مقصود حسنی اور برصغیر کا مضافاتی اور مغربی ادب

محبوب عالم ۔۔۔۔۔۔۔ قصور

پروفیسر مقصود حسنی اردو کے جدید وقدیم شعری و نثری ادب کے مطالعہ تک محدود نہیں ہیں۔ انہوں نے برصغیر سے باہر بھی دیکھا ہے۔ ان کے ہاں اس ذیل کے مختلف ذائقے نظر آتے ہیں۔ وہ ان تمام عوامل کا بھی جائزہ لیتے ہیں جو اس کے بنیادی فکر اور زبان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس مطالعے کی پانچ صورتیں دیکھنے کو ملتی ہیں
١- انفرادی
٢- مجموعی
٣- تقابلی
٣- رجحانی
٥- تشریحی اور وضاحتی
اردو ادب سے متعلق ان کی خدمات نمایاں اور مختلف گوشوں پر پھیلی ہوئی ہیں جنھیں اردوادب کے نامورمحقق سند پذیرائی عطا کر چکے ہیں۔
برصغیر سے باہر کے ادب کے مطلعہ کی دو صورتیں ہیں
ایشیائی شعر وادب
مغربی شعر وادب

ڈیوڈ کوگلٹی نوف نمائندہ روسی شاعر ہے۔ اس کی شاعری کے مطلعہ کا باباجی مقصود حسنی کے ہاں حاصل مطلعہ کچھ یہ ہے
ڈیوڈ شر کے مقابل خیر کی حمایت کا قائل ہے۔ اس کے نزدیک خیر کی حمایت ہی
حقیقی زندگی ہے۔ خیر کی حمایت کرنے والے بظاہر لمبی عمر نہیں پاتے۔ دار ورسن ان کا مقدر ہوتا ہے لیکن خیر کی حمایت میں گزرے لحمے ہی تو ابدیت سے ہم کنار ہوتے ہیں۔
شعریات شرق وغرب ص٢٢٧

روس میں ترقی پسندی کے نام سے اٹھنے والی تحریک کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا۔ اس ذیل میں ایک بھرپور مقالہ۔۔۔۔۔۔ترقی پسند تحریک۔۔۔۔۔۔ ان کی کتاب تحریکات اردو ادب میں شامل ہے۔

فینگ سیو فینگ چینی زبان کا خوش فکر شاعر ہے۔ باباجی مقصود حسنی نے ناصرف اس کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ پیش کیا ہے بلکہ اس کی کچھ نظموں کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ فینگ سیو فینگ کی شاعری کے متعلق ان کا کہنا ہے
فینگ سیو فینگ کی شاعری کرب ناک لمحوں کی عکاس ہے۔ اس کے کلام میں جہاں لہو لہو سسکیاں ہیں تو وہاں امید کے بےشمار دیپ بھی جلتے نظرآتے ہیں۔
روزنامہ نوائے وقت لاہور ٧- اپریل ١٩٨٨

بطور نمونہ ایک نظم کا ترجمہ ملاحظہ ہو

شاعر: فینگ سیو فینگ
مترجم: مقصود حسنی

میں بد قسمتی پہ اک نظم لکھنے کو تھا
مری آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے
کاغذ بھر گیا
اور میں نے قلم نیچے رکھ دیا
کیا اشکوں سے تر کاغذ
لوگوں کو دکھا سکتا تھا؟
وہ سمجھ پاتے
یہی تو بد قسمتی ہے

زائی زی لیو چینی مصور تھا۔ باباجی مقصود حسنی کواس کی مصوری نے متاثر کیا۔ انہوں نے اس کےتصویری ورک کو قدر کی نظر سے دیکھا اوراسے خراج تحسین پیش کیا۔ ان کا اس کی مصوری سے متعلق مضمون رزنامہ مشرق لاہور میں شائع ہوا۔
چین سے باباجی کی فکری قربت کااندازہ ان کے مضمون۔۔۔۔۔چین دوستی علاقہ میں مثبت کردار ادا کر سکتی ہے۔۔۔۔۔ سے لگایا جا سکتا ہے۔
یہ مضمون روزنامہ مشرق لاہور ٩ اپریل ١٩٨٨ کی اشاعت میں شامل ہے۔

صادق ہدایت فارسی کا ناول نگار تھا۔ اس کے ناول۔۔۔۔ بوف کور۔۔۔۔۔ کا مطالعہ پیش کیا۔ ان کا یہ مضمون ماہنامہ تفاخر لاہور کے مارچ ١٩٩١ کے شمارے میںشائع ہوا۔

