میراپچھلاکالم پاکستان میں ہونے
والی مختلف اندازسے کرپشن کے بارے میں تھا۔پاکستان میں کرپشن اپنی جڑیں بہت
مضبوط کرچکی ہے۔ لیکن ان جڑوں کواکھاڑنابھی بہت ضروری ہے۔ورنہ ایک ایک کرکے
ملک کاہرادارہ تباہ ہوجائے گا۔میں اپنے اس کالم میں وہ طریقے بتاؤں گاجن
پرعمل درآمدکرنے سے ملک میں جامع طورپرکرپشن کاخاتمہ کیاجاسکتاہے۔کرپشن
کوختم کرنے کاپہلاطریقہ تویہ ہے کہ احتساب کے قانون پرسختی سے عمل
کیاجائے۔یعنی جوشخص بھی کرپشن کرتاہواپکڑاجائے اورعدالتی کاروائی میں بھی
اس پرکرپشن کاالزام ثابت ہوجائے۔ تواس کوسخت سے سخت سزادی جائے تاکہ
ہرپاکستانی کویہ معلوم ہوکہ اگروہ پکڑاجائے گاتوپھراسکاانجام عبرت ناک
ہوگا۔یہ ایساقانون ہے جوکسی شخص کے کرپشن میں ملوث ہونے کے بعدنافذعمل
ہوگا۔یعنی یہ جامع طورپرکرپشن کوختم نہیں کیاجاسکتابلکہ اس سے صرف50%تک
کرپشن پرآسانی سے قابوپایاجاسکتاہے۔
اب باقی کی 50%کیسے ختم کی جائے اسکے لئے سب سے پہلے یہ دیکھاجائے کہ وہ
کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے لوگ کرپشن کرتے کرتے ہیں۔لوگ بجلی چوری کیوں
کرتے ہیں۔لوگ دونمبری سے ریل کاسفرکیوں کرتے ہیں۔تھانیداررشوت کیوں
لیتاہے۔آخرکیوں نادرااورپاسپورٹ والے جیب گرم ہونے سے پہلے کام نہیں
کرتے۔جب ان عوامل کے بارے میں اچھی طرح معلوم ہو جائے گاتواس کاحل بھی
بہترطریقے سے نکالاجاسکتاہے۔اگرسب سے پہلی بات کے بارے میں تحقیق کی جائے
کہ لوگ بجلی چوری کیوں کرتے ہیں۔تواس کاجواب یہ ہی ملے گاکہ ملک میں بجلی
کے ریٹس بہت زیادہ بڑھادئیے گئے ہیں اورلوگوں میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ
حکومت کی طرف سے بھیجے گئے بلوں کوآسانی سے اداکرسکیں۔مہنگائی اس حدتک پہنچ
چکی ہے کہ ایک15ہزارتنخواہ والاملازم بھی بڑی مشکل سے گھرکاخرچہ چلاتاہے۔جب
اس کی تنخواہ کازیادہ حصہ بجلی کے بل کی ادائیگی میں چلاجائے گاتوپھر
مجبوراََوہ بجلی چوری کرنے کی کوشش کرے گا۔
اگردوسری بات کی تحقیق کی جائے کہ لوگوں کوکیوں ضرورت پیش آتی ہے کہ وہ
کرایہ اداکئے بغیرریل گاڑی پرسوارہوں۔تواس بات کاجواب بھی پہلے جواب سے
ملتاجلتاملے گاکہ لوگ اپنی روٹی کھانے سے تنگ ہیں اورایسے موقع پراگربوجہ
ضرورت کہیں جانے کی ضرورت پیش آجائے تو غریب آدمی ضرورکسی ایسے رشتے دارکی
طرف دیکھے گاجوریلوے کے محکمے میں ملازم ہوتاکہ اس کی وساطت سے بلیک ٹکٹیں
نکلواکرفری سفرکیاجائے اوروہ پیسے جوان ٹکٹوں کی مدمیں بچ جائیں ان سے پیٹ
