مقصود حسنی کی مزاح نگاری‘ ایک اجمالی جائزہ

محبوب عالم۔۔۔۔۔۔۔۔قصور

پروفیسر مقصود حسنی ادبی دنیا میں ایک منفرد نام و مقام رکھتے ہیں۔ وہ یک فنے نہیں ہیں بلکہ مختلف اصناف ادب میں کمال رکھنا ان کا طرہءامتیاز ہے۔ طنز و مزاح بھی ان کی دسترس سے باہر نہیں رہا۔ اکثر مزاح نگار تحریر کے عنوان سے ہی عیاں ہو جاتا ہے کہ اس تحریر میں مزاح کا مواد کس نوعیت کا رہا ہو گا۔ باباجی مقصود حسنی کے ہاں یہ چیز شاز ہی ملتی ہے۔ عنوان سے قطعی اندازہ نہیں ہو پاتا کہ تحریر میں کس موضوع کو زیر بحث لایا گیا ہو گا۔

ان کے ہاں مزاح بھی سنجیدہ اطوار لیے ہوئے ہے۔ گویا قاری حیرانی میں حظ اٹھاتا ہے۔ وہ ورطہءحیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ مصنف نے طنز کا شائبہ بھی ہونے نہیں دیا‘ پھر گدگدا بھی دیا ہے۔ سنجیدگی سے بات کرتے کرتے لطیفہ کرنے کا فن انہیں خوب آتا ہے۔ روزمرہ یا پھر شائستہ سا ایس ایم ایس کا استعمال بخوبی جانتے ہیں۔ بات سے بات نکالنے کے فن پر انہیں بلاشبہ ملکہ حاصل ہے۔ کسی عوامی محاورے یا مرکب سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ محاورے یا مرکب‘ کسی نہ کسی سماجی رویے کے عکاس ہوتے ہیں۔

لفظ‘ پروفیسر مقصود حسنی کے ہاتھوں میں دیدہ زیب کھلونوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ لفظوں کو مختلف تناظر میں استعمال کرکے نئے مفاہیم دریافت کرتے ہیں۔ لفظوں کے استعمال کی یہ صورت غالب کے بعد کسی کے ہاں پڑھنے کو ملتی ہے۔ وہ غالب کے معنوی شاگرد بھی ہیں۔ ان کے مزاح میں زندگی متحرک نظرآتی ہے۔ وہ اپنے اردگرد کو بڑے غور سے دیکھنے کے عادی ہیں۔ وہ متحرک زندگی کو اپنے فکری ردعمل کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ان کے اسلوب سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ کب اور کس وقت طنز کا کوئی تیر چھوڑ دیں گے۔

معاشرتی خرابیاں ان کا موضوع گفتگو رہتی ہیں۔ وہ اپنے مزاج کے ہاتھوں مجبور نظر آتے ہیں۔ دفتر شاہی بھی ان کے طنز سے باہر نہیں رہی۔ پروفیسر مقصود حسنی کسی بھی موضوع پر قلم کو جنبش دیتے وقت حالات و واقعات کا ایسا نقشہ کھنچتے ہیں کہ معاملے کے جملہ پہلو آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتے ہیں۔ ان کی کسی تحریر کو پڑھتے وقت قاری کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ پڑھ رہا ہے یا دیکھ رہا ہے۔

باباجی مقصود حسنی زندگی کے خانگی حالات و واقعات کو بھی نظر انداز نہیں کرتے۔ وہ دہلیز کے اندر کے موضوعات پر گفتگو کرکے شخص کی خانگی حیثیت اور کارگزاری پر بھی بہت کچھ کہہ جاتے ہیں۔ اس انداز سے کہہ جاتے ہیں کہ قاری کو ہر ممکن لطف میسر آتا ہے۔ خانگی حالات و واقعات بیان کرتے وقت وہ صیغہ متکلم استعمال کرتے ہیں حالانکہ ایسے مزاح کا ان کی ذات سے دور دور تک تعلق نہیں ہوتا۔ بعض تحریریں فرضی ناموں کے ساتھ بیان کرکے اپنے فن کو کمال درجہ تک لے جاتے ہیں۔

