موجودہ دور تحقیق کا ہے لیکن
ہماری سوسائٹی میں بہت سے ایسی نادر و نایاب چیزیں موجود ہیں جن پر تحقیق
کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہیس لیکن ان پر تاحال کوئی تحقیق نہیں کی گئی ہے
یا تو ان پر تحقیق کے لئے بے شمار وسائل کی ضرورت ہوتی ہے یا ہمارے ادارے
ان پر تحقیق کرنا موزوں نہیں سمجھتے تحقیق نہ ہونے کی وجہ سے لوگ بہت سے
اہم چیزوں کے متعلق لاعلم ہیں۔ ایسا ہی ایک تاریخی ورثہ جسے شیرین فرہاد کے
مزار کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ضلع آواران اور بیلہ کی سرحد اور پہاڑی لک
پاس کے مقام پر واقع ہے جہاں ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے اسکے بے شمار
عقیدت مند مختلف علاقوں سے آکر یہاں حاضری دیتے ہیں۔ آواران اور لسبیلہ کی
سرحدوں کو ملانے والی لک پاس کے قریب واقع اس ورثے کو لسبیلہ اپنا حصہ قرار
دیتی ہے۔ جبکہ آواران اپنے حدود کے اند ر مقبرے کی موجودگی کی وجہ سے اسے
اپنا حصہ سمجھتی ہے۔ اور آج تک یہ معمہ حل نہیں ہو سکا۔کہ اس پر کس کا حق
ہے۔ شیرین فرہاد کے داستان کے حوالے سے علاقے کے داستان گو قصہ بیان کرتے
ہیں کہ شیرین لسبیلہ ریاست کے والی کی بیٹی تھی اور فرہاد ایک سنگ تراش
تھا۔فرحاد شیریں کے عشق میں اتنا گرفتار تھا کہ وہ کسی بھی قیمت پر شیریں
کو حاصل کرنے کی اپنی اناء پر قائم تھا۔ تو والی ریاست نے اسکے زمے ایک
ناممکن زمہ داری سونپی کہ اگر فرحاد پہاڑی(لک) سے راستہ بنائے گا تو شیرین
کی شادی اس کے ساتھ کرائی جائے گی۔ جس پر فرہاد نے اسی لک پاس کو توڑنے کی
حامی بھر لی اور دن رات اس پر کام کرتا رہا جب کام اپنے اختتام کی جانب بڑھ
رہا تھا۔تو ریاست بیلہ کے والی کو پریشانی لاحق ہو گئی کہ ایک بت تراش کو
اپنی بیٹی کا رشتہ کیسے دے وزراء اور امراء سے صلاح و مشورے کے بعد ایک
بوڑھی عورت کو نہایت ہی اہم مشن کے لئے فرہاد کے پاس روانہ کردیا۔ بڑھیا نے
وہاں پہنچ کر روتے ہوئے فرحاد کو یہ بری خبر سنا دی ۔ کہ شیرین اب اس دنیا
میں نہیں رہے جس پر فرحاد نے اپنے بیلچے سے اپنا کام تمام کیا جبکہ شیرین
نے وفاء کا ثبوت دیتے ہوئے اسی مقام پر اپنی جان دے دی جنکی جسدین ابدی
مقام پر اکھٹے ہی دفنا دیئے گئے جو آج بھی ایک ہی قبر کی شکل میں موجود ہیں۔
مقامی داستان گوؤں کی زبانی اس داستان کو سنیں تو اس میں حقیقت کے آثار بہت
کم دکھائی دیتے ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ کہانی کچھ اور ہے جسے شیریں فرحاد
کی شکل دے دی گئی ہے۔ دوسری جانب ایران ایک شاعر الیاس اور قلمی نام نظامی
گنجوی ،آزربائیجان کے شہر گنجا سے تعلق رکھنے والے اس شاعر نے 1141ء کو جنم
لیا اور 1209ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔ لیلیٰ اور مجنون کی کہانی شاعرانہ
انداز میں بیان کرنے والے اس شاعر نے رومانوی داستان’’ خسرو اور شیرین‘‘ کے
نام سے ایک شعر لکھا جو بعد میں بہت مشہور ہو گیا اور لوگوں نے بعد میں اس
افسانوی شاعری کو حقیقت کا روپ دے دیا۔جو بعد میں مختلف ناموں سے ہوتا ہوا
’’ شیریں فرحاد ہو گیا۔ آج بھی آواران سے کراچی جانے والے مسافر جب اس مقام
پرنازل ہوتے ہیں تو کچھ کے زبان سے اسے شیراز فرحاز تو کچھ اسے شیریں فرحان
کہا جاتا ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی میں بلوچی ڈیپارٹمنٹ سے وابسطہ لیکچرر اے
آر داد بلوچ کہتے ہیں کہ روایت میں تو یہی آتا ہے کہ لک پاس کے قریب انکی
