طالبعلمی کا دور پھر یاد آیا

وہی شور و غل اور وہی طالبعلمی کا دور آج مجھے دوبارہ یاد آگیا سوچا کہ کیوں نہ پرانی یادوں کو تازہ کرنے کے لئے اسکول کا رخ کروں جہاں بچپن میں صبح اسکول کا نام سنتے ہی بخار ہونے لگتا تھا۔ لیکن بچپن کے زمانے کی اپنی خوبی تھی نہ کمانے کا غم اور نہ ہی کوئی پریشانی۔ بس پریشانی صبح کا اٹھ کر اسکول کو جانا۔ اور پانچ گھنٹے محصور ہوجانا۔ کتنی خوشی ملتی تھی جب اتوار سے پہلے ہفتہ آتا تھا تو اس دن سب پریشانی بھول جاتے تھے۔ اور جلدی جلدی تختی کو دھوتے اور خشک کرتے اور ہفتے کے ہی روز گھر کا کام کرتے تھے تاکہ اتوار کا دن بھرپور کھیل کود میں گزر جائے۔ آج بھی کچھ انہی یادوں کے ساتھ اسکول کی طرف روانہ ہو گیا۔ جیسے جیسے میرے قدم اسکول کی جانب بڑھتے چلے گئے تو مجھے بیگ کندھے پر رکھ کر اسکول جانے کا زمانہ بھی یاد آگیا جب گرمی کے موسم میں پیدل اسکول جایا کرتا تھا اور پیدل جاتے ہوئے اسکول پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگتا تھا اور یہ روزانہ کا سفر بھی اسکول سے بیزاری کا ایک سبب ہوا کرتا تھا۔ لیکن آج مجھے وہ دن بڑا خوبصورت اور پیارا لگتا تھا جب ہم بہت سے کلاس فیلو اکھٹے اسکول جایا اور آیا کرتے۔ جبکہ آج میں اکیلا صرف ان لمحات کو یاد کر رہا تھا۔وقت تھا جو گزر گیا۔ کبھی کسی موٹر سائیکل سوار یا ویگن والے کو ثواب درکار ہوتی تو وہ کسی نہ کسی کو اپنی سواری پر بٹھانے کی زحمت کرتا۔ بصورت دیگر وہ اس طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتا تھا۔ انہی لمحات کو سوچتے سوچتے میں اسکول کے مین گیٹ تک جا پہنچا گیٹ کے اندر کا نظارہ کچھ عجیب سا لگا۔ ایسا نہیں لگ رہا تھا یہ وہی ادارہ ہے جہاں میں چھٹی سے دسویں جماعت تک گزار چکا تھا۔ لڑکے باہر کھیل کود میں مصروف تھے۔ اسٹاف روم میں قہقہوں کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ مجھے اچھی طریقے سے یاد ہے کہ اس وقت ہمارے PTI ڈرل کے پیریڈ میں یا تو ہمیں پریڈ کروا کر ہماری ورزش کرواتے تھے یا انکی زیر نگرانی ہمارے نظم و ضبط کے ساتھ کھیل کود میں گزار دیا کرتے تھے لیکن آج صورتحال یکسر مختلف تھی۔ لڑکے بے قاعدگی کے ساتھ کھیل کود میں مصرف تھے جبکہ ٹیچر حضرات خوش گپیوں میں۔ کلاسز اسٹوڈنٹس کی شور و غل سے گونج رہے تھے ایسے لگ رہا تھا کہ صبح صادق کا ٹائم ہو اور پرندے اپنی گھونسلوں سے نکل کر درخت پر بیٹھے شور و غل کر رہے ہوں۔ ایک وقت تھا جب ہمارے اسکول ہیڈ ماسٹر صاحب باقاعدگی سے کلاسز میں استاد محترم کی غیر حاضری کا سخت نوٹس لیا کرتے تھے ٹیچرز کی غیر حاضری کی صورت میں وہ ٹیچرز کے خلاف کاروائی عمل میں لاتے تھے لیکن آج اسکول کا ماحول قطعاً مختلف تھا۔ طلباء کی صفائی کا انتظام تو اپنی جگہ اساتذہ کرام بھی میل کچیل والے کپڑوں کے ساتھ اسکول میں اپنی حاضری کو اسٹاف روم کی حد تک یقینی بنائے ہوئے تھے۔ تو بھلا اسٹوڈنٹس کس طرح صاف کپڑوں کے ساتھ اسکول میں حاضر ہوتے انہوں نے بھی اساتذہ کی حلیے کو دیکھ کر اسی حلیے کو اپنانا پسند کیا تھا کہاں گئے وہ صبح صبح صفائی کا چیکنگ، جہاں ناخن نہ کٹوانے، بال بڑے ہونے، وردی میلا ہونے میں، جوتے نہ پہننے وغیرہ وغیرہ کی صورت میں طلباء کو سخت سزا ہوتی تھی۔ جہاں لیٹ کلاس آنے کی وجہ سے اسٹوڈنٹس سزا کا مستحق ہوتے۔ اور اسٹوڈنٹس پر استاد کا ایک رعب ہوا کرتا تھا لیکن موجودہ دور میں استاد اور شاگرد ایک ہی کپ میں چائے پیتے ہیں تو بھلا وہ رعب کہاں آئے گا۔ کسی ادارے کی جانب سے اسکول کو ایک کمپیوٹر لیب اسٹوڈنٹس کے استفادے کے لئے دیا گیا تھا۔ وہ لیب کلرک آفس بن چکا تھا۔ نہ کلاسز کے سامنے کوئی مٹکا نظر آرہا تھا اور نہ ہی کوئی گلاس بس اﷲ بھلا کرے وہی ہینڈ پمپ کنویں کا جہاں مستقبل کے معمار اپنے ہاتھ پھیلا کر چلو بھر میں پانی پینے کو عافیت ہی سمجھ رہے تھے۔ سائیڈ پر امتحانی حال بڑا خوبصورت منظر پیش کر رہا تھا۔ امتحانی حال امیدواروں کے ساتھ ساتھ سپورٹرز کی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا۔ امیدوار نقل کے خوبصورت لمحات سے کافی لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اسکول میں میری موجودگی کو دو گھنٹے ہو چکے تھے لیکن نہ اساتذہ کرام کی محفل ختم ہو گئی تھی اور نہ ہی اسٹوڈنٹس کے کھیل کود کی پیاس بجھ چکی تھی ہر کوئی اپنے اپنے دھن میں مگن تھا۔ اور میں اسکول گیٹ سے باہر نکل چکا تھا۔۔۔

Shabir Rakhshani
About the Author: Shabir Rakhshani Read More Articles by Shabir Rakhshani: 20 Articles with 18346 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.