باباجی مقصود حسنی کی مزاح نگاری کو روایتی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انھوں نے روایت سےبغاوت کرکے نیا طرز اظہار دریافت کیا ہے۔ مزاح اور سنجیدگی دو الگ سے طرز اظہار ہیں۔ سنجیدگی سے مزاح کا اظہار متضاد عمل ہے لیکن یہ ان کے ہاں ملتا ہے۔ اس لیے یہ بات دعوعے کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ وہ سنجیدگی میں مزاح لکھتے وقت نئی زبان بھی متعارف کرواتے ہیں۔

اس مختصر سے جائزے سے یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ باباجی مقصود حسنی کی مزاح نگاری اردو ادب میں انفرادیت کی حامل ہے جو اب تک اردو کے کسی دوسرے مزاح نگار کے حصہ میں نہیں آ سکی کیونکہ روایت کی پاسداری کرنے والے انفرادیت کے دعوی دار نہیں ہو سکتے۔

ان کی مزاح نگاری کے چند نمونے ملاحظہ ہوں
ایک پکی پیڈی بات ہے کہ چوہا بلی سے‘ بلی کتے سے‘ کتا بھڑیے سے‘ بھیڑیا چیتے سے‘ چیتا شیر سے‘ شیر ہاتھی سے‘ ہاتھی مرد سے‘ مرد عورت سےاورعورت چوہے سے ڈرتی ہے۔ ڈر کی ابتدا اور انتہا چوہا ہی ہے۔ میرے پاس اپنے موقف کی دلیل میں میرا ذاتی تجربہ شامل ہے۔ میں چھت پر بیھٹا تاڑا تاڑی کر رہا تھا۔ نیچے پہلے دھواںدھار شور ہوا پھر مجھے پکارا گیا۔ میں پوری پھرتی سے نیچے بھاگ کر آیا۔ ماجرا پوچھا۔ بتایا گیا کہ صندوق میں چوہا گھس گیا ہے۔ بڑا تاؤ آیا لیکن کل کلیان سے ڈرتا‘ پی گیا۔ بس اتنا کہہ کر واپس چلا گیا کہ تم نے مجھے بلی یا کڑکی سمجھ کر طلب کیا ہے۔ تاہم میں نے دانستہ چوہا صندوق کے اندر ہی رہنے دیا۔
غیرت اور خشک آنتوں کا پرابلم

ہم بڑے مذہبی لوگ ہیں کسی سکھ کی سیاسی شریعت تسلیم نہیں کر سکتے۔ راجا رنجیت سنگھ اول تا آخر مقامی غیر مسلم تھا اس لیے اس کا کہا کس طرح درست ہو سکتا ہے۔ راجا رنجیت سنگھ اگر گورا ہوتا تو اس کی سیاسی شریعت کا مقام بڑا بلند ہوتا۔ گورا دیس سے آئی ہر چیز ہمیں خوش آتی ہے۔
علم عقل اور حبیبی اداروں کا قیام