قبریں موجود ہیں لیکن اس حوالے سے ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں جس سے یہ اخذ
کیا جا سکے اس میں حقیقت ہے۔ اس قسم کی رومانوی داستانیں ہر قوموں میں
موجود ہیں ان رومانوی داستانوں کو مختلف قوموں نے اپنے شاعری میں انکا ذکر
کیا ہے۔ ہر جگہ کہانی ایک جیسی ہے فرق صرف جگہوں کا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے
کہ یہ داستانیں خیالی ہیں۔ لیکن انکی تخلیق یونیورسل تھے۔ جنکو بنیاد بنا
کر ہر قوم نے اسے اپنے لئے تشبیہ دی ہے۔ ایک قلمکار رزق سربازی سے جب میں
نے اسکے حوالے سے پوچھاتو انکا کہنا تھا کہ یہ داستان حقیقت سے زیادہ فسانہ
لگتا ہے۔ جسکی تاریخ دان اپنی تاریخ میں ذکر نہیں کرتے انکا کہنا تھا کہ
سسی پنوں، لیلیٰ مجنون اور شیریں فرحاد کچھ ایسی داستانیں ہیں جن میں حقیقت
بہت کم جھلکتی ہے اور اس سے اہم بات یہ ہے کہ ایران کے علاقے کردستان میں
شیریں فرحاد کے نام سے ایک قبر واقع ہے جسے دیکھنے لوگ جاتے ہیں ۔ اگر یہ
واقعی ایک حقیقت ہوتی تو دو جگہوں کے بجائے ایک ہی جگہ انکی قبریں ہوتیں۔
آواران سے تعلق رکھنے والے ایک شاعر شمیم نصرت کہتے ہیں کہ اس کو تاریخی
داستان تو نہیں کہتے البتہ یہ روایت کا حصہ ہے۔ اور جب تک اس پر تحقیق نہیں
ہوتی اور یہ بات سامنے نہیں آتی کہ یہ قبرکن کی ہے اس وقت تک یہ روایت کا
حصہ ہے۔ ایک اور شاعر ظفر ظہیر کا کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ حقیقت ہو یا
فسانہ۔ کیونکہ اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ زمانے میں بلوچوں کے پاس وسائل
نہ تھے اور نہ ہی انکے پاس ایسے واقعات کو لکھ کر محفوظ کرنے اور انہیں آنے
والی نسلوں تک پہنچانے ذرائع موجود تھے۔ اب جبکہ مختلف ادارے اس ملک میں
موجود ہیں ان پر تحقیق کی جا سکتی ہے۔ نظامی گنجوی جس کی تاریخ پیدائش کو
دیکھ لیں جنہوں نے اس پر شاعری لکھی تھی 1141ء کو پیدا ہوئے تھے۔ تو اگر یہ
داستان واقعی حقیقت ہے تو یہ کافی پرانا واقعہ ہوگا۔ تو اتنا عرصہ گزرنے کے
بعد یہ قبر اپنے وجود کوکیسے برقرار رکھ سکا کیونکہ اس قبر کی تزین و آرائش
8سال قبل کی گئی تھی اس سے پہلے یہ قبر کھلے آسمان تلے موجود تھا۔ دوسری
بات یہ کہ نظامی گنجوی کی شاعری میں شیرین اور فرحاد کی کہانی کچھ اور
طریقے سے بیان کی گئی ہے جو اس سے مطابقت بھی نہیں رکھتی۔ اگر اس وقت کی
داستان تھی تو انگریزوں کے دور حکومت میں جو ایسے آثار قدیمہ اور تاریخی
مقامات کو محفوظ کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے گئے تھے تو اس وقت اسکی تزین و
آرائش یا اس پر تحقیق کیوں نہیں کیا گیا اگر آپ بیلہ جائیں تو وہاں پر آپکو
صوفیا اور پیروں کی قبریں بہت زیادہ ملتی ہیں۔ اور سندھی کلچر بھی بہت عام
ہے اور لوگوں کا ان پیروں کی زیارت کا رجحان بھی بہت نمایاں ہے اور شیرین
فرحاد کی قبر بھی بیلہ شہر سے اتنا دور بھی نہیں تو اس سے یہ بات بھی اخذ
کی جا سکتی ہے کہ یہ قبر ہو سکتا ہے کہ کسی بزرگ کی قبر ہو۔ یا چلتے ہوئے
کسی مسافر کی ہو جسے امانتاً یہاں دفنا دیا گیا ہو۔ جسے بعد میں باقاعدہ
طور پر شیرین فرحاد کا مقبرہ اور اسی کہانی کو دیکھتے ہوئے اسے جوڑا گیا ہو۔
البتہ حقیقت جو بھی ہے اس پر تحقیق کی بہت زیادہ گنجائش ہے کہ یہ قبر کتنی
پرانی ہے۔ تاکہ مجھ جیسے کم فہم انسان کو حقیقت جاننے میں مدد مل سکے اور
مجھ جیسے اور بھی ناواقف لوگوں کے زہن سے اسکا قرض اتر جائے۔ |