کے دوزخ کوبھراجاسکے۔
اگراس بات کی تحقیق کی جائے کہ پولیس والے رشوت کیوں لیتے ہیں تویہ بات
معلوم ہوگی کہ ایک پولیس ملازم کی تنخواہ اتنی کم ہے جس سے وہ بمشکل اپنے
بچوں کاپیٹ پال سکے اورایسے میں اگراس کے گھرمیں کسی بیماری یافوتگی کی
صورت میں کوئی آفت آجائے تووہ بیچارہ اپنے پڑوسیوں سے ادھارمانگتاہوانظرآئے
گاپھراس ادھارکووہ رشوت کے پیسوں سے چُکانے کی کوشش کرتاہے۔
یعنی ساری تحقیقات کارزلٹ یہ نکلتاہے کہ صرف سیاستدانوں،سرکاری اساتذہ
اورڈاکٹرزکے شعبے کوچھوڑکرملک کہ کسی بھی دوسرے محکمے پرنظردہرائی جائے
تویہ بات پتہ چلتی ہے کہ پاکستان کہ ہرمحکمے میں موجودملازمین کی تنخواہیں
اس قدرکم ہیں کہ وہ بمشکل گھرکاخرچہ چلاتے ہیں۔ایسے میں کوئی بھی ملازم
کرپشن کرنے پرمجبورہوسکتاہے۔
ملک میں غربت کی شرح اس قدرزیادہ ہوچکی ہے کہ والدین اپنے بچوں کوبیچ رہے
ہیں۔وہ ملک جہاں کی عوام اپنے پیٹ کی بھوک کومٹانے کیلئے اپنی عزت بیچنے
پرمجبورہوچکی ہوتواس ملک کی عوام ملک کے کسی ادارے کولوٹنے سے کب دریغ کرے
گی۔لوگ اپنی زندگیوں سے تنگ آچکے ہیں۔لوگ ڈپریشن کاشکارہوچکے ہیں۔ایسی عوام
سے کچھ بھی اچھے کی امیدکرناسراسربیوقوفی ہے۔یہ لوگ لوٹ مارکریں گے سزائیں
بھی کاٹیں گے اورسزاکی مدت ختم ہونے پردوبارہ لوٹ مارکریں گے۔
اس لئے اسکادوسرابہترین حل یہ ہے کہ ملک سے مہنگائی کوختم کیا جائے۔ لوگوں
کوسبسڈی دی جائے۔کھانے پینے کی اشیاء کو سستا کیا جائے ۔مستحق افرادتک
زکوۃکی فراہمی ممکن بنائی جائے۔ بجلی اورگیس کے بلوں میں آئے روزاضافہ کرنے
کی بجائے آئے روزکمی کی جائے۔ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرناچاہئیے۔جب
لوگوں کی تنخواہیں اس قدربڑھادی جائیں گی کہ وہ گھرکاخرچہ چلانے کے ساتھ
ساتھ دوسری بنیادی ضروریات کوبہتراندازسے پوراکرسکیں توبہت سے
افرادخودبخودکرپشن جیسی لعنت کوچھوڑدیں گے۔امریکہ کی گورنمنٹ نے اپنے ملک
کے مزدوروں کی مزدوری اتنی مقررکی ہے کہ وہ اپنے گھرکاخرچہ چلانے کے ساتھ
ساتھ موبائیل کابل بھی آسانی سے اداکرسکیں۔کیونکہ اگرایک مزدورپورادن
مزدوری کرنے کے بعدرات کو یہ دیکھے گاکہ اس کاموبائیل خالی ہے تو وہ چوری
کاسوچے گا۔ اسلئے لوگوں کے احتساب سے پہلے گورنمنٹ کوخودایسی پالیسیاں
بنانی پڑے گی جن سے ملک میں غربت کی شرح کوکم کرکے عوام کوزیادہ سے زیادہ
خوشحال کیاجائے۔جب عوام خوشحال ہوگی تو کسی بھی فردکہ ذہن میں چوری
اورکرپشن کی طرف دھیان ہی نہیں جائے گااورملک ترقی کرے گا۔ |