وقت کا پہیہ

وقت کا پہیہ چلتا ہے۔کل میں آج بدلتا ہے۔تاریخ کا پہیہ جب الٹا چلنے لگتا ہے تو اْسے نہ ماضی میں کوئی روک پایا ہے نہ آئندہ کوئی روک پائے گا۔ پاکستان کی سیاست میں جمہوریت کی گاڑی جن پہیوں پر چل رہی ہے۔ اس ڈی ریل کیا گیا تو پھر ملک میں کچھ نہیں بچے گا۔ بہتر یہی ہے کہ اب جیسی بھی جمہوریت ہے اس کا پہیہ چلنے دیا جائے اور ہر پانچ سال بعد عوام کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے البتہ پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتیں الیکشن چار سال بعد کروانے کا فیصلہ کر لیں تو ہمارے جیسے ملک کے لئے بہتر ہو گا۔انسانی تاریخ میں پہیہ ہی وی چیز ہے ، جس نے انسان کے لیل ونہار کی گردش کو تیز کیا ہے۔ انسان نے زمین پر قدم جماتے ہی قدرت کی طرف سے دی ہوئی ذہنی صلاحیت کا استعمال کرتے ہوئے اپنی اولین ترجیحات کے مطابق زندگی گزارنے کیلئے اْن چیزوں کی تلاش شروع کر دی جو اولین ضروریات میں شامل تھیں۔ لہذا اس سلسلے میں سرد گرم موسم کے بچاؤ ، کھیتی باڑی و شکار وغیرہ کیلئے لباس وآلات مختلف اشکال میں متعارف ہونا شروع ہو گئے۔ آج 21ویں صدی جدید دْنیا کا وہ دور ہے جس میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوچکا ہے کہ دْنیا کی سب سے اہم ایجاد و دریافت کیا ہے۔ کیونکہ سائنسی ترقی میں میکانی ،الیکٹریکل والیکٹرونکس کا ایسا امتزاج ہے جس نے طب کی دْنیا میں بھی انقلاب برپا کر دیاہے۔گو اس ترقی کے بہت سے منفی پہلو بھی ہیں جن میں سب سے اہم مہلک ہتھیار ہیں۔بہرحال زمین سے آسمان تک رسائی حاصل کرنے کیلئے ، سر کے بالوں سے پاؤں کے انگوٹھے تک کی تکلیف دور کرنے کیلئے ،ایک کا دوسرے سے رابطہ قائم رکھنے کیلئے اور سرکاری و نجی سطح پر بہترین سے بہترین تعمیرات کیلئے وہ اشیا استعمال ہو رہی ہیں جن کی تعریف ہر زبان پر ہے۔لیکن ان سب کی ابتدائی کامیابی کا سہرا آج بھی ایک بڑے طبقے کی رائے کے مطابق اْس ایجاد سے منسلک سمجھا جاتا ہے جس کو’’پہیہ یا وہیل‘‘کہا جاتاہے۔ پہیہ اْس ہی دور کی ایک ایسی میکانی ایجاد ہے جس کے متعلق قطعی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ پہلی دفعہ کب استعمال ہوا۔ اس کی پہلی کہانی تو یہ ہے کہ جس زمانے میں ًانسان درختوں کے تنے کاٹ کر جب اپنے کام میں لاتا تھا اْس ہی دوران کسی حصے کو گول دیکھ کر ایک کمہار نے اْسکی طرز کی ایک ایسی گول چکی سی بنائی یا ایجاد کی جس پر مٹی کے برتنوں کی بنوائی و بناوٹ کو نئی نئی شکل دے کر اْس نے برتنوں کی دْنیا میں جدت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ دوسری کہانی یہ ہے کہ ایک لکڑ ہارا کسی پہاڑی پر درخت کاٹ کر اْس کے حصے کر رہا تھا کہ درخت کے تنے کا ایک گول حصہ پہاڑی پر سے گول گھومتا ہوا نیچے کی طرف کچھ اسطرح آیا کہ وہاں قریب ہی کھڑے ایک شخص کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے لکڑی کے پھٹے سے ٹکرا کر اْسکے نیچے سے گزر گیا اور پھٹا اْس تنے کے اوپر ہونے کی وجہ سے کچھ آگے جا کر گرا۔