فارسی کے پاکستانی زبانوں پر اثرات۔۔۔۔ تین اقساط میں اردو نیٹ جاپان پر شائع ہوا۔

عمر خیام فارسی کے شعری ادب میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ باباجی نے اس پر بھرپور قسم کا کام کیا ہے۔ یہ کام چھے حصوں پر مشتمل ہے
١- عمر خیام سوانح و شخصیت اوراس کا عہد
٢- رباعیات خیام کا تنقیدی و تشریحی مطالعہ
٣- رباعیات خیام کے شعری محاسن
٤- عمر خیام کے نظریات واعتقادات
٥- عمر خیام کا فلسفہءوجود
٦- سہ مصرعی اردو ترجمہ رباعیات خیام

ان کے اس ترجمے کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی نامور اہل قلم نے اپنی رائے کا اظہار کیا- مثلا
ڈاکٹر عبدالقوی ضیا کینیڈا
ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی
ڈاکٹر ابوسعید نورالدین‘ ڈھاکہ‘ بنگلہ دیش
ڈاکٹراسلم ثاقب‘ مالیر کوٹلہ‘ بھارت
ڈاکٹر اختر علی
ڈاکٹر وفا راشدی
ڈاکٹر صابر آفاقی
ڈاکٹر منیرالدین احمد‘ جرمنی
پروفیسر کلیم ضیا‘ بمبئی‘ انڈیا
پرفیسر رب نواز مائل
پروفیسراکرام ہوشیار پوری
پروفیسرامجد علی شاکر
پروفیسر حسین سحر
پروفیسر عطاالرحمن
ڈاکٹر رشید امجد
ڈاکٹر محمد امین
علی دیپک قزلباش
سید نذیر حسین فاضل
بطور نمونہ ایک رباعی کا ترجمہ ملاحظہ ہو

وہ زندگی‘ کیا خوب زندگی ہو گی
مری مٹی سے تعمیر ہو کر
جام‘ جب مےکدے سے طلوع ہو گا

بوعلی قلندر کا اسی دھرتی سے تعلق تھا۔ باباجی نے ان کی مثنوی کا عہد سلاطین کے حوالہ سے مطالعہ کیا۔ ان کایہ مقالہ پیام آشنا میں شائع ہوا جو بعد ازاں بابا جی کی کتاب ۔۔۔۔۔شعریات شرق وغرب۔۔۔۔۔۔کا حصہ بنا۔

اقبال اور علامہ رازی کی فکر۔ کا تقابلی مطالعہ۔۔۔۔۔۔یہ مقالہ بابا جی کی محنت وکاوش کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
یہ مقالہ اردو انجمن اور کئی دوسرے فورمز پر موجود ہے۔

ان کا ایک مقالہ۔۔۔۔۔عربی کے پاکستانی زبانوں پر اثرات۔۔۔بڑا شاندار مقالہ ہے اور یہ
www.scribd.com
پر موجود ہے۔
انہوں نے جاپانی آوازوں کے نظام پر تفصیلی مقالہ تحریر کیا۔ اس مقالے کا کچھ حصہ اردو میں بھی منتقل کیا۔ اصل مقالہ
www.scribd.com
پر موجود ہے۔ اس کا اردو ترجمہ تین قسطوں میں اردو نیٹ جاپان پر شائع ہوا۔ اس مقالے کی نگرانی وغیرہ پروفیسر ڈاکٹر ماسا آکی اوکا نے کی۔ اس مقالے کا اصل کمال یہ ہے کہ جاپانی آوازوں کے ساتھ برصغیر کی آوازوں کے اشتراک کو بھی واضح کیا گیا ہے۔ ہر جاپانی آواز کے ساتھ اردو کی آوازوں کا موازناتی اوراشتراکی مطالعہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے۔

مطلعہ کی پیاس انہیں دور مغرب میں بھی لے گئی۔ باباجی نے اپنے مطالعہ میں آنے والے اہل قلم کی فکر کو اپنی آراء کے ساتھ اردو دان طبقے کے سامنے بھی پیش کیا۔ اس حوالہ سے باباجی کو کسی ایک کرے تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نےمغرب کا مطالعہ ارسطو سے شروع کیا۔۔۔۔ شاعری پر ایک عام اور بالموازنہ نظر۔۔۔۔۔ مقالہ ان کی کتاب اصول اور جائزے میں شامل ہے۔

