19 اپریل 2009 کو 123 ویں ملٹری لانگ کورس کا آغاز ہو رہا
تھا اور یہ پاکستان ملٹری اکیڈمی کی تاریخ کا شاید سب سے بڑا بیچ تھا جو
اکٹھے چھ سو کے قریب نوجوان کیڈٹ پورے ملک سے آج ملٹری اکیڈمی کاکول جائن
کرنے جا رہے تھے۔ کیا جوش تھا کیا ولولہ تھا، کہ ایک سے ایک جنٹلمین ملٹری
اکیڈمی کے صدر دروازے سے اندر جانے کیلیے بے چین و بے قرار تھا۔ اس دفعہ کے
بڑے بیج کی وجہ چند ماہ پہلے سوات اپریشن میں لاتعداد افسروں اور جوانوں کی
شہادتیں تھیں، لیکن اسکے باوجود اس دفعہ بھی ایسے لگ رہا تھا کہ اپنے ملک و
ملت اور اپنے دین کو بچانے کیلیے ان سب نوجوانوں میں معاذؓ اور معوذ ؓ کی
رو حیں بھر آئی ٔ ہوں کہ وہ قطاروں میں کھڑے دل ہی دل میں سامنے انتظامی
اسٹاف کے سامنے ایڑیاں اٹھا اٹھا کر یہ یقین دلا رہے ہیں کہ ہم آپ کے معیار
پر ۔سر۔بالکل پورے اتریں گے ،،،بس ہمیں زرا جلدی سے اندر جانے دیں۔ ان
سیکڑوں نوجوانوں کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں انکے اہلِ خانہ بھی الوداع
کہنے آے ٔ تھے۔ کہ یکا یک ہمارے سامنے سے ایک باوقار جوڑا گزرا۔ علیک سلیک
کے بعد انہوں نے ہم سے پوچھا کہ ہم کہاں سے اور ساتھ کسے چھوڑنے آئے ٔ ہیں۔
رالپنڈی سے آنا اور بیٹے کو چھوڑنے کے جواب کے بعد میں نے بھی ایک جوابی
سوال کیا کہ آپ کا پتہ و ڈاکخانہ کیا ہے؟؟؟ تو ڈاکٹر ربانی صاحب نے وہیں
کھڑے کھڑے لمبا بازو کر کے ملٹری اکیڈمی کے ایک دوسرے گیٹ کی طرف اشارہ کر
کے کہا کہ ہم جی وہاں اس گیٹ کے بالکل ساتھ رہتے ہیں اور وہ ایبٹ آباد سے
ہی ہیں۔ جس پر ایک زبردست قہقہ لگا اور ساتھ ہی ہمیں گھر آنے کی دعوت بھی
دی۔ یہ تھی ہماری پہلی ملاقات۔۔ شہید کیپٹن آکاش ربانی ۔۔کے والدین کے ساتھ،
جن کے بیٹے نے پا کستان ملٹری اکیڈمی کے ساے ٔ میں آنکھ کھولی ، وہیں سے
کمیشنڈ افیسر بنا اور اپریشن ضرب عضب میں دادِ شجاعت دیتے ہوے ٔشہاد ت کا
جام نوش کرنیکے بعد اب بھی وہ ہمیشہ کیلیے اسی عظیم عسکری درس گاہ کی
فصیلوں کے سائے ٔ میں ابدی نیند سو گیا ہے ۔ میرے بیٹے کیپٹن صابر شہزاد کا
وہ بیچ میٹ تھا، دونوں کو آرٹلری ملی لیکن اس نے شاید اپنی روایتی عسکری
زندگی میں چین نہ پا کر سپیشل سروس گروپ میں شمولیت ا ختیار کی اور گزشتہ
دنوں میر علی کے علاقہ میں دہشت گردوں اورشرپسندوں کے خلاف جہاد کے دوران
بے جگری سے لڑتے ہوے ٔ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ اور رتبہ شہادت پایا۔
شہید کی یاد میں چند اشعار کے ساتھ خدا حافط :۔
چاند اور سورج جھلمل تارے ۔ رہتے ہیں سب پاس تمہارے
اتنا اونچا جا بیٹھے ہو ۔ کب آو ٗ گے پاس ہمارے
نام تیرا آکاش تو تھا ہی ۔ کام تیرا بھی ویسا نکلا
نام کی ریت نبھانے والے ۔ کب آ و ٗ گے پاس ہمارے
میں نے تو دل کھول کے چندا ۔ تیری صورت دیکھی نہ تھی
بیٹھے ہیں سب آس لگاے ٗ ۔ کب آو ٗ گے پاس ہمارے۔
(خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را) |