو تے
ہیں۔
٭ قارئین کی راہنمائی کر نالائبریری کا بنیادی فریضہ ہے۔ طلبہ اور قارئین
کو لائبریری کے استعمال کے بارے میں مکمل اور موثر راہنمائی فراہم کر نے سے
فروغ مطالعہ کے عمل میں تیزی لائی جاسکتی ہے۔ لائبریری میں آنے والے اکثر
قارئین کولائبریری کیٹلاگ سے نا واقف ہوتے ہیں ، وہ طلب نمبر ، کیٹلاگ کارڈ
پر موجود کتا ب کے بارے میں معلومات، الماریوں میں رکھی ہوئی کتا بوں کی
ترتیب سے نا واقف ہو تے ہیں۔ انہیں لائبریری سے اپنی مطلوبہ کتاب کا حصول
انتہائی مشکل نظر آتا ہے جس کے باعث وہ بددل ہو کر لائبریری میں نہیں آتے۔
لائبریرین یا دیگر عملے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس سلسلے میں قارئین کی مدد
اور رہنمائی کرے۔
٭ لائبریری میں وقفے وقفے سے کتابوں کی نمائش، مختلف مو ضوعات پر ماہرین کے
لیکچر سیمینار اور ورکشاپ کا انعقاد کر کے مطالعہ کا ذوق پیدا کیا جا سکتا
ہے ۔
٭لائبریری میں قارئین کی انجمن یا ’’ریڈرز کلب‘‘ کے ذریعہ بھی لو گوں کو
مطالعہ کی جانب راغب کیا جا سکتا ہے۔
٭لائبریری میں نئی کتابوں کی تعارفی تقریب لوگوں میں مطالعہ کا رجحان پیدا
کرسکتی ہے ۔
٭ لو گ کیا پڑھنا چاہتے ہیں ؟ لائبریری اس قسم کا جائزہ(سروے) لے کر ان کی
دلچسپی کا مواد فراہم کر سکتی ہے ۔لائبریری کا یہ عمل فروغ مطالعہ کا باعث
ہو گا۔
٭ پرنٹ میڈیا(اخبارات، رسائل و جرائد) اوربر قی میڈیا Electronic Media
(ریڈیو، ٹیلی ویژن ، انٹر نیٹ وغیرہ )کے ذریعہ عوام ا لناس میں مطالعہ کی
اہمیت اور ضرورت کو اجا گر کیا جاسکتاہے۔
٭ گستی یا مو بائل لائبریری کے ذریعہ دور دراز کے علاقوں میں لو گوں کو
کتاب پڑھنے کی سہو لت فراہم کی جاسکتی ہے۔
اہل علم میں ذوق مطا لعہ
’’اسلامی کتب خانے‘‘ کے مصنف الحاج محمد زبیرنے ذوق مطالعہ کی بے شمار
مثالیں تحریرکیں ہیں۔حسن بصری ؒ کی زندگی کے چالیس سال ایسے گزرے کہ سوتے
جاگتے کتاب ان کے سینے پر رہتی تھی۔ اموی خلیفہ ثانی کا ذوق مطالعہ اتنا
بڑھا ہوا تھا کہ ان کے کتب خانے کی چار لاکھ کتا بوں میں سے بہت کم ایسی
تھیں جن کو اس نے پڑھا نہ ہو۔ علامہ ابن رشد نے ساری عمر کتب بینی میں صرف
کر دی اس کی عمر میں صرف دو ’۲‘راتیں ایسی گزری کہ جب وہ مطالعہ نہ کر سکا،
ایک شادی کی اور دوسری والدہ کی وفات کی رات۔ منجم ابو معشر کے انہماک
مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ اس نے خراسان سے مکہّ جاتے ہوئے بغداد کا ایک کتب
خانہ خزائنتہ الحکمت دیکھنے کا قصد کیا مگر وہاں پہنچ کر مطالعہ میں اتنا
محو ہوا کہ مکہّ جانا بھول گیا۔ بصرہ کے ایک مشہور عالم جاحظ نے تو اپنی
