پولیو سے پاک۔۔۔پاکستان

اس وقت دنیا میں تین ممالک ایسے ہیں جو کہ ابھی تک پولیو سے مکمل طور پر چھٹکار ا نہیں پا سکے ہیں۔ بد قسمتی سے ان ممالک میں ہمارا ملک بھی شامل ہے۔ دیگر دو ممالک افغانستان اور براعظم افریقہ کا ملک نائجریا ہے۔آج سے چند سال قبل تک بھارت کا شمار بھی ان ممالک میں ہوا کر تا تھا جو اس بیماری سے متاثر تھے تاہم اب بھارت نے پولیو پر قابو پالیا ہے اور کچھ عرصہ قبل ہی اسے پولیو فری اسٹیٹ کا درجہ مل گیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف سمیت ہماری حکومت ، پولیو پر قابو پانے کی کاوشیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔تاہم ابھی تک انہیں کامیابی نہیں مل پائی ہے۔ جس کی وجہ سے آئے روز ملک میں پولیو کے کیسسزسامنے آتے رہتے ہیں۔اس وقت بھی ۱۷۰ سے زائد کیسسز سامنے آچکے ہیں ۔ان میں سب سے زیادہ کیسسز شمالی اور جنوبی وزیرستان میں سامنے آئے جن کی تعداد ۱۰۰ سے زائد ہیں۔ ملک کے بیشتر اضلاع کو پولیو سے پاک کر دیا گیا ہے تاہم کئی اضلاع ایسے ہیں جہاں عوام اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے گریز کرتے ہیں۔ ان علاقوں میں سرفہرست خیبر ایجنسی ، شمالی اور جنوبی وزیرستان ہیں جہاں ایک محتاط اندازے کے مطابق ۴۰۰ ۲ہزار افراد نے پولیو مہم کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔پاکستان میں پولیو کے نہ ختم ہونے کی ایک بڑی وجہ ڈاکٹر شکیل آفریدی بھی ہیں ، جنہوں نے امریکی سی آئی اے کیلئے اس مہم کو جاسوسی کیلئے استعمال کیا ۔ ان کا یہ اقدام ملک سے غداری کے ضمرے میں آتا ہے ، اس اقدام کے باعث وہ آج بھی پابند سلاسل ہیں۔ مذکورہ ۲۴۰۰۰ ہزار افراد نے حکومت سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ جب تک امریکہ ڈرون حملے بند نہیں کرتا وہ اپنے علاقوں میں اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلائینگے۔ اب اگر امریکہ جو خود کو عالمی امن کا ٹھیکیدار سمجتھا ہے وہ اگر چاہے تو ڈورن حملے بند کر کے پاکستان کو فری پولیو اسٹیٹ بننے میں مدد کر سکتا ہے تاہم ابھی تک اس نے ایسا نہیں کیا، جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ امریکہ کو اپنے مفادات عزیز ہیں ، اپنے مفادات کے حصول کیلئے وہ جائز اور ناجائز کے درمیان ہر فرق کو مٹادیاتا ہے۔اس بات کی ایک اور واضح مثال ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بھی سب کے سامنے ہے جنہیں مخص شک کی بنیاد پر ۸۶ برس کی طویل سزا سنائی گئی ، آج بھی وہ عافیہ صدیقی پابند سلاسل ہیں۔دنیا بھی میں مظاہروں کے باوجود انہیں امریکی حکومت نے رہا نہیں کیا، نہ ہی حکومت پاکستان نے انکی رہائی کیلئے سنجیدہ کوششیں کی ہیں۔

پولیو کے حوالے سے ہمارے ملک کے بعض دینی عناصر بھی مخالف نظر آتے ہیں۔ کچھ مخصوص اخبارات اور رسائل پولیو مہم کی مخالفت میں اکثر مورچہ سنبھالے اپنی تحریروں کے ذریعے نظر آتے ہیں۔ ایسے رسائل اور اخبارات کے پڑھنے والوں کی تعداد گو کہ بڑی نہیں تاہم اک پروپیگنڈہ کرنے کیلئے چند اذہان ہی کافی ہوتے ہیں۔ ان اخبارات کے مدیران سے رویہ ترک کرنے کیلئے حکومت کو رابطہ کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ بات سبھی کے علم میں ہے کہ اس وقت پاکستان سے باہر جانے والے ہر ہر فرد کو پولیو کے قطرے لائے جاتے ہیں، عالمی برادری کی جانب سے اس حوالے سے مزید پابندیا ں بھی لگ سکتی ہیں اگر پولیو پر قابو نہیں پایا گیا۔حکومت ، پاکستان کو عالمی تنہائی سے بچنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرن ہونگے۔

