مصنف کے پی ایچ ڈی مقالے بعنوان ’’پاکستان میں لائبریری
تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی تر قی میں
شہید حکیم محمد سعید کا کردار‘‘ سے ماخوذ)
کتاب ایک مسلمہ حقیقت ہے اسے ہر دور، ہر زمانے میں فضیلت حاصل رہی ہے۔ بقول
حکیم محمد سعید ’’انسانی تہذیب کے دور میں کتاب کو بلند مقام حاصل رہا ہے۔
بلاخوف تَرَدد یہ کہا جاسکتا ہے کہ تہذیب انسانی کا کوئی دور ایسا نہیں
ہوسکتا جو کتاب سے تہی دامن ہو جائے اور فکر کتاب سے آزاد ہوجائے۔ دراصل
کتابیں بلند خیالات اور سنہری جذبات کی دستاویزی یادگاریں ہوتی ہیں۔ کتابیں
بحرحیات کی سیپیاں ہیں جن میں پراسرار موتی بند ہیں۔ اگر ہم ان کی تعریف
میں ادبی اور شعری انداز بیان اختیار کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ کتابیں
معلومات کے ثمر دار درختوں کے باغ ہیں، گزرے ہوئے بزرگوں کے دھڑکتے دل
ہیں،حسن و جمال کے آئینے ہیں اور وقت کی گزری ہوئی بہاروں کے عکس ہیں۔
کتابیں لافانی بلبلیں ہیں جو زندگی کے پھولوں پر سرمدی نغمے گاتی ہیں۔ محی
الدین بن عربی کے خیال میں ’’کتاب پھلوں کا ایک ایسا باغ ہے کہ اسے ساتھ
لیے پھرو اور جہاں چاہو اس سے خوشہ چینی کر لو‘‘ ۔ کتاب کے بارے میں اپنے
انداز فکر کی وضاحت کرتے ہوئے شہید پاکستان حکیم محمد سعیدنے تحریر فر مایا
کہ’’کتاب کے بارے میں میرا انداز فکر یہ ہے کہ جس گھر میں کتابیں نہ ہوں وہ
ایک ایسے جسم کی مانند ہے جس میں روح نہ ہو، جس درسگاہ میں کتابیں نہ ہوں
وہ ایسی درس گاہ کی مانند ہے جس میں طلبہ نہ ہوں۔ جس شہر میں کتب خانے نہ
ہوں وہ ایک شہر ویراں ہے اور جس کتب خانے میں لوگوں کو کتابوں سے عشق و
محبت نہ ہو وہ کتب خانہ علم کی بس ایک نمائش گاہ ہے، یہ نمائش گاہ لگی بھی
رہ سکتی ہے اور یہ نمائش زمانے کے ہاتھوں تباہ بھی ہوسکتی ہے‘
کتاب کے بارے حکیم صاحب نے مشہور عالم حافظ کی رائے بیان کی جس کے بارے میں
کہا جاتا ہے کہ ایک دن وہ مطالعہ میں غرق تھا کہ کتابوں کا ایک ڈھیر اور
ایک تودہ اس پر گرا، وہ جاں بحق ہوگیا اور کتابوں ہی کے درمیان وہ ابدی
نیند سو گیا۔ حافظ کہتا ہے کہ ’’ کتاب کا حصول اس قدر آسان ہے کہ کوئی چیز
اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ یہ ہمیں عجائبات کی سیر کراتی ہے۔ اس کے ذریعے
سے سلجھے ہوئے ذہن کے مصنفین کے خیالات سے آگاہی ہوتی ہے۔ کتاب ہمیں اسلاف
اور ان لوگوں کے حالات بڑی آسانی سے مہیا کر دیتی ہے جن تک ہم پہنچ نہیں
سکتے۔ کتاب جیسا ساتھ کسی کو مل سکتا ہے کہ جب آپ چاہیں کچھ وقت آپ کے ساتھ
گزارنے پر تیار ہو جائے اور جب آپ پسند کریں تو سائے کی طرح آپ کے ساتھ لگی
رہے، بلکہ آپ کی خواہش ہو تو آپ کے جسم و جان کا جزو بن جائے۔ جب تک آپ
چاہیں خاموش رہے اور جب آپ کا جی اس سے بولنے کو چاہے توچہکنے لگے۔آپ کسی
کام میں مصروف ہوں وہ خلل انداز نہیں ہوتی اور آپ تنہائی محسوس کریں تو آپ
اسے شفیق ساتھی محسوس کریں۔ کتاب ایک ایسا قابل اعتماد دوست ہے جو کبھی بے
وفائی نہیں کرتا اور نہ کبھی آپ کا ساتھ دینے سے جی چراتا ہے‘‘۔ حکیم محمد
سعید کی پوری زندگی، حصول علم، تحصیل علم ، اشاعت علم اور محفوظ علم سے
عبارت نظر آتی ہے۔ آپ نے اسلام کی اس تلقین کو کہ تحصیل علم ایک مقدس فریضہ
اور ہر فرد کا بنیادی حق ہے اپنی زندگی کا مقصد بنایا اور اس فریضہ کی
ادائیگی کے لیے مسلسل جدوجہدکرتے رہے۔آپ بلا شبہ قابل مبارک باد ہیں کہ آپ
نے بے شمارکتا بیں تحریر کر کے ’ سر طاق فن اک دیا رکھ دیا ہے ‘۔حکیم محمد
سعیدکا کہنا تھا کہ ’’ علم و حکمت میری زندگی کاایک مشن ہے‘‘ ۔ حکیم محمد
سعید کا علمی سرمایہ نصف صدی پر محیط ہے۔ بچپن ہی سے آپ کو مطالعہ کا شوق
تھا، لاہور سے شائع ہو نے والا بچوں کا رسالہ، ’پھول‘ ، بجنور کا ’ غنچہ‘،
دہلی کا’پیام‘ آپ کے پسندیدہ رسائل تھے ان کے علاوہ’ معارف ‘ اعظم گڑھ،
’نگار ‘ لکھنو،’ ساقی‘ دہلی، ’منادی‘ دہلی اور’ کارواں‘ لاہور کا باقاعدہ
مطالعہ بھی کیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں حکیم محمد سعید نے اپنے شوق کی خاطر
سب سے
پہلی کتاب خریدی ، یہ سجاد حیدر یلدرم کی ’’ استدلال‘‘ تھی اس وقت آپ کی
عمر دس برس تھی ۔
حکیم محمد سعید کے مطابق’’ شوکت تھانوی کی کوئی کتاب ایسی نہیں جو انھوں نے
پڑھی نہ ہو۔ مُلارمزوی کی گلابی اردو میں بھی ان کے لیے بہت دلچسپی تھی،
خواجہ حسن نظامی کی ہر کتاب پڑھی ،مولانا سید ابولا علیٰ مودودی سے دریا
گنج دہلی میں تعارف ہوا۔ ان کی تمام کتابیں ان کے مطالعے میں رہی ہیں ‘‘،
پطرس کے مضامین اور افسانے بھی پڑھے، لیکن افسانوی ادب میں رفتہ رفتہ دل
چسپی کم ہوتی گئی۔ مرزا فرحت اﷲ بیگ بھی آپ کے پسندیدہ مصنف تھے۔ روزنامچہ
لکھنے کا آغاز خواجہ حسن نظامی کی تقلید میں ۱۹۳۶ء سے ہوا اور تادم آخر یہ
سلسلہ قائم رہا ،اس وقت آپ کی عمر ۱۶ برس تھی اور آپ طبیہ کالج دہلی میں
طبی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ یہ آپ کے لکھنے کی ابتدا تھی۔ اپنی پہلی تحریر
اور تصنیف کے بارے میں روزنامہ نوائے وقت کو انٹرویو دیتے ہوئے آپ نے بتایا