استاد کی باتوں کا برا نہ مانئیے گا۔ میں بھی اوروں کی طرح ہنس کر ٹال دیتا ہوں۔ اور کیا کروں مجھے محسن کش اور پاکستان دشمن کہلانے کا کوئی شوق نہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی کرنے کی باتیں ہیں کہ کتے کے منہ سے نکلی سانپ کے منہ میں آ گئی۔ سانپ سے خلاصی ہونے کے ساتھ ہی چھپکلی کے منہ میں چلی گئی۔
ہم زندہ قوم ہیں
دو میاں بیوی کسی بات پر بحث پڑے۔ میاں نےغصے میں آ کر اپنی زوجہ ماجدہ کو ماں بہن کہہ دیا۔ مسلہ مولوی صاحب کی کورٹ میں آگیا۔ انہوں نے بکرے کی دیگ اور دو سو نان ڈال دیے۔ نئی شادی پر اٹھنے والے خرچے سے یہ کہیں کم تھا۔ میاں نے مولوی صاحب کے ڈالے گیے اصولی خرچے میں عافیت سمجھی۔ رات کو میاں بیوی چولہے کے قریب بیٹھے ہوئے تھے۔ بیوی نے اپنی فراست جتاتے ہوئے کہا
"اگر تم ماں بہن نہ کہتے تو یہ خرچہ نہ پڑتا۔"
بات میں سچائی اپنے پورے وجود کے ساتھ موجود تھی۔ میاں نےدوبارہ بھڑک کر کہا
"توں پیو نوں کیوں چھیڑیا سی"
مولوی صاحب کا فتوی اور ایچ ای سی پاکستان
کچھ ہی پہلے‘ اندر سے آواز سنائی دی‘ حضرت بےغم صاحب حیدر امام سے کہہ رہی تھیں‘ بیٹا اپنے ابو سے پیسے لے کر بابے فجے سے غلہ لے آؤ۔ عید قریب آ رہی ہے‘ کچھ تو جمع ہوں گے‘ عید پر کپڑے خرید لائیں گے۔ بڑا سادا اور عام فیہم جملہ ہے‘ لیکن اس کے مفاہیم سے میں ہی آگاہ ہوں۔ یہ عید پر کپڑے لانے کے حوالہ سے بڑا بلیغ اور طرح دار طنز ہے۔ طنز اور مزاح میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ طنز لڑائی کے دروازے کھولتا ہے جب کہ مزاح کے بطن سے قہقہے جنم لیتے ہیں۔ جب دونوں کا آمیزہ پیش کیا جائے تو زہریلی مسکراہٹ نمودار ہوتی ہے اور ایسی جعلی مسکراہٹ سے صبر بھلا‘ دوسرا بات گرہ میں بندھ جاتی ہے۔

لاٹھی والے کی بھینس
ان کی ایک مزاح پر مشتمل کتاب بیگمی تجربہ ١٩٩٣ میں شائع ہوئی جو اس سے پہلے نقد و نقد کے نام سے منظر عام پر جلوہ گر ہوئی۔ اس کتاب کو اہل ذوق نے پسند کیا۔ چند آراء ملاحظہ ہوں
آج ہمارا معاشرہ جس فتنہ و فساد اور پرآشوب دور سے گزر رہا ہے جس کو بدقسمتی سے تہذیب و ترقی سے تعبیر کیا جاتا ہے اس کی شدت کو کم کرنے کے لیے سنجیدہ رویہ اختیار کرنے سے زیادہ لطیف طنز و مزاح کے نشتر چبھونا موثر ثابت ہو سکتا ہے۔ مصنف موصوف نے اس حقیقت کو بخوبی سمجھ لیا ہے اور معاشرے کے ان زخموں سے فاسد مادہ کو طنزومزاح کے نشروں سے نکالنے کی کوشش کی ہے۔
ثناءالحق صدیقی
ماہنامہ الانسان کراچی مئی ١٩٩٤ صفحہ نمبر ٣٢

مقصود صاحب بڑے ذہین معاملہ شناس مدبر اور نئی سوچ کے مالک ہیں۔ بڑی بات یہ کہ آپ سچے اور منفرد انداز کے بادشاہ ہیں۔ میں تو کہوں گا کہ میں نے ساٹھ ہزار کتب کا مطالعہ کیا ہے ان میں ایسی معیاری کتب کوئی ایک درجن ہوں گی۔ اس کتاب نے مجھے بڑا متاثر کیا ہے۔ میں اسے سندھ کے شاہ جو رسالو کی طرح اپنے سفر میں بھی ساتھ رکھوں گا اور بار بار پڑھوں گا۔
مہر کاچیلوی
بیگمی تجربہ پر اظہار خیال‘ ہفت روزہ عورت میرپور خاص سندھ ١٨ نومبر ١٩٩٣

ان کی زبان میں لطافت ہے‘ ظرافت ہے‘ سحر آفرینی ہے۔ انھوں نے جس ہنرمندی سے باتوں سے باتیں نکالی ہیں‘ وہ ان ہی کا حصہ ہے۔ انھوں نے مزاحیہ طرز سے پژمردہ دلوں میں زندگی اور زندہ دلی کی روح پھونک دی ہے۔ خشک ہونٹوں پر پھول نچھاور کیے ہیں۔
ڈاکٹر وفا راشدی
سہ ماہی انشاء حیدرآباد جنوری تا ستمبر ٢٠٠٥ بیگمی تجربہ پر اظہار خیال