جسکی وجہ سے اْس لکڑی کے پھٹے والے شخص کو خیال آیا کہ اگر کسی طرح لکڑی کو گول کاٹ کر کچھ ایسے طریقے سے کسی بھی چیز کے نیچے سے اْسکو منسلک کر دیا جائے تو وہ چیز ضرور آگے کی طرف آسانی سے بڑھے گی۔بس یہی فکر اْس وقت سہولت کا باعث بن گئی جب پہیہ ایک کارآمد ایجاد بن کر انسان کی ضروریات ِ زندگی کا اہم حصہ بن گیا۔ پہیہ کی تاریخ کسی کو معلوم نہیں ہے ۔کیونکہ اس ایجاد و دریافت کی کوئی باقاعدہ تاریخ نہیں ملتی۔لیکن وہ انسان کے استعمال میں صدیوں سے ہیں۔پہیہ بھی اْن ہی میں سے ایک ہے۔لیکن پھر بھی دْنیا کے ارتقائی دور کی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے اسکے بارے میں بھی کچھ اندازے لگائے گئے ہیں۔اب اْن میں حقیقت کتنی ہے وہ ایک الگ بحث ہے ،لیکن پھر بھی ذیل کی معلومات سے اندازہ ہوتا ہے کہ تاریخ کے دائرے میں پہیہ قابل ِذکر و سب سے اہم ایجاد ہے۔ میسوپوٹیمیا میں 3500قبل مسیح میں کمہار کے برتن بنانے والے باٹ (چکی) میسوپوٹیمیا (آجکل کے عراق)کے تمدن کی ایک کڑی کے طور پر اہم ایجاد سمجھا جا سکتا ہے جسکے ذریعے کمہار اپنی اْنگلیوں سے برتنوں کو آسانی سے مختلف اشکال دے کر آگ کی بھٹی میں پکاکر اْنھیں تیار کرتا تھا۔یہ فن آج بھی اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے۔ 3200قبل مسیح میں میسوپوٹیمیا میں ہی لکڑی کا پہیہ واضح طور پر آمد ورفت میں استعمال ہوتا ہو انظر آتا ہے۔ بلکہ اْسکے درمیان میں سوراخ کر کے ایکسل نامی ڈانڈا دونوں پہیوں میں اسطرح لگا دیا گیا کہ پہیہ آسانی سے تیز گھومنا شروع ہو گیا اور اس کامیابی کی شکل اْس دور کے وہاں کے وہ گھوڑوں والے رتھ (ٹانگیں) تھے جن میں ان کو لگا کر سفر بھی کیا جاتا تھا اور مقابلے کی دوڑیں بھی لگائی جاتی تھیں۔ لہذا اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔پہیہ اپنی ابتدائی شکل و استعمال کے ساتھ مینو فیکچرنگ و اْس دور کی صنعتی ترقی کی وہ کڑی ہو سکتا ہے جو مستقبل میں بہتر سے بہتر ہوتا ہو ا نظر آتا ہے۔ 2000قبل مسیح میں مصر میں باقاعدہ طورپر پہیہ استعمال ہو تا ہو انظر آتا ہے، اور 1400قبل مسیح میں یورپ میں اس کی موجودگی کو محسوس کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یورپ میں اس قسم کی ایجاد کا تعلق کسی بھی طرح مشرق ِوسطیٰ سے نہیں تھا۔