جان ہی ذوق مطالعہ کی نظر کر دی وہ آخری عمر میں مفلوج ہو گیا تھا لیکن اس
حالت میں بھی کتا بیں اس کے چاروں طرف لگی رہتی تھیں اور وہ مطالعہ میں
منہمک رہتا تھاایک دن کتا بیں جاحظ پر گر پڑیں اور وہ ان کے نیچے دب کر مر
گیا۔فتح ابن خاقان کو کتا بوں کے مطالعہ کا ایسا شوق تھا کہ اس کے ہاتھ میں
ہر وقت ایک کتاب رہتی تھی یہاں تک کہ وہ بیت الخلا میں بھی کتاب کا مطالعہ
کر لیا کر تا تھا۔
’’کتابیں ہیں چمن اپنا‘‘ کے مصنف عبدالمجید قریشی نے بعض شخصیات کے ذوق مطا
لعہ اور کتب بینی کا ذکرکیا ہے۔خان بہادر خدابخش مر حوم نے پٹنہ میں
’’خدابخش اورینٹل لائبریری‘‘ جیسے عظیم الشان کتب خانے کی بنیاد ڈالی ۔
کتابیں حاصل کر نے کے لئے مولوی صاحب نے ہر طریقہ خواہ وہ اخلاقاً معیوب
کیوں نہ تھا اپنے لئے روارکھا، حالانکہ وہ ایک متقی اور راست باز انسان
تھے۔ آپ نے ’’ مشرقی کتب خانہ‘‘ کے مصنف ’اسکاٹ‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ
مولوی خدا بخش کا کہنا تھا کہ ’نادر و نایاب چیزوں کے جمع کر نے کا فن ہر
پابندی سے مستثنیٰ اور فوج داری قانون سے بالا ہے۔ کتاب کے بارے میں آپ نے
کہا کہ اندھے تین قسم کے ہو تے ہیں ایک وہ جن کی بصارت زائل ہو جاتی ہے۔
دوسرے وہ جو آنکھیں رکھنے کے باوجود اپنی کوئی بیش قیمت کتاب کسی دوست یا
واوقف کار کو مطالعے کے لئے مستعاردے دیتے ہیں اور تیسرے اندھے وہ لوگ ہیں
جو ایک بار ایسی کتابوں پر قبضہ پالینے کے بعد انھیں واپس بھی کر دیتے
ہیں۔مولانا حبیب الرحمٰن شیروانی کا کتب خانہ ان کی نصف صدی سے زیادہ عرصہ
تلاش کا سر مایہ تھامولانا حسرت موحانی پر بغاوت کے جرم میں مقد مہ چلا اور
دو سال قید با مشقت اور پانچ سو روپے جرمانے کی سزا ملی، حسرت جیسے درویش
کے پاس اتنی رقم کہا تھی چنانچہ ان کی بیش بہا اور نادرو نایاب کتب کو
جنھیں انھوں نے بڑی محنت اور کاوش سے جمع کیا تھا صرف ساٹھ روپے میں حکومت
کی جانب سے نیلام کر دیا گیا۔حسرت نے لکھا کہ ’’اس جرم کی بدولت کتب خانہ
اردوئے معلی کی جو حالت ہو ئی اس کا بیان دردناک ہے۔ جن کتا بوں کو راقم
الحروف نے معلوم نہیں کن کنِ کو ششوں اور دِقتوں سے بہم پہنچا یا تھا ، ان
سب کو پولیس کے جاہل جوان ٹھیلوں میں اس طرح بھر کر لے گئے جس طرح لوگ لکڑی
اور بھُس لے جا تے ہیں‘‘۔ حکیم اجمل خان کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ انہیں
ذوق مطالعہ کا بے انتہا شوق تھا ، سر سید احمد خان مطالعہ کے بے حد شوقین
تھے آپ نے لکھا کہ ’حیات جاوید ‘ جس کی ضخامت ایک ہزار صفحات تھی میں نے دو