گذشتہ دنوں کراچی میں ڈبلیو ایچ او، یونیسیف ، اور اقبال انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ پیپپرز کی جانب سے دعوا اکیڈیمی میں اک تقریب اسی حوالے سے منعقد کی گئی۔ جس میں راقم الحروف نے بھی شرکت کی۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ دعوااکیڈیمی گلشن معمار کے قریب احسن آباد میں واقع ہے جو کہ مرکز شہر سے دور ہے۔ اک بیاباں اور سنساں مگر پرسکوں ماحول میں تقریب منقعد ہوئی جس میں اقبال انسٹی ٹیوٹ کے ممتاز محقق ڈاکٹر ممتاز ، ڈبلیو ایچ او اور یونیسیف کے ڈاکٹر شمشیر سمیت ڈاکٹر اعظم نے بھی شرکت اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مقررین کا پولیو کے نہ ختم کا درد انکے خیالات میں نمایاں تھا۔ سبھی یہ چاہت رکھتے تھے کہ کسی طریقے سے یہ مرض پاکستان سے ختم ہوجائے اور ملک کو فری پولیو اسٹیٹ کا درجہ مل جائے۔ڈاکٹر اقبال نے واضح کیا کہ انکا مقصد عوام میں پولیو کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا اور پولیو مہم میں رکاوٹ ڈالنے والوں کی غلط فہمی کو دور کرنا ہے اس کام کیلئے ان کی این جی او جلد ہی باقاعدہ کام کا آغاز کر دیگی۔ دیگر افراد نے بھی اپنی کارکردگی کے حوالے سے اپنے کاموں پر روشنی ڈالی۔شرکاء نے پولیو کے خاتمے کے حوالے سے اپنی تجاویز دیں۔جنہیں منتظمین نے نوٹ کیا ۔ تقریب میں شرکاء کو جید علمائے کرام کا مشترکہ فتوے کی کاپی بھی دی گئی۔ یقینا وہ فتوات بڑی محنت سے حاصل کئے گئے ہونگے، ان کیلئے محتص کاغذ انکی چھپائی سبھی بہت اعلی تھے۔تاہم اک ذرہ سی غلطی بسا اوقات پوری تحریر کو خراب کر دیتی ہے ، اس فتوات میں بھی کچھ ایسا ہی پایا گایا۔مفتی عدنان کاکاخیل کے نام کے سامنے دستخط کسی اور مفتی صاحب کے تھے ، جبکہ مولانا عباس کے سامنے محمد اسماعیل کے دستخط تھے۔ یہ غلطیاں یقینا جان بوجھ کر نہیں ہوئی ہونگی تاہم طویل عرصے سے پولیو کے حوالے سے ملک میں مہمات جاری ہیں اب بھی اگر اس طرح کی غلطیاں ہوں تو پولیو مہم کی دیگر سرگرمیاں کوبھی اس سے ماورا نہیں کہا جاسکتا۔قومی سطح کی نہایت اہمیت کی حامل مہم جس پر موجودہ اور آنے والی نسلوں کا انحصار ہو، ان کو نہایت ہی منظم اور مربوط اندازمیں چلایا جانا چاہئے ۔پولیو مہم چلانے والوں سمیت محکمہ صحت اور حکومت کو اس بیماری کے بچاؤ کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا اس کام کیلئے انہیں تمام این جی اووز، سیاسی ، مذہبی، سماجی، معاشرتی ، انسانی ، جماعتوں سمیت نوجوانوں ، بچوں ، بوڑھوں ، خواتین ، سبھی کو ساتھ ملا کر کام کرنا ہوگا ۔ایسا کر کے ہی ملک کو صحیح معنوں میں پولیو سے ہی نہیں تمام دیگر جسمانی اور معاشرتی بیماریوں سے پاک کیا جاسکے گا،ہماری قوم اک جنونی قوم ہے ہم ہر کام کو جنونی انداز میں کرنے کے قائل ہیں لہذا پولیو کے خلاف جنوں پیداکرنے کی ضرورت ہے اور جس روز پوکے خلاف مہم چلانے والوں نے عوام میں جنوں پیدا کردیا وہ دن پولیو کا پاکستان میں آخری دن ہوگا،اب دیکھنا یہ ہے کہ کب ایسا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Hafeez khattak
About the Author: Hafeez khattak Read More Articles by Hafeez khattak: 201 Articles with 182708 views came to the journalism through an accident, now trying to become a journalist from last 12 years,
write to express and share me feeling as well taug
.. View More