تھا کہ میری پہلی تحریر دہلی کے اخبار وطن میں شائع ہوئی شاید عنوان
’’زندگی کی آرزو کیوں‘‘ تھا۔پروفیسر آفاق صدیقی کے مطابق ’’حکیم محمد سعید
کے ادبی سفر کا آغاز ایک کہا نی سے ہوا جو ’’تسبیح ‘‘ کے عنوان سے ۱۹۳۶ء سے
اخبار وطن دہلی میں چھپی‘‘۔ جب کہ پہلی تصنیف ’’یور پ نامہ‘‘ ۱۹۵۶ء پھر
’’جرمنی نامہ‘‘ ۱۹۵۷ء میں شائع ہوئی۔ آپ کو کتاب سے محبت عقیدت کی حد تک
تھی۔ اپنے ایک سفرنامے’’ایک مسافر چار ملک ‘‘ میں کتابوں کے حصول کے بارے
میں آپ نے لکھا کہ’’ میری حالت یہ ہے کہ اگر مجھے اچھی کتابیں کہیں نظر
آجائیں تو میں اپنے کپڑے فروخت کر کے خرید لوں ‘‘۔
۱۹۳۷ء میں حکیم محمد سعید کورسالہ ’’ہمدرد صحت‘‘ کا مدیر مقررکیا گیاجو ان
کی صحافتی زندگی کا آغازتھا ساتھ ہی تحریر و تصنیف کی بنیادیں رکھی گئیں‘
ہمدرد صحت میں مختلف موضوعات پر مختصر مضامین لکھنارسالہ کی ضرورت تھی،
چنانچہ آپ نے اس ضرورت کی تکمیل کے لیے قلم اٹھایا اور لکھنے کا آغاز کیا،
اس کے ساتھ ہی لکھنے کا نہ رکنے والا سلسلہ ایسا شروع ہوا جو زندگی کے
اختتام تک جاری رہا۔ اپنی شہادت سے کچھ وقت قبل بیت الحکمہ (لائبریری) کے
نام آپ کی آخری تحریر ملتان سے شائع ہونے والے رسالہ ماہنامہ السعید سے
متعلق تھی اس نوٹ میں آپ نے تحریر فرمایا کہ ’’ماہنامہ السعید کے سابقہ
نمبروں پر ذرا ایک نگاہ ڈالیے اگر تعلیم پر کوئی مضمون ہو تو مجھے بھجوا
دیں‘‘ ۔
پاکستان میں ہمدرد کی بنیادیں جوں ہی مضبوط ہوئیں آپ تصنیف و تالیف کی جانب
متوجہ ہوئے اور سب سے پہلے ’’ہمدرد صحت کراچی‘‘ کا اجرا کیا ۔ ہمدرد صحت
کاپہلا شمارہ جنوری ۱۹۵۱ء میں شائع ہوا، لیکن اس کی جلدوں کا تسلسل دہلی سے
نکلنے والی ۱۹ جلدوں سے برقرار رکھا گیا۔ چنانچہ اس کی جلد نمبر ۲۰ کا پہلا
شمارہ کراچی سے نکلنے والے ہمدرد صحت کا پہلا شماہ تھا ۔ اس کے بعد حکیم
محمد سعید کی ادارت میں متعدد جرائد جاری ہوئے۔ پاکستان میں تصنیف و تالیف
کی ابتدا اِسی رسالے سے ہوئی۔ ڈاکٹر فرحت حسین کے مطابق’’ شہید حکیم محمد
سعید نے جو تصنیفی کارنامے انجام دیے وہ ان کی انسان سے محبت اور فلاح کے
شاہد ہیں۔ انھوں نے عام لوگوں کے لیے بھی لکھا اور امت مسلمہ کے لیے بھی،
عوام کے لیے بھی لکھا اور صاحبان اقدار کے لیے بھی، صنعت کاروں کو بھی
مخاطب کیا اور محنت مزدوری کرنے والوں کو بھی ،دولت مندوں کے لیے بھی لکھا
اور غریبوں اور محتاجوں کے لیے بھی، صحت مندوں کے لیے بھی لکھا اور بیماروں
کے لیے بھی اور خاص طور پر نونہالوں کے لیے بھی ‘‘ ۔
حکیم محمد سعید پیشے کے اعتبار سے طبیب تھے، لیکن زندگی کا شاید ہی کوئی
شعبہ ایسا ہوگا جس پر آپ نے قلم نہ اٹھایا ہو، پیار، محبت، امن، بھائی
چارہ، اخوت، سچائی، نیکی، بھلائی الغرض اصلاح انسان، اصلاح معاشرہ، اصلاح
ملک، اصلاح قوم، اصلاح مسلمانان عالم، اصلاح عالم آپ کی تحریر، تقریر کا
مقصد اور آپ کے عمل کا آئینہ دار تھا۔شہید پاکستان حکیم محمد سعیدکی تصانیف
و تالیفات کے تحقیقی مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ حیات انسانی کاشاید ہی کوئی
موضوع اور کوئی پہلو ایسا باقی رہ گیا ہو جس پر آپ نے نہ لکھا ہو، لیکن آپ
کی تحریر، خیالات ونظریات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپ مذہب اسلام کے سچے عاشق
تھے۔ انسان سے محبت اور سچائی آپ کا ایمان تھا۔ طب آپ کا پیشہ تھا چنانچہ
طبی و سائنسی موضوعات پر دسترس کا ہونا لازمی امر تھا۔ اپنے خیالات و
نظریات کا سچائی، ایمان داری اور حقیقت پسندی کے ساتھ ساتھ بے باکی سے
اظہار کرنا آپ کا معمول تھا۔ حتیٰ کہ صاحبان اختیار و اقتدار پر بھی بلاخوف
جائز تنقید کی۔ آپ کی تحریر تمام تصنیفی تکلفات سے بھی آزاد نظر آتی ہے
بقول ڈاکٹر فرحت حسین’’ حکیم صاحب کے تصنیفی و تخلیقی سرمائے کے مطالعے سے
یہ حقیقت سامنے آئی کہ انھوں نے اپنی تحریر کو ادبی معیار یا ضابطوں کا
قیدی نہیں بنایا۔ اس کے برعکس موقع و محل کے لحاظ، موضوعات کی مناسبت اور
مقصد کے ابلاغ و ترسیل کے پیش نظر جو بات جس طرح کہنا زیادہ پر اثر سمجھا ،
اس کا اسی طرح اظہار کر دیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی تصانیف میں اسلوب
بیان کا کوئی اہتمام یا تکلف نظر نہیں آتا۔ اس آزاد بیانی کی وجہ سے تصانیف
کی روشنی میں حکیم صاحب کے کسی ایک خاص اسلوب نگارش کی نشان دہی نہیں ہو
پاتی۔ ان کی ہر تحریر کا اپنا رنگ اپنا اندازاور اپنا تاثر ہے۔ اگر اس کو
امتیاز کے نقطہ نظر سے ایک آزاد اسلوب بیان کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا ۔
اخبارات اور رسائل میں شہید پاکستان کے شائع شدہ مضامین کا شماریا اشاریہ
مرتب کرنا ایک الگ تحقیق ہے اور راقم کے دائرہ کار میں نہیں۔ مطبوعات اور
تالیفات کے جائزے سے یہ بات سامنے آئی کہ شہید حکیم محمدسعید کی تحریر کر
دہ تصانیف و تالیفات جن کی تعداد ۲۷۳ ہے ۱۹۵۶ء سے ۲۰۰۲ء تک شائع ہوئیں۔ ان
میں۲۰۹ اردو زبان میں اور۶۴ انگریزی زبان میں ہیں۔ موضوعات کے اعتبار سے
شہید پاکستان کی اردو اور انگریزی تصانیف کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