بیگمی تجربہ میں کل ٣١ مضمون شامل تھے جن کی تفصیل درج خدمت ہے
بچوں کی بددعائیں نہ لیں 1
عقل بڑی یا بھینس 2
بیمار ہونا منع ہے 3
حاتم میرے آنگن میں 4
کاغذی قصے اور طاقت کا سرچشمہ 5
شادی+معاشقہ:جمہوری عمل 6
مجبور شرک 7
ترقی‘ ہجرین اور عصری تقاضے 8
دمدار ستارہ اور علامتی اظہار 9
ویڈیو ادارے اور قومی فریضہ 10
چھلکے بکریاں اور میمیں 11
پہلا ہلا اور برداشت کی خو 12
بیگمی تجربہ اور پت جھڑ 13
انسانی ترقی میں جوں کا کردار 14
اصلاح نفس اور برامدے کی موت 15
سنہری اصول اور دھندے کی اہمیت 16
بش شریعت اور سکی نمبرداری 17
نیل کنٹھ‘ شیر اور محکمہ ماہی پروری 18
بہتی گنگا اور نقد و نقد 19
ملاوٹ اور کھپ کھپاؤ 20
سپاہ گری سے گداگری تک 21
یار لوگ اور منہگائی میمو 22
سچ آکھیاں بھانبڑ مچدا اے 23
ہدایت نامہ خاوند 24
ہدایت نامہ بیوی 25
ادھورا کون 26
محنت کے نقصانات 27
محاورے کا سفر 28
کتےاور عصری تقاضے 29
جواز 30
ظلم 31
مزاح سے متعلق ان کے بہت سے مضمون انٹرنیٹ کی مختلف ویب سائٹس پر پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔ ان کے ان مضامین کو سراہا گیا ہے۔ اس ذیل میں صرف اردو انجمن سے متعلق چند اہل قلم کی آراء ملاحظہ ہوں
آپ کا یہ نہایت دلچسپ انشائیہ پڑھا اور بہت محظوظ و مستفید ہوا۔ جب اس کے اصول کا خود پر اطلاق کیا تو اتنے نام اور خطاب نظر آئے کہ اگر ان کا اعلان کر دوں تو دنیا اور عاقبت دونوں میں خوار ہوں۔ سو خاموشی سے سر جھکا کر یہ خط لکھنے بیٹھ گیا ۔ انشا ئیہ بہت مزیدار ہے شاید اس لئے کہ حقیقت پر مبنی ہے۔ اس آئنیہ میں سب اپنی صورت دیکھ سکتے ہیں۔
اکتوبر 20, 2013, 10:43:43 شام
مشتری ہوشیار باش
سرور عالم راز
آپ کے انشائیے پر لطف ہوتے ہیں۔ خصوصا اس لئے بھی کہ آپ ان میں اپنی طرف کی یا پنجابی کی معروف عوامی اصطلاحات (میں تو انہیں یہی سمجھتا ہوں۔ ہو سکتا ہوں کہ غلطی پر ہوں) استعمال کرتے ہیں جن کا مطلب سر کھجانے کے بعد آدھا پونا سمجھ میں آ ہی جاتی ہے جیسے ادھ گھر والی یا کھرک۔ یا ایم بی بی ایس۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ کھرک جیسا با مزہ مرض ابھی تک جدید سائنس نے ایجاد نہیں کیا ہے۔ واللہ بعض اوقات تو جی چاہتا ہے کہ یہ مشغلہ جاری رہے اور تا قیامت جاری رہے۔ اس سے یہ فائدہ بھی ہے کہ صور کی آواز کو پس پشت ڈال کر ہم :کھرک اندازی: میں مشغول رہیں گے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔
میری ناچیز بدعا
اگست 14, 2013, 09:00:12 صبح
سرور عالم راز

