ایک دفعہ ایک شخص درخت کی ایک
شاخ کلہاڑی سے کاٹ رہا تھا کلہاڑی کو زور زور سے چلا چلا کر وہ کئی گھنٹے
لگاتار اس کام پہ لگا رہا مگر درخت کی شاخ کو حکومت کی طرح کوئی خاطر خواہ
اثر نہیں ہو رہا تھا بلکہ اس دوران کئی نیوز بلیٹنز گزر گئے اور ڈراموں کے
ریپیٹ کا ٹائم ہوگیا تو پاس سے ایک زیڈ سے نام رکھنے والے شخص نے کیونکہ
اسکو مشورے دینے کا بہت شوق تھا بتایا کہ تم پہلے کلہاڑی تیز کرو کیونکہ
تمہارا آلہ کند ہےپھر درخت کاٹنا تمہارا کام آسان ہو جائے گا مگر اس شخص نے
جواب دیا میرے پاس کلہاڑا تیز کرنے کا وقت نہیں ہے۔ لو بھلا کیسی عجیب و
غریب اور نامعقول و فضول بات کہہ دی کہ دو کام کروں کہ پہلے اس کلہاڑی کو
بھی تیز کروں اور پھر جا کر کاٹوں اس سے بھلا یہ نہیں کہ ایک ہی کام کروں
ہنہہہ
اکثریتی آبادی ہی اس طرح کے کاموں میں ملوث پائی جاتی ہے کہ وہ اپنی کلہاڑی
کو زنگ آلود رکھتے ہوئے کام کرنے کو باعث تسلی اور آرام بنتی ہے خواہ کسی
بھی پیشے سے لگے ہوں جو تعلیم دس سال پہلے حاصل کی تھی اسی پر اکتفا کرتے
ہوئے اسی تعلیم کو کامیابی کی ضمانت سمجھتے ہوئے پوری زندگی اسی کے سہارے
گزارنا خاصا کافی سمجھ لیا جاتا ہے۔ جوں جوں انسان کی عمر بڑھتی ہے توں توں
زمانے کی ترقی بھی بڑھتی ہے اب انسان کے لئے شانہ بشانہ زمانے کے ساتھ چلنا
اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے اگر انسان اپنے کاشانہ دماغ میں کچھ نیا ڈالنے
کی کوشش ضرور کرے۔
ریسرچ سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ انسان نے آج تک اتنی ترقی پانے کے باوجود
دماغ کا صرف ایک دو فیصد ہی استعمال کیا ہے کچھ وقت پہلے تک یہ سمجھا جاتا
تھا کہ انسان نے دس فیصد ستعمال کیا ہے آج یہ صورتحال ہے کہ انسان نے صرف
دو فیصد استعمال کر کے دنیا کی حالت یکسسر تبدیل کر دی ہے تو اگر انسان صیح
معنوں میں اپنے دماغ کا استعمال مزید بڑھا لے تو ترقی کی رفتار اور شرح کس
قدر بڑھ سکتی ہے۔ انسان کے دماغ کے پیدائش کے وقت جتنے خلئے ہوتے ہیں عمر
بڑھنے کے ساتھ ساتھ وہ خلئے سکڑ جاتے ہیں اور کم ہونے لگتے ہیں۔ جبکہ
سیکھنے سکھانے کے عمل میں مصروف رہ کر انسان اپنے دماغی صلاحیت کو بڑھا
سکتا ہے۔
صلاحیت انسان کے دماغ کی اگر دیکھی جائے تو ایسی چیز ہے جو وقت، محنت اور
سیکھنے کے ساتھ بہتر اور تعمیری سمت میں لے جائی جاسکتی ہے جبکہ انسانوں کا
مسئلہ یہ ہے کہ انسان زندگی میں لوگون کی ان باتوں پر جو کہ انھوں نے کم
علمی کی بناء پر کہی ہوتی ہیں ان پر ذیادہ یقین رکھتے ہیں کہ ہاں کبھی میرے
لئے آگے جانا ممکن نہیں کیونکہ میرے اندر یہ صلاحیت ہی نہیں۔ میں یہ کام کر
ہی نہی سکےا میں تو ہوں ہی نکما میں کچھ کر نہیں سکتا میرے لئے ایسا کرنا
خود کو مصیبت میں ڈالنا ہے وغیرہ وغیرہ ان سب خوف سے نکلنے کا یک ہی تھوڑا
چھوٹا راستہ ہے کہ انسان اپنی دماغی ہتھیر کو تیز کرنے کی طرف توجہ دے
کیونکہ اس سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کے خوف کی جگہ اعتاد
لینے لگتا ہے خود کو تھوڑی تینشن میں ڈال کر تھوڑا مشکل کام کرنا صرف ایک
لمحے کے لئے تو خفزدہ کرتا ہے بعد میں آپکو مضبوط اور قابلیت والا بنا دیتا
ہے۔ ویسے بھی زمانی جتنی رفتار سے اڑا جارہا ہے یہ ضروری ہے کہ انسان بھی
اسی رفتار سے ترقی کرے۔ |