موضوعات کے اعتبار سے شہید حکیم محمد سعید کی تصانیف و تالیفات
اسلام، دین و اخلاق ، سیرت ﷺ ، اسلامی ریاست و قانون ۔
٭ اخلاقیات نبوی ﷺ
٭ تذکار محمد ﷺ
٭ تربیت خودی کا ایک لائحہ عمل۔
٭ تصور ریاست ِاسلامی ۔
٭ خودی: مذاکرہ ملی۔
٭ خودی تعلیمات نبوی ﷺ
٭ خودی اور مفکرین اسلام۔
٭ دانائے سبل سیرت نبوی ﷺ
٭ دنیا کے سب سے بڑے انسان ﷺ ( اردو)
٭ دَتو لونہ لوئے انسان ﷺ(پشتو ترجمہ دنیا کے سب ے بڑے انسان ﷺ)
٭ سب کان و ڈو انسان ﷺ(سندھی ترجمہ دنیا کے سب سے بڑے انسان ﷺ)
٭ مہانتم انسان(گجراتی ترجمہ ۔ دنیا کے سب سے بڑے انسان حضر ت محمدﷺ)
٭ شاہراہ زندگی ۔
٭ عرفانستان۔
٭ عروس الاقر آن ، سورہ ر حمٰن۔
٭ فکرستان۔
٭ قرآن پاک مقصد ومنہاج ۔
٭ نورستان۔
٭ قرآن روشنی ہے ( اس موضوع کے تحت حسب ذیل۲۴ کتا بچے تحریر فرمائے)
٭ آدابِ مجلس : قوموں کو بنانے بگاڑنے میں مجلسی زندگی بڑا اہم کردا ر اد ا
کرتی ہے۔
٭ اعتدال : ہماری صحت اور ملی و ملکی عافیت کا تقا ضہ ہے کہ ہم حدودِ
اعتدال سے باہر قدم نہ رکھیں۔
٭ ایمان روشنی ہے، کفر تاریکی ہے : قرآنِ حکیم کا مقصدِ نزول کفر کی تاریکی
کو ایمان کی روشنی سے بدل دینا ہے۔
٭ بے جَا تمنّائیں : بے جا تمنائیں انسان کو سب سے زیادہ یہ نقصان پہنچاتی
ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریاں بھول جاتا ہے۔
٭ پاکیزگی اور صِحت : روح کی پاکیزگی کا اثر جسم کی پاکیزگی اور صِحت پر
بھی پڑتا ہے۔
٭ تقویٰ : اﷲ کے نزدیک سَب سے زیادہ معزز وہ ہے جو متقی ہو۔
٭ تیماردَاری : اِسلام نے تیمارداری اور عیادت کے بھی آداب سِکھائے ہیں۔
٭ جَاں فشانی : درحقیقت زندگی کا لطف جاں فشانی ہی میں ہے۔
٭ حضور صلی اﷲ علیہ و سلّم بہ حیثیت سربَراہِ مِلّت :
٭ حِفظِ صِحت : فطرت سے لڑکر انسان صحت و عافیت کے ساتھ نہیں رہ سکتا ۔
٭ رسموں کی پابندی : رسموں کو فضوُل خرچی ، نمائش اور دوسروں پر بر تری کا
ذریعہ نہ بنایا جائے۔
٭ روزہ اور صحت : روزہ روزے دار میں حرص اور مرض سے مقابلے کی قوت پیدا
کرتا ہے۔
٭ زندگی صحت سے عبارت ہے : صحت اﷲ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ہے۔
٭ صِحت اور اِسلام : اِسلام نے اصُولِ صحت کو ایک نظم و ربط کے ساتھ پیش
کیا ہے۔
٭ صِحتِ جسم اور طہارتِ فکر : بقائے صِحت کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے
قلب کو بھی پاک صَاف رکھے۔
٭ صِحت و تن درستی : جب تک انسان ضوابطِ فطرت کا پابند رہتا ہے اس کی صِحت
محفوظ رہتی ہے۔
٭ صِحت و صَفائی : اسلام کو پیروی کے لیے شرطِ اوّل طہارت اور پاکیزگی ہے۔
٭ صِحت اور پاکیزگی : تزکیہَ و طہارت انبیائے کرام کی بعثت کے مقاصد میں
شامل ہے ۔
٭ عِلم و حکمت : عِلم کو محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اسے عام ہو کر ہر
انسان تک پہنچنا چاہیے۔
٭ فرائِض سے کوتاہی : یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ فرائِض ادا کیے بغیر حقوق
حاصِل ہو جائیں۔
٭ فلاحی ریاست کا تصوّر : ایسی ریاست جس میں ہر انسان مطمئن اور محفوظ ہو
اسلامی فلاحی ریاست ہے ۔
٭ کھانے پینے کی چیزوں میں مِلاوٹ : مِلاوٹ ایک ایسا جعل ہے جس کے اثرات
غیر محدود ہوتے ہیں۔
٭ میانہ رَوی : غلو سے پرہیز ، انتہاپسندی سے گریز اور میانہ روی اسلام کی
بنیادی تعلیما ت میں شامِل ہے۔
٭ ہمدَردی اور ایثار : معاشرے کو پُر سکون بنانے کے لیے ،ہمیں ایک دوسرے کا
ہمدرد ہو نا چاہیے۔ ٍٍ انگریزی زبان میں آپ نے حسب ذیل کتب تحریر فرمائیں۔
٭ Nuristan
٭ The Employer and the Employees
٭ Islamic Concept of State
٭ Essays on Islam (Volumes 4)
٭ Vol. I Felicitation Vol. in Honour of Dr. Hamidullah.
٭ Vol. II Felicitation vol. in Honour of Prof. W. Montgomery Waltt.
٭ Vol. III Felicitation vol. in Honour of Dr. Hakim Abdul Hamid.
٭ Vol. VI Felicitation vol. in Honour of Dr. Abdul Qadeer Khan.
٭ Voice of Morality
٭ Man - The World - Peace
طب، تاریخ طب و صحت
٭ اخلاقیات طبیب ۔
٭ ایڈز (نئی بیماری)۔
٭ تجربات طبیب ۔
٭ تعلیم ِصحت ۔
٭ حکیم محمد سعید کے۔ طبی مشورے۔
٭ حیات جنسی ۔
٭ دق و سل ۔ اسباب علامات و علاج ۔
٭ ذیابیطس نامہ ۔
٭ صحت اور درس گاہ ۔
٭ صحت دہن طب اور سائنس ۔
٭ طب اور سائنس۔
٭ قلب اور صحت ۔
٭ کتاب الابدان (جلدیں ۔ ۲)
٭ ہمدرد مطب ۔
٭ یہ معمولی نزلہ نہیں۔
انگریزی زبان میں آپ کی حسب ذیل کتب طبع ہوئیں۔
٭ Al-Biruni's Book on Pharmacy and Meteria Medica (Eng & Arabic.
٭ Cardiovascular Diseases
٭ Diseases of Liver
٭ Ethics for Medics.
٭ Traditional Greco-Arab and Modern Western Medicine:Conflict or
Symbiosis.
٭ Pharmacy and Medicine through the Ages.
٭ Medcine in China.
٭ Oral Health.
٭ Ethics of Medics.
٭ Hamdard Pharmacopoeia for Eastern Medicine.
٭ Background of Unani, Arab and Islamic Medicine and Pharmacy.
٭ Medicinal Herbal.
٭ Pakistan Encyclodedia Planta Medica (Volumes-2)
٭ Pharmacy and Medicine through the Ages.
٭ The History of Medicinal and Aromatic Plants.