مجھے علم نہیں ہے کہ محترمہ زھرا کون ہیں، قرین قیاس یہی ہے کہ انکا تعلق بزم سے ہوسکتا ہے۔ ملاقات کی روداد میں گھریلو ماحول کی عکاسی بہت عمدگی سے کی گی ہے، اور یہ وہ کہانی ہے جو گھر گھر کی ہے۔ اہل خانہ پر گھبراہٹ کا عالم اور اندیشہ ہاے دور دراز، گھر کے سربراہ کی واقعی جان پر بن آتی ہے۔ ایک لطیف تحریر جس سے لطف اندوز ہونے کا حق ہر قاری کو ہے
خلش
آپ کا انشائیہ حسب معمول نہایت دلچسپ اور شگفتہ تھا۔ پڑھ کر لطف آ گیا۔ اس زندگی کی بھاگ دوڑ اور گھما گھمی میں چند لمحات ہنسنے کے مل جائیں تو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ ہاں یہ پڑھ کرانتہائی حیرت ہوئی کہ زہرا صاحبہ برقعہ میں آئین! یا میرا چشمہ ہی خراب ہو گیا ہے؟ ایک نہایت پر لطف اور دل پذیر تحریر کے لئے داد قبول کیجئے۔
قصہ زہرا بٹیا سے ملاقات کا
نومبر 03, 2013, 03:25:04 صبح
سرور عالم راز
جیسے جیسے آپ کی تحریر پڑھتا گیا ہنسی کا ضبط کرنا ناگزیر ہوتا چلا گیا اور آخر میں میری حالت پاکستان میں کسی زمانے میں جی ٹی روڈ پر چلنے والی اس کھچاڑا جی ٹی ایس
(گورننمٹ ٹرانسپورٹ سروس )
کی طرح ہوگئی جو رک جانے کے بعد بھی ہلتی رہتی تھی ، بڑی دیر تک لطف اندوز ہونے کے بعد سوچا اپنی اندرونی کیفیت کا اظہار کر ہی دیا جائے
وہ کہتے ہیں ناں کہ جس سے پیار ہوجائے تو اس کا اظہار کر دو کہ مبادا دیر نہ ہو جائے
تو جناب ڈاکٹر صاحب میری جانب سے ڈھیروں داد آپ کے قلم کے کمال کی نذر کہ جس سے چہروں پر مسکراہٹیں بکھر جائیں
لاٹھی والے کی بھینس
جولائی 12, 2013, 09:45:29 شام
اسماعیل اعجاز
اردو نیٹ جاپان‘ اردو انجمن‘ ہماری ویب‘ فرینڈز کارنر‘ پیغام ڈاٹ کام‘ فورم پاکستان اور فری ڈم یونی ورسٹی سے‘ میں نے ٦٩ مضامین تلاش کیے ہیں۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے
بھگوان ساز کمی کمین کیوں ہو جاتاہے 1
غیرت اور خشک آنتوں کا پرابلم 2
عوامی نمائیندے مسائل' اور بیورو کریسی 3
علم عقل اور حبیبی اداروں کا قیام 4
امریکہ کی پاگلوں سے جنگ چھڑنے والی ہے 5
لوڈ شیڈنگ کی برکات 6
ہم زندہ قوم ہیں 7
طہارتی عمل اور مرغی نواز وڈیرہ 8
رولا رپا توازن کا ضامن ہے 9
آدم خور چوہے اور بڈھا مکاؤ مہم 10

