شکوۂ ظلمت شب سے توکہیں بہترتھا اپنے حصہ کی کوئی شمع جلاتے جاتے

تعلیمی اوراقتصادی پسماندگی کے حوالہ سے سچرکمیٹی کے ذریعہ دکھائے جانے والے آئینہ کے بعد مسلمانوں کی پسماندگی دورکرنے کیلئے مسلسل مطالبات ہورہے ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے زوال کی بہت حدتک ذمہ دارتعلیم کے تئیں خود ان کی غفلت رہی ہے۔یہ سوال بہرحال اہم ضرورہے کہ کیاصرف حکومت پرہی تکیہ لگاکربیٹھے رہناکافی ہے؟ ۔زندہ قوم کی یہ علامت نہیں ہوسکتی۔اسے خودہی اپناراستہ ڈھونڈھ نکالناچاہئے۔ زندہ قوم کی شناخت اسی سے ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی اوراپنی ترقی کی سمت طے کرنے میں وہ خودکتنی حساس ہے۔

افسوس ناک صورت حال تو ہے کہ جدیداعلیٰ تعلیم کی طرف مسلم طلبہ متوجہ نہیں ہوتے۔سول سروسز،میڈیکل یا انجینئرنگ میں یا اعلی تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے کی خودان میں ب کوئی تڑپ نہیں ہے۔ اوراس سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان کی صحیح راہنمائی کرنے والابھی کوئی نہیں ہے۔یہ بہت سنگین مسئلہ ہے نہ تو والدین چاہتے ہیں کہ بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں،معیشت کی بری صورت حال نے انہیں مجبور کر رکھا ہے کہ وہ بس میٹرک اورانٹرمیڈیٹ تک ہی پہونچ کراپنے گھرکی معیشت درست کرنے کے لئے جدوجہدکرتے نظرآتے ہیں۔اس کے نتیجے میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی میں ہر سال اضافہ ہی ہوتاجارہاہے اوراہم سرکاری ایجنسیوں اورسرکاری اداروں میں مسلمانوں کی نمائندگی بہت کم رہ جاتی ہے ۔

پبلک اسکولوں اورکوچنگ سنٹروں میں عام لوگ،خصوصامسلمان اپنے بچوں کو بھیجنے کے متحمل نہیں،تعلیم کے نام پرجگہ جگہ دکانیں کھلی ہوئی ہیں، تعلیم کے نام پراپنی روزی روٹی چمکائی جارہی ہے۔ان تجارت گاہوں میں اونچی فیسیں لی جاتی ہیں ۔ایسے میں صرف امیروں کے بچے ہی ان پرائیوٹ اسکولوں،کوچنگ سنٹروں اورکالجوں میں داخلہ لے پارہے ہیں جن سے ان سوداگروں کی تجارت خوب چمک رہی ہے ۔

اعلیٰ تعلیمی میدان میں مسلمانوں کی حالت اتنی افسوس ناک ہے کہ سال2012کے یوپی ایس سی کے920 کامیاب امیدواروں میں صرف،31 مسلمان طلبہ تھے۔گزشتہ چند برسوں کے نتائج میں کامیاب مسلم طلبہ کی تعداد تقریبااسی کے آس پاس رہی ہے۔چنانچہ 2009میں صرف31 مسلمان، کل 791 کامیاب یوپی ایس سی کے امتحان میں کامیاب ہوئے ۔اسی طرح2010 میں 875 میں سے مسلم طلبہ21 تھے جن میں کشمیر کے ڈاکٹر شاہ فیصل قومی سطح پر ٹاپررہے تھے۔2011 میں بھی یہ تعداد31 رہی ہے۔اس طرح تقریبا سول سروسز میں مسلمانوں کی نمائندگی افسوس ناک حدتک بہت کم ہے جوایک بڑاالمیہ ہے۔

سول سروسز کی تیاری کے لئے کوچنگ اداروں میں ترقی کے باوجود، کامیاب مسلم امیدواروں کی کامیابی کا تناسب اوسطا صرف 3.06 رہاہے۔اسی کانتیجہ ہے کہ اعلیٰ محکموں میں جہاں مسلمانوں کی زیادہ سے زیادہ نمائندگی ہونی چاہئے ،بہت کم ہے ۔پولیس فورسیزمیں یہ دوفیصدہیں، مرکزی حکومت کی تمام وزارتوں مسلم افسران نہ کے برابرہیں۔

اس کے علاوہ میڈیکل اورآئی آئی ٹی جیسے اداروں میں بھی ان کی رسائی نہیں ہے کیونکہ مسلم بچے یاپڑھتے ہی نہیں ہیں یااگراسکول گئے بھی تودسویں یاانٹرمیڈیٹ تک پہونچتے پہونچتے ہمت ہارجاتے ہیں۔
حالانکہ اگران اعلیٰ اداروں میں مسلمانوں کی نمائندگی بڑھانے کے لئے کوشش کی جائے اور ہر محاذ پر خصوصا یوپی ایس سی ،جوڈیشیل سسٹم اورسکریٹریٹ میں اگرمسلمان اپنی تعلیمی قابلیت کی بنیادپرآجائیں تو ملی ،اقتصادی اورسیاسی سار ے مسائل خودبخودحل ہوجائیں گے۔