شب میں ختم کر ڈالی تھی۔ یہ بھی مجھے یاد ہے کہ اپنے اس معمول کے مطابق کہ
کسی نئی کتاب کے حصول پر کم از کم ایک وقت کا کھانا کھانا ضرور فراموش کر
دیتا تھا اس دن بھی میں شام کا کھا نا نہیں کھا یا، اس خوف سے کہ اتنی دیر
تک مطالعے سے محروم رہ جاؤں گا‘‘۔علامہ شبلی نعمانی کو کتب بینی کا بے
انتہا شوق تھا۔بابا ئے اردو مولوی عبدالحق نے مولوی چراغ علی کے بارے میں
لکھا ہے کہ ’’ انھیں مطالعے میں بے حد شغف تھا گو یا یہی اُن کا اوڑ ھنا
بچھو نا تھا‘‘۔ نواب محسن الملک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھیں مر تے دم
تک مطالعے کا شوق رہا۔ممتاز مزاح نگار مرزا فر حت اﷲ بیگ کو کتب بینی کا
شوق ہمیشہ رہا یہ بھی ہو تا تھا کہ دستر خوان پر بیٹھے ہوئے کھانا کھا رہے
ہیں اور کتاب بائیں ہا تھ میں ہے۔استاد داغ دہلوی ہر نئی شائع ہو نے والی
کتاب فوراً خرید لیا کر تے اور اسی وقت اس کے مطالعے میں مصروف ہو جاتے اور
اسے مکمل پڑھ کر چھوڑتے، انھوں نے اپنے دولت کدے کا ایک بڑا کمراکتب خانے
کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ عبدالمجید قریشی کتاب بینی کا شغف رکھتے ہیں آپ
لکھتے ہیں کہ ’’ ہر نئی کتاب بشرطہِ کہ وہ میرے مزاج اور معیار سے مطابقت
رکھتی ہو میرے لئے پیام مسرت اور نویدِ شادمانی لے کر آتی ہے، آپ لکھتے ہیں
کہ کتابوں کے سلسلے میں میرے جذبات و احساسات انتہائی نازک ہیں مجھے جوں ہی
اپنی کسی دلپسند کتاب کے شائع ہونے کی اطلاع ملتی ہے اس کے حصول کے لیے
بیتاب ہو جا تا ہوں‘‘۔
نامور قانون داں خا لد اسحاق مر حوم کتا بوں کی خریداری پر ۵ء۳ ملین روپے
سالانہ خرچ کیا کر تے تھے ان کے کتب خانے میں کتا بوں کی تعداد لا کھوں میں
ہیں ۔مشفق خواجہ بلند پایہ محقق نکتہ رس نقاد اور منفرد مزاح نگار ہو نے کے
ساتھ ساتھ کتاب کے سچے عاشق تھے ان کاذاتی کتب خانہ انفرادی ملکیت کے عظیم
الشان کتب خانوں میں سے ایک ہے۔ کتا بوں کا یہ عاشق جس مکان میں رہائش پذیر
تھا ، اس کی نچلی اور پہلی منزل پرکل ملاکر دس کمرے تھے اور ایک کمرہ دوسری
منزل پر بنا ہوا تھا ۔اس مکان میں صرف ایک کمرہ رہائش کے لیے تھا، باقی سب
میں کتابیں تھیں۔شہید حکیم محمد سعید نے ۱۹۴۷ء میں جب ہندوستان سے پاکستان
ہجرت کی تو ان کے ہمراہ کئی سو کتا بیں بھی تھیں جو ان کی ذاتی لائبریری
تھی ، کتاب سے محبت اور عقیدت کے باعث اس میں اضافہ ہوتا رہا جس کے نتیجے
میں یہ ذاتی ذخیرہ کتب پہلے ہمدرد لائبریری ہو ااور پھر اسی نے بیت الحکمہ
کی صورت اختیار کی جس میں چار لاکھ سے زیادہ کتا بیں ہیں۔ |