پی ایچ ڈی راگ جنگہ کی دہلیز پر 11
سیاست دان اپنی عینک کا نمبر بدلیں 12
قانون ضابطے اور نورا گیم 13
خودی بیچ کر امیری میں نام پیدا کر 14
خدا بچاؤ مہم اور طلاق کا آپشن 15
غیرت اور خشک آنتوں کا پرابلم 16
جرم کو قانونی حیثیت دینا ناانصافی نہیں 17
ہمارے لودھی صاحب اور امریکہ کی دو دوسیریاں 18
لوٹے کی سماجی اور ریاستی ضرورت 19
اس عذاب کا ذکر قرآن میں موجود نہیں 20
بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ 21
عوام شاہ کے ڈراموں کی زد میں رہے ہیں 22
دنیا کا امن اور سکون بھنگ مت کرو 23
رشوت کو طلاق ہو سکتی ہے 24
عوام بھوک اور گڑ کی پیسی 25
رمضان میں رحمتوں پر نظر رہنی چاہیے 26
جمہوریت سے عوام کو خطرہ ہے 27
سیری تک جشن آزادی مبارک ہو 28
دو قومی نظریہ اور اسلامی ونڈو 29
گھر بیٹھے حج کے ایک رکن کا ثواب کمائیں 30
مولوی صاحب کا فتوی اور ایچ ای سی پاکستان 31
لاٹھی والے کی بھینس 32
دمہ گذیدہ دفتر شاہی اور بیمار بابا 33
انشورنس والے اور میں اور تو کا فلسفہ 34
غیرملکی بداطواری دفتری اخلاقیات اور برفی کی چاٹ 35
حقیقت اور چوہے کی عصری اہمیت زندگی 36
تعلیم میر منشی ہاؤس اور میری ناچیز قاصری 37
محاورہ پیٹ سے ہونا کے حقیقی معنی 38
آزاد معاشرے اہل علم اور صعوبت کی جندریاں 39
دیگی ذائقہ اور مہر افروز کی نکتہ آفرینی 40
ایجوکیشن‘ کوالیفیکیشن اور عسکری ضابطے 41
وہ دن ضرور آئے گا 42
صیغہ ہم اور غالب نوازی 43
پروف ریڈنگ‘ ادارے اور ناصر زیدی 44
ناصر زیدی اور شعر غالب کا جدید شعری لباس 45
قصہ زہرا بٹیا سے ملاقات کا 46
مشتری ہوشیآر باش 47
مدن اور آلو ٹماٹر کا جال 48
احباب اور ادارے آگاہ رہیں 49
کھائی پکائی اور معیار کا تعین 50
بابا بولتا ہے 51
بابا چھیڑتا ہے 52
لاوارثا بابا اور تھا 53
فتوی درکار ہے 54
ڈینگی‘ ڈینگی کی زد میں 55
حضرت ڈینگی شریف اور نفاذ اسلام 56
یہ بلائیں صدقہ کو کھا جاتی ہیں 57
اب دیکھنا یہ ہے 58
سورج مغرب سے نکلتا ہے 59
یک پہیہ گاڑی منزل پر پہنچ پائے گی 60
حجامت بےسر کو سر میں لاتی ہے 61
انھی پئے گئی اے 62
امیری میں بھی شاہی طعام پیدا کر 63
وہ دن کب آئے گا 64
آزادی تک‘ جشن آزادی مبارک 65
رشتے خواب اور گندگی کی روڑیاں 66
پنجریانی اور گناہ گار آنکھوں کے خواب 67
میری ناچیز بدعا 68
طاقت اور ٹیڑھے مگر خوبصورت ہاتھ 69
انسان کی تلاش 70
معاشی ڈنگر اور کاغذ کے لاوارث پرزے 71
صبح ضرور ہو گی 72
قیامت ابھی تک ٹلی ہوئی ہے 73
وہ دن گیے جب بن دیے بھلا ہوتا تھا 74
عین ممکن ہے 75
کھائی بھلی کہ مائی 76
دفتر شاہی میں کالے گورے کی تقسیم کا مسلہ 77


درج بالا مختصر تفصیلات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ باباجی مقصود حسنی اس صنف ادب میں
بھی کامیاب و کامران رہے ہیں۔ آخر میں پروفیسر یونس حسن کی رائے درج کر رہا ہوں جس سے باباجی کے اس ادبی کام کی نوعیت و حیثیت کا اندازہ ہو جاتا ہے

مقصود حسنی نے مزاح کے میدان میں تقلید کو گوارہ نہیں کیا‘ اپنے لیے ایک علیحدہ اور جداگانہ رستہ نکالا ہے۔ ان کی یہی انفرادیت ان کے پورے مزاح پر محیط نظر آتی ہے۔ ان کا مزاح وقتی یا لمحاتی نہیں اور نہ ہی گراوٹ کا شکار ہوتا ہے بلکہ اپنی جدت طرازی کی بنا پر ایک علیحدہ شناخت اور پہچان رکھتا ہے۔ ان کے مزاح کی جڑیں ہماری سماجی زندگی کے اندر پیوست نظر آتی ہے۔
پروفیسر یونس حسن
سہ ماہی انشاء حیدرآباد جنوری تا ستمبر ٢٠٠٥ بیگمی تجربہ پر اظہار خیال
 
maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 190830 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.