آج کی موجودصورت حال اورموجودہ سیاسی اوراقتصادی تناظرمیں یہ ایک اہم لمحہ فکریہ ہے امت مسلمہ کے لئے ۔اوراپنی اس زبوں حالی کے لئے خودہم ذمہ دارہیں۔ہم نے اس کی طرف کوئی فکرنہ کی۔ حکومت خوب خوب یقین دہانی توکراتی رہی ہے،ہرالیکشن کے موسم میں ’روڈمیپ ‘بنانے کی بات کی جاتی ہے ،پھرپتہ نہیں وہ نقشہ کہاں چلاجاتاہے؟۔اس لئے اب مزیدحکومت کے وعدۂ فرداپربھروسہ کر نے کے لئے وقت نہیں ہے ورنہ ہم اورپیچھے ہوتے چلے جائیں گے۔ہمیں خودہی کمربستہ ہوناہوگااورمضبوط عملی اقدام کرناہوگا۔چھوڑدیناہوگابھروسہ ان تسلیوں پراوراٹھ کھڑاہوناہوگاقوم کے نونہالوں کی تعلیم کی فکرمیں۔اس کے لئے چنداہم اقدامات ضروری ہیں۔ایک یہ کہ اسکولوں میں دسویں اوربارہویں کے مسلم طلبہ کاسروے کیاجائے،ان کے والدین سے مل کران طلبہ کے مستقبل کی پلاننگ جانی جائے کہ ان کاآگے کیاارادہ ہے؟۔جوطلبہ اپنی معاشی کمزوری کی بنیادپراس سے آگے بڑھنے کی ہمت نہ کرپاتے ہوں۔ا ن کی عملی حوصلہ افزائی کی جائے ،ان کی تعلیمی مددکی جائے اورہرشہراورہرمحلہ میں ورکشاپ کے انعقادکے ذریعہ ان کی صحیح رہنمائی ہو،ان کے والدین سے مل کران کی معاشی مددکی جائے۔

ملی جماعتوں کوبھی اس سمت میں آگے آناہوگا،ملت کے روپئے ملت کے ہی مفادمیں خرچ کرنے کاعادی بنناہوگا،مسلمانوں کی انہیں تعلیمی فکرکرنی ہوگی۔ملت کے پیسے کوملت کے مفادمیں خرچ کیاجائے یہی اس کاصحیح مصرف ہے۔’’سوچ تودل میں لقب ساقی کاہے زیباتجھے انجمن پیاسی ہے اورپیمانہ بے صہباتیرا‘‘۔
نیز اعلیٰ فیس کے مسلم اداروں کوبھی قربانی دینی ہوگی اوران تجارت گاہوں کوبھی اپنی دوکان چمکانے کی بجائے تھوڑی توجہ قوم کے نونہالوں کی تعلیم پربھی دینی ہوگی ۔ان تجارت گاہوں کی مہنگی تعلیم کاہی تویہ نتیجہ ہے کہ ساری انسانی قدریں پامال ہوچکی ہیں۔ ان تجارت گاہوں کوخودسوچنے کی ضرورت ہے تاکہ انسانی قدریں بحال ہوں،معززپیشہ خدمت کاذریعہ بنے نہ کہ تجارت کا۔ورنہ ان کے خلاف آوازاٹھائی جائے اوران کامکمل بائیکاٹ اہل ثروت حضرات بھی کریں تاکہ ان کی دوکان بیٹھ سکے۔

ملت میں مخلصین اوراہل خیرحضرات کی کمی نہیں ہے،یہ چاہیں تواپنی ہی اپنی سطح پرایک شمع جلاسکتے ہیں۔اپنے پڑوس اورمحلہ کے غریب ونادارذہین طلبہ کی تعلیمی کفالت اپنے ذمہ کرلیں اوراسی طرح دیاجلاتے رہیں توکوئی مشکل نہیں ہے کہ ہم تعلیمی میدان میں خودکفیل ہوں گے۔دوسروں کے دست نگرہونے سے خودہی اقدام کی ہمت کرنازندہ قوم کی علامت ہے۔’’ آہ کس کی جستجوآوارہ رکھتی ہے تجھے راہ تو،رہروبھی تو،رہبربھی تو،منزل بھی تو وائے نادانی کہ تومحتاج ساقی ہوگیا مے بھی تو،مینابھی تو،ساقی بھی تو،محفل بھی تو۔

اس کی اہم مثال رحمانی 30ہے جس نے نونہالوں کی اسلامی ماحول میں تعلیم کااچھاانتظام کیاہواہے ۔پہلے سال اس کے سوفیصدیعنی دس میں سبھی دس طلبہ نے آئی آئی ٹی کے مشکل امتحان میں کامیابی حاصل کی۔اسی طرح اس کی خدمات جاری ہیں۔اورہرسال بہترنتائج سامنے آرہے ہیں۔چنانچہ اسی طرزپرہمیں اپنے پیروں پرکھڑاہونے کامزاج پیداکرنے کی ضرورت ہے ۔اس آئیڈیل کوسامنے رکھ کراس سمت میں آگے بڑھنااجتماعی ذمہ داری بھی ہے اورانفرادی بھی۔ وقت آگیاہے کہ ہم چھوڑدیں غیروں پربھروسہ۔ اٹھیں اورغریبوں اورناداروں کاہاتھ پکڑیں اورخودہی انفرادی اوراجتماعی طورپراس ذمہ داری کومحسوس کریں ۔اورجوادارے اس سمت میں کام کررہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کریں تویہ بہت بڑی خدمت ہوگی ملت کی۔ اوراسی کی آج ضرورت ہے قوم کو،یہی پکارہے اورآوازہے آج کے حالات کی۔’’شکوۂ ظلمت شب سے توکہیں بہترتھا اپنے حصہ کی کوئی شمع جلاتے جاتے‘‘۔
Md Sharib Zia Rahmani
About the Author: Md Sharib Zia Rahmani Read More Articles by Md Sharib Zia Rahmani: 43 Articles with 37020 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.