لیبیا میں بڑھتی ہوئی خانہ جنگی :ذمہ دار کون؟؟؟

افریقی ملک لیبیا میں خانہ جنگی کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہے ۔حکومت دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے ۔مجاہدین بھی کئے علاقے پے قابض ہیں۔کچھ علاقوں میں النصرہ نے امارت اسلامی کا اعلان بھی کردیا ہے۔العربیہ ڈاٹ کام کے الفاظ میں لیبیا کی صورت حال کچھ یوں ہے۔ لیبیا میں ان دنوں دو الگ الگ پارلیمنٹس کام کر رہی ہیں۔ جبکہ اسلام پسندوں اور سیکولر عناصر کے درمیان خلیج وسیع ہو گئی ہے۔ اسی طرح طاقتور قبائل میں بھی تصادم ہے۔ تقسیم کا عمل پورے ملک میں پھیل چکا ہے۔

لیبیا دنیا کا خوشحال ملک ماناجاتھا ۔وہاں سوفی صد تعلیم تھی ۔ہرطرح کی سہولیا ت وہاں مہیا تھی ۔حکومت ہرایک شہری کو اپنی جانب سے رہائش فراہم کرتی تھی ۔امن وسلامتی تھی کی فضا قائم تھی ۔بیرونی تلسط سے یہ ملک آزاد تھا۔کرنل معمر قذافی کے دور حکومت میں لیبیا ترقی کی جانب رواں دواں تھا ۔امن و سلامتی کا دو ردور ہ تھا ۔ہاں اس کے اندر ایک خامی تھی وہ یہ کہ وہ امریکہ مخالف تھا ۔اس نے مسند اقتدار پہ قابض ہونے کے بعد تمام امریکن اور یورپین کمپنیوں کوباہر کا راستہ دکھادیا تھا۔صدام حسین کی پھانسی کے بعد اس نے تین دنوں کاقوم سوگ منایا تھا ۔وہ عالم اسلام میں امریکی مداخلت کا قائل نہیں تھا ۔وہ شخص مسلم ممالک کو متحد بااختیار ،باوقار اور بارعب بنانے کا خواب دیکھ رہا تھا۔یہ وہ چیزیں تھیں جو امریکہ کے لئے ناقابل برداشت تھی ۔صدام حسین کی طرح وہ اس کا بھی کام تمام کرنے کے لئے موقع کی تلاش میں تھا ۔چناں چہ تیو نس سے شروع ہونے والی عرب بہاریہ کی تحریک لیبیا بھی پہچ گئی اور عوامی بغاوت کی آڑ میں آنا فانا ناٹو کی فوج لیبیا پہچ کر کرنل قذافی کی فوج سے برسرپیکا رہوکر قذافی حکومت کا تختہ پلٹنے میں نمایا ں رول ادا کیا ۔کرنل قذافی نے بھی امریکہ کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالا بلکہ مسلسل وہ برسر پیکار رہے اور آخری دم تک ناٹو کی فوج لڑتے رہے۔تاآں کہ انہوں نے جام شہادت نوش کرلیا۔