سائنس و ٹیکنا لوجی
٭ سائنس اور معاشرہ۔
٭ سائنس اور فنیات کے ۴۱ سال۔
٭ ہمدرد سائنس انسا ئیکلو پیڈیا (جلدیں ۔ ۶ )
انگریزی زبان میں آپ کی حسب ذیل کتاب سات جلدوں میں شائع ہوئیں۔
٭ Essays on Science 7 Volumes 1986- 1995
٭ Vol. I Felicitation volume in Honour of Dr. Salimuzzaman Siddiqui.
٭ Vol. II Felicitation volume in Honour of Dr. S. Mahdihassan.
٭ Vol. III Felicitation volume in Honour of Dr. Joseph Needham. .
٭ Vol. IV Felicitation volume in Honour of Dr. Raziuddin Siddiqui.
٭ Vol. V Felicitation volume in Honour of Dr. S. M. Sham.
٭ Vol. VI Felicitation volume in Honour of Prof. Dr. Attaur Rehman
٭ Vol. VII Felicitation volume in Honour of Dr. M. A. Kaz. .
ادب و ثقافت، سماجیات
٭ ادبی مقالات سعید ۔
٭ اسلوب زندگی ۔
٭ افکار و اشخاص ۔
٭ اقدار حیات۔
٭ اکیسویں صدی کی جانب ( جلدیں ۔ ۲)
٭ تاثرات ملا واحدی۔
٭ پاکستان کے پچاس سال ۔
٭ تاثرات ملا واحدی۔
٭ کتابوں کی کتاب ۔
٭ محبت کی باتیں۔
٭ مسائل و افکار۔
٭ مقالات ابن الہیثم۔
٭ مقالات شام ہمدرد (۱۹۶۳ء ۔ ۱۹۶۴ء)
٭ مقالات شام ہمدرد (۱۹۶۵ء ۔ ۶۶ء)
٭ مقالات شام ہمدرد (احترام ۱۹۷۲ء)
٭ مقالات شام ہمدرد (آؤ محبت کریں ۱۹۸۵ء)
تعلیم
٭ تعلیم۔ مقاصد و مسائل۔
٭ مقدمہ تعلیم ۔
٭ تعلیم و تربیت کے بعد میرا میدان عمل۔
٭ نظریہ و فلسفہ تعلیم (جلدیں ۔ ۲)
شخصیات (سوانح)
٭ مجھے یہ شخصیت کیوں پسند ہے ۔
٭ ہمارے عظیم سائنس دان ۔
٭ بھائی جان میرے استاد (بنگلہ)
٭ چند مشہور طبیب اور سائنس داں ۔
٭ حکیم عبدالمجید: نونہالان وطن کے لیے عظیم انسان کی کہانی ۔
انگریزی زبان میں آپ کی حسب ذیل کتب طبع ہوئیں۔
٭ Al-Birun:his time, life and works
٭ Personalities Noble.
خود نوشت
٭ حکیم محمدسعید کے انٹرویوز: حالات حاضرۂ پاکستان پر پرخلوص تبصرہ، فکر و
نظر کا سامان، صراطِ مستقیم کی دعوت۔
٭ بچوں کے حکیم محمد سعید: شہید پاکستان کی زندگی کی کہانی، خود ان کی
زبانی ۔
٭ سچی کہانی : میری ڈائری کی زبانی جنوری تا دسمبر ۱۹۹۲ء (۱۲ حصے)
٭ وہ بھی کیا دن تھے۔
تاریخ پاکستان اور قائد اعظم
٭ Road to Pakistan
٭ Letters to Quaid -e- Azam
٭ Main Currents of Contemporary thought in Pakistan.
سفرنامے
٭ ایک مسافر چار ملک ۔
٭ درونِ روس : دید و شنید۔
٭ ریگ ِرواں ۔
٭ جرمنی نامہ ۔
٭ سوئزلینڈ میں چند شب و روز ۔
٭ شب و روز مع تاثرات سفر دمشق، حلب و جدہ۔
٭ کوریا کہانی ۔
٭ ماوراء البحار۔
٭ ماہ ِروز روزنامچہ سفر روس ۔
٭ ماہ ِسعید ۔
٭ نقشِ سفر ۔
٭ یورپ نامہ۔
نوجوانوں کے لیے
٭ استنبوَ ل کا آخری سفر ۔
٭ بالیدگیِ فکر ۔
٭ پرواز ِفکر : کویت کا سفر۔
٭ تین شہروں کا مسافر۔
٭ جاپان کہانی۔
٭ داستا نِ امریکا۔
٭ داستانِ حج ۔
٭ داستانِ جرمنی۔
٭ داستانِ لندن۔
٭ فکر ِ جواں : امریکہ، کنیڈا اور لندن کا سفر۔
نونہالوں کے لیے
٭ ابنِ رشد ۔
٭ ارضِ قرآن : حکیم محمد سعید کے روز و شب۔
٭ بحر اوقیانوس کے پار ۔
٭ تین دن بغداد میں ۔
٭ درۂ خیبر ۔
٭ دہلی میں تین دن۔
٭ دہلی کی سیر۔
٭ ڈھاکا میں سعید سیاح کے چار دن۔
٭ ڈیلفی سے سونے کی کان تک ۔
٭ سعید سیاح اردن میں۔
٭ سعید سیاح اسکندریہ میں ۔
٭ سعید سیاح امریکا میں۔
٭ سعید سیاح پھر عمان میں ۔
٭ سعید سیاح پھر لندن میں ۔
٭ سعید سیاح ترکی میں۔
٭ سعید سیاح تیونس میں ۔
٭ سعید سیاح تہران میں۔
٭ سعید سیاح ٹورنٹو میں ۔
٭ سعید سیاح جرمنی میں۔
٭ سعید سیاح جاپان میں ۔
٭ سعید سیاح چین میں ۔
٭ سعید سیاح ڈھاکہ میں۔
٭ سعید سیاح سری لنکا میں۔
٭ سعید سیاح سلطنت عمان میں ۔
٭ سعید سیاح شیراز میں۔
٭ سعید سیاح عمان میں۔
٭ سعید سیاہ فن لینڈ میں۔
٭ سعید سیاح قاہرہ میں۔
٭ سعید سیاح قطر میں ۔
٭ سعید سیاح کویت میں ۔
٭ سعید سیاح نیو یارک اور واشنگٹن میں۔
٭ لندن اور کیمبرج ۔
٭ یہ ترکی ہے۔
٭ یہ جاپان ہے۔
نونہال ادب
٭ آواز اخلاق۔
٭ آؤ صحت کی فکر کریں ۔
٭ اعضاء بولتے ہیں ۔
٭ اقوالِ زرین۔
٭ امن۔
٭ انسانی جسم کے عجائبات۔
٭ ایک واقعہ جو مجھے پسند ہے۔
٭ پھول اور کانٹے۔
٭ تلاش امن۔
٭ جاگو جگاؤ۔
٭ حلال اور حرام اسلام میں ۔
٭ خوب سیرت (اول و دوم)
٭ خوشبوئیں محبت اور امن ۔
٭ سال گرہ: تاریخ ، تہذیب اور ثقافت کے آئینے میں
٭ سب کے پیارے ۔
٭ سچ بولو۔
٭ سپہ سالار جمہوریہ پاکستان مدینتہ الحکمہ میں۔
٭ سنہرے اصول۔
٭ صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان مدینتہ الحکمہ میں۔
٭ صراط مستقیم، عروس القرآن سورہ رحمن۔
٭ صحت نامہ : میرے نونہالوں کے لیے۔
٭ صحت کا قاعدہ۔
٭ قاعدہ صحت ۔
٭ قر ینہ حیات ۔
٭ کتاب دوستاں۔
٭ کہکشاں ۔
٭ گولڈن جوبلی پاکستان ۔
٭ لمحہ لمحہ سوچ کر قدم قدم تول کر۔
٭ لوح بھی تو قلم بھی توتیرا وجود الکتاب ۔
٭ مدینتہ الحکمہ میں بے نظیر کی آمد ۔
٭ مضبوط نونہال مضبوط پاکستان ۔
٭ نقوش سیرت (اردو) پانچ حصے ۔
٭ نقوش سیرت (سندھی) پانچ حصے۔
٭ نماز پڑھیے ۔
٭ نور کے پھول ۔
٭ نونہال دینیات(اول تا ہفتم)
٭ نونہالوں کے خطوط عالمی شخصیات کے نام ۔
٭ نونہال کی توقعات ہمدرد پبلک۔
٭ ہمدرد پبلک اسکول میں کھیلوں کا یادگار دن۔
انگریزی زبان میں آپ کی حسب ذیل کتب طبع ہوئیں۔
٭ Love and Peace
٭ Dostan (Parts- 4)
٭ The Best of Goodness.
٭ Peace Primer.
٭ The Greatest Man.
٭ A World with Polio.
٭ Naqoosh-e-Serat. (Parts:5)
٭ Let us Talk Health.
٭ A Primer of Health for Children of the World.
رودادیں
٭ Al-Biruni Commemorative Volume, 1979
٭ Elements in Health and Disease; Proceedings of the First
International Conference on Elements in Health and Disease, 1987.
٭ Elements in Health and Disease: Proceedings of the Second
International Conferecne, 1989.
٭ Health of the Nation Conference Proceedings, 1971.
٭ Ibn-al-Haitham: Proceedings of the 1000th Anniversary, 1969.
٭ Proceedings of the Intenational Congress of the History and
Philosophy of Science, 1980.
٭ New Research in Biology and Genetics: Problems of Science and
Ethics: Proceedings of the International Symposium, Islamabad,
1979.
٭ Elements and Liver Diseases
٭ Collection of Essays (1973-1979), Voluke I, 1999.
٭ Collection of Essays (1975-1976), Volume II, 2000.
٭ Collection of Essays (1980-1987), Volume III, 2000.
٭ Collection of Essays (1990-1995), Volume IV, 2002.
مطبوعات کی سالانہ اشاعت کے جائزہ سے معلوم ہو تا ہے کہ ابتدائی سالوں۱۹۴۷ء
تا ۱۹۵۵ء کے در میان کو ئی کتا ب شائع نہیں ہو ئی، ۱۹۵۶ء کتب کی اشاعت کا
آغاز تھاجس میں ایک کتاب شائع ہوئی ، ۱۹۵۷ء میں دوکتابیں منظر عام پر آئیں
اس کے بعد ۱۰ سال (۱۹۵۸ء ۔۱۹۶۸ء )کا ایسا وقفہ آیا کہ جس میں کوئی بھی کتاب
شائع نہیں ہو ئی غالباً اس دوران آپ نے ہمدرد کے کاروبار کوفروغ دینے پر
خصو صی توجہ دی ۔۱۹۶۹ء میں کتب کی اشاعت کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا جوآپ کی
شہادت (۱۹۹۸ء)تک مسلسل جاری رہا۔ ۱۹۹۲ء میں آپ کی سب سے زیادہ کتب طبع
ہوئیں جن کی تعداد۲۹ ہے۔ اس سال آپ نے بچوں کے لیے اپنی زندگی کی کہانی بھی
تحریر کی جو بارہ حصوں پر مشتمل ہے۔ایسی کتب جن پرسال اشاعت درج نہیں کی
تعداد ۲۷ ہے۔
رسائل و جرائد
حکیم محمد سعید کی ادارت میں جاری ہونے والے رسائل و جرائد حسب ذیل ہیں:
۱۔ ماہنامہ ہمدرد صحت کراچی سے اجراء جنوری ۱۹۵۱ء میں ہوا لیکن تسلسل
ہندوستان سے جاری کی گئی جلدوں سے
ہی برقرار رکھتے ہوئے اس کی جلد نمبر ۲۰ کا اولین شمارہ جنوری ۱۹۵۱ء کو
جاری ہوا۔
۲۔ ہمدرد نونہال اجرا ۱۹۵۳ء
۳۔ پیامی یونیسکو کے جریدے کورئیر کا اردو ایڈیشن ۱۹۷۷ ۔ ۱۹۹۰ء (Courier)
۴۔ اخبار الطب اجرا یکم نمبر ۱۹۵۵ء
۵۔ جریدہ جو ن ۱۹۸۳ء
۶۔ خبرنامہ ہمدرد ۱۹۶۰ء
۷۔ سہ ماہی ہسٹاریکس جنرل آف پاکستان ہسٹاریل سوسائٹی
۸۔ ہمدرد ڈائجسٹ اردو ۱۹۶۵ء ۔ ۱۹۷۲ء
۹۔ سہ ماہی ہمدرد اسلامیکس انگریزی ، اپریل ۱۹۷۸ء (Hamdard Islamicus)
۱۰۔ سہ ماہی ہمدرد میڈیکس انگریزی، اپریل ۱۹۵۷ء (Hamdard Medicus)
۱۱۔ سہ ماہی میڈیکل ٹائمز انگریزی ستمبر ۱۹۵۹ء (Medical Times)
۱۲۔ Endeavour ۱۹۸۷ء
۱۳۔ Spem ۱۹۹۵ء
شہید حکیم محمد سعیدپر تحریر کی جانے والی کتب، رسائل کے خاص نمبر اور
تحقیقی مقالات
کتب
حکیم محمد سعید کی شہادت کے بعد آپ کی شخصیت، کردار اور خدمات کے حوالے سے
لکھنے کی تحریک کا آغاز ہوا۔ مضامین لکھے گئے، کتابیں مرتب ہوئیں، اخبارات
اور رسائل نے آپ پر خصوصی مضامین شائع کیے بعض رسائل نے خصوصی نمبر بھی
شائع کیے۔ تعلیمی اداروں خصوصاً کالجوں اور جامعات میں بی ایڈ، ایم ایڈ،
ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر تحقیق کا آغاز ہوا، کئی تحقیقی مقالات لکھے
جا چکے ہیں اور کچھ پر تحقیقی کام جاری ہے۔
’’حیات سعید‘‘ کے عنوان سے ستار طاہر کی مرتب کردہ کتا ب شہید پاکستان حکیم
محمد سعید کی واحدسوانح حیات ہے جو آپ کی زندگی میں ۱۹۹۳ء میں شائع ہوئی اس
کا دوسرا ترمیم و اضافہ شدہ ایڈیشن ۲۰۰۰ء میں منظر عام پر آیا۔ مسعود احمد
برکاتی صاحب کا نام حکیم محمد سعید کے حوالے سے معروف اور معتبر ہے۔ آپ
شہید پاکستان کے قریب ترین ساتھیوں میں سے ہیں۔ حکیم صاحب کی کتابوں کی
تدوین و اشاعت، ہمدرد سے شائع ہونے والے مختلف رسائل کی ادارت و اشاعت کا
اہتمام برکاتی صاحب ہی کے فرائض میں شامل رہا ہے۔آپ نے حکیم صاحب کی شہادت
کے بعد متعدد کتابیں مرتب کیں اور مضامین تحریر کیے۔ ان میں انکل حکیم محمد
سعید ، سعید پارے ، وہ بھی کیا دن تھے ، کے علاوہ میڈم ڈی سلوا کے اشتراک
سے انگریزی میں حکیم محمد سعید کی پروفائل شامل ہے ۔
کتاب سعید ڈاکٹر ظہور احمد اعوان نے مرتب کی جس میں ۸۰ مضامین اردو میں اور
چار مضامین انگریزی میں ہیں۔ ۶۲۲ صفحات پر مشتمل یہ کتاب شہید پاکستان کی
زندگی اور کارناموں پر سیرحاصل مواد فراہم کرتی ہے ۔ لکھنے والوں میں احمد
ندیم قاسمی، ڈاکٹر اسلم فرخی، بشریٰ رحمان، ڈاکٹر رحیم بخش شاہین، امجد
اسلام امجد، امراؤ طارق، ستار طاہر، پروفیسر اشرف بخاری، ڈاکٹر ظہور احمد
اعوان، جنرل فضل مقیم، ڈاکٹر محمد عذیر، بریگیڈیئر ظفر اقبال، صہبا لکھنوی
مر حوم، ڈاکٹر مسکین علی حجازی، پروفیسر نظیر صدیقی، رئر ایڈمرل اسحاق
ارشد، حکیم مفتی صادق انیس، ائر کموڈور انعام الحق مرحوم، ڈاکٹر سعیدہ
بھٹی، شایان علی قدوائی، زاہدہ حنا، میر حسین علی امام، پروفیسر محمد ارشد
بھٹی، مختار زمن، ڈاکٹر ایم اے صوفی، پروفیسر اقبال پراچہ، ثریا شہاب،
عبدالقادر حسن، مجیب الرحمان شامی، قطب الدین عزیز، علی حسن، تاج سعید، نور
الحسن جعفری، نصیر ترابی، افضل بریکوٹی، محترمہ اختر بیگانہ، ڈاکٹرا نیس
خورشید، ڈاکٹر نسیم صدیقی، ڈاکٹر صلاح الدین، محمدا سلم کمال، حکیم نثار
احمد علوی، پروفیسر کرار حسین مر حوم، محمود الرحمن، انتظار حسین، ڈاکٹر
سحر انصاری، ڈاکٹر ظفر علی راجہ، عزیز ملک، ڈاکٹر سرور اکبر آبادی، حکیم
عبدالوہاب ظہوری، اشفاق احمد، ساجد انور شاہد، گلزار جاوید، ذالفقار بھٹی،
فیاض اعوان، عبدالحی فاروقی، دلاور فگارمرحوم ، علی حسن، اقبال ریاض، ڈاکٹر
برکت اعوان، انگریزی میں مضامین لکھنے والوں میں ڈاکٹر عبدالمتین، زہرہ
اشرف، مہدی مسعود اور ڈاکٹر عطا الرحمن شامل ہیں۔
رفیع الزماں زبیری صاحب جو ہمدرد سے منسلک تھے اور ہمدرد مطبوعات خصوصاً
بچوں کی کتابوں کی اشاعت کے ذمہ دار تھے۔ آپ نے اقوال سعید کے علاوہ شہید
حکیم محمد سعید کے انٹرویوز پر مشتمل کتاب’ روبرو ، ’’یادیں اور باتیں‘‘ ،
کے نام سے مرتب کی، لکھنے والوں میں محترمہ سعدیہ راشد،ڈاکٹر نوید الظفر،
خورشید بیگم، بیگم جمیلہ عبدالرشید، بیگم بشریٰ قمرالاسلام، گنگ خان، بشریٰ
رحمن، حکیم سید ظل الرحمن، پروفیسر نور السلام، مولانا جمال میاں فرنگی
محلی، پروفیسر خورشید احمد، محمد رضی الاسلام ندوی (علی گڑھ)، مولانا مفتی
محمد تقی عثمانی، وسیم احمد اعظمی (نئی دہلی)، شاہد حسین قاسمی (نئی ہلی) ،
احمد ندیم قاسمی، سید ہاشم رضا،حکیم قاسم مجاہد (حیدرآباد دکن)، رفعت مہدی،
جسٹس (ر) حاذق الخیری، سید محمد اظہر حسین، کریم بخش خالد، میجر جنرل (ر)
خواجہ راحت لطیف، رضوان احمد، پروفیسر انعام الحق کوثر، مسعود احمد برکاتی
، پروفیسر ، نعیم الدین زبیری، حکیم عبدالحنان، تصویر حسین حمیدی، حکیم
محمد عثمان ،توفیق احمد، طبیبہ انوری بیگم، عبدالرحیم پاشا، عاشق علی خان،
رفیع الزماں زبیری شامل ہیں۔ زبیری صاحب نے ایک کتاب انگریزی میں Hakim
Mohammed Said ، کے عنوان سے بھی مرتب کی جس میں شہید پاکستان کی کہانی
تصاویر کی زبانی بیان کی گئی ہے۔
پاکستانی ادب کے معمار ، کے نام سے پروفیسر صادق حسین طارق کی کتاب اسلام
آباد سے منظر عام پر آئی جو ایک اچھی کوشش ہے۔ ۱۹۹۹ء میں نسرین نثارنے بی
ایڈ کی سند کی تکمیل کی غرض سے ایک مقالہ تحریر کیا جو بعد میں کتابی صورت
میں بعنوان شہید پاکستان حکیم محمد سعید کی تعلیمی خدمات ، کراچی سے شائع
ہوئی۔ جناب انصار زاہد خاں نے ۱۹۹۹ء میں انگریزی زبان میں (Shaheed Hakim
Mohammed Said Remembered) مرتب کی جس میں محترمہ سعدیہ راشد، سید اعجاز
حسین، مختار زمن، ایس ایم ظفر، مہدی مسعود، قطب الدین عزیز،چودھری
عبدالغفور، رفیع الزماں زبیری اور انصار زاہد کی تحریریں شامل ہیں۔
رسائل و جرائد کے خاص نمبر
نئی دہلی سے شائع ہونے والے طبی رسالے ’ الشفاء طبی ڈائجسٹ ، نے اپریل
۱۹۹۹ء میں’’ شہید حکیم حافظ محمد سعید نمبر‘‘ شائع کیا۔ اس خاص نمبر میں
ہندوستان سے تعلق رکھنے والے احباب نے حکیم محمد سعید شہید کی شخصیت، خدمات
اور کارناموں کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کیے۔ آپ کے بڑے بھائی حکیم
عبدالحمید نے جو آپ کی شہادت کے وقت حیات تھے، اپنے تاثرات مختصراً لکھے
ہیں۔
پندرہ روزہ’ ہمدرد دہلی‘ نے’’ شہید حکیم محمد سعید نمبر‘‘ شائع کیا۔ جس کے
سرپرست و رہنما حکیم عبدالحمید تھے اور ایڈیٹر جناب حماد احمدہیں۔ اس میں
زیادہ تر تاثراتی مضامین ہیں۔ ان کے علاوہ مختلف اخبارات اور رسائل نے حکیم
صاحب کی شہادت پر جو مضامین اور اداریے شائع کیے انھیں بھی اس خصوصی شمارہ
میں دوبارہ شائع کر دیا گیا ہے۔ لکھنے والوں میں مولانا اخلاق حسین قاسمی،
طاہر صدیقی ایڈووکیٹ، مسعود احمد برکاتی، رضوان احمد (کراچی)،حسن ثانی
نظامی، حکیم محمد عثمان، گلزار آفاقی، رضوان احمد (پٹنہ)، غفران احمد، اکبر
رحمانی (مدیر، آموز گار)، عبدالرحمن مومن، انجینئر سید صفدر رضوی، پروفیسر
انور معظم، سید محمد احمد مدنی، مولانا سید کلب صادق ،ظفر صمدانی، فرخ سعید
خواجہ، جاوید چودھری، مسرت انور قدوائی، سید قمر ہاشمی، ڈاکٹر خاور ہاشمی،
احمد ندیم قاسمی، الطاف حسین قریشی، شاہ مصباح الدین شکیل، حکیم فیاض عالم
اصلاحی، انتظار حسین،محمد صہیب قریشی، جمیل الدین عالی، محمد علی خالد،
حکیم خورشید احمد شفقت اعظمی، ڈاکٹر شمہرا لطیف، دستار علی شاہ، ڈاکٹر اسلم
فرخی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف رسالوں کے اداریے جن میں’ عوام‘ نئی
دہلی، ماہنامہ ’البلاغ‘ ممبئی، ہفت روزہ’ نشیمن ‘بنگلور، روزنامہ’ اردو
ٹائمز‘ ممبئی، ماہنامہ’ تہذیب الاخلاق‘ لاہور، ماہنامہ ’ایوان اردو‘ دہلی،
ماہنامہ’ معارف‘ اعظم گڑھ، کے علاوہ حکیم صاحب کی اردو کتابوں کی فہرست،
انٹرویو، خطاب، حکیم عبدالحمید کے نام آخری خط،مختلف شعرا کا منظوم خراج
عقیدت بھی شمارہ کا حصہ ہیں۔
کراچی سے شائع ہونے والے ماہنامہ ہمدرد صحت نے اکتوبر ۱۹۹۹ء میں خاص نمبر
شائع کیا۔ اس میں شہید پاکستان پر ۶ مضامین ہیں، حکیم سعید کے بارے میں
تحریر شدہ مضامین کے علاوہ طب کے بعض موضوعات پر بھی مضامین شمارہ کا حصہ
ہیں۔ حکیم سعید کی مطبوعات کے حوالے سے ڈاکٹر فرحت کا مضمون اپنے موضوع پر
سیر حاصل مواد فراہم کرتا ہے۔ ڈاکٹر اشفاق احمد حفیظ، پروفیسرمحسن احسان،
حکیم سید منظور علی اورمسعود احمد برکاتی کے مضامین شہید پاکستان کے حوالہ
سے اہم اور معلوماتی ہیں۔
مجیب الرحمن شامی کی زیر ادارت، قومی ڈائجسٹ، لاہور نے ’شہید پاکستان نمبر‘
شائع کیا۔ شہید پاکستان پر شائع ہونے والے رسائل کے خاص نمبروں میں قومی
ڈائجسٹ کا یہ خاص شمارہ حکیم سعیدکی شخصیت اور کارناموں کے حوالے سے زیادہ
معلوماتی ہے۔ اس میں تقریباً ۵۵ دانش وروں اور مصنفین کی نگارشات کے علاوہ
حکیم سعید کے انٹرویوز، خطوط اور توصیف سعید کے عنوان سے تحاریر شامل ہیں۔
بشریٰ رحمن کی ادارت میں شائع ہونے والے رسالے ’وطن دوست ‘ ، نے شہید
پاکستان نمبر شائع کیا۔ بشری رحمن صاحبہ شہید پاکستان سے خاص عقیدت اور
انسیت رکھتی ہیں۔ حکیم صاحب پر تحریر کردہ آپ کا مضمون’’ کرسٹل کا گلدان‘‘،
بہت معلوماتی اور حکیم صاحب کی شخصیت پر سیر حاصل مواد فراہم کرتا ہے۔ وطن
دوست کے اس خاص نمبر میں دیگر لکھنے والوں میں ایس ایم ظفر، معین باری،
ڈاکٹر محمد رشید، احمد ندیم قاسمی، عطاء الحق قاسمی،محمد بدر منیر، ڈاکٹر
ظہور احمد اظہر،بریگیڈئر (ر) ظفر اقبال، ممتاز جاوید منہاس، خواجہ عابد
نظامی، احمد عقیل روبی، عبداﷲ دانش شامل ہیں۔
ماہنامہ’ عبادت ‘ اسلام آباد کی اشاعت خاص میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا
تعزیت نامہ، جون ایلیا کا ماتم مسیحائی، مرزا اسلم بیگ کا سانحہ قتل سعید
ملت پر خصوصی تجزیے کے علاوہ حکیم محمد عثمان، احمد ندیم قاسمی، مسرت
لغاری، محمد خان شنواری، محمد وسیم انجم کے مضامین شامل ہیں۔ ماہنامہ ’
تحریر و تصویر ُ، حیدرآباد کے اس خصوصی شمارہ میں مختلف اخبارات اورر سائل
میں شہادت سعید پر جو مضامین اور تعزیتی تحریریں شائع ہوئیں انھیں بھی شامل
اشاعت کر دیا گیا ہے۔’پاکستان لائبریری بلیٹن‘ (موجودہ نام پاکستان
لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل) کے سلور جوبلی نمبر میں اپنے پیغام میں
شہید پاکستان نے تحریرفر مایا۔ ’’ یہ امر قابل تعریف ہے کہ ایک پیشہ ورانہ
رسالہ خصوصاً لائبریری و انفارمیشن
سائنس پر ربع صدی سے اپنی اشاعت بغیر کسی رکاوٹ کے برقرار رکھے ہوئے ہے‘‘
تحقیقی مقالات
مقالات ایک ایسی بنیادی دستاویز ہوتے ہیں جوکسی بھی تعلیمی یا تحقیقی ادارے
میں کسی مخصوص موضوع پر حصول سند کی جزوی تکمیل کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔
حکیم محمد سعید کی شہادت کے بعد مختلف تعلیمی اداروں میں شہید پاکستان کی
زندگی کے مختلف پہلوؤں اور خدمات کے حوالے سے تحقیق کا آغاز ہوا۔ پایہ
تکمیل کوپہنچنے والے مقالات میں بی ایڈ کی سند کے لیے تین اور ایم فل کی
سطح پر ایک مقالہ منظر عام پر آچکا ہے۔ مختلف تعلیمی اداروں بشمول جامعہ
کراچی میں شہید پاکستان کی شخصیت کردار اور خدمات پر محققین تحقیق میں
مصروف ہیں۔
بی ایڈ کی سند کے حصول کے لیے ہمدرد انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ سوشل
سائنسز، ہمدرد یونی ورسٹی صمیں دو اور گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن، کراچی میں
ایک مقالہ تحریر کیا گیا۔ ہمدرد یونی ورسٹی میں ثمینہ یاسمین نے حکیم محمد
سعید کی علمی و تعلیمی خدمات ، جب کہ مسز اصغر نے حکیم محمد سعید کی تعلیمی
اور علمی خدمات پر مقالات تحریر کیے۔ یہ دونوں مقالات سرسری نوعیت کے ہیں۔
گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن، کراچی کی طالبہ نسرین نثار نے بی ایڈ کی سند کے
لیے ۱۹۹۹ء میں حکیم محمد سعید کی تعلیمی خدمات کا مطالعہ کے عنوان سے مقالہ
تحریر کیا ۔ یہ مقالہ کتابی صورت میں شائع ہو چکا ہے۔ہمدرد انسٹی ٹیوٹ آف
ایجوکیشن اینڈ سوشل سائنسز، ہمدرد یونی ورسٹی میں ایم فل کی سطح پر محمد
جاوید سواتی نے ڈاکٹر اسماعیل سعد کی زیر نگرانی ایک مقالہ نصاب تعلیم کے
بارے میں’’ حکیم محمد سعید کے افکار‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا۔ مقالہ کا
موضوع بہت ہی اہم ہے مقالہ نگار نے اپنی دانست میں موضوع سے انصاف کر نے کی
کوشش کی ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اس موضوع کو مستقبل
کا محقق مزید آگے بڑھائے۔
حاصل مطالعہ
حکیم محمد سعیدکی تصانیف و تالیفات کے مطالعہ سے حسب ذیل حقائق سامنے آئے۔
٭ آپ کی تحریرسے یہ بات روز روشن کی طرح عیا ں ہو تی ہے کہ آپ ایک مستند
اور مستقل لکھنے والے تھے۔
٭ حیات انسانی کاشاید ہی کوئی موضوع اور کوئی پہلو ایسا ہو جس پر آپ نے نہ
لکھا ہو۔
٭ آپ کی تحریر، خیالات ونظریات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپ مذہب اسلام کے سچے
عاشق، انسان سے محبت کر نے
والے تھے اور سچائی آپ کا ایمان تھا۔
٭ آپ کوطبی و سائنسی موضوعات پر مکمل دسترس حاصل تھی اور ان موضوعات پر آپ
کی گر فت انتہائی مضبوط تھی۔
٭ آپ نے اپنے خیالات و نظریات کا سچائی، ایمان داری ، حقیقت پسندی اور بے
باکی سے اظہار کیا ۔
٭ آپ نے اپنی تحریر کو ادبی معیار یا ضابطوں کے تا بع نہیں کیابلکہ موقع و
محل، موضوعات اور مقصد کوہمیشہ اہمیت دی ، جو بات
جس طرح کہنا زیادہ پر اثر سمجھا ، اس کا اسی طرح سچائی اور ایمانداری کے
ساتھ اظہار کر دیا۔
٭ آپ کا اسلوب بیان آسان ، سادہ ، تکلفات اور بنا وٹ سے پاک ہے اور اس کا
اپنا رنگ ، اپنا اندازاور اپنا تاثر ہے۔
٭ آپ نے پاکستان کی قو می زبان اردوکو اپنے خیالات و نظریات کے اظہار
کاذریعہ بنایا۔آپ کے کل تحریری سرمایہ کا ۷۷ فیصد اردو زبان میں اور ۲۳
فیصد انگریزی میں ہے۔
٭ طب کے علاوہ سفر نامہ نگاری ، بچوں کا ادب، اسلام اور اسلامی موضوعات آپ
کے پسندیدہ موضوع تھے ، سفر ناموں کی تعداد ۵۶ ہے جو کل تحریر کا۵۱ء۲۰ فیصد
ہے ، بچوں کے ادب پر آپ کی تصانیف کی تعداد ۷۰ ہے جو آپ کی کل تحریرکا
۶۴ء۲۵ فیصدہے ،اسلام اور اسلامی موضوعات پر آپ کی تصانیف کی تعداد ۵۱ہے جو
آپ کی کل تحریر کا ۶۸ء۱۸ فیصد ہے۔ بچوں کے لیے لکھے گئے سفر نامے جن کی
تعداد ۳۴ ہے کو بچوں کے ادب میں شامل کر لیاجائے تویہ تعداد۱۰۴ ہو جا تی ہے
جو کل تحریرکا۳۸ فیصد ہے ۔جس سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ آپ نے سب سے زیادہ
بچوں کے لئے لکھا، بچوں کے ادب کے لکھنے والے ادیبوں میں معیار و تعداد کے
اعتبار سے آپ کو ایک منفرد اور اعلیٰ مقام حاصل ہے۔
٭ بچوں کے لیے سفر نامے لکھنے کے بارے میں شہید پاکستان نے ایک انٹر ویو
میں کہا کہ ’’ایک صنف ادب میں اضافہ نو نہالوں کے لئے بہ حیثیت سعید سیاح
سفر ناموں کالکھناہے ۔ تاریخ ادب میں‘ خواہ مشرق کی ہو کہ مغرب کی کسی نے
نو نہالان وطن کے لیے سفر نامے نہیں لکھے اس میدان میں مجھے اولیت حاصل ہے
ہوئی ہے‘‘۔تحقیق سے آپ کے اس بیان کی تصدیق ہو تی ہے۔
٭ ۱۹۵۴ء میں حکیم محمد سعید کی تحریرکر دہ تصنیف سب سے پہلے منظر عام پر
آئی ، ۱۹۹۸ء میں آپ نے جام شہادت نوش فر مایا،اس طرح ۴۲ سالوں میں آپ کی۲۵۲
تصانیف و تالیفات منظر عام پر آئیں جب کہ آپ کی شہادت کے بعد ۱۹۹۹ء تا
۲۰۰۲ء کے درمیان آپ کی ۲۱ تصانیف شائع ہوئیں۔اس طرح کل تصانیف و تالیفات کی
تعداد ۲۷۳ ہے یعنی۶ء۵ فیصد سالانہ ۔ان میں آپ کے تحریرکر دہ بے شمار مضامین
شامل نہیں ، اگر انہیں بھی کتابی صورت میں شائع کر دیا ٍجائے تو یقیناً آپ
کی مطبوعات کی تعداد کہیں زیادہ ہو جائے گی۔
٭ حکیم محمد سعیدکی شخصیت ، کردار اور کارناموں کے حوالے سے ۱۳ تصانیف
وتالیفات شائع ہوئیں ان میں ۱۰ اردو زبان میں اور تین انگریزی میں
ہیں،لکھنے والوں میں ستار طاہر، مسعو د احمد بر کاتی، مسز للی ڈیسلوا
،ڈاکٹر ظہور احمد اعوان،رفیع الزماں زبیری ،صادق حسین طارق، نسرین نثاراور
انصا ر زاہد خان شامل ہیں۔
٭ رسائل و جرائد نے شہید حکیم محمد سعید پر خاص نمبر شائع کیے۔ان میں دو
ہندوستان سے اورچھ پاکستان سے شائع ہو ئے۔
٭ آپ کی شہادت کے بعد کالجوں اور جامعات میں آپ کی زندگی اور خدمات کے
حوالے سے تحقیق کا آغاز ہوا، بی ایڈ کالج کراچی میں ایک، ہمدرد یونیورسٹی
میں بی ایڈ میں ۲اور ایک ایم فل کی سطح پر مقالا لکھاگیا ۔ جامعہ کراچی،
جامعہ ہمدردمیں آپ کی زندگی اورخدمات پر تحقیق کا عمل جاری ہے۔
٭ حکیم محمد سعید نے کبھی لکھنے کا معاوضہ نہیں لیا۔پاکستان کے معروف
دانشور اشفاق احمد نے حکیم صاحب کی کتاب ’’ایک مسافر چار ملک‘‘ کی تعارفی
تقریب میں تقریر کر تے ہوئے بتا یا کہ ’’ ماہنامہ ’ہم سفر‘ کے لیے حکیم
صاحب نے ایک مضمون لکھا تھا اور جس کے جواب میں رسالے والوں نے اٹھارہ سو
روپے کی خطیر رقم حکیم صاحب کو اعزازیے کے طور پر بھجوائی تھی لیکن حکیم
صاحب نے رقم لینے سے انکار کر دیا، جواب میں آپ نے تحریر فرمایاکہ ’’میں
علمی خدمت کا معا وضہ نہیں لیا کر تا ‘‘۔
٭ حکیم محمد سعیدنے اپنی آپ بیتی لکھنے کے لیے ابتدائی کام کر لیا تھا ۔اس
کا اظہار آپ نے ایک انٹر ویو میں کیا ،آپ نے کہا کہ ’’میں نے آپ بیتی لکھنے
کا ارادہ کیا ہے کوئی بارہ سو فائل مرتب بھی کرلیے ہیں کوشاں ہوں کہ چند
ماہ مل جائیں تو یہ آپ بیتی تحریر کر دوں‘‘۔افسو س آپ کو مہلت نہ مل سکی۔
ضرورت ہے کہ ان فائلوں کی روشنی میں جو حکیم صاحب نے اس مقصد کے لیے جمع
کرلیے تھے ان سے فائدہ اٹھا تے ہوئے کوئی محقق اسے اپنا موضوع بنائے یا
ادارہ سعید کے تحت حکیم صاحب کی مستند سوانح تحریر کی جائے۔
٭ حکیم محمد سعید کی تصانیف و تالیفات اس امر کی متقا ضی ہیں کہ ان پر
تحقیق کی جائے۔ |