مغرب کے مطالعہ کے حوالہ سے ان کے درج ذیل مضامین قابل ذکر ہیں
ایلیٹ اور ادب میں روایت کی اہمیت۔۔۔۔۔۔مسودہ
شیلے کا نظریہءشعر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مشمولہ شعریات شرق وغرب
جان کیٹس کا شعور شعر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق وغرب
شارل بودلیئر کا شعری شعور۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق وغرب
شارل بودلیئر اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق وغرب
ژاں پال سارتر اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق وغرب
کروچے اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق وغرب
ورڈزورتھ اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق و غرب
مغربی اہل سخن پر بات کرتے ہوئے اردو شعرا کے حوالے بھی درج کرتے ہیں۔ اکثر موازناتی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ امر بھی غالب رہتا ہے کہ اردو شعر و ادب مغرب کے شعر ادب سے زیادہ جان دار اور زندگی کے دکھ سکھ کو واضح کرنے میں کامیاب ہے۔

باباجی مقصود حسنی مغربی شعر و ادب کا جائزہ لیتے ہوئے صرف شخصی محاکمے تک محدود نہیں رہتے۔ وہ مجموعی مطالعہ بھی پیش کرتے ہیں۔ اس ذیل میں ان کے یہ مقالے قابل توجہ ہیں
١- مغرب میں تنقید شعر------مشمولہ شعریات شرق و غرب
٢- ناوریجین شاعری کے فکری و سماجی زاویے------مشمولہ شعریات شرق و غرب
٣- شاعری اور مغرب کے معروف ناقدین۔۔۔۔۔۔۔۔مسودہ
٤- اقبال اور مغربی مفکرین---------مسودہ
اکبر اور مغربی تہذیب۔۔۔۔۔روزنامہ وفاق لاہور ٢٥-٢٦ جولائی ١٩٩١
اکبر اقبال اور مغربی زاویے۔۔۔۔۔ہفت روزہ فروغ حیدرآباد ١٦ جوائی ١٩٩١
شیلے اور زاہدہ صدیقی کی نظمیں۔۔۔۔ ماہنامہ تحریریں لاہور دسمبر ١٩٩٣
انگریزی اور اردو کا محاورتی اشتراک ۔۔۔۔۔سہ ماہی لوح ادب حیدرآباد اپریل تا جون ٢٠٠٤
٥- جرمن شاعری کے فکری زاویے
باباجی کی یہ کتاب ١٩٩٣ میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب سات حصوں پر مشتمل ہے۔
اس کی تفصیل کچھہ یہ ہے
ا- جرمن شاعری اور فلسفہء جنگ
ب- جرمن شاعری اور تصور انسان
ج- جرمن شاعری کا نظریہء محبت
د۔ جرمن شاعری کا نظریہءزندگی
ھ- جرمن شاعری اور فلسفہءفنا
و۔ جرمن شاعری اور امن کی خواہش
ظ- جرمن شاعری اور انسانی اقدار
جرمن قوم کے حوالہ سے ان کا ایک مضمون بعنوان جرمن ایک خودشناس قوم‘ کے نام سے روزنامہ مشرق لاہور کی اشاعت ٥ مئی ١٩٨٨ میں شائع ہوا۔ اس سے اندازہ ہوتا کہ وہ جرمن قوم کو فکری اعتبار سے کس قدر اپنے قریب محسوس کرتے تھے۔

اس کے علاوہ بابا جی مقصود حسنی نے مغربی ادب میں اٹھنے والی معروف تحریکوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا۔ اس حوالہ سے ان کی کتاب تحریکات اردو ادب میں حسب ذیل مقالے موجود ہیں۔ یہ کتاب ١٩٩٧ میں شائع ہوئی۔
شعور کی رو اور اردو فیکشن
فطرت نگاری اور اردو فیکشن
علامتی تحریک اور اردو شاعری
امیجزم اور اردو شاعری
ڈاڈا ازم اور اردو شاعری
سریلزم اور اردو شاعری
نئی دنیا اور رومانی تحریک
وجودیت ایک فلسفہ ایک تحریک

ساختیات کے حوالہ سے باباجی نے بہت کام کیا ہے۔ دو مقالے ان کے پی ایچ ڈی کے مقالہ میں موجود ہیں جب کہ ایک مقالہ ان کی کتاب۔۔۔۔۔زبان غالب کا لسانی و ساختیاتی مطالعہ۔۔۔۔۔۔ میں موجود ہے۔ مقالہ پی ایچ ڈی اور
کتاب۔۔۔۔۔زبان غالب کا لسانی و ساختیاتی مطالعہ۔۔۔۔۔۔ میں نشانیات غالب کا ساختیاتی مطالعہ بھی پیش کیا گیا ہے۔