کرنل قذافی کی شہاد ت اور حکومت کے خاتمہ کے بعد وہاں کی صورت حال بے پناہ مخدوش ہوگئی ۔جس جمہوریت کی تلاش میں کرنل قذافی کی حکومت کا تختہ پلٹا گیا تھا وہ جمہوریت قتل و غارت گیری ۔تشدد ،ہنگامہ ،احنجاج اور طوائف الملوکی میں تبدیل ہوچکی ہے۔لیبیا کی تازہ صورت حال یہ ہے کہ راجدھانی طرابلس اور مشرقی شہر بن غازی میں متحارب جنگجو گروپوں کے درمیان جھڑپوں کے بعد بہت سے ممالک نے اپنے سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو بند کردیا ہے ۔ سفارتی عملے کو واپس بلا لیا ہے۔مسلح جنگجو سرعام اسلحے سمیت دندناتے پھرتے ہیں اور سکیورٹی اہلکاروں ،غیرملکیوں ،سرکاری حکام اور ججوں کو اپنے حملوں میں نشانہ بنا رہے ہیں۔لیبیا کے مشرقی علاقوں میں طوائف الملوکی کے پیش نظر مغربی سفارت کار اس خدشے کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ مشرقی شہر درنہ خاص طور پر غیرملکی اور مقامی اسلامی جنگجوؤں کی آماج گاہ بن چکا ہے۔لیبیا کی اسلامی عسکریت پسند گروپ انصار الشرعیہ نے بن غازی شہر پر قبضے کے اعلان کے ساتھ ہی شہر میں اسلامی امارت کے قیام کا اعلان کردیا ہے۔دوسری طرف انصارالشرعیہ کو امریکہ نے دہشت گرد قرار تنظیم کی فہرست میں شامل کردیا ہے۔ اس گروپ پر بن غازی میں امریکی سفارتی مشن پر حملہ کرنے کا الزام رہا ہے۔اس گروپ کے نمائندے اور ترجمان محمد الزہاوی نے مقامی ریڈیو کو بتایا" بن غازی پر اب النصار الشرعیہ کا کنٹرول ہے، اس لیے اب یہ شہر اسلامی امارت بن گیا ہے۔

اقوام متحدہ میں لیبیا کے سفیر نے خبردار کیا ہے کہ اگر ان کے ملک میں افراتفری اسی طرح جاری رہی تو ایک وسیع خانہ جنگی کا خطرہ ہو گا۔لیبیا کے سفیر ابراہیم دباشی نے سلامتی کونسل کو بتایا لیبیا میں اب صورت حال بدل کر بہت پیچیدہ ہو گئی ہے۔'' 13 جولائی سے صورت حال میں پیچیدگی کا عنصر بڑھ گیا ہے، اس لیے خطرہ ہے کہ دانشمندانہ اقدامات نہ کیے گئے تو یہ صورت حال اب مکمل خانہ جنگی کی طرف جا سکتی ہے۔گذشتہ ماہ سے طرابلس میں مغربی شہر الزنتان سے تعلق رکھنے والے سابق باغیوں اور ان کے مخالف مصراتہ سے تعلق رکھنے والے اسلامی جنگجوؤں کے درمیان ہوائی اڈے اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر کنٹرول کے لیے لڑائی ہورہی ہے۔اقوام متحدہ کا ایک وفد لیبی دارالحکومت میں ان دونوں دھڑوں کے درمیان جنگ بندی کے لیے بات چیت کررہا ہے۔

یہ تازہ ترین صورت حال ہے لیییا کی ۔کرنل قذافی کے خاتمہ کے لئے جوعوامی بغاوت شروع ہوئی تھی وہ رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے ۔چارسال کا طویل عرصہ گذر چکا ہے لیکن امن وسلامتی کا دور دور تک کہیں کوئی اتہ پتہ نہیں ہے ۔اقوام متحدہ میں لیبیا کے حوالے سے اب تک کوئی متفقہ قرار داد پاس نہیں ہوسکی ہے ۔

سول یہ ہے کہ لیبیا کے اس نازک صورت حال اور وہاں جاری خانہ جنگی کے لئے ذمہ دار کون ہے ۔وہاں کی موجودہ حکومت ؟ ، جنگجو گروپ ؟،وہاں کی عوام؟، پڑوسی ممالک ؟ یا پھر اقوام متحدہ اور امریکہ؟؟؟ جس کااہم ایجنڈا ہے مسلم ممالک کو آپس میں لڑانا۔ان کے درمیان انتشار پیدا کرنا۔انہیں آپس میں لڑا کر مسلم دنیا کی طاقت کو منتشر کرنا ۔اور اپنا الو سیدھا کرنا ۔
Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 180726 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More