حالانکہ تحقیق کے اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یورپ اْس دور میں چاہے کیسی بھی حالت میں تھالیکن وہاں کے لوگ مصر کی تہذیب و تمدن کے بارے شاید کچھ نہ کچھ ایسی معلومات رکھتے تھے کہ وہاں کے لوگ مصر کا سفر کرتے تھے اور جو بھی بات یا شے ہٹ کر نظر آتی تھی اْسکے اثرات یقینی طور پر یورپ میں بھی نظر آتے ہونگے۔اسکی ہی ایک مثال یونانی فلسفی تھیلز کی ہے جو 600قبل مسیح کے قریب علمی معلومات کیلئے سفر کرتا ہوا مصر گیا تھا اور وہاں سے واپس آنے کے بعد ہی دْنیا کے سامنے اْس نے پہلا سوال رکھ دیا تھا کہ انسان کیا ہے؟جہاں سے دْنیاوی علم پر سائنسی بنیادوں پر بحث کا آغاز ہوا۔ تو پہیہ وقت کے بہتے دھاروں کے ساتھ’’ وہیل‘‘ بن گیا : قبل مسیح سے عیسوی دور میں داخل ہونے تک انسان اپنی ضرورت کے مطابق اشیا کوترتیب دیتا رہا اور اگر کسی شے کے حاصل کرنے کے نتیجے پر نہ پہنچا تو اْسکی دیوار یا پتھروں پر تصویر بنا ڈالی جو آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے ایک مثال ثابت ہوتی رہی۔پھر جب میکانی(مشینی) دور کا آغاز ہوا تو تقریباًہر شے یا مشینی حکمت ِعملی کو آگے بڑھانے کیلئے پہیہ لازمی قرار پا یا۔بلکہ صدیوں سے مختلف زبانوں میں اْسکو جس نام سے بھی پکارا جاتا رہا ہوگا اس نئے دور کی ایجادات میں انگریزی زبان میں ’’وہیل‘‘کے نام سے دْنیا بھر کی ضرورت بن گیا۔ پہیہ اب جدید دور کی مختلف ایجادات کی اہم ضرورت ہے۔ یورپ میں ترقی کی نئی راہیں کْھلیں تو پہیہ مزید بہتر استعمال کرنے کیلئے اسکے ارد گرد’ ربڑ ‘ کا استعمال کر کے اسکی گولائی کو مزید بہتر کیا گیا اور ساتھ کچھ رفتار میں بھی اضافہ ہوگیا۔ پھر چاہے سائیکل کی ایجاد ہو یا خوبصورت بگھی بنائی گئی ہو یا چار پہیوں کی کار وغیرہ، انکی بنیاد پہیہ ہی بنی۔اسٹیم انجن کی ایجاد اور اْسکے ساتھ ٹرین کے ڈبوں کا ترتیب وار جوڑ لوہے کے انتہائی پائیدار ’’وہیل‘‘ ہی کے مرہون ِمنت شہرت کا باعث بنا۔ہوائی جہاز کی بیسویں صدی کے آغاز میں ایجاد اور پھر وقت کے ساتھ استعمال کے مطابق روز بروز جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہوتے چلے جانے میں بھی اْسکے سب سے اہم حصے ’’وہیل‘‘ کا ہی کمال ہے۔انجن اپنی باکمال صفت میں اگر آسمان اور زمین کا ملاپ کروا رہا ہے تو اْسکے پہیوں کے نظام نے ہی آج انسان کے سفر کے وقت کو صرف چند گھنٹوں پر محیط کر دیا ہے۔ آج پہیہ جہاں تک عوام کو نظر آتا ہے وہ ایک مضبوط ربڑ کی ایسی گول شکل میں ہوتا ہے جس کے اندر ایک نرم ربڑ کی گول ٹیوب ہوتی ہے جس میں پریشر کے ذریعے ہوا بھری جاتی ہے۔جیسے ہی مطلوبہ مقدار کے مطابق اْس ٹیوب میں ہوا بھر جاتی ہے اْوپر کا مضبوط حصہ سفر کرنے کے قابل ہو جاتا ہے اور اْس حصے کو ہم’’ٹائر‘‘ کہتے ہیں۔ کچھ میں ٹیوب نہیں ہوتی ہے لیکن ہوا بھرنے کا طریقہ وہی ہوتاہے اور اْسکو’’ٹیوب لیس ٹائر‘‘کہتے ہیں۔ ٹیوب والا یا ٹیوب لیس ٹائر دونوں صورتوں میں وہ ایک لوہے کے رم پر چڑھا ہوتا ہے اور اْسکو چلتے ہوئے نرم رکھنے کیلئے چھوٹا سا بیئرنگ استعمال کیا جاتا ہے۔ دلچسپ یہ ہے کہ اس نظام میں ایکسل کی اہمیت ماضی کی طرح ہی ہے لیکن نئی جدت کے مطابق اْسکو ڈھال لیا گیا ہے۔ پانی میں بحری جہاز چلانے کیلئے جو ہینڈل استعمال کیا جاتا ہے اْسکو شپ وہیل کہتے ہیں۔اسطرح توانائی کیلئے فلائی وہیل استعمال ہوتا ہے۔کار وغیرہ کو قابو کرنے والے ہینڈل کو سٹیرنگ وہیل کہتے ہیں۔ اسطرح بے شمار جگہوں پر اس میں لوہے یا لکڑی کی سلاخیں لگا کر بھی اسکو قابل ِاستعمال بنایا جاتا ہے۔ بر صغیر کی حالت بدلے میں بھی اس پہیہ نے بڑا کا م کیا ہے۔ لیکن یہ ریل کا پہیہ ہے۔ 1857 سے پہلے عملی طور پر انگریزوں کی حکومت قائم ہو چکی تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی والے اس حقیقت کو جانتے تھے کہ کراچی شہر ایک بہت اہم بندر گاہ بن سکتا ہے۔ ان کے ذہن میں یہ بھی نکتہ تھا کہ پنجاب اور دیگر علاقوں سے خام مال کراچی اور پھر بین الاقوامی منڈیوں میں لے جانے کے لیے اْس وقت کے لحاظ سے ایک قابل اعتماد نظام کی ضرورت ہے۔1851 میں ہنری ایڈورڈ فریری سندھ کا کمشنر مقرر کیا گیا۔ اْس نے وائسرائے ہند لارڈ ڈلہوزی سے اجازت طلب کی کہ کراچی میں ایک سمندری بندرگاہ کے لیے سروے کیا جانا چاہیے۔1858 میں اْس نے ریلوے لائن اور ریلوے کے نظام کے لیے ایک تفصیلی جائزہ لینا شروع کر دیا۔ ابتدائی طور پر ریلوے کا نظام کراچی اور کوٹری کے درمیان مختص تھا۔ سکنڈ (سندھ) ریلوے1855 میں معرض وجود میں آ چکی تھی۔ صرف تین سے چار سال کے عرصے میں کراچی کو کوٹری سے بذریعہ ریل ملا دیا گیا۔ ریلوے کی چار کمپنیاں، (سندھ)، سکنڈ، انڈس فلوٹیلا، پنجاب اور دہلی ریلویز کو ایک ریلوے کمپنی میں تبدیل کر دیا گیا۔
اس نئی کمپنی کا نام سکنڈ، پنجاب اور دہلی ریلوے کمپنی رکھا گیا۔ سیکریٹری آف اسٹیٹ نے تاج برطانیہ کی اجازت سے1886 میں اس کمپنی کو خرید لیا۔ اس کا نام تبدیل کر کے نارتھ ویسٹرن اسٹیٹ ریلوے رکھا گیا۔ کچھ ہی عرصے بعد اسٹیٹ کا لفظ نکال کر یہ نام صرف نارتھ ویسٹرن ریلوے رہ گیا۔ ایک طرز سے، یہ نجی ملکیت سے حکومتی ملکیت کی طرف ایک قدم تھا۔ 1889 میں کراچی شہر اور کیماڑی کے درمیان لائن بچھا دی گئی۔1897 میں کیماڑی سے کوٹری تک لائن کو دو رویہ کر دیا گیا۔ اگر آپ پشاور سے کراچی تک کی ریلوے لائن کا جائزہ لیں تو اس کی ترتیب تقریباً وہی ہے جو سکندر اعظم نے صدیوں پہلے ہندوستان پر حملے کے دوران رکھی تھی۔ یہ ہندو کش کے پہاڑی سلسلے سے بحیرہ عرب تک تقریباً سفر کی وہی لکیر ہے جو سکندر اعظم اور اس کے لشکر نے اختیار کی تھی۔ 1889 میں دریائے سندھ پر لینز ڈاؤن پْل تعمیر کیا گیا۔ یہ پْل انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ اس پْل کی بدولت کراچی اور پشاور کو بذریعہ ریل آپس میں ملا دیا گیا۔کوئٹہ کی فوجی اہمیت بہت زیادہ تھی۔ اْس وقت بھی برطانیہ کو یہ خوف تھا کہ روس کہیں افغانستان سے کوئٹہ پر حملہ نہ کر دے اور اس طرح اپنے اثر اور حکومت کو اس خطہ میں لانے میں کامیاب نہ ہو جائے۔1857 میں ولیم اینڈریو سکنڈ پنجاب اور دہلی ریلوے کا چیئرمین تھا۔ اس نے حکومت کو مشورہ دیا کہ کوئٹہ تک ریل کا ایک نظام ہونا چاہیے تا کہ اسے جنگ کی صورت میں ترسیل کو تیز تر کرنے میں استعمال کیا جا سکے۔ صرف چار ماہ کے قلیل عرصے میں رکھ سے سبی تک 1880 میں 215 کلومیٹر کی لائن بچھا دی گئی۔ اس کیآگے پہاڑوں کا انتہائی مشکل پھیلاؤ تھا۔ پْل اور دشوار گزار سرنگیں بنانے میں تقریباً سات سال کا عرصہ لگا۔ 1887 میں سبی کو کوئٹہ سے ملایا جا چکا تھا۔1947 میں نارتھ ویسٹرن ریلویز کو تقسیم کر دیا گیا۔ ہندوستان کو31330 کلومیٹر جب کہ پاکستان کو8124 کلو میٹر ریلوے ٹریک منتقل ہوا۔ شروع میں اس شعبہ میں پاکستان نے کافی محنت کی۔ مردان سے چارسدہ، جیکب آباد سے کشمور اور کوٹ ادو سے کشمور تک ٹریک کو بڑھایا گیا۔1961 میں نارتھ ویسٹرن ریلوے کا نام تبدیل کر کے اسے پاکستان ریلوے کا نام دے دیا گیا۔ ہماری ٹرین کی حد رفتار 120 کلو میٹر فی گھنٹہ تک تھی اور ہے۔ پاکستان ریلوے تقریباً 6 سے سات کروڑ مسافروں کو سالانہ ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہے۔ ایک زمانے میں ہمارے پاس 200 مال برداری کے تجارتی مرکز تھے۔ ہماری ریلوے میں تقریباً 82000 ملازمین ہیں۔ ہمارا سالانہ اوسط ریونیو تقریباً انیس ہزار ملین روپے ہے۔لیکن ہم نے اس ریل کے پہیہ کو جام ہی نہیں کیا ۔ بلکہ ترقی کی رفتار کو بھی الٹا کرکے الٹا پہیہ چلا دیا۔ جس نے ریل کے ساے نظام کو تباہ کردیا۔ہمارے پڑوس میں یہ ریل کا پہیہ پورے زور و شور سے چل رہا ہے۔ انڈیا ریلوے کے کے سترہ جغرافیہ زون ہیں۔ اس میں تیرہ لاکھ لوگ کام کرتے ہیں۔ اس کا سالانہ اوسط ریونیو 20 بلین ڈالر ہے۔ اس کا سالانہ منافع تقریباً 2 بلین ڈالر ہے۔ ریلوے ٹریک کی لمبائی 65000 کلو میٹر ہے۔23000 کلو میٹر پر بجلی کی ٹرین چلتی ہے۔ ریلوے کی وزارت کے پاس14 پبلک سیکٹر ادارے ہیں۔ ان میں ویگن بنانے سے لے کر سیاحت اور کھانا بنانے تک کی کمپنیاں موجود ہیں۔ انڈیا کی ریلوے اپنے انجن بھی خود بناتی ہے۔ اب ریلوے کا سرکاری محکمہ بھوٹان، نیپال، ویت نام، اور برما تک توسیع کر رہا ہے۔ راجستھان کی سیاحت کے لیے خصوصی آرام دہ ٹرینیں چلائی گئی ہیں۔ ان میں مہاراجہ ایکسپریس، رائل راجستھان اور کئی اور ٹرینیں شامل ہیں۔ ان تمام ٹرینوں میں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کے لیے انتہائی آرام دہ نظام بنایا گیا ہے۔ یہ دراصل پہیے پر چلتے ہوئے محل ہیں۔ ان میں لاکھوں سیاح کئی کئی دن اور رات سفر کرتے ہیں۔ہندوستان کی ریلوے اب بایو ٹوائلٹ نصب کر رہی ہے۔ تمام نئی ویگنوں میں یہ ٹوائلٹ نصب کیے جا رہے ہیں۔ اس کے لیے بھی ایک الگ محکمہ بنایا گیا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ابتدائی 55 برس میں کسی ٹرین میں کوئی ٹوائلٹ نہیں تھا۔ بلکہ یہ تصور بھی نہیں تھا کہ کسی ٹرین میں یہ سہولت میسر ہو گی۔1909 میں بابو ادکھل چندرا سین نے اس سہولت کے نہ ہونے کی صاحب گنج کے ریلوے افسر کو شکایت کی۔ چنانچہ 50 میل سے زیادہ سفر کرنے والی تمام ٹرینوں کی لوئر کلاس میں یہ سہولت مہیا کی گئی۔ انڈین ریلوے نے صفائی کے لیے ایک خصوصی مہم شروع کی ہے۔ جیسے ہی ٹرین کسی مختص ریلوے اسٹیشن پر رکتی ہے، خصوصی طور پر تربیت یافتہ 20-25 افراد ٹرین کی مکمل صفائی شروع کر دیتے ہیں۔ یہ شیشوں سے لے کر کچرہ کے ڈبوں تک ہر چیز کو چمکا دیتے ہیں۔ ریلوے کے مختلف ترقیاتی منصوبوں کے لیے200 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ تمام بڑے ریلوے اسٹیشنز پر کھانے پینے کے فوڈ کورٹ بنائے گئے ہیں اور اس میں نجی شعبے کو ترجیح دی گئی ہے۔پہیہ کی یہ گردش ہر جگہ ہے۔ آپ کسی ترقی یافتہ ملک میں چلے جائیں۔ آپ کو ریلوے اسٹیشن اور ائیر پورٹ میں کوئی خاص فرق محسوس نہیں ہو گا۔یورپ کو چھوڑ دیجیے۔ چین کو لے لیجیے۔ بیجنگ کے مین ریلوے اسٹیشن پر چلے جائیں۔ آپ کو انتہائی قابل بھروسہ اور صاف ماحول ملے گا۔ہمیں آزادی کے وقت ہمیں دنیا کا بہترین ریلوے کا نظام ملا تھا۔ ہمارے ریلوے کے ملازمین کی وردیاں تک قابل رشک تھیں۔لیکن ہمارا ریلوے کا پہیہ مدتوں سے منجمد ہے۔ یہ جو کسی شاعر نے کہا ہے کہ چاند، سورج نکلتا ہے۔رات آتی دن ڈھلتا ہے۔آسمان بھی دیکھو تو۔کیسے رنگ بدلتا ہے۔وقت کا پہیہ چلتا ہے-

کل میں آج بدلتا ہے۔پاکستان میں اب وقت بدل گیا ہے۔ اب پہیہ الٹا چلنے لگا بلکہ اْلٹی گنتی شروع ہوچکی ہے۔ تبدیلی کا موسم آچکا ہے۔ ہ آج نہیں توکل تبدیلی اور انقلاب آئے گا۔وقت کا پہیہ چلتا ہے۔کل میں آج بدلتا ہے۔ پاکستان میں پہیہ کی یہ گردش ہی زندگی ہے، پہیہ ریل کو ہو یا سیاست و جمہوریت کا اسے چلتا رہنا چاہئے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387616 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More