حضرت بلھے شاہ قصوری کا اردو کلام علیحدہ کرتے ہوئےانہوں نے حضرت بلھے شاہ قصوری کی زبان کا لسانی مطالعہ پیش کیا ہے۔ ان کے اس مطالعے کو ڈاکٹر محمد امین نے کسی شاعر کا باقاعدہ پہلا ساختیاتی مطالعہ قرار دیا ہے۔
اردو شعر- فکری و لسانی رویے ١٩٩٧ ص ١١٥

باباجی مقصود حسنی کی کتاب اردو میں نئی نظم مغربی شاعری کے تناظر میں قلم بند ہوئی۔ اس میں ایک طرح سے مغربی نظم اور اردو نظم کا تقابلی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ ان کی یہ کتاب مئی ١٩٩٣ میں شائع ہوئی۔

منیرالدین احمد ایک اردو افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانوں کی زبان اردو ہے لیکن مواد یہاں کی معاشرت سے متعلق نہیں ہے۔ کردار ماحول مکالمے نقطہءنظر وغیرہ قطعی الگ تر ہیں۔ اس ضمن میں باباجی نے منیر کا حوالہ بھی کوڈ کیا ہے جو کتاب کے پیش لفظ میں موجود ہے۔ منیر کا کہنا ہے: اردو میں لکھے جانے والے یہ جرمن افسانے ہیں جو جرمن روایت کے تحت لکھے گئے ہیں۔ گویا سب کچھ جرمن ہے۔ منیرالدین احمد کے افسانوں سے متعلق باباجی کی کتاب۔۔۔۔منیرالدین احمد کے افسانے- تنقیدی جائزہ ١٩٩٥میں شائع ہوئی۔ ابتدا میں منیرالدین احمد کے دس نمائندہ افسانوں کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ اس کے بعد تین عنوان قائم کئےگئے ہیں
منیر کے چند افسانوی کردار
منیر کے افسانوں میں ثقافتی عکاسی
منیر اپنے افسانوں میں
منیرالدین احمد کےافسانوں کا مطالعہ گویا جرمن افسانوں کا مطالعہ ہے۔

باباجی کی ان کاوش ہا کے متعلق معروف اسکالر ڈاکٹر سعادت سعید کا کہنا ہے: مقصود حسنی نے معاصر مغرب کے نظریاتی تنقیدی جوہروں سے گہری شناسائی رکھنے کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ اس پس منظر میں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ادب شناسی کے حوالے سے مشرق و مغرب کی تفریق کو کار عبث جانتے ہیں۔ نئی مغربی تنقید کے پس پشت جو عوامل کار فرما ہیں ان کا بھی انھیں بخوبی اندازہ ہے۔ یوں انہوں نے پوسٹ کلونیل یا مابعد نوآبادیاتی تنقید کے میکانکی رویوں سے نسبت رکھنے سے زیادہ اپنے مشرقی علم بیان کی سحر انگیریوں پر توجہ دی ہے۔ اس تناظر میں مقصود حسنی کی تاثراتی اور اظہاری تنقید کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ جس میں ان کے شعری و ادبی ذوق کے عکسی مظاہرے موجود ہیں۔ اردو نیٹ جاپان‘ ٧ جنوری ٢٠١٤

ان کے اس نوعیت کے مطلعے سےمتعلق بہت سے اہل قلم نے قلم اٹھایا۔ چند ایک اندراج کر رہا ہوں
آشا پربھات
ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری
ڈاکٹر ابوسعید نورالدین
ادیب سہیل
پروفیسرامجد علی شاکر
ڈاکٹر بیدل حیدری
پروفیسر رب نواز مائل
پروفیسر حفیظ صدیقی
ڈاکٹر سعادت سعید
شاہد حنائی
ڈاکٹر صابرآفاقی
ڈاکٹر صادق جنجوعہ
علی دیپک قزلباش
ڈاکٹر قاسم دہلوی‘ دہلی
پروفیسر نیامت علی
ڈاکٹر مظفر عباس
ڈاکٹر منیرالدین احمد‘ جرمن
ندیم شعیب
ڈاکٹر وفا راشدی
ڈاکٹر وقار احمد رضوی
پروفیسر یونس حسن

درج بالا تفصیلات سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ باباجی مقصود حسنی اپنی تحقیقی اور تنقیدی بصیرت کے سبب ہمہ وقت مختلف ادبی کروں کے نمائندہ حرف کار ہیں۔ ہر کرے میں ان کی ایک شناخت وجود پذیر ہوتی ہے۔ اسی تناظر میں انہیں ادب کی دنیا کا لیجنڈ قرار دینا‘ کسی بھی حوالہ سے غلط نہ ہو گا۔ آتے کل کو ان کی ادبی شناخت کے لیے مروجہ اور مستعمل پیمانوں سے انحراف کرنا پڑے گا